ادب دنیا کی کسی بھی زبان میں تخلیق ہو اسکی سب سے اہم خوبی یہ ہوتی ہے یا ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے عہد کی نمائیندگی کرتا ہے اسکے بغیر ادب مردہ ہے، بے جان ہے، بے اثر ہے اور محض تفریح ہے۔
آجکا پاکستان ، بم، بارود، بے حسی، افلاس اور شدت پسندی کے دھند میں کچھ اس طرح چھپ گیا ہے کہ یہ دھند اب لکھنے والے ہی ہٹا سکتے ہیں۔ وہ لکھنے والے جو خوفزدہ ہیں۔ لکھنے والا اگر خوف زدہ ہو تو وہ کیا نوید دے سکتا ہے، وہ کیا جدو جہد پیدا کر سکتا ہے، وہ کیا انقلاب لا سکتا ہے، وہ کیا سوچ پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ہم اب بھی پر امید ہے، ہر خوف اپنی انتہا پہ بے خوفی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ فضا میں ، پنجاب میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پاکستان کی ساٹھ فی صد آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وراث شاہ، بلھے شاہ، اقبال، فیض، عدم، ثریا ملتانیکر، اقبال بانو، نورجہاں، ملکہ ء پکھراج، احمد ندیم قاسمی، منشا یاد اور نجانے کتنے ہی تخلیق کاروں کو، فنکاروں کو جنم دینے والی یہ زمین تمام تر نا مساعد حالات اور بڑھتی ہوئ شدت پسندی کے باوجود ابھی بھی بنجر نہیں ہوئ۔ اس زمین میں اب بھی ہیر کی بغاوت موجود ہے اور سوہنی کی استقامت۔
گذشتہ دنوں، میری نظر سے محمد اقبال دیوان کی لکھی ہوئ کہانی 'شہر کو سیلاب لے گیا' گذری۔ کہانی جنوبی پنجاب کی معیشت اور معاشرت دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔ کہانی انقلاب کے ان نعروں سے تعلق رکھتی ہے جو کبھی مذہبی شدت پسند لگاتے ہیں، کبھی انکے مخالفین لگاتے ہیں، کبھی سیاستدان لگاتے ہیں۔ سب اپنے مفاد کے وقت ان نعروں میں پناہ لیتے ہیں۔ کیا انقلاب نعروں پہ سوار ہو کر آتا ہے؟ جنوبی پنجاب میں انقلاب کے ان نعروں کا پس منظر کیا ہے؟
کہتے ہیں ہر جھگڑے کی بنیاد زر ، زمین یا زن ہوتی ہے۔ اقبال دیوان کی یہ کہانی موجودہ پاکستان میں ان تینوں عوامل کو کس طرح اکٹھا کرتی ہے اسکے لئے آپکو یہ طویل کہانی پڑھنی پڑے گی ۔ جو کہ آصف فرخی صاحب کے مرتب کردہ ادبی پرچے دنیا زاد میں شائع ہوئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں شہرزاد۔ دنیا زاد کے اس حصے کا نام ہے جل دھارا، حصے کا نمبر ہے انتیس۔
کہانی کے کچھ صفحات آپکی دلچسپی کے لئے اسکین کئے ہیں۔ تو آئیے پڑھتے ہیں۔ اس زمین کے نام جس کے باسیوں کے لئے ایک ہی پیغام ہے۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔
نوٹ؛ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کریں۔
اس بلاگ پہ دنیا زاد میں شائع شدہ مزید تحاریر کے لئے یہ لنکس دیکھ سکتے ہیں۔
نیا پاکستان، آدھا طالبان
زر، زمین، زن
خدا، انسان کا ہتھوڑا
ایک ادیب کے مشورے
اس بلاگ پہ دنیا زاد میں شائع شدہ مزید تحاریر کے لئے یہ لنکس دیکھ سکتے ہیں۔
نیا پاکستان، آدھا طالبان
زر، زمین، زن
خدا، انسان کا ہتھوڑا
ایک ادیب کے مشورے
Ullu
ReplyDeleteAniqa ji ap k ander taasub ka keeraa kab se parvarish paa rahA hai zra roshni dalein gi is pr
ReplyDeleteاوجی وار اینڈ پیس میں اتنے کردار نہ ہونگے جتنے اس نامکمل افسانے میں موجود ہیں۔ یعنی توجہ رکھنا مشکل ہے۔
ReplyDeleteمزا نئیں آیا۔
گمنام، یہ آپکا اس کہانی کے متعلق تبصرہ ہے۔ اسکے لکھاری نہ صرف پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ بیوروکریسی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
ReplyDeleteاگر میرے بارے میں سوال ہے تو ٹھیک اس لممحے سے جب آپکو پتہ چلا۔
انقلاب ایک سست رو عمل ہے جس کا پس منظر کافی طویل ہوتا ہے۔ بس تبدیلی کا ایک مرحلہ ہوتا ہے جو اچانک ہوتا ہے۔ پھر کیا یہ تبدیلی دیر پا ہوگی ؟ یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ علاوہ ازیں ہر زمانے اور علاقے کے انقلاب کی اپنی ایک منفرد کیمسٹری ہوتی ہے۔ آپ کسی دوسرے دور اور مقام کے انقلاب سے ذیادہ سے ذیادہ انسپائریشن لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور مستعار لیا بھی کیا جاسکتا ہے ؟
ReplyDeleteکیا اس جریدے کی کوئ ویب سائٹ ہے؟
ReplyDeleteاگر ممکن ہو تو ایک پوسٹ عصر حاضر کے اردو ادبی جرائد پر بھی کریں۔
ان تحاریر میں
ReplyDeleteفحاشی بہت هے
پیمانه جنرل ضیاع سرمے والی سرکار کے مطابق
یہ کتاب کہاں سے مل سکتی ہے
ReplyDeletePunjab say aik aur kahani;
ReplyDeleteAalu Anday | Beygairat Brigade
http://www.youtube.com/watch?v=ZEpnwCPgH7g
kia ye kahani mukamil post nahin ki ja sakti
ReplyDeleteمجھے تو بس اس بات کا جواب چاہیئے کہ اس میں وہ تعصب کہاں ہے جس کا اوپرتبصرے میں گمنام نے اپنا تعارف الو کے نام سے کروانے کے بعد بڑے زور و شور سے تزکرہ فرمایا ہے تاکہ میں اسے ڈھونڈ کر اس حوالے سے اس تحریر پر کچھ روشنی ڈال سکوں!
ReplyDeleteAbdullah
عثمان، چالیس صفحوں کی کہانی میں سے چند صفحات، مزہ کہاں سے آئے گا۔
ReplyDeleteگمنام، ایک پوسٹ عصری ادبی جرائد پہ یہ خاصہ بڑا سبجیکٹ ہے۔ میں تو بہت تیر ماروں تو کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جرائد کو ہی لے سکتی ہوں۔ ادبی جرائد کی ایک بڑی تعداد لاہور اور دیگر شہروں سے بھی نکلتی ہے۔ جن کے متعلق میری معلومات بہت محدود ہیں۔
خاور صاحب، ہمم یہ تو ہے۔ ادیب آخر اپنی تحاریر میں فحاشی کیوں ڈالتے ہیں؟ جنرل ضیاء کے نکتے سے۔