ایک دفعہ میں نے اپنے سسر صاحب سے پوچھا، ابّی ، آپ کو امی کی کیا چیز اچھی لگی کہ آپ نے ان سے اس دور میں پسند کی شادی کی۔ جب والدین کی پسند کی شادیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس پہ انہوں نے انکی کوئ خصوصیت بتانے کے بجائے کہا کہ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ وہ میری سول میٹ ہیں یعنی روح کی ساتھی، اور مجھے ان سے شادی کرنی چاہئیے۔ ایک روح نے دوسری روح کو پہچان لیا۔
میں انکی زندگی میں بہت بعد میں آئ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ اعتماد کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ شاید ہی کوئ بات ہو جو وہ ایک دوسرے کو نہ بتاتے ہوں، شاید ہی کوئ جگہ ہو جہاں وہ ایک ساتھ نہ جاتے ہوں۔ شاید ہی انکی زندگی میں کوئ ایسا شخص ہو جسے وہ دونوں نہ جانتے ہوں۔ وہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ تھے۔ اسکے باوجود کے ان دونوں میں عمومی اختلافات پائے جاتے تھے جو ہر دو انسان میں ہوتے ہیں۔ مگر وہ انکے تعلق کی گرہ پہ کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔
میری ساس اپنے وقت کی ذہین طالبہ، کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ایک ورکنگ خاتون، زندگی میں بھی کامیاب رہیں۔ میرے عزیز اور دوست سب ان دونوں پہ رشک کرتے تھے۔ اور پھر مجھ پہ، ساس سسر اچھے ملے ہیں تمہیں۔ جب دیکھو ایک ساتھ، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے کئ عورتوں کا ہاتھ۔ یہ عورت یا عورتیں کوئ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر خواتین کی کامیابی کا ایسا کوئ تصور ہو تو خواتین کی کامیابی صرف دو مردوں پہ منحصر ہوتی ہے۔ اور وہ ہیں انکے باپ یا شوہر۔
کامیاب مردوں سے ہٹ کر کامیاب عورتوں کے بارے میں معیار خاصے مختلف ہوتے ہیں۔ حسین عورت کامیاب ہے، ناز ادا دکھانے والی عورت کامیاب ہے، کسی کی نظر میں آنکھ کے آنسو کو منہ میں جمع کر کے رکھنے والی خاموش عورت کامیاب ہے، باپ، بھائ اور شوہر کی رضا پہ سر تسلیم کرنے والی عورت کامیاب ہے، بیٹوں کے اوپر راج کرنے والی عورت ، شوہر کو ہر جا و بے جا اخلاقی ہتھکھنڈوں سے کاٹھ کا الو بنا کر رکھنے والی عورت کامیاب ہے، جس عورت کو ساری زندگی کچھ نہ کرنا پڑے اور گھریلو یا کرائے کے خادم اسکی سبزی نما حالت کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرتے رہیں وہ کامیاب ہے، سونے سے لدی پھدی عورت کامیاب ہے۔
خواتین کے ساتھ کامیابی کی کچھ ایسے ہی حکائیتیں ہیں۔
یہ حکائیتیں جن پہ اکثر مرد بڑی دلجمعی سے اپنی رائے دیتے ہیں۔ اتنی دلجمعی سے کہ رائے دیتے وقت اپنی ماءووں کو بھول جاتے ہیں اور بعض چاند سے رومانس کرنے والی سادہ یا حقائق سے نا آشنا خواتین مذہبی جوش و خروش کے ساتھ یقین رکھتی ہیں جب تک کہ انہیں اسی نا آشنائ میں خود کسی اندوہناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑجائے۔
خیر، وہ عورتیں جنہیں ہم دنیا کے افق پہ چمکتے دیکھتے ہیں اور ایک عالم جنہیں جانتا ہے، کیا انہیں کامیاب کہنا چاہئیے یا نہیں؟ مثلاً اندرا گاندھی یا برما کی نظر بند سیاسی خاتون آنگ ساں سو کائ، بیگم بلقیس ایدھی یا ارون دھتی رائے، بے نظیر بھٹو یا مارگریٹ تھیچر ، قراۃ العین حیدر یا عصمت چغتائ، پروین شاکر یا ملکہ ء ترنم نورجہاں,۔
مجھے تو مصر کی ملکہ قلو پطرہ خاصی پسند آتی ہے ایک ایسے وقت میں جب بادشاہت صرف خاندان کے مردوں کا حصہ تھی اس نے سلطنت حاصل کی اور اسے قائم رکھا، ایک سحر انگیز ملکہ۔ بھوپال کی ولی عہد شہزادی عابدہ سلطان، حیران کن خاتون۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ایک عورت جو تہتّر شیروں کا شکار کر لے، لائیسنس یافتہ پائلٹ جو اپنی گاڑی کے ہر پرزے کو بدل سکتی ہو۔ خیر بھوپال کی کیا بات ہے، ہندوستان کی واحد ریاست جہاں یکے بعد دیگرے پانچ مسلمان خواتین کامیابی سےحکمراں رہیں۔ پانچویں خاتون نے برطانیہ کے بادشاہ کے آگے رو کر، بے ہوش ہو کر اس بات کو منوایا کہ اگلا حکمران اس کا پوتا نہیں سب سے چھوٹا بیٹا ہوگا۔ جھانسی کی رانی یا رضیہ سلطان، عزم اور ہمت کی داستان۔
اور اگر اسلامی تاریخ دیکھیں تو حضرت خدیجہ ایک کاروباری خاتون جو اپنی شادی کے لئے رشتہ دیتی ہیں اور نبی کو وحی کے وقت حوصلہ۔ حضرت عائشہ جنہوں نے جنگ بھی لڑی۔
میں روایت پسند ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف قورمے کی ترکیب کی حد تک۔ اگر کوئ قورمے میں دہی کی جگہ ٹماٹر ڈال دے تو اسے کڑاہی گوشت کہونگی قورمہ نہیں۔ اگر کوئ خاتون شیر کے شکار کی شوقین ہو تو کسی روایت پسند کی طرح اسے زن آزاد یا عورت نما مرد نہیں بلکہ چیلینج قبول کرنے والی مہم جُو خاتون کہونگی۔
