آج کی تازہ خبر اب شام کے سات بجے پرانی ہو چکی ہے مگر فیس بک پہ کسی نے بھی اس بارے میں سانس تک نہیں لی تو مجھے اندازہ ہوا کہ آجکی تازہ خبر پاکستان نہیں پہنچی۔
پہنچ بھی کیسے سکتی ہے اس خبر میں دو نقص ہیں۔ ایک تو یہ خواتین کی کامیابی کی داستانوں میں سے ہے اور دوسرا یہ امن سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
پاکستان میں خواتین سے متعلق جو خبرجگہ لیتی ہے وہ کسی مغربی ملک میں چہرے کے حجاب پہ پابندی کی خبر ہوتی ہے۔ اپنی بیٹی کو ناشتہ کراتے ہوئے میں نے یونہی سرسری سی نظر اخبار پہ ڈالی تو بزنس ریکارڈر اور ڈان دونوں کے اولیں صفحے پہ یہ خبر موجود تھی کہ اس سال امن کا نوبل انعام تین خواتین کے حصے میں آیا ہے۔ ان میں دو خواتین ایلن جونسن اور لیماہ گبووی افریقہ کے ملک لائبیریا سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ تیسری خاتون نہ صرف عرب ہیں بلکہ مسلم ہیں اور یمن سے تعلق رکھتی ہیں توکل کرمان۔
بہتّر سالہ ایلن جونسن، لائبیریا کی پہلی منتخب جمہوری صدر ہیں۔ لائبیریا، سن انیس سو انّاسی سے خانہ جنگی کا شکار ملک ہے خانہ جنگی جس نے تقریباً دو لاکھ لوگوں کو نگل لیا۔ دو ہزار تین میں ایلن جونسن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آئ ہے۔
دوسری خاتون، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی لیماہ رابرٹا گبووی بھی اسی ملک سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی مسلم اور عیسائ خواتین کو متحد کیا تاکہ وہ ملک کے حالات بدلنے کے عمل میں حصہ لے سکیں۔ اس سے پہلے انہوں نے زنا کے خلاف بھی ایک لمبی مہم میں حصہ لیا۔ انکے پانچ بچے ہیں۔
عرب خاتون توکل کرمان المخلافی جوکہ یمن کےآمرانہ نظام کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے صدر عبدالصالح کے خلاف احتجاجات کو منظم کرنے میں بھرپور حصہ لیا۔ انکے تین بچے ہیں۔ نوبل انعام کی کمیٹی کے خیال میں عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی کی لہر وہاں کی خواتین کے مرہون منت ہے۔
یہ عرب اور افریقہ سے نکل کر ہم اپنے ملک کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہم بھی تو تیس سال سے جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری عورتوں کو کیوں خیال نہیں آتا کہ انکے بچے محض جنگ کا ایندھن بننے کے لئے پیدا نہیں ہوتے۔ یہ جنگ ہو یا قدرتی آفات سب سے زیادہ مصائب کا شکار کون ہوتا ہے عورت۔ جب گھر کا کمانے والا نہیں رہتا تو ایک جاہل اور معاشی طور پہ کمزور بدحال عورت کو کن اندوہناک حالات سے نہیں گذرنا پڑتا۔
ایک عورت جس نے گھر کی چہار دیواری کے علاوہ دنیا ہی نہیں دیکھی ہوتی سیلاب اور زلزلے سے گذرنے کے بعد جب لاوارث ہوتی تو کیسی قیامت اس پہ گذرتی ہے کیا اسکا اندازہ کوئ لگا سکتا ہے۔
ایک عورت کس طرح تڑپ تڑپ کر زچگی کے دوران جان دیتی صرف اس لئے کہ اسے کوئ طبی امداد نہیں دینے والا ہوتا۔
آخر اسے کیوں نہیں خیال آتا کہ وہ بھی اپنے ملک میں امن کے قیام اور خوشحالی کی جدو جہد میں حصہ لے سکتی ہے۔ معاشرے کے امن استحکام اور خوشحالی کا مطلب اسکے لئے ایک آسان، دکھ اور اذیت سے آزاد زندگی ہوتا ہے۔
آخر وہ کب تک اس سماج کے بنے ہوئے ظالمانہ نظام کا حصہ بنی رہے گی؟
آپ نے دیکھا، یہ خواتین جو اپنے بچوں کی ماں بھی ہیں وہ کس طرح اپنے اردگرد کی دنیا کو اپنے بچوں کے لئے محفوظ بنا رہی ہیں۔ آخر ہم کب اس بات پہ جمع ہونگے کہ ہمارے بچوں کو بھی ایک پُر امن معاشرہ نصیب ہو۔ وہ نام نہاد جہاد اور ٹارگٹ کلنگ میں نہ مارے جائیں، انہیں سیلاب کے پانیوں کا کفن نہ نصیب ہو اور نہ اپنے جسموں کو بم سے اڑائیں۔
