شاہ ولی اللہ نے اجتہاد اور تقلید کے موضوع پہ ایک بڑی مفید کتاب عقد الجید فی احکام الاجتہاد التقلید کے نام سے لکھی۔ شاہ صاحب باب اجتہاد بند ہونے کے قائل نہ تھے لیکن وہ عوام کو حق اجتہاد نہیں دیتے۔ مجتہد کے انہوں نے مدارج مقرر کئے اور اجتہاد کے لئے مناسب شرائط لگائیں۔ انہوں نے جا بجا اس خیال کی نفی کی کہ اب اجتہاد کی گنجائش نہیں رہی۔ وہ اس کتاب کے آغاز میں کہتے ہیں کہ
پھر اب جو گمان کیا جاوے ایسے شخص عالم کے حق میں، جو اکثر مسائل میں اپنے امام کے موافق ہو، لیکن اسکے ساتھ ہی ہر حکم کی دلیل چاہتا ہو کہ وہ مجتہد نہیں تو یہ گمان اس شخص کے حق میں فاسد ہے۔ اور اس طرح جو یہ گمان کرے کہ مجتہد اس زمانے میں نہیں پایا جاتا۔ بلحاظ اعتماد کرنے کے گمان پہ تو یہ گمان بنار فاسد بر فاسد ہے۔
شاہ صاحب رسول اکرم کے طریقے کو دھیان میں رکھ کر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جزئیات کے معاملے میں تشدد نہیں کرنا چاہئیے۔ اور معمولی اختلافات سے شارع کا مقصد فوت نہیں ہوتا۔
کچھ لوگوں کو زمانہ روز بروز خراب نظر آتا ہے اور اس طرح وہ قوم میں بے ہمتی پیدا کرتے ہیں۔ اپنی کتاب حجۃ البالغہ میں وہ اپنے عہد کی اہمیت اورخوبیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس نظرئے کی تردید کرتے ہیں اس سلسلے میں وہ رسول اللہ کی دو حدیثوں کا حوالہ دیتے ہیں
ترجمہ؛ میری امت کی صفت بارش کی سی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ پہلا مینہ اچھا ہے یا اخیر کا۔
ترجمہ؛تم میرے صحابہ ہو اور میرے بھائ وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے۔
شاہ صاحب کو احساس تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا ایک باعث فرسودہ اقتصادی نظام بھِی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اقتصادی عدم توازن کو معاشرتی برائیوں کی ایک جڑ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ
اگر کسی قوم میں تمدن کی مسلسل ترقی جاری رہے تو اسکی صنعت و حرفت اعلی کمال پر پہنچ جاتی ہے، اسکے بعد اگر حکمران جماعت آرام و آسائش اور زینت وتفاخر کی زندگی کو اپنا شعار بنا لے تو اسکا بوجھ قوم کے کاری گر طبقے پہ اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہوگا۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
اقتصادی نظام کے درست اور متوازن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس زندگی میں انسانی اجتماع کے اخلاق تکمیل پذیر ہو سکیں گے۔
انکے خیال میں چونکہ تمام قوم دولت کی پیداوار میں شامل ہوتی ہے اس لئےدولت کو تمام افرد قوم میں تقسیم ہونا چاہئیے۔ اسکے علاوہ وہ دولت کے استعمال کی اقدار بھی مقرر کرنا چاہتے تھے اسکے لئے انہوں نے کچھ اصول رکھنا چاہے۔
پہلا اصول یہ کہ ایک جغرافیائ سرحد کے اندر رہنے والے لوگ اس علاقے کے وسائل کے مالک ہونگے۔ تمام لوگ اقتصادی نظام میں برابر ہونگے اور دولت کا ارتکاز کسی ایک یا چند مخصوص لوگوں تک نہ ہو۔ اور اس سلسلے میں وہ حضرت ابو بکر صدیق کی اس بات کو دوہراتے کہ مساوات بہتر ہے اقصادیات میں بجائے اسکے کہ ایک گروہ کو دوسرے پہ ترجیح دی جائے۔
دوسرا اصول، ہر شخص کو کچھ نہ کچھ حق ملکیت دینا چاہئیے۔ کیونکہ ہر شخص مختلف صلاحیتیں رکھتا ہے۔ لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ ہر ایک کو ایک جیسی غذا، گھر یا کپڑے ملیں۔
تیسرا اصول یہ کہ دولت کے ارتکاز کو کسی صورت نہ برداشت کیا جائے۔