میں مشرقی بھی ہوں لیکن صرف اتنی جتنا مشرق پسند ہے۔ یعنی محبوبہ کی گلی کے کتے سے راہ ورسم بڑھانا، سارے زمانے کو رازداں کرلینا، جب وہ سامنے آئیں تو عمران ہاشمی کی طرح تنہائ کا فائدہ بھی اٹھالیں اور پھر گھبراہٹ کے مارے بھاگ کر اماں کی پسند کی ہوئ شمائلہ کو خاتون خانہ بنا لیں۔ جتھے دا کھوتا اتھے آ کھلوتا۔ یہ گھبرایا ہوا ہیرو اور وہ الہڑ سادہ مٹیار۔ خاتون خانہ کا شرما کر کہنا اللہ وہ بہت اچھے ہیں اور سادہ مٹیار کا در فٹے منہ کہنا۔ آہ ، مشرق۔ آہ مشرق۔ مغرب میں یہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔
روایت، مشرق اور خواتین پہ یاد آیا کہ میرے ذاتی خیال میں، اس وقت بہترین روائیتی، مشرقی پاکستانی خاتون کی خصوصیات رکھنے والی، کوئ صاحبہ نہیں صاحب ہیں۔ اور وہ ہیں، ہمارے اور آپکے یوسف رضا گیلانی ۔ ان دونوں میں مماثلت نکالنا آپکا ہوم ورک ہے۔
آج کا دوسرا ہوم ورک۔ آج کی دنیا میں جبکہ خواتین ہر منظر پہ موجود ہیں اپنی پسندیدہ خاتون کا نام بتائیے۔ اس میں آپکی قریبی رشتے دار خواتین شامل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ وہ کوئ بھی ہو سکتی ہیں، ہو سکتا ہے ہم انہیں نہ جانتے ہوں ، ایک تعارف آپکی طرف سے اس پہ ہم آپکے شکر گذار ہونگے۔ باقی ہم اندازہ کریں گے کہ وہ آپ کو کیوں پسند ہیں۔
فی امان اللہ۔
کامیابی کی تعریف کا آغاز تو یہیں سے ہوگا کہ کامیاب فرد اپنی اچیومنٹس پر مطمئن ہو۔ تاہم "آپ مطمئن ہیں تو کامیاب ہیں" تک بات ختم نہیں ہوجاتی ، ورنہ یہ دعویٰ تو ایک چور ڈاکو بھی کر سکتا ہے۔ بات آپ کی ذات سے بڑھ کر ہے۔ آپ کی کامیابی کےثمرات آپ کی ذات سے باہر بھی دیکھائی دینے چاہیں۔ تاہم ادھر پہنچ کر ان جزویات کا احاطہ کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ جن خواتین کے نام آپ نے گنوائے ہیں ، بلاشبہ ان میں اکثر و بیشتر کامیاب ہیں۔ لیکن کیا بے نظیر بھٹو کامیابی کی اس تعریف پر پورا اترتی ہیں ؟ کہنا مشکل ہے۔ یا کم از کم کامیابی کا جو تصور میرے ذہن میں ہے اس حوالے سے تو نہیں۔ اگر محض مال و دولت اور حکومت میں آگے بڑھنا کامیاب ٹھہرا تو چوری چکاری اور کرپشن میں بڑھے ہوئے لوگ بھی کامیاب گنے جائیں گے۔
ReplyDeleteجن حاسدین کا ذکر کیا ہے وہ عموماً ہر دوسرے کامیاب سے حسد کرتے پائے جائیں گے۔ خواتین کے معاملے میں اُن کا کام ذرا آسان ہوجاتا ہے کہ خواتین کی کامیابی کو ایک عام فرد کے معیار کامیابی سے الگ کرکے ایک مخصوص دائرے تک محدود کردیا جائے۔ ایسے میں بظاہر انھیں "فائدہ" یہ دیکھائی دیتا ہے کہ عملی زندگی میں انھیں قابل اور باصلاحیت خواتین سے مقابلے کے کٹھن مرحلے سے نہ گذرنا پڑے۔ ایسے لوگ اگر کامیاب عورت کی تعریف چار دیواری میں مقید بچے پیدا کرنے والی مشین تک محدود رکھیں تو حیرت نہ ہوگی۔
آخر میں کئے گئے سوال کا جواب شائد اتنا آسان نہیں۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لئے آپ مختلف لوگوں کو آئیڈل بناتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ ایک ہی شخصیت وہ تمام کمالات ہوں جنہیں آپ کامیاب تصور کریں۔ بہرحال دور دراز کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اپنے شہر مسی ساگا کی نوے سالہ مئیر ہیزل مکالین کی شخصیت خوب ہے۔ گھر گرہستی سے شہر گرہستی تک .. ایک کامیاب کہانی ہے۔ نوے سالہ یہ بڑھیا پچھلے بتیس سال سے شہر مسی ساگا کی مئیر ہیں۔ کسی زمانے میں مسی ساگا ٹورنٹو کے نواح میں محض ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ بڑھیا نے اپنی چالیس سالہ سیاست میں اس قصبے کو کینیڈا کے ٹاپ کے شہروں کے مقابل لا کھڑا کیا۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ماضی القریب میں نوے فیصد وٹوں سے منتخب ہوتی رہی ہیں۔ اس کے بہت سے حاسدین اس کی موت کا انتظار کرتے کرتے خود قبروں میں اُتر گئے .. لیکن بڑھیا ہے کہ وہیں کی وہیں ہے۔ بچے ، اور پوتے بھی سنبھالتی رہی ہے، گھر کا سودا سلف بھی لاتی ہے، اور شہر بھی چلا رہی ہے۔ ابھی چند برس پہلے ڈرائیونگ کرتے تھوڑا حادثہ کروا بیٹھی تو شہری انتظامیہ نے منتیں ترلے کر کے ایک ڈرائیور رکھوا دیا ورنہ تو بڑھیا اپنی کسی بھی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔
نوے سالہ عمر ! ... ہمارے ہاں بڑے بڑے تیس مار خاں اس عمر میں منجی پر لیٹے موت کو تک رہے ہوتے ہیں ، بلکہ ساٹھ ستر برس کی عمر سے ہی اس انتظار میں لگ جاتے ہیں ، لیکن بڑھیا ہے کہ نہ مرنے کا نام لیتی ہے نہ ریٹائر ہونے کا۔ خدا کی بجائے خلق خدا کے کام کرتی پھرتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ اگر مجھ پر بڑھاپا آئے تو میری آخری عمر منجی پر لیٹے موت کی بھیک مانگنے کی بجائے بڑھیا جیسی کامیابی سے گذرے۔
اسی لیئے تو میں نے لکھا تھا کہ ہم وہ ہوتے ہیں جوہماری مائیں ہمیں بناتی ہیں ،
ReplyDeleteاور ہماری مائیں وہ ہوتی ہیں جو انہیں ہمارے باپ یا ان کے باپ بناتے ہیں،
What a vicious circle!
مگر میری یہ بات لوگوں کے سرپر سے گزر گئی
:(
چاند سے رومانس کرنے والی،حقائق سے نا آشنا،مذہبی جوش و خروش سے چور خاتون سے تو مغز ماری کرنے کی حماقت کر ہی چکا ہوں،جواب میں مرد سے عورت کے رتبے پر بھی فائز کیا جاچکا ہوں،
ReplyDeleteاور اب تمام عبداللہ متاثرین وہاں پہنچ کر اپنےاپنے زخم سہلا رہے ہیں!!!!!