اے میرے دیس کی آدھی آبادی تم بھی اپنی بقاء کے لئے اٹھ کھڑی ہو۔ ہمیں بھی امن چاہئیے۔ ہم بھی جینا چاہتے ہیں۔ ہم بھی اس سرزمین پہ لہلہاتے پھولوں کے درمیان اپنے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی جانوروں جیسے نہیں انسانوں جیسے حقوق چاہئیں۔ ہم بھی اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے لئے سزا چاہتے ہیں۔ آخر ہم ان سب سے دور کیوں رہیں۔
آپ نے دیکھا ، ان عورتوں کے بھی گھر ہیں بچے ہیں، گھریلو زندگی ہے لیکن کیا یہ چیز انکے راستے کی دیورا بنی۔
یقین رکھیں اس ملک میں امن اب خواتین ہی لا سکتی ہیں۔ اور انہیں اسکا حصہ بننا پڑے گا، جان رکھیں آنے والا زمانہ خواتین کی مضبوطی کا زمانہ ہے۔ انہیں اپنی انتظامی صلاحیتوں کو اپنے علم اور زندگی کے عملی تجربات سے نکھارنا ہوگا۔
دوسری طرف ہمارے ملک میں بھی امن اورخوشحالی کے تمام منصوبوں میں خواتین کو واضح طور پہ شامل کیا جائے انکی تعداد کو بڑھایا جائے جس میں معاشرے کے ہر طبقے سے خواتین کی نمائیندگی لی جائے۔ تاکہ یوں نہ ہو کہ طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے مردوں کے اشارے پہ حکومتی نظام کا حصہ بنی رہیں اور انکی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ ہو۔
ہمیں کٹھ پتلیاں نہیں خود اعتماد , جراءت مند اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی خواتین اپنی نمائِندگی کے لئے چاہئیں۔ وہ خواتین جو زندگی کی جدو جہد کی جنگ لڑ کر آئ ہوں۔
بہر حال یہ ایک مزے کی خبر ہے۔
بہت خوب!
ReplyDeleteخبر مزے کی ہو نہ ہو۔ ادھر آکر مزے کی ضرور ہوجاتی ہے۔
(:
اخبارات پر سرسری سی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر اور نقطہ نظر اردو میڈیا کے جغادریوں کی سمجھ سے دور دور ہی نکل گیا ہے۔
قبلہ عثمان صاحب،
ReplyDeleteمیں تو کسی بھی جغادری نہیں پھر بھی یہ خبر میری سمجھ سے کیوں باہر ہے؟
شاید اسکی وحہ یہ ہے کہ امن کے نوبل پرائز کی جتنی بے توقیری کی گئِ ہے اتنی کسی بھی اعزاز کی نہیں کی گئی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہٹلر آج زندہ ہوتا اور جرمنی کی وہی حیثیت ہوتی جو قبل از جنگ عظیم سے پہلے تھی تو درجن بھر امن کے نوبل پرائز سے ضرور نواز دیاجاتا۔۔۔
جواد صاحب، کیا آپکو یہ فیصلہ بھی متنازعہ لگتا ہے۔ یہاں تو اگر کوئ خاتون حجاب لینا شروع کر دے تو اسکی تصویریں حجاب میں چھپ کر ساری دنیا میں بٹ جاتی ہیں۔ توکل کرمان ایک حجاب دار خاتون کو اتنا کیوں نظر انداز کرنا؟
ReplyDeleteاس لئے کہ اسے امن کا انعام ملا ہے اسکی جگہ اگر کوئ نام نہاد مجاہدہ ہوتی تو وہ جس قدر بھی متنازعہ ہوتی اسکے جھنڈے گڑ چکے ہوتے۔
آخر ایسا کیوں؟
وجوہات وہی ہیں جن کی وجہ سے آپ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر آئے دن کرم نوازیں کرتی رہتی ہیں. آپکا یہی کہنا ہے نا کہ عافیہ صدیقی نے ایک ایسے کام کا بیڑا اٹھایا جو سرے سے اسکا تھا ہی نہیں اور اسکے نتیجے میں اسکو دلخراش قسم کی اذیتیں جھیلنی پڑیں.... فرض کیجئے کہ خدا نخواستہ توکل کرمان کو بھی اسی قسم کی تکلیف ، اذیتوں اور دلخراش ٹریجڈی سے گذرنا پڑتا تو کیا آپ اس پر بھی ایسی ہی کرم فرما ہوتیں جیسا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہیں؟....
