میں نے اپنی بچی کی مونٹیسوری کی ہیڈ سے کہا کہ آپ نے آجکل اردو حروف کو واءو کے ساتھ ملانے کی مشق شروع کرائ ہے۔ اسے میں نے دیکھا اور میرے خیال سے یہ بچوں کے لئے خاصہ الجھن کا باعث ہے۔ وہ کیسے؟ انہوں نے دریافت کیا۔ دراصل اردو میں واءو کے ساتھ تین مختلف طرح کی آوازیں نکلتی ہیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے انہوں نے میری بات پہ ایک مسکراہٹ دی۔ واءو کے ساتھ ایک ہی آواز نکلتی ہے۔ جی نہیں، میں نے انکی بات سے انکار کیا اور انکو مثال دی۔ ابھی آپ نے بچوں کو جن آٹھ الفاظ کی مشق کرائ ہے۔ ان میں اس طرح کے الفاظ ہیں، جانو، توڑو، روکو اور اسکے ساتھ ہی الفاظ ہیں جوتا ، آڑو اور چاقو۔ ان میں واءو کے ساتھ الگ آواز ہے۔ وہ حیران سی ہوئیں ، کہاں ایک جیسی آواز ہی تو ہے۔ 'ایک جیسی نہیں ہے، جب کسی بچے کو مشق کرائیں گے تو بچہ اگر ذرا بھی ذہین ہوگا وہ اس پہ احتجاج کرے گا۔جیسے میری بچی نے کیا اور پھر میں نے پیش لگا کر اسے فرق بتایا'۔
دیکھیں میں اپنی بات کو آسان کرتی ہوں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کے لئے کہا۔ رو، رَو اور رُو یہ تینوں الفاظ الگ ہیں الگ معنی رکھتے ہیں۔ اعراب لگا دینے سے معنی الگ ہو جاتے ہیں۔ اب وہ خاموش اور سنجیدہ تو ہوئیں لیکن اب بھی انکی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح میری بات غلط ثابت ہو جائے اور وہ اپنی لا علمی کی شرمندگی سے بچ جائیں۔ وہ اپنی ایک ٹیچر کی طرف دیکھ کر درپردہ کہنے لگیں کہ آءو اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلاءو۔ ٹیچر نے فوراً اس ان کہی درخواست پہ لبیک کہا اور زبان پہ فتوی دیا۔ 'اردو میں تو اعراب ہوتے ہی نہیں، اعراب تو عربی میں ہوتے ہیں'۔
اگر میں آپکی اس بات کو صحیح مان لوں تو آپ نے بچوں کو جو اردو کا قاعدہ دیا ہے اس میں اعراب والی مشقیں کیوں ہیں۔ اس میں پیش اور بغیر پیش کی آوازیں الگ الگ موجود ہیں۔ آپکی اردو کی ورک بک میں آڑو کے اوپر پیش لگا ہوا ہے۔ غالباً آپ نے اسے دھیان سے نہیں دیکھا۔ اور یہ بچے جب پانچویں چھٹی تک پہنچیں گے تو انہیں اردو کے مشکل الفاظ کے اوپر اعراب لگانے کی مشق بھی کرائ جائے گی ۔ اتنی اردو مجھے آتی ہے۔ میں نے انکی بات رد کی۔
میں آپ سے صرف اتنی درخواست کرونگی کہ آپ واءو آواز کے کم از کم دو حصے کر دیں ایک میں پیش کے ساتھ اور دوسرے میں پیش کے بغیر اس طرح بچوں کو پتہ چل جائے گا کہ چاقُو، چاقُو کیوں ہے اور چاقََو کیوں نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے ٹالنے کے لئے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے ہم اس پہ غور کریں گے۔
غور کرنے کے بعد غالباً انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ سارا مسئلہ آڑو اور چاقو کی وجہ سے ہے۔ اگلی مشقوں میں سے ان الفاظ کو نکال باہر کر دیا۔
یہ وہ اسکول ہے کہ جب میں اپنی بچی کا وہاں ایڈمشن کرارہی تھی تو انہوں نے مجھے اپنے اسکول میں تدریس کی پیش کش کی تھی۔ اب انہیں احساس ہو چلا ہوگا کہ یہ انکے لئے کتنا خطرناک ہوتا۔ میں نے ان سے معذرت کی تھی کہ مجھے اتنی چھوٹی کلاسز کو پڑھانے کا تجربہ نہیں اگر وہ چاہیں تو میں انکے اسکول میں رضاکار کے طور پہ خدمت انجام دے سکتی ہوں۔ رضاکارانہ خدمات کا تصور پاکستان میں اتنا عام نہیں۔ اس لئے انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کا سوچا بھی نہیں۔