:)
عثمان، آپکی صورت اس بلاگ کو ایک اچھا مبصر ملا ہے۔ آپ نے کامیابی کے بارے میں لکھا ہے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ کامیابی کی کوئ واضح تعریف نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بہت ساری چیزوں سے جڑی ہوتی ہے۔ جیسے آپکا عہد اور اسکے مطالبات، آپکو میسر وسائل اور پھر آپ کی کارکردگی،آپکی صلاحیتیں اور آپکی کارکردگی اور پھر ان سب کے ساتھ آپکے ماحول پہ انکا اثر۔ وغیرہ وغیرہ۔
ReplyDeleteیہ میئر صاحبہ تو واقعی بڑی زبردست خاتون ہیں۔ نوے سال، میں تو سوچ رہی تھی کہ ستر سال کی عمر میں محلے کے بچوں کو قرآن پڑھایا کرونگی اور شادیاں کراءونگی۔ لیکن یہاں تو بڑی گنجائیش ہے۔
:)
عبداللہ، بس یہ چیز پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ میری اب تک کی زندگی میں سب سے زیادہ ہنسانے والا خیال۔ عبداللہ، اب ایک معیار کا نام ہے ۔ جس پہ رکھ کر لوگوں کے تخیل کی اڑان چیک کر لیں بغیر کسی زائد خرچے کے۔ لوگوں کی محبت نے نہ صرف آپکو بڑی غائیبانہ شہرت دی ہے بلکہ بلاگستان کی دنیا میں بڑی رونق ڈال دی ہے۔
:)
سوال یہ ہے کہ آپکی ساس اور سسر میں جو اختلافات پائے جاتے تھے وہ کس نوعیت کے تھے، کیا سسر صاحب کھانے میں نمک کم ڈالنے پر لڑتے تھے یا لیکچر بازی پر ؟
ReplyDeleteان بارہ سنگھوں کی تعریفین کرنا آپکی مجبوری ہے۔ ظاہر ہے جب یہ نہ ہونگے تو آپکی بے ڈھنگی تحریروں پر ناچے گا کون۔
قلابیاں
بنیاد پرست، میرے سسر صاحب کا خیال تھا کہ بنیاد پرستوں پہ نمک ڈالنا جائز ہے جبکہ میری ساس ہمیشہ کم مصالحے کی تلقین کرتی رہیں۔
ReplyDeleteآپ کا ڈانس بھی اتنا برا نہیں۔
میری ناقص عقل میں تو صرف وہ عورت کامیاب ہے جو ایک اچھی ماں ہے۔ جو اس دنیا کو ایک صحت مند سوچ رکھنے والے نسل دے جائے۔ اپنی اولاد کو خُدا آشنا کرجائے حُسن خلق اور حُسن تمدن سے سنوار کر۔ باقی سب اضافی خصوصیات ہیں، جن کا ہونا بہتر ہے اور نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر ایک خاتون ملک کا کاروبار سنبھالتی رہی لیکن اپنی اولاد کو سنوار نہ سکی، توجہ نہ دے سکی تو اس کی زندگی رائگاں گئی۔ یہ صورت صرف عورت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ مردوں کے ساتھ بھی اسی طرح ہے میرے نزدیک۔ آپ کا کامیاب ہنر مند ہونا خاندان کی کفالت کے لئے ضروری ہے لیکن اگر آپ ایک اچھے باپ نہیں تو پھر آپ کا خاندان بھی نہیں اور آپ کی قابلیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اولاد سے اچھی انویسٹمنٹ اس دنیا میں نہیں ہے دنیاوی لحاظ سے اور اخروی لحاظ سے بھی۔
ReplyDeleteعنیقہ صاحبہ، کامیاب خواتین کی جو صفتیں آپ نے تحریر کے شروع میں گنوائی ہیں وہ صرف ایسے گلے سڑے معاشرے میں ہی ہوسکتی ہیں جہاں عورت کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتا ہو یا جہاں عورت کی معراج ہی اچھا کھانا پکانا ہو۔ عورت کے کردار کے اس حد تک محدود رکھنے کے لئیے کئی سو سالوں پر محیت محنت کی گئی ہے، اللہ بھلا کرئے پرویز مشرف کا جس نے میڈیا کو آذادی دی تو آج ہمیں بھی پتہ چلتا ہے کے دنیا کی ترقی میں خواتین کے کیا کیا مثبت کردار ہیں، آج سے محض بیس سال پہلے تک بھی جہالت کا یہ عالم تھا کے نوکری پیشہ خواتین کو رشتے ملنا مشکل ہوجاتے تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اب کافی حد تک کم از کم شہروں میں اس جہالت کا سحر ٹوٹ رہا ہے، آنے والا وقت اتنا کڑا ہے کے گھر کے ہر فرد کو کمانا پڑے گا تب کہیں جا کر سروائول ممکن ہوگا، آنے والے سالوں میں انشاءاللہ جہالت کا یہ سحر مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا، جس میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔ وقت مجبور کردے گا ہر ان جاہلوں ان جاہلوں کے اپنے گلے سڑے نام نہاد نظریوں پر نظر ثانی کرنے کے لئیے، تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور اس تبدیلی کو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا، آج سے محض بیس پچس سال پہلے تک بھی معاملات ان تنگ ذہنیت والوں کے ہاتھہ میں تھے اور ان جیسی سوچ کے لوگ اس وقت نوکری پیشہ ہر خاتون کو بد کردار سمجھہ کر شادی کرنے سے کتراتے تھے، جبکہ آج محض پچس سال بعد یہ حالت ہے کے آج ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کے کماو بیوی ملے۔ تو جو آج خود سے نہیں بدلے گا تو کل وقت اسے بدلنے پر مجبور کردے گا۔ سعیدہ وارثی جو کے گوجر خان میں پیدا ہوئی اور اس وقت پرطانیہ میں ڈپٹی پرائمنسڑ کے عہدے پر فائز ہیں، پچھلے دنوں پاکستان آئیں تو فرمایا کے اگر میں پاکستان میں ہوتی ہے کونسلر بھی نہ بن پاتی۔ اور میرا تو یہ ماننا ہے کے اگر سعیدہ وارثی اگر پاکستان میں ہوتیں اور اسطرح اسٹرگل کرتیں تو کم از کم پانچ بار تو انکا گینگ ریپ لازمی ہوچکا ہوتا۔ مدر ٹیریسا اور سعیدہ وارثی جیسی عظیم خواتین کو بھی اپنی اس لسٹ میں شامل کرلیں آپ۔ عبداللہ اور عثمان کے بارے میں آپ نے جو کچھہ بھی کہا وہ بہت کم ہے، اتنا سب کچھہ سہنے کے بعد بھی یہ لوگ آواز حق بلند کرتے ہیں اسکے لئیے یہ اور ان جیسے تمام لوگ داد کے مستحق ہیں۔
ReplyDeleteاس تحرير کو سنجيدہ رکھتيں تو نہائت عمدہ بن جاتی مگر آپ کا رنگ ميں بھنگ ڈالنے کا روائتی مزاج آپ کی پيشتر تحارير کو فنا کر ديتا ہے