ReplyDeleteمعاف کیجئے گا ہم سب دنیا کو اپنی پسندیدہ عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں اسی لئے ہمارے لئے جدید تہذیب مشکوک اور آپکے لئے دین (وہ دین جو نفاذ کی بات کرے) مشکوک ہے ....
جواد صاحب، یہ نفاذ دین کا بہانہ تو ایک طرف رہنے دیں۔ جو اپنے ہی لوگوں کو جو کہ صاحب ایکمان ہیں اڑا دینے میں تامل نہ کرتے ہوں انکی طرف سے دین کا نفاذ ایک بہانے کے سوا کچھ نہیں۔
ReplyDeleteہم اس عینک سے دیکھتے ہیں کہ کون ہے جو دیگر انسانوں کی دنیاوی زندگی کو اذیتوں سے نجات دینے کے لئے کام کر رہا ہے اور کون ہے جو اس دنیا کو انکے لئے جہم بنا رہا ہے۔ جو اپنے لوگوں کا وفادار نہیں وہ کس کا وفادار ہو سکتا ہے۔ یہاں اپنوں سے میری مراد کسی کے صرف بچے، والدین یا شریک حیات نہیں بلکہ اسکے ہم عقیدہ لوگ بھی ہیں۔
آجکی دنیا میں کسے بہتر الفاظ سے یاد رکھا جاتا ہے ہٹلر کو یا لوئ پاسچراور مادام کیوری کو۔ اگر حساب کرنے بیتھیں گے تو دنیا میں جنگی ہیروز سے زیادہ وہ لوگ قانل احترام نکلیں گے جنہوں نے انسانیت کی فلاح کے لئے کام کئے۔ ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہوئے لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ کس مذہب یا فرقے یا ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہٹلر نے اپنی قوم اور اپنے نظرئیے کی برتری کے لئے تشدد روا رکھا۔ لیکن آگے کیا ہوا یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
جیسے بھینسے کو سرخ رنگ دکھایا جائے اور وہ لمحہ زن میں بدک اٹھتا ہے ، کچھ یہی حال طالبانی و ملائی گماشتوں کا ہے کہ ادھر عورت کا نام لیا اور ادھر انگارے چبانا شروع ہوگئے۔
ReplyDeleteدراصل آپ کے اس جملہ کی قوت کا اندازہ اوپر بدکتے تبصرے دیکھ کر ہوا ہے۔
ایک تو یہ خواتین کی کامیابی کی داستانوں میں سے ہے اور دوسرا یہ امن سے بھی تعلق رکھتی ہے۔
کیا چست چوٹ ہے !
(:
ویسے میرا نہیں خیال کہ پاکستانی خواتین کو اس سلسلہ میں کسی لمبی چوڑی جدوجہد کی ضرورت پیش آئے گی۔ بس ایک این جی او بنا کر رجسٹرڈ کروائیں:
پاکستانی وومن یونائیٹیڈ اگینسٹ طالبان
مذہبی گماشتوں کا پیشاپ اتنے ہی میں خطا ہو جائے گا۔
عثمان،مجھے تو فی الوقت اس میں دلچسپی ہے کہ ایک حجاب دار خاتون بھی اگر نوبل انعام حاصل کر لے تو اسکی کوئ اہمیت نہیں ہے۔ البتہ اگر ایک حجاب دار خاتون اپنی متنازعہ شخصیت اور افعال کی بناء پہ ایک امریکی عدالت سے سزا پا لے تو اسکی اہمیت ہے۔
ReplyDeleteعنیقہ پلیز آپ میرا پچھلا تبصرہ ضرور چھاپیئے اور اس پر نام نہاد مولویوں کے تبصرے بھی ضرور چھاپیئے،
ReplyDeleteاس کے بعد ایک بہت ہی مزیدار جواب بلکہ منہ توڑ جواب ان مولویوں کا منتظر ہوگا!
آپ فکر نہ کریں میں اصلی عبداللہ ہی ہوں!