ایسی متوازن صورت حال اختیار کی جائے کہ معاشرہ میں ہر شخص ترقی کرے۔
اسکے لئے وہ اس بات کے حق میں تھے کہ کوئ ایسی جماعت وجود میں لائ جائے جو ایک نئے نظام کو ترتیب دے سکے۔
یہ تھے کچھ سرسری سے اصول جو انہوں نے دینے کی کوشش کی۔ لیکن عملی طور پہ وہ اسکے لئے کچھ نہ کر سکے۔
مجدد الف ثانی کے بر عکس وہ شیعوں کو کافر نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اپنی تحریروں سے سنی شیعہ اختلافات مٹانے کی کوشش کی اور اس موضوع پہ کئ سیر حاصل کتابیں لکھیں۔
چونکہ ہمارا موضوع اس وقت احیائے دین کی کوششیں نہیں ہے اس لئے ہم اس سلسلے میں اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔
اپنی اس تمام تر روشن خیال کے باوجود شاہ ولی اللہ ہندوستان کی دوسری غیر مسلم قوتوں کے لئے نرمی نہ پیدا کر سکے اور وہ کہتے ہیں کہ
تمام مسلمان شہریوں کو حکم دینا چاہئیے کہ کافر اپنے تہوار کھلے عام نہ منا سکیں جیسے ہولی یا گنگا میں نہانا۔
اسی طرح انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ ہندو ذمی نہیں کافر ہیں لہذا انہیں ذمیوں کے حقوق حاصل نہں ہونے چاہئیں اور انہیں ہر ممکن طریقے سے ذلیل کر کے رکھنا چاہئیے۔
اسی طرح وہ ثقافتی اثرات کو بھی قبول نہ کر سکے۔ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ
مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک میں اپنی ابتدائ زندگی گذاریں۔ اپنی وضع قطع اور طرز بو د و باش میں اس ملک کے مقامی باشندوں سے قطعی جدا رہنا چاہئیے اور جہاں کہیں وہ رہیں اپنی عربی شان اور عربی رجحانات میں ڈوبے رہیں۔
شاہ ولی اللہ ، شاعر بھی تھے۔ انکی یہ شاعری فارسی میں ہے اس لئے میں اس میں سے کوئ انتخاب دینے سے قاصر ہوں۔
بہر حال اس تمام گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں میسر علم اور اپنی دانش سے انہوں نے مسلمانوں کے اندر موجود خامیوں کو جانچنے اور انہیں دور کرنے میں خاصے تدبر سے کام لیا۔ اسی لئے کچھ لوگ انہیں حکیم الامت کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
حوالہ جات؛
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام، ادارہ ء ثقافت اسلامیہ۔
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
المیہ تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
.
پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں معاشرتی و مذہبی برداشت سب سے کم ہے۔ از طرف عنیقہ ناز
ReplyDeleteبی بی!
مندرجہ بالا جملہ آپ نے اپنی پچھلی میں اپنے جوابی تبصرے میں لکھا ہے۔ جبکہ میری رائے میں "عدم برداشت" صرف معاشرت و مذھبی نہیں بلکہ یہ ہر طبقاتی درجے میں پنہاں اور اور ہر طبقہ فکر میں موجود ہے۔ اور بد قسمتی علم و تحقیق سے وابستہ اور اپنے تئیں اپنے آپ کو علم کا "پدرم سلطان بُود" کہلوانے والا جاہل طبقہ ابھی تک آپکے "اخذ کردہ" اکبری دور کے جاہل حاجیوں یا ملاؤں کے دورِ نفسیات میں زند ہے،، کہ ایسے محقیقن کو "علماء" کا نام دینا علم کی توہین ہے۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی سے ایسے محقیقن جنکی اپنی تحقیقی بسا اوقات بوجوہ مشکوک اور یکطرفہ ہوتی ہے۔جنکا سارا زور محض اس بات پہ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ ان کا بیان کردہ و تحقیق کردہ ہے اس لئیے یہ "حق" ہے۔ "فرمان" ہے۔ ایسے محقیقین کی ساری توانئی محض اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ اور اس عمل میں ساری