ReplyDeleteآپ نے اپنے محترم سُسر صاحب کا ايک فقرہ بيوی کے انتخاب کے متعلق رقم کيا جسے ايک صحتمند دماغ کی تخليق ہی کہا جا سکتا ہے مگر بعد ميں اپنی شوخیءِ تحرير ميں کھو کر آپ نے اس عمدہ سوچ کو ہی گُم کر ديا ۔ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے محترم سُسر صاحب شادی سے قبل بھی ايک سنجيدہ انسان تھے مگر ان کی صحبت کا آپ پر کوئی اثر نہ ہوا
گو آپ نے چند معروف خواتين کا ذکر کيا جن ميں اماں خديجہ اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما کے اسماء گرامی بھی ڈال ديئے ۔ مگر بہت سی معروف خواتين کو چھوڑ گئيں ۔ کيا محترمہ بيگم رعناء لياقت علی ايک کامياب خاتون نہ تھيں ؟ بيگم بلقيس عبدالستار ايدھی نے بہت کام کيا مگر جو کچھ اور جن حالات ميں محترمہ بيگم رعناء لياقت علی نے عمدہ کام کيا اس کے متعلق علم حاصل کرنے کی آپ نے شايد کبھی کوشش نہ کی ۔ اس کی ايک ہی وجہ سمجھ ميں آتی ہے کہ آپ کا خاندان ہماری طرح 1947ء ميں ہجرت کر کے پاکستان نہيں آيا ہو گا بلکہ 1951ء کے بعد آئے ہوں گے
يہ بات دہرانے کی ضرورت نہيں ہونا چاہيئے کہ تربيت کا گہوارہ ماں کی گود ہے اور ہر عورت يا مرد وہی بنتی يا بنتا ہے جو اُسے اُس کی ماں بناتی ہے ۔ اس کے ساتھ يہ حقيقت بھی نہيں جھُٹلائی جا سکتی کہ خاوند اور بيوی ايک گاڑی کے دو پہيئوں کی طرح ہيں ۔ ان ميں تفاوت ان کی اور ان کی اولاد کی تباہی يا بے راہروی پر منتج ہوتی ہے
ہر شادی پسند کی ہوتی ہے ورنہ گھرانہ چل نہيں پاتا ۔ سوال يہ ہے کہ کونسی پسند ؟ عصرِ حاضر کی فرنگی پسند يا کوئی اور ؟ ميں نے ايسے خاوند بيوی بھی ديکھے ہيں کہ جن کی آپس کی تُو تکرار سے محلے والے بيزار ہوں تو ہوں انہيں کبھی کوئی فرق نہيں پڑتا تھا
افتخار اجمل صاحب، ہر شادی پسند کی نہیں ہوتی۔ پسند کی شادی سے ایک ہی چیز مراد ہے اور وہ یہ کہ شادی سے پہلے آپ اپنے جیون ساتھی کے عادات و اطوار کو جانتے ہوں، اس سے بات چیت کرتے ہوں، اسکی دلچسپیوں میں حصہ لیتے ہوں اور اسکے بعد یہ فیصہ کرتے ہوں کہ آپ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس فیصلے سے اپنے والدین کو آگاہ کریں۔
ReplyDeleteمیری اپنی شادی پسند کی شادی نہیں ہے حالانکہ میں اپنے شوہر سے شادی سے پہلے ملتی رہی، لیکن یہ اسکے بعد ہے جب میرے والدین یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ مجھے ان سے شادی لر لینی چاہئیے۔ انہوں نے مجھے موقع دیا کہ میں شادی سے پہلے انہیں جان لوں۔ مجھے وہ پسند آئے لیکن اسکے باوجود تعریف کے لحاظ سے یہ پسند کی شادی میں نہیں آتی اور اس وجہ سے میرے گھرانے میں اسے کوئ پسند کی شادی نہیں کہتا۔
میرا مقصد محض اپنے سسر صاحب کے اس جملے کی اشاعت نہیں تھا جو تھا اسکے لئے تمہید تھی۔
آپکو فنا اس لئے لگتا ہے کہ جہاں تک آپکو پسند آتا ہے وہ اچھا ہوتا ہے جہاں سے آپکی پسند کی بات نہیں ہوتی وہاں سے فنا ہوجاتا ہے۔
تربیت محض ماں کی ذنہ داری نہیں ہوتی بالخصوص ایسے گھرانوں میں جہاں ماں کو اپنے گھر کا پتہ بھی یاد نہ ہو۔ اس لحاظ سے پدر سری معاشروں میں مردوں کے اوپر زیادہ ذمہداری ہوتی ہے۔
بعض اوقات ناکارہ مردوں کی بیویاں اپنے شوہروں سے جھگڑتی ہیں اپنے بچوں کے بھلے کی خاطر اور بالآخر اپنے بچوں کی زندگی بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی تفاوت ہوتا ہے مگر یہ بہتری کے لئے ہوتا ہے۔ مجھے تو یہ خواتین بھی جی دار لگتی ہیں آپکا ان خواتین کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ماں کی گود صرف ان معاشروں میں تربیت کا گہوارہ ہوتی ہے جہاں ماں کو سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی ہو۔
یہ تحریر، کامیاب خواتین کے ناموں کی ڈائریکٹری نہیں ہے۔ جو لکھتے وقت ذہن میں رہے وہ لکھ دئیے۔ ورنہ کہانی تحریک پاکستان سے پہلے شروع کرتی تو اس میں سرسید کی اماں، جوہر برادران کی ماں کا نام ڈالنا نہ بھولتی۔
یقین رکھیں کہ میرے سسر صاحب قطعاً ایسے سنجیدہ نہیں تھے جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ انکی سنجیدگی کی جہت خاصی الگ تھی۔ اگر انکی صحبت مکمل اختیار کر لیتی تو آپ کا کیا ہوتا۔ ابھی ہی آپکے لئے اتنی مشکل ہو جاتی ہے۔
خرم صاحب، تو کیا صرف وہ مرد کامیاب ہے جو اچھا باپ ہے؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایک عورت کامیاب انسان بھی ہو اور ماں بھی۔
ReplyDeleteاگر ہم ایک عورت کو دئیے گئے نظریات پہ رکھ کر دیکھیں تو صرف مسلمان عورتیں ہی کامیاب عورت بن سکتی ہیں ان میں سے بھی وہ جنہیں قدرت اولاد سے نواز دے جس کے پاس اولاد نہیں، جسکی شادی نہ ہو سکی جو مسلمان نہیں وہ کامیاب عورت نہیں ہو سکتی۔ سو یہ تعریف مکمل نہیں بلکہ اس میں خامی موجود ہے۔
خرم صاحب، مزید یہ کہ میرا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے کے تنگ ماحول میں ماں اپنا آدھا وجود رکھتی ہے آدھا نہیں۔ کامیاب ماں وہ ہے جو اپنی اولاد میں اپنی تکلیفوں کا احساس پیدا کر جائے۔ اور اولاد کے لئے مذاقاً یہ لکھنا آسان نہ ہو کہ ایک پڑھی لکھی عورت سے لیکر ماسی بشیراں سب اپنی شوہروں پٹتی ہیں کیونکہ ایسا کہتے وقت ان عورتوں میں اسکی اپنی ماں بھی شامل ہوگی اور باپ بھی۔