بہر حال، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکولوں میں اردو پڑھانے کا طریقہ کتنا بے کار اور توجہ سے خالی ہے۔ غالباً بچوں کو الفاظ کی تصویری شکل یاد کرا دی جاتی ہے۔ اس لئے وہ اردو میں بے حد کمزور ہوتے ہیں۔ انگریزی جس کا ملک میں اتنا شہرہ ہے وہ بھی بحیثیت زبان نہیں سکھائ جاتی بلکہ رٹائ جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ بھی نہیں آتی ۔ ایک شخص جو بڑی روانی سے انگریزی بول رہا ہوتا ہے اس نے بھی کسی انگریزی بول چال سکھانے والے ادارے سے مدد لی ہوتی ہے۔ اس طرح کی تدریس سے نہ ہی وصال صنم ہو پاتا ہے اور نہ ہی خدا مل پاتا ہے۔
حالانکہ اسی ملک میں ٹاٹ پہ بیٹھ کر پڑھنے والے بچوں کی انگریزی بھی اچھی ہوتی تھی اور اردو بھی۔ وجہ یہ ہوئ کہ ناکارہ اور نااہل افراد کے حوالے قوم کا مستقبل کر دیا گیا۔ جتنی زیادہ دونوں زبانوں میں کمزوری بڑھ رہی ہے اتنا ہی زیادہ واویلہ ہو رہا ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم کیوں؟
خیر، اردو زبان کی اپنی گرامر ہے ، انگریزی کی طرح حروف کی آوازیں بھی ہیں، اعراب ہیں اور انکی مدد سے بچوں کو ہجّے لگانے کی تیکنیک سکھائ جائے جیسا کہ ایک زمانے میں رواج تھا اور جیسا کہ اب بھی انگریزی کے لئے اختیار کیا جاتا ہے تو اردو بھی بچوں کے لئے آسان ہو جائے۔ لیکن زبان کی سائینس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ سو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ایک اسکول کا پورا عملہ اس بات سے ناواقف نکلا کہ اردو میں اعراب ہوتے ہیں انکی وجہ سے آواز میں فرق آتا ہے۔ اسکے بجائے انہوں نے میری معلومات کو درست کرنا پسند کیا۔ آنکھ نہ دیدہ کاڑھے کشیدہ۔
گھر کی مرغی دال برابر۔ مسئلہ تو تب تھا جب انگریزی صاحبہ کی گستاخی ہو رہی ہو۔ انگریزی کو غلط بول کر دیکھیں سب آپ کو درست کرنے کود پڑیں گے کہ یہ لفظ یوں نہیں یوں ہے۔
ReplyDeleteہم ہی پاگل ہیں جو اردو کو چمٹے ہیں۔
اللہ ہی حافظ ہے، اگر واؤ کی مختلف آوازوں کا اساتذہ کو نہیں علم تو اس کا کیا خاک علم ہوگا کہ ایک واؤ معدولہ بھی ہوتی ہے جو بالکل ہی بولی نہیں جاتی اور کوئی آواز نہیں رکھتی جیسے خود، خوش، خواب، خویش میں۔ لا حول و لا قوۃ
ReplyDeleteثابت ہوا کہ سکول کے اساتذہ کے سر میں بھی جوئیں ہیں۔ بلکہ سپر گرل کو جوئیں اپنی ٹیچر ہی سے لگی ہونگی۔
ReplyDeleteعلی صاحب، انگریزی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ابھی میری اسکول کی انگریزی کی نوٹ کی ہوئ غلطیاں ایک طرف پڑی ہیں۔ انہیں چند دن کے وقفے کے بعد انکے علم میں لانے کا ارادہ ہے۔ انگریزی میں غلطیاں بس انگریزی دان طبقہ نکالتا ہے۔ باقیوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کیا کہانی چل رہی ہے۔
ReplyDeleteاسکول والے اس لئے بچے رہتے ہیں کہ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو خود نہیں پڑھاتی۔ کم سے کم بچوں کا ہوم ورک ضرور چیک کرنا چاہئیے۔ اور اس قسم کی غلطیواں اسکول انتظامیہ کے علم میں لانی چاہئیں تاکہ ان پہ دباءو رہے۔
وارث صاحب، مجھے خیال آیا کہ آپ شاعری کے بھید تو کھولتے ہی عہتے ہیں۔ اردو زبان کی گرامر پہ کیوں نہیں لکھنا شروع کر دیتے۔ اس سے زبان کو بڑا فائدہ ہوگا۔
عثمان، آپکا خیال ہے کہ سارا تعلیمی مسئلہ جوءوں کی وجہ سے ہے۔ اسکول کو اینٹی لائس کا ایک بڑا ڈبہ تحفے میں دے دیا جائے۔
:)
شکریہ آپ کا، اس موضوع پر لکھنا میرے بہت سے منصوبوں میں ہے تو سہی، شاید کبھی کچھ لکھ بھی سکوں۔
ReplyDeleteوالسلام
یہ تو کچھ بھی نہیں آپ اردو کو رو رہیں اور میں ادھر پورے نظام تعلیم کو رو رہا ہوں۔ اللہ جانے کیا بنے گا ہمارے اس پیارے سے وطن کا جہاں گدھ گوشت کے رکھوالے بنے بیٹھے ہیں
ReplyDelete