انکی باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اور اس میں فل اسٹاپ آنے کی جلد امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی کہ معاملہ انکے شوہر اور شوہر کے گھر والوں کا تھا۔ میں انہیں دبے الفاظ میں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس وقت جبکہ آپ کینیڈا میں ہیں اور شوہر کے گھر والے پاکستان میں۔ آپ اپنے گھر پہ اکیلے راج کر رہی ہیں۔ شوہر کے سب بہن بھائ یہاں سے ہزاروں میل دور اپنی دنیا میں مگن ہیں انکے اوپر انہیں کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا تو وہ کیوں انکے تذکرے سے اپنے گھر کی فضا مکدر کرتی ہیں۔ کبھی کبھی شوہر کو محض شوہر نہ سمجھا کریں بلکہ محبوب دلنواز سمجھ کر بھی آءو بھگت کیا کریں اس سے تعلقات پہ کافی مثبت اثر پڑتا ہے لیکن ہر دفعہ وہ ماضی سے کوئ قصہ نکال کر اسکا پوسٹ مارٹم کرنے بیٹھ جاتیں۔
اسی گفت و شنید میں جو کہ میرے لئے گفت کم اور شنید زیادہ تھی، اچانک ٹی وی لاءونج سے بچوں کے جھگڑنے کی آواز آئ۔ پھر مشعل انتہائ ناراض حالت میں وہاں سے برآمد ہوئیں۔ 'میں کارٹون دیکھ رہی تھی کہ ریان نے ٹی وی بند کر دیا'۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اور ریان کی ماں نے غصیلی نظروں سے ریان کو دیکھا۔ جسکی تاب نہ لاتے ہوئے ریان نے ترنت جواب دیا،'ٹی وی پہ گندہ کارٹون آرہا تھا۔ میں نے بند کر دیا'۔ کینیڈا میں بچوں کا بڑا مشہور چینل ہے ٹری ہاءوس، مجھے حیرت ہوئ کہ ایسا کون سا گندہ کارٹون ہے جو اس چینل سے آرہا ہے۔
بچے کی اس بات پہ ماں نے اطمینان کا سانس لیا۔ 'وہ دراصل یہ گورے تو ایسے غلیظ ہیں کہ انہوں نے پگز تک پہ کارٹونز بنائے ہوئے ہیں۔ پگز کا پورا خاندان اس کارٹون میں موجود ہے۔ جب ٹی وی پہ وہ کارٹون آتا ہے تو ہم ٹی وی بند کر دیتے ہیں۔ اور ریان کو بھی یہی ہدایت ہے اس لئے اس نے بند کر دیا'۔ پگز یعنی سوءر۔
میں نے زبان کھولنے کی کوشش کی اور پھر خاموش ہو گئ۔ رات ہی ان سے سیدوں کے اعلی ہونے پہ کچھ زیادہ بات ہو گئ تھی۔ اس وقت دوبارہ دینی بحث میں جانے کا موڈ نہیں تھا۔ میں انکے یہاں چند دن کے لئے مہمان تھی اور پہلے کچھ خاص علیک سلیک بھی نہ تھی۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ ذہن میں موجود کہ قرآن میں سوءر کا گوشت کھانا منع ہے۔ یعنی حلال نہیں حرام ہے۔ لیکن اسکے علاوہ کہیں ایسی کوئ بات نہیں کہی گئ کہ سوءر کا دیکھنا بھی منع ہے۔ یا یہ بتانا منع ہے کہ سوءر کے بھی ماں باپ اور بچے ہوتے ہیں۔ در حقیقت وہ بھی اسی فضا میں سانس لیتے ہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں تو کیا یہ ساری فضا غلیظ ہو گئ ہے۔ اب ہم کیسے سانس لیں گے۔
پھر یہ کہ گوشت تو شیر اور بھیڑئیے کا بھی کھانا منع ہے یعنی حرام ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ان سے منسوب حکائیتیں تک بچوں کو سنائ جاتی ہیں۔ آخر سوءر کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ آپ نہ کھائیں یہ الگ بات ہے تقریباً تمام مسلمان سوءر کا گوشت نہیں کھاتے وہ بھی جو شراب پی لیتے ہیں۔ لیکن ایسا کیا کہ اسکا کارٹون تک نہ دیکھیں۔