ReplyDeleteاولاد اگر اپنی ماں کی تکلیف کا احساس کرے گی اسے یاد رکھے گی تو تبدیلی کے عمل میں حصہ لے گی۔ اگر وہ اسے ایک جاری رہنے والی روایت سمجھے گی تو وہ اپنی ماں کی حق تلفی کرے گی۔
تحریر کا پہلہ حصہ بہت دلچسپ تھا تو تبصرہ کرنے یہاں آیا
ReplyDeleteلیکن پوری تھریر اور اس کے تبصرے پڑھنے کے بعد حساس ہوا کہ اپ نے اپنی اتنی اچھی شروع کی گئی تحریر کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
زبردست
ReplyDeleteآپ نے لکھا ہے "پسند کی شادی سے ایک ہی چیز مراد ہے اور وہ یہ کہ شادی سے پہلے آپ اپنے جیون ساتھی کے عادات و اطوار کو جانتے ہوں، اس سے بات چیت کرتے ہوں"
ميں نے اسی بنياد پر کہا تھا کہ ہر شادی پسند کی شادی ہوتی ہے ۔ جب ايسا کہا جائے تو عموی صورت نظر ميں ہوتی ہے ۔ استثنٰی تو ہر کام ميں ہوتا ہی ہے ۔ اس لحاظ سے ميری شادی بھی پسند کی شادی ہے اور ميرے والدين کی شادی بھی پسند کی شادی تھی ۔ مجھے ياد نہيں پڑتا کہ ہمارے خاندان تو کيا پوری برادری ميں کسی لڑکی يا لڑکے کی مرضی کے بغير اس کی شادی کی گئی ہو
جو آپ نے اپنے متعلق کہا ہے ۔ يوں کہا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے والدين نے آپ کی شادی کا ارادہ کيا تو اُس وقت تک آپ اپنے ہونے والے شوہر کی عادات و اطوار سے واقف نہ تھيں مگر آپ کے والدين سمجھدار تھے ۔ اُنہوں نے آپ کو باہی اعتماد پيدا کرنے کا موقع فراہم کيا ۔ چنانچہ شادی ہونے تک کسی حد تک آپ اپنے ہونے والے شوہر کی عادات و اطوار سے واقف ہو چکی ہوں گی ورنہ آپ شادی سے انکار کر سکتی تھيں ۔ شادی کے بعد چند دنوں يا چند ہفتوں بعد يہ شادی آپ کی پسند بن گئی ہو گی
يہ بات ہو رہی تھی اپنے مُلک کی اور اپنے معاشرے کی ۔ وہ دنيا جہاں لڑکا لڑکی مہينوں نہيں سالوں ايک ساتھ گذار کر ايک دوسرے کو پسند کرتے ہيں ۔ 20 فيصد شادی سے قبل عليحدہ ہو جاتے ہيں اور باقی ميں سے 50 فيصد شادی کے بعد 5 سال کے اندر يا تو عليحدہ ہو جاتے ہيں يا اپنے ظاہرہ يا خفيہ دوسرے ساتھی تلاش کر ليتے ہيں
ہميں چاہيئے کہ ہم اپنے معاشرے کو مکمل پٹڑی سے اُترنے سے بچائيں اور بہتری کی طرف ليجانے کی کوشش کريں ۔ ہمارا معاشرہ سدھر جائے گا تو کسی لُٹيرے يا منافق کو ہم پر حکومت کرنے کی جراءت نہ ہو گی
کامپابی کیا ہے؟
ReplyDeleteدنیاوی اعتبار سے کامیابی "مقصد" کا حاصل کرناہے، مطلب یہ کے اگر کوئی شخص پانی پینا مقصد بناتا ہے اور پانی پی لیتا ہے تو اس نے کامیابی حاصل کرلی،
اور جیسا کے ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے نے ترقی کی ہی نہیں تو یہاں پر اکثر عورتوں کو بنا بنایا مقصد ملتا ہے، یعنی اچھا گھر بنانا اور اولاد کی اچھی تربیت کرنا۔ ھمارے معاشرے میں اس کمی کی ذمہ دار کچھ کچھ عورت بھی ہے ، کیوں کہ وہ لڑکیاں جنہیں ہمارے معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے ان میں سے 70 سے 80 فیصد لڑکیاں مواقع موجود ہونے کی باوجودپیشہ ورانہ زندگی کو اختیار نہیں کرتیں۔ اور انہیں کی وجہ سے غیر تعلیم یافتہ عورتیں فیکٹریوں اور کار خانوں میں جو غربت کی وجہ سے کام کر رہیں ہیں، بری طرح پس رہی ہیں۔
جبکہ دینی لحاظ سے کامیابی مرنے کے بعد کی زندگی پر منحصر ہے ۔ یہاں یعنی اس دنیا میں اسلامی طرز زندگی اختیار کرنا ہی آپ کو کامیابی سے ھمکنار کرسکتا ہے،چاہے آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں۔
اور کچھ عبداللہ صاحب کے بارے میں:۔
مجھے کچھ دن ہی ہوئے ہیں اس بلاگ دنیا میں آئے ہوئے ، میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ عبداللہ صاحب تنقید برائے تنقید سے کام لیتے ہیں جبکہ انہیں میرے خیال میں تنقید برائے اصلاح سے کام لینا چاہئے۔ کیونکہ ہر شخص اپنی سوچ میں مکمل ہوتا ہے اپنے لحاظ سے۔ مثالاً عرض ہے کہ اگر آپ کس گلاس میں پانی ڈالیں گے جو کہ پہلے سے بھرا ہوا ہے تو پانی باہر گرے گا لیکن اگر آپ اس میں سے پانی پی کر اس میں پانی ڈالیں گے تو گلاس میں جگہ پر ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر آپ دوسرے کی بات کو سمجھنے کے انداز میں رائے کا اظہار کریں گے تو میرے خیال میں یہ ایک مناسب طریقہ ہوگا۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپ کے جواب کے دوسرے حصہ ميں کچھ باتيں ناتجربہ کاری يا کم علمی کی بنياد پر ہيں ۔ اللہ کرے آپ کے کم از کم 2 بيٹے اور دو بيٹياں ہوں ۔ آپ کے گھر ميں خُوب چہل پہل اور اُچھل کود ہو پھر جب ان کی تعليم ختم ہونے کے بعد ان کی شاديوں کا آپ سوچيں گی تو آپ کو اِن شاء اللہ ميری آج اور کل کی باتيں ياد آئين گی
ReplyDeleteجب ماں نہيں ہوتی تو اُس کی جگہ لينے کيلئے 2 مائيں سامنے آتی ہيں ۔ ايک دُلہن کی ماں اور ايک دُلہا کی ماں ۔ يہ تجربہ کار خواتين اپنے پوتی پوتے يا نواسی نواسے کی تربيت ان کی ماں سے بہتر کرتی ہيں ۔ اگر يہ دونوں موجود نہ ہوں تو ايسی صورت ميں بڑی بہن يا بھابھی بچے يا بچی کيلئے اُس کی ماں کا کردار ادا کرتی ہے ۔ تھوڑا سا غور کيجئے معاشرہ ميں عورت کے کردار اور مقام پر
صرف ناکارہ خاوندوں کی بيوياں اپنے شوہروں سے نہيں جھگڑتيں ۔ جھگڑنے واليوں ميں زيادہ تر شريف خاوندوں کی اکھڑ مزاج بيوياں ہوتی ہيں ۔ آپ اُس بيوی کے متعلق کيا کہيں گی جس کا خاوند روزانہ خود ناشتہ تيار کر کے دفتر جاتا ہو اور بيوی 10 بجے اُٹھتی ہو ؟