:)
Abdullah
میں اپنا تبصرہ دوبارہ لکھے دے رہا ہوں،
ReplyDeleteکسی فلسفی کا قول ہے کہ اگر اس دنیا میں زمام اقتدار عورتوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں ایک بھی جنگ نہ ہوتی،کیونکہ عورت ماں ہے اور ایک ماں دوسری ماں کی گود اجڑنے کا دکھ اچھی طرح سمجھتی ہے،
عنیقہ مجھے مولویوں سے دو سوالوں کا جواب درکار ہے،(اگر کوئی اور بھی انکا جواب دینے میں انٹرسٹڈ ہو تو موسٹ ویلکم)
ایک اللہ نےکسی عورت کو نبی رسول یا پیغمبر بنا کر کیوں نہیں بھیجا؟
اور اللہ نے قرآن پاک میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم مخاطب کیوں کیا؟
Abdullah
He noted that Karman, 32, is a member of a political party linked to the Muslim Brotherhood, an Islamist movement sometimes viewed with suspicion in the West. Jagland, however, called the Brotherhood "an important part" of the Arab Spring.
ReplyDeletehttp://news.yahoo.com/nobel-peace-prize-goes-womens-rights-activists-103726719.html
کچھ اپنے دوستوں کی بھی خبر لو
ReplyDeletehttp://ghazwaehind.blogspot.com/2011/10/blog-post.html
جو مستقل ضربیں انہیں لگ رہی ہیں اسے دیکھ کر تمہارا مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا ہے
عثمان ۔ انگارہ ہونا اور آگ لگنا کسے کہتے ہیں یہ عنیقہ کے اگلے تبصرے سے ظاہر ہونے والا ہے
اگر نشر ہو گیا تو
بے شک تمام تعریفوں کے لائق ہے وہ جس نے اپنے بندوں پر نصرت اتاری
شکریہ بھائی گمنام ،
ReplyDeleteیہ ایک واقعی نہایت دلچسپ پیشرفت ہے. جیسے جیسے توکل کرمان کے بارے میں اطلاعات آرہی ہیں میرا نقطہ نظر تبدیل ہو رہا ہے. توکل کرمان اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہیں. (واضح رہے کہ اخوان المسلمین دین کے نفاذ کے بارے میں جماعت اسلامی سے زیادہ شدید رہی ہے) اوریہ معلوم ہوا ہے کہ انکی جد و جہد دین کے تناظر میں ایک فاسق و فاجر حکمران کے خلاف تھی یہ کوئی دین مائنس عوامی ٹائپ جد وجہد نہ تھی... یہ ایک دلچسپ اطلاع ہے اور اس اطلاع نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں اپنی رائے سے رجوع کروں . کیا آپ بھی ایسا کرنا پسند کریں گی ؟
قبلہ عثمان صاحب ،
ReplyDeleteحضرت ....انگارے چباتے ہوۓ تو آپ محسوس ہو رہے ہیں. :-)
ایسا کیا قصور اس فقیر بندہ پر تقصیر سے سر زد ہوا ہے کہ آپ اتنے تلخ ہو رہے ہیں ؟ میں نا تو طالبانی ہوں اور نا گماشتہ ....البتہ آپ مجھے گم گشتہ ضرور کہہ سکتے ہیں.
بھائی عبد الله،
ReplyDeleteفلسفیوں کے تخیلات پر اتنی سنجیدگی مناسب نہیں...بات " اگر" پر آکر ختم ہو جاتی ہے. دنیا کی حقیقتیں کچھ اور ہوتی ہیں. کیونکہ مردوں کو زمام اقتدار سے محروم کرنے کے لئے آپکو انکی فطری قوت ، جارحانہ پن اور اقتدار کی خواھش سے بھی محروم کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں ایک نئے تخیل کو جنم دینا ہوگا کہ " اگر" دنیا میں مردوں کا وجود ہی نا ہوتا اور عورت سے عورت بغیر تولیدی عمل کے پیدا ہوتی تو دنیا میں شاید بے امنی اور جنگیں مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتیں.
بڑے بھائی فلسفیوں کے تخیلات پر مت جائیے ورنہ آپ میں آپریشن کرا کر عورت بننے کی خواھش شدّت اختیار کرتی چلی جائے گی .