اکثرہمارے ملک میں موجود شدت پسندی کی جڑیں امریکہ، انڈیا، ایران اور سعودی عرب سے جوڑی جاتی ہیں۔ لیکن مشتبہ قوتوں میں ، میں ایک قوت اور شامل کرنا چاہونگی اور وہ ہیں مغربی ممالک کی شہریت اختیار کرنے والے پاکستانی۔ جب سے پاکستانی ان مغربی ممالک میں جا کر آباد ہوئے ہیں ان کی اکثریت نے پاکستان کو اپنے مذہبی خلاء کو پورا کرنے کی جگہ سمجھ لیا ہے۔ نہ صرف وہاں کی ہر تشنگی کو یہاں مٹاتے ہیں۔ جیسے وہاں کے بے حیاء ماحول میں رہ کر انکا دل شدت سے چاہتا ہے کہ پاکستان میں کاش لڑکیاں حجاب کے ساتھ پیدا ہوں۔ کیا سائینس اس سلسلے میں جینیٹک انجینیئرنگ کے کمال دکھا سکتی ہے؟ وہ پوچھنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح وہاں رہ کر مذہب میں باریکیاں نکالنے کا بڑا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ، وہاں دو بنیادی طبقے پیدا ہو جاتے ہیں ایک وہ جو وہاں کے رنگ میں ان سے زیادہ رنگ جاتا ہے اور دوسرا وہ جو پہلے سے بھی زیادہ مذہبی ہو جاتا ہے۔ اور ہر طرح کے مذہبی وہم انہیں تنگ کرنے لگتے ہیں۔ درمیانی راہ چلنے والے نسبتاً کم ہوتے ہیں۔
مثلاً وہیں ایک پاکستانی خاتون کو میں نے اپنے شوہر سے یہ کہتے سنا کہ اسلام میں گھر کے کام بیوی پہ فرض نہیں اگر کرے تو مرد پہ احسان ہے۔ نہ ہی اسکے والدین کی خدمت اسکا فرض ہے۔ اسلام میں بیوی کا فرض ہے کہ بچے پیدا کرے اور شوہر کی ضرورت پوری کرے۔
لیجئیے اسلام کا یہ ورژن، اگر وطن عزیز میں رہنے والی خاتون بتاتیں تو شوہر بعد میں پہلے سسرال والے انہیں انکی اوقات یاد دلا دیتے۔ کن ہواءوں میں ہیں اسلام میں اسی لئے مرد کے لئے چار شادیاں رکھی گئ ہیں۔
خیر ہم لوٹ کر دوبارہ سوءر پہ آتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں تو کچھ لوگ سوءر کا نام بھی منہ سے نہیں نکالتے اور کہہ دیتے ہیں وہی جانور جو گُو کھاتا ہے۔ اگر وہ والا محاورہ کہنا ہو کہ فلاں کی آنکھ میں تو سوءر کا بال ہے تو اسکی جگہ کہتے ہیں اسکی آنکھ میں تو اُسکا بال ہے۔ جو پوچھیں کس کا؟ تو جواب ملے گا وہی جو گوُ کھاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو سوءر کے بجائے خنزیر کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ سوءر کہتے ہوئے زبان کے آگے خندق آجاتی ہے لیکن خنزیر سے روانی رہتی ہے۔ مجھے اس ترجیح کی وجہ نہیں معلوم۔
ایک عزیز بزرگ آج سے تیس سال پہلے کا قصہ سنا رہے تھے کہ وہ دبئ میں تھے اور بچوں کے ایک اسکول میں پڑھاتے تھے۔ اسکول لائیبریری کے لئے باہر سے کتابیں منگوانے کے لئے فہرست طلب کی گئ مختلف اساتذہ نے اس میں کتابوں کے نام ڈال دئیے۔ اور اس طرح سے باہر سے کتابیں آئیں لیکن ان میں سے کچھ کتابوں کو فوری طور پہ واپس بھجوایا گیا۔ وجہ اسکول کی عرب ایڈمنسٹریشن نے یہ بتائ کہ کتابوں میں سوءر کی تصویریں ہیں۔
بس جہاں اور اوٹ پٹانگ سوالات ذہن میں آتے ہیں ان میں یہ بھی چلے آئے کہ پاکستان کے دیہاتوں میں سوءروں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ شہر کے بچے اگر سوءر دیکھناچاہیں کہ کیسا ہوتا ہے تو کیا کریں؟ کوئ سر پھرا بچہ یہ پوچھے کہ سوءر کے بچے بھی کیوٹ ہوتے ہیں، انکی ماما بھی انکو پیار کرتی ہیں تو کیا اسکا جواب یہ دیں کہ سوءر کے بال بچوں سے تمہیں کیا، وہ تو خود مارے شرمندگی کے ایکدوسرے سے منہ چھپائے پھرتے ہیں کہ پیدا کیوں ہو گئے۔
رشتہ دار خاتون کے معاملے میں آپ کو شکر کرنا چاہیے کہ آپ ان سے دور دور ہی رہتی ہیں۔
ReplyDeleteعلاوہ ازیں لوگوں کو تپانے کے لئے پے درپے ایسی شریر پوسٹیں نہ لگایا کریں بلکہ کچھ وقفہ ڈال دیا کریں۔ آخر سؤروں ۔۔۔ مم ۔۔میرا مطلب ہے لوگوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔
:)