ميں مفروضے بيان نہيں کر رہا ۔ يہ ميرے مشاہدات ہيں ۔ جو جو ميں لکھ رہا ہوں ايسے خاندانوں کے واقعات مووی فلم کی طرح ميرے ذہن سے گذر رہے ہيں
کبھی کبھی باپ کو بھی ماں بننا پڑ جاتا ہے مگر يہ بہت مُشکل ہوتا ہے ۔ ہاں خاوند کا کام ہے کہ جہاں جہاں اور جب ضرورت ہو بيوی کو ہر سہولت بہم پہنچائے ۔ ميں نے تحقيق اور مشاہدے پر مبنی ايک تقرير کسی زمانہ ميں کی تھی جس کا ربط نيچے دے رہا ہوں ۔ اگر وقت ملے تو پڑھ کر اپنی رائے سے ضرور نوايئے
http://www.theajmals.com/blog/%D8%B1%D8%B4%D8%AA%DB%81%D9%94-%D8%A7%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%A7%D8%AC/
افتخار اجمل صاحب، اگر آپ نے پہلے اپنے جیون ساتھی کو اسکی عادت و اطوار دیکھ کر پسند کیا اور اپنے والدین کو کہا کہ آپ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو یہ پسند کی شادی ہے اگر آپ نے والدین کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا تو یہ پسند کی شادی نہیں بلکہ ارینجڈ میرج کہلاتی ہے۔ ہر دو قسم کی شادی ایک جوا ہی ہوتی ہے۔ اور شادی کی کامیابی کا انحصار ہر گز اس بات پہ نہیں ہوتا کہ وہ پسند سے کی گئ ہے یا ارینجڈ۔ اس کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے فریقین اور انکے خانداز والے کس طرح رہتے ہیں۔
ReplyDeleteآپ اور آپکا خاندان ایک مثالی خاندان ہے۔ ورنہ پاکستان ان معاشروں میں ہے جہاں پسند کی شادی ایک برائ سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں روایت پسندوں کی یہ عادت ہے کہ معمولی باتوں کو بھی خوب بڑھآ دیتے ہیں۔ جب پسند کی شادی کا تذکرہ آتا ہے تو مغرب کی کورٹ شپ کا تذکرہ لے آتے ہیں۔ میں تو پاستان کے سب سے ماڈرن شہر میں رہتی ہوں، اچھا خاصہ ایکسپوژر ہے میں نے آج تک یہاں کسی جوڑے کو شادی کے بغیر رہتے نہیں دیکھا۔ سوائے کچھ اداکاری سے منسلک لوگوں کے۔ اس لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پسند کی شادی کا جب بھی تذکرہ آئے اس پہ یہ تذکرہ کیا جائے۔
ہمارا ایک بڑا ڈائلیمہ یہ ہے کہ والدین کی اکثریت اپنی اولاد کو اپنی رعایا سمجھتی ہے اور وہ انکو جائز آزادی دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے انہیں لگتا ہے کہ اولاد پہ سے انکا کنٹرول ختم ہو جائے گا۔
آخر کاروکاری بھی تو ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہے۔
ایک محاورہ ہے کہ ماں اگر مر جائے تو پورا خاندان مر جاتا ہے۔ میں بھی دنیا دیکھتی ہوں۔ یہ اتنی سادہ نہیں جتنی آپ نے بیان کی ہے۔ خدا کسی بچے کو ماں سے محروم نہ کرے کیونکہ اسکے بعد اسکی تربیت جو بھی کرے وہ ماں جیسی نہیں کر سکتا اس سے بہت کتنا تو دور ہے۔ کسی ایک آدھ کیس کی مثال دینا عمومی صورت نہیں ہے۔ آپ اپنی برادری کی ایک مثال دیں گے میں اخبار اٹھا کر ایک درجن سے زیادہ مثالیں دوسری برادریوں سے نکال دونگی۔
کبوتر کے ریت میں منہ چھپا لینے سے بلی نہیں بھاگتی۔
ایک عمومی صورت میں باپ بہت کم ہی ماں بن پاتے ہیں۔ ماں مر جائے تو باپ کو دوسری شادی کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ آجکل میری ایک ماسی اس ی قسم کے مسئلے کی شدت سے دوچار ہے۔
مائیں بہت بری بھی ہو سکتی ہیں۔ اسکی متعدد وجوہات میں سے معاشرتی دباءو بھی ہے۔ آپکو شاید یاد ہو کہ لاہور میں ایک وکیل کے دفتر میں اپنے ساتھ کرائے کے قاتل کو لیکر اپنی بیٹی کو قتل کرانے والی بھی ایک ماں ہی تھی۔ یہ عزت کا قتل تھا۔ جس میں باپ نظر نہیں آیا۔
مائیں اپنے ذاتی آرام پہ بچوں کو قربان کر دیتی ہیں۔ لیکن ماءووں کی اکثریت ایسا نہیں کرتی۔ ہم عمومی رویوں کی بات کرتے ہیں۔ خاص رویوں کی نہیں۔
میرے والدین نے موقع دیا۔ یہ ایک خاص رویہ ہے۔ عموماً یہ نہیں ہوتا۔ کراچی سے باہر اسکے ہونے کی کیا رفتار ہے۔ اس پہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر ذی ہوش شخص اس سے واقف ہے۔
فکر پاکستان، آپ نے درست کہا کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اسے کوئ نہیں روک سکتا۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ کراچی ہی میں مختلف تعلیمی اداروں میں اب خواتین اکثریت میں ہیں۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان آئیندہ آنے والے سالوں میں کس زبردست تبدیلی سے گذرنے والا ہے۔
ReplyDeleteکبوتر کے ریت میں منہ چھپا لینے سے بلی نہیں بھاگتی۔
ReplyDeleteاو نئیں جی نئیں ۔۔۔ کبوتر صاحب صرف آنکھیں بند کرتے ہیں۔ یہ شتر مرغا صاحب ہیں جو ریت میں سر گھسا لیتے ہیں۔
خواتین کے حقوق اپنی جگہ ، لیکن زبان اردو میں مرغوں اور کبوتروں کے بھی کچھ حقوق متعین ہیں۔ ان کا بھی احترام کریں۔
جناب خالد حمید صاحب( یا جو کوئی بھی آپ ہیں)
ReplyDeleteچونکہ آپکو ابھی یہاں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں اس لیئے عبداللہ پر اپنا ریسرچ ورک کچھ وقت کے لیئے ڈیلے کردیجیئے،
کیونکہ مجھے یہاں تبصرے کرتے کافی سال ہوچکے ہیں ،اور بہت سالوں کی تنقید برائے اصلاح کے بعد تبصروں نے یہ رخ اختیار کیاہے،
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گےکہ ،
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے جھانسی کی رانی اوررضیہ سلطان بہت انسپائر کرتی ہیں!