ایک تو آپ سوالات بہت کرتے ہیں اور دوسرے سوالات کا پس منظر بھی اکثر غائب کر دیتے ہیں.آپکے اس سوال کا جواب اس فلسفی کی حسرت میں چھپا ہے .سیدھا سا اور عام سا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ مردوں میں تبدیلی کی خواھش اور طاقت زیادہ ہوتی ہے وہ ہر طرح کا جبر جھیلنے کی طاقت رکھتا ہے. جب الله سبحانه تعالیٰ اسکو جنگ کا حکم دیتے ہیں تو وہ میدان میں بے خطر کود پڑتا ہے. اور چونکہ فرائض اور اختیارات میں اسے ایک درجہ زیادہ دیا گیا ہے لہٰذا مواخذہ بھی اس سے زیادہ ہوگا.
RAWALPINDI:
ReplyDeleteIn a first for the garrison city, sixty masked men carrying iron rods barged into a girls’ school in Rawalpindi and thrashed students and female teachers on Friday.
...
A police official of the New Town Police Station, asking for anonymity, told The Express Tribune, “We were under strict instructions to do nothing.”
http://tribune.com.pk/story/269918/dress-modestly-masked-men-enter-girls-school-thrash-students/
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، میں نے اس خبر کا لنک اس پوسٹ میں دیا ہے اس سے ایک شخص کو یہی نتیجہ نکالنا چاہئیے کہ میں اس خبر کے پس منظر سے واقف ہوں۔ لیکن آپ ابتداء میں اتنے جذباتی رہے کہ آپ نے معاملے کے اس ]پہلو پہ ذرا توجہ ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔ کیا اب آپکی سمجھ میں آیا کہ مجھے اتنی حیرانی کیوں ہو رہی تھی۔ میرا مسئلہ حجاب یا اسلام نہیں ہے۔ میرا مسئلہ وہ ملائیت ہے جو ایک حجاب دار خاتون کی پر امن کامیابی کو بھی پہچاننے سے انکاری ہے۔ صرف اس لئے کہ وہ ملا مردوں کی جنگی خواہش کے مطابق نہیں ہے۔
ReplyDeleteجس طرح آپکو اس خبر کے سلسلے میں غلط فہمی تھی اسی طرح آپکی یہ غلط فہمی بھی دور کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ جب بھی خواتین کی بیداری کی بات ہوتی ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مرد عورت بن جائیں اور مرد عورت۔ الحمد للہ عورت کو قدرتی طور پہ جو مضبوطی اور بہادری حاصل ہے اسکا مقابلہ اسے ایک مرد سے کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہی ہم پاکستانی عورت کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ بحیثیت انسان اللہ نے اسے بالکل کم تر پیدا نہیں کیا۔ عورت جب اس معاشرے کا اتنا جبر سہتی ہے اور زندہ رہتی ہے تو دنیا کے باقی جبر کی کیا حیثیت ہے۔
مردوں میں تبدیلی کی خواہش زیادہ ہوتی ہے تو پاکستان پچھلے باسٹھ سال سے ایک جیسے حالات سے کیوں گذر رہا ہے، کیوں دن بہ دن یہاں جنگی عزائم رکھنے والوں کو ہیرو کا درجہ حاصل ہو رہا ہے اور کیوں یہاں ان لوگوں کی شدید قلت ہے جو انسانوں کی عمومی حالات میں تبدیلی کے کواہاں ہوں۔
یہ بات تو اب ثابت ہو چکی ہے کہ جس طرح کے ماحول میں ایک انسان کی تربیت اور پرورش ہوتی ہے وہ اسی طرح کی شخصیت رکھتا ہے۔ ایک انسان کو ماتحت اور دوسروں پہ انحصار کرنے والا بنا کر اسکی پرورش کریں وہ اسے اپنے لئے وہی مناسب سمجھتا ہے۔ آخر اس ملک میں تعلیم کی ترویج سے کیوں پہلو تہی کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ اسکے نتیجے میں اعتراض کرنے والے بڑی تعداد میں پیدا ہو جائیں گے۔ یہی حال مردوں اور عورتوں کا ہے۔
یہ جو پاکستانی مرد تعلیمی اداروں میں گھس کر کواتین کو ہراساں کرتے ہیں یا باہر گلیوں میں یا بس اسٹاپوں پہ یہی کام کرتے ہیں انکی پرورش میں ان تمام فلسفوں کا حصہ ہے۔ اور یہ جو پاکستانی عورت سمجھتی ہے کہ وہ دراصل مرد کی ذمہ داری ہے اور جیسا کہ میں آجکل کچھ خواتین کو کہتے سنتی ہوں کہ مذہب نے تو ہم پہ نہ مرد کے والدین کی خدمت کی ذ٘ہداری رکھی ہے نہ گھریلو کاموں کی ذمہداری رکھی ہے نہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری، مذہب نے ہم پہ صرف بچے پیدا کرنے کی اور مرد کی خواہش پورا کرنے کی ذ٘ہداری رکھی ہے تو یہ بھی معاشرے میں ایک پھیلتے ہوئے فلسفے کا حصہ ہے۔ انکی تربیت اسی فلسفے کے تحت ہو رہی ہے۔
لگتا ہے کہ اردو سیارہ پر موجود نام نہاد مولویوں کی اکثریت کراچی کے آپریشن کلین اپ کا شکار ہوگئی ہے،وہ جو دہشت گردی اور اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ کو اسلام کے پردے میں چھپائے انسانوں کا شکار کرتے پھرتے تھے خود شکار ہوچکے!