عثمان، یہ میں نے تپانے کے لئے نہیں لگائ۔ یہ ایک سوال ہے اللہ نے گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا کہ اسکی تصویر تک نہ دیکھیں یا اسکے متعلق علم نہ حاصل کریں۔ کتے کا گوشت بھی کھانا حرام ہے گھر میں موجود ہو تو کہتے ہیں کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ لیکن کیا کتوں کے کارٹونز یا ان پہ بنی فلمیں نہیں دیکھتے۔ کیا کتابوں میں انکی تصاویر نہیں ہوتیں۔ پھڑکتے ہوئے نہیں دمکتے جواب چاہئیں۔ آخر سوءر کے ساتھ ایسا کیوں؟
ReplyDeleteعثمان، یہ میں نے تپانے کے لئے نہیں لگائ۔ یہ ایک سوال ہے اللہ نے گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا کہ اسکی تصویر تک نہ دیکھیں یا اسکے متعلق علم نہ حاصل کریں۔ کتے کا گوشت بھی کھانا حرام ہے گھر میں موجود ہو تو کہتے ہیں کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ لیکن کیا کتوں کے کارٹونز یا ان پہ بنی فلمیں نہیں دیکھتے۔ کیا ہماری کتابوں میں انکی تصاویر نہیں ہوتیں۔
ReplyDeleteذبح ہوئے ،پھڑکتے ہوئے نہیں جمے جمائے، مدلل اور دمکتے جواب چاہئیں۔ آخر سوءر کے ساتھ ایسا کیوں؟
باقی سب باتوں پہ تبصرہ محفوظ۔۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ سوال میرے ذہن میں بھی موجود ہے اور ابھی تک لا جواب ہی ہے کہ سور کے بارے میں اس رویے کی وجہ کیا ہے؟
ReplyDeleteسؤر سے حد درجہ احتیاط اس کی عادات و حرکات کی وجہ سے ہے۔۔۔
ReplyDeleteعمیر ملک صاحب، میں اور آپ مل کر انتظار کرتے ہیں ایک واضح اور مدلل جواب کا۔
ReplyDeleteخالد حمید صاحب، عادات تو کتے کی بھی ایسی پسندیدہ نہیں ہوتیں۔ ایسا ہی بے شرم ہوتا ہے جیسا کہ سوءر۔ اچھا تصویر یا کارٹونز میں اسکی ان عادات کو عام طور پہ لایا بھی نہیں جاتا۔ اس لئے یہ احتیاط کچھ وہمی سی لگتی ہے، یا محض اپنے آپکو زیادہ متقی بتانے کے لئے۔
اوجی سماجی ٹیبو بن چکا ہے اور اس کا "مدلل " جواب کیا ہونا ہے۔ کتے والی مثال کا ذکر ہی کیا ، مذکورہ ذہن کتا پالنا بھی پسند نہ کرے۔
ReplyDeleteخیر میں تو آفس لنچ روم میں اپنا کھانا کھاتا ہوں ، میز کے دوسرے کونے پر یار لوگ صؤر نوش کررہے ہوتے ہیں۔ سانوں کی۔
آپ تو اکثر تحقیقی تحریر پر لغت سے بھی فائدہ اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ مگر یہاں اس لفظ پہ کیسے چوک گئیں؟
ReplyDeleteفیروز اللغات میں اس کے یہ یہ معنی لکھے ہیں :
خنزیر ، خوک ، شریر ، بدذات ، ایک گالی ، غصے یا ناراضگی یا عتاب کے اظہار کا کلمہ
چونکہ یہ لفظ اردو میں زیادہ تر بطور گالی استعمال ہوتا ہے ، اسی لئے شائد کم سے کم استعمال کرنا چاہتے ہیں لوگ۔
ویسے انسان کے جسم کا ایک مخصوص حصہ ایسا ہے جس کا نام بھی سب کے سامنے لینے سے لوگ ہچکچاتے ہیں اور پھر اگر اس لفظ کو لغت میں دیکھا جائے تو اس لفظ سے منسوب کوئی پچیس تیس "گالیاں" تو آپ کو نظر آ ہی جائیں گی۔
ویسے اگر آپ حیدرآباد میں ہوتیں تو شائد تحریر کا عنوان یہ نہ رکھتیں۔ کیونکہ "سور کے بال" یہاں پر نہایت سنگین گالی مانی جاتی ہے۔
ReplyDeleteحیدر آبادی صاحب، کتا، گدھا اور الو بھی گالی کے طور پہ استعمال ہوتے ہیں۔ ان تینوں میں شدید تر کتا ہے۔ لیکن کتے کو کتا ہی کہا جاتا ہے اسکے علاوہ تو کچھ نہیں کہتے۔ کتے کا نام لینے سے اس لئے گریز نہیں کیا جاتا کہ یہ ایک گالی ہے۔
ReplyDeleteظاہر سی بات ہے کتے کو کتا ہی کہا جائے گا اور سوءر کو سوءر۔ اگر یہ نام لینے اتنے ہی برے ہوں تو لغت میں اکے یہ نام کیوں درج ہوں، کچھ اور نام رکھے جائیں۔ پھر یہ کتا ہو یا سوءر دونوں ہی خدا کی بنائ مخلوق ہیں۔ پھر ایسا کیا کہ ااسے دیکھنا بھی پسند نہ کریں۔ اللہ نے کسی کو بد صورت بنایا کسی کو خوبصورت۔ اس میں کسی تخلیق کا کیا قصور۔