ReplyDeleteاور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں بھی اس قدر خود اعتماد اور بہادر بنانے میں ان کے قریبی مرد حضرات کا ہاتھ تھا،یوں مجھے ان کے باپبھی اتنا ہی متاثر کرتے ہیں،
اور میں خود بھی ایسا ہی باپ بننا چاہوں گا،انشاءاللہ
:)
..سعودی خاتون ڈرائیونگ سیٹ پر
ReplyDeleteنجلہ کے مطابق معاشرہ کی روایات کے سبب خواتین کو ڈراوئنگ سے باز رکھا جاتا ہے
سعودی عرب میں خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں ہے لیکن ایک سعودی خاتون اپنی کار خود چلاتی ہیں اور انہوں نے اس ممانعت کو چیلنج کیا ہے۔
نجلہ حریری نے معروف شہر جدہ کے آس پاس گزشتہ ہفتے ہی ڈرائیونگ شروع کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی سعودی شہر میں مسلسل گاڑی چلانے والی وہ واحد خاتون ہیں۔
پینتالیس سالہ نجلہ حریری کہتی ہیں کہ انہیں یہ حوصلہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں سے ملا ہے۔ انہوں نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا ’اب بہت ہوچکا، مجھے ڈرائیونگ کا تو حق حاصل ہے۔‘
وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں خواتین کے لیے زیادہ تحفظ اس میں ہے کہ وہ خود ڈرائیو کریں۔ ہمارے ملک میں چالیس لاکھ بیرونی ڈرائیور ہیں، ہم ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خودگاڑی چلانا چاہتے ہیں۔
محترمہ حریری کے پاس مصر اور لبنان کے ڈرائیونگ لائسنس ہیں اور یہ انہوں نے ملک سے باہر رہتے ہوئے حاصل کیے تھے۔ ان کے پاس ایک انٹرنیشنل لائسنس بھی ہے جسے وہ یوروپ میں ڈرائیونگ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’خواتین کو گاڑی چلانے سے باز رکھنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، یہ معاشرے کی روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ عورت کو گاڑی نہیں چلانی چاہیے۔‘
نجلہ پانچ بچوں کی ماں ہیں اور انہیں اس معاملے میں ان کے شوہر کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی اور ان کے دوست ان پر اس کے لیے فخر کرتے ہیں۔
حالانکہ وہ یہ جانتی ہیں کہ اس کے لیے پولیس انہیں کبھی بھی راستے میں روک سکتی ہے۔ ’اس معاشرے میں میں تھوڑا زیادہ بہادر ہوں، میں ڈرتی نہیں ہوں۔‘
نجلہ کے پاس دو ڈرائیونگ لائسنز ہیں
سعودی عرب کے دور دراز علاقوں میں کبھی کبھی خواتین گاڑی چلاتی پائی جاتی ہیں لیکن اس طرح کے بڑے شہر میں خاتون کی ڈرائیونگ کے واقعات نادر ہیں۔
جو لوگ خواتین کی ڈرائیونگ کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے یہ محفوظ طریقہ ہے کہ وہ کار میں اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھیں اور وہ عورتوں کو اس ذمہ داری سے آزاد کر کے ان کی عزت بڑھاتے ہیں۔
لیکن نجلہ اسے دعوے کو مسترد کرتی ہیں۔ ’وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں۔ خواتین کے لیے زیادہ تحفظ اس میں ہے کہ وہ خود ڈرائیو کریں۔ ہمارے ملک میں چالیس لاکھ بیرونی ڈرائیور ہیں، ہم ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خودگاڑی چلانا چاہتے ہیں۔‘
اس سے پہلے آپ نے سعودی میں مظاہروں کی بات بھی نہیں سنی ہوگي۔ لیکن جو بھی مشرق وسطی میں ہوا ہے اس کے بعد لوگوں کے ایک گروپ کو ہم باہر جا کر جو بھی وہ کہنا چاہتے تھے، زور سے کہنے کو قبول کرنے لگے۔ اور اس کا مجھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔
حریری کے گھر میں دو کاریں تھیں اور شوہر اور بیٹے کے گھر میں نا رہنے سے وہ بغیر ڈرائیور کے ہوتی تھیں۔ ’لیکن میں نے مناسب وقت کا انتظار کیا، میں نے اس بات کا انتظار کیا کہ پہلے دوسری عورتیں اس میں پہل کریں۔‘
لیکن جب کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگيا ہے۔ ’اس سے پہلے آپ نے سعودی عرب میں مظاہروں کی بات بھی نہیں سنی ہوگي۔ لیکن جو بھی مشرق وسطیٰ میں ہوا ہے اس کا مجھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔‘
سعودی سماج میں خواتین کی زیادہ شراکت اور ان کے کردار کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں، نجلہ حریری کی کوشش بھی اس کا ایک حصہ ہے۔
فیس بک کے ایک صفحہ پر یہ مہم چل رہی ہے کہ خواتین سترہ جون کو بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور ڈرائیو کریں۔
ستمبر میں ہونے والے میونسپل انتخابات میں خواتین کے ووٹ دینے کے حق کے لیے بھی مہم چلائی جارہی ہے اور خواتین کو قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے کی اجازت کے لیے بیداری مہم بھی چل رہی ہے۔
اس کے لیے جو آن لائن کوششیں ہورہی ہیں اس میں انیس سالہ یونیورسٹی کی طالبہ عالیہ اہم کردار نبھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اپنی بات پھیلانے اور بیداری پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہاں خواتین اپنے حقوق سے واقف نہیں ہیں۔‘
@عبداللہ
ReplyDeleteاللہ آپ کو بہت اچھا باپ بنائے آمیں۔
:) :) :)