ReplyDeleteرہے یہ جواد خان جیسے لوگ تو ان کا بس ایک ہی مسئلہ تھا کہ توکل کرمان کو یہ نوبل پرائز خواتین کے حقوق کی جد وجہد پرملا اور انہیں ناپسند کرنے کے لیئے ان جیسوں کو یہ جواز ہی کافی ہے،
اب آتے ہیں میرے سوالوں کی طرف،
یہ سوالات ایک محفل میں اٹھائے گئے،اور انکا بے حد سادہ جواب مہر آپی نے کچھ اس طرح دیا،
اللہ نے قرآن پاک میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم مخاطب کیوں کیا؟
گھر میں نصیحت کس کو زیادہ کی جاتی ہے جو سب سے زیادہ بگڑا ہوا ہو،
سو قرآن میں بھی مردوں کو زیادہ نصیحتیں کی گئی ہیں،
مرد اپنی طاقت کی بناء پر معاشرے کو بگاڑنے اور سنوارنے میں زیادہ بڑا رول پلے کرتے ہیں،یہ قحبہ خانے شراب خانے جوا خانے ان ہی کے دم قدم سے آباد ہیں،
کاروبار میں بے ایمانیاں کرنے میں بھی وہی اپنا ثانی نہیں رکھتے،عورتوں، بچوں اور کمزوروں پر ظلم اور زیادتی انکا شیوہ خاص ہوتی ہے،خیال رہے یہاں بات اکثریت کی ہورہی ہے،دین کو روپوں کے لیئے بیچ دینا انکا معمول ہوتا ہے،
رہا یہ سوال کہ اللہ نے مردوں کو ہی نبی اور رسول کیوں بنایا،تو کیونکہ شیطان ایک مرد تھا سو اسکا توڑ کرنے کے لیئے نبی اور رسول بھی مرد ہوئے!
جی تو جواد خان صاحب یا جو بھی جناب کا نام ہے اب کیا کہتے ہیں اس مسئلے کے بیچ؟؟؟؟؟
اگر" دنیا میں مردوں کا وجود ہی نا ہوتا اور عورت سے عورت بغیر تولیدی عمل کے پیدا ہوتی تو دنیا میں شاید بے امنی اور جنگیں مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتیں.
اب ان عقل سے پیدل کو یہ کون سمجھائے کہ یہاں مردوں کا وجود ختم کرنے کی بات ہوہی نہیں رہی تھی بلکہ ان کے ظالمانہ رویوں کو کوٹ کیا جارہا ہے،
ویسے منے میاں اللہ تعالی نے حضرت مریم سے حضرت عیسی بغیر مرد کی انوالومینٹ کے پیدا کروا کر کیا ہم مردوں کو یہ واضح نہیں کردیا کہ ہم جو اللہ کو نسل انسانی کی بڑہوتری کے لیئے اپنے وجود کا مجبور محض سمجھتے ہیں،ہم بہت بڑی غلطی پر ہیں؟
:)
رہی عورتوں کی حکمرانی کی بات تو حیدرآبادی صاحب نے بھی ایک ضعیف حدیث کا حوالہ دے کر عورتوں کی حکمرانی سے انکار کیا تھا مگر وہ قرآن کی ایک آیت بھی اس سلسلے میں پیش نہ کرسکے جس میں عورتوں کی حکمرانی کو ناجائز یا حرام کہا گیا ہوتا!
Abdullah
کیوں جواد خان تمھیں اورتمھارے حواریوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ؟؟؟
ReplyDeleteAbdullah