بلاشُبہ ۔ ہمارے خاندان پر اور برادری کی اکثريت پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔ ہمارے ہاں تو رشتہ مقرر کرنے سے قبل لڑکے اور لڑکی سے والدين اُن کے دوستوں يا سہيليوں کے ذريعہ معلوم کر ليتے ہيں يا اس کی اپنے کسی بھائی يا بہن کے ساتھ رازداری ہو تو وہ خود ہی بتا ديتا ہے ۔ اس کے باوجود کچھ لڑکے اور لڑکياں ايسے ہوتے ہيں جو اس بات پر مُصر رہتے ہيں کہ جو والدين فيصلہ کريں
ReplyDeleteايک بات جو ميں نے جان بوجھ کر پہلے نہيں لکھی يہ ہے کہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے وڈيرے جائداد کی خاطر اپنی اولاد کی زندگی تباہ کرنے پر تُل جاتے ہيں ۔ يہی وڈيرے جس سے جان چھڑانا چاہتے ہيں اسے کارو کاری يا سوارا کی بھينٹ چڑھا ديتے ہيں ۔ ايسا ہماری برادری ميں نہيں ہوتا ۔ البتہ ہماری برادری کی ايک شاخ ہے جو انتہائی اقليت ميں ہے ۔ ان چند خاندانوں ميں تعليم اپنا مقام نہيں بنا سکی ۔ ان ميں کچھ مائيں اپنے بيٹوں کی زندگی تباہ کرنے ميں کوئی کسر نہيں چھوڑتيں ۔ مثال کے طور پر بيٹے کو کوئی لڑکی عشق نہيں عادات اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے پسند آ گئی ۔ دونوں ملتے رہے اور عہد و پيمان کر لئے ۔ جب شادی کی باری آئی تو ماں نے کہا "اس گھر ميں يا ميں رہوں گی يا پھر وہ آئے گی"۔ لڑکے کے باپ نے مداخلت کی تو جواب آيا "اچھا ٹھيک ہے تم باپ بيٹا مجھے جان سے مار ڈالو اور اُسے لے آؤ"۔ پھر بات يہيں ختم نہيں ہو جاتی ۔ ماں اپنی مرضی کی بہو لے آتی ہے ۔ بيٹا اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ماں پھر پريشان ہو جاتی
معاشرے کی ان خرابيوں کے ہم سب ذمہ دار ہيں ۔ ہم دوسرے کی تکليف يا پريشانی کو دور کرنے کيلئے کچھ نہيں کرتے ۔ صرف اس وقت شور مچاتے ہيں جب اپنے سر پر پڑتی ہے اور اس وقت پھر دوسرے ہماری مدد نہيں کرتے
افتخار اجمل صاحب، آپ سندھ اور جنوبی پنجاب کی بات کرتے ہیں۔ ٹی وی پہ ابھی چند مہیوں پہلے تک سپر بسکٹ کا اشتہار آتا تھا۔ جس میں لڑکی کو فون پہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اسکی شادی آئیندہ ماہ طے کر دی گئ ہے۔ بسکٹ کھاتے ہوئے اسے پتہ ہی نہیں چلتا اماں نے کیا اطلاع دی ہے۔ ادھر ہماری ایک دو نہیں کئ اپر پنجاب سے تعلق رکھنے والی دوستوں کو اس بات پہ فخر تھا کہ ہمیں تو ہماری شادی کی اطلاع فون پہ ملے گی۔
ReplyDeleteبہر حال شادی کے لئے لڑکی یا لڑکے کی رضا معلوم کرنا یا انہیں اطلاع دینا ارینجڈ میریج میں ہی آتا ہے پسند کی شادی میں نہیں۔
@انیقہ
ReplyDeleteتو آپ کیا چاہتی ہیں کہ لڑکی اپنی شادی کی اپنے والدین کو فون پر اطلاع دے
:)
ازرائے مزاق
بلا امتیاز، ویسے اس میں کیا برائ ہے؟
ReplyDeleteازراہ مذاق۔
عثمان، دراصل لکھنا تو تھا شتر مرغ والا محاورہ لیکن گانا دیکھ رہی تھی کبوتروں والا۔ بس کچھ کایا کلپ ہو گئ۔
ReplyDelete:)
عنیقہ بہنا، مسلمان ہونے کے ساتھ مسئلہ ہی یہ ہے کہ آپ کامیاب اور ناکام صرف اسلام کے بتائے ہوئے طریق پر پورا اُتر کر ہی ہوسکتے ہیں۔ اور کوئی پیمانہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی وجہ سے آپ ماں یا باپ نہ بن پائے تو یہ مشئت ایزدی ہے، پھر آپ کی کامیابی صرف آپ کی زندگی کے کسی دوسرے میدان میں کامیابی سے ناپی جائے گی اور سب سے بڑی کامیابی یہ کہ آپ نے اپنی زندگی راست بازی سے گزاری اور لوگ آپ کے شر سے محفوظ رہے۔ ہاں اگر آپ اولاد رکھتے/تی ہیں تو پھر آپ کی کامیابی کا پیمانہ آپ کی اولاد اور اس کا سماجی رویہ بھی ہے۔ یہاں پر ہم کامیابی عمومی معنی میں لے رہے ہیں جس کی تعریف پر 90 فیصد سے زائد انسان پورے اُتر سکیں۔ اگر آپ غیر معمولی کامیابی کے متلاشی ہیں تو وہ مرد یا عورت میں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے دونوں نہیں اور وہ بھی دوسرے ساتھی کی انتھک محنت کے ساتھ۔ ایک بندہ جب بیس بیس گھنٹے کام کرتا ہے یا عبادت کرتا ہے تو اسی تناسب سے اس کی بیگم کو دوسرے خانگی امور پر زیادہ توجہ دینا پڑتی ہے۔ توازن اس کے سوا ممکن ہی نہیں۔ اس لئے کامیابی صرف اس بندے کی نہیں ہوتی بلکہ ان دونوں کی ساجھی ہوتی ہے۔ میں تو اس بات کو صرف ایک مثال سے سمجھتا ہوں۔ گاڑی کے انجن میں بے شمار پرزے ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی پرزہ دوسرے پرزے سے زیادہ یا کم اہم نہیں ہوتا۔ انجن کی روانگی میں تمام پرزوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور کسی ایک کے خراب ہوجانے پر گاڑی ٹُھس۔ یہی حال زندگی کی گاڑی کا ہے۔ مرد اور عورت کی کامیابی کے معیار یقیناً الگ ہیں اور ہونے چاہئیں کہ ان کی تخلیق الگ ہے، روئے الگ ہیں، سوچ کا طریقہ الگ ہے اور اب تو ثابت ہورہا ہے کہ ان کے دماغ کی ترکیب بھی ایک دوسرے سے الگ ہے لیکن بہرحال اصل کامیابی توازن ہے۔ جس خوبصورتی سے آپ اپنے اردگر کے ماحول میں بحیثیت مجموعی توازن قائم رکھ سکے وہی کامیابی کا پیمانہ ہے۔
ReplyDeleteاچھا بلاگ ہے ایسے ہی شیئرینگ کرتے رہا کیجئے
ReplyDeletehttp://hijabeshab.wordpress.com/2011/05/17/baaji/#comments
ReplyDeleteTaheem Said:
on May 22, 2011 at 3:12 pm
اچھا بلاگ ہے ایسے ہی شیئرینگ کرتے رہا کیجئے
تو خاتون کے نام سے تبصرے کرنے اور بلاگنگ کرنے کا مرض عام ہے!!!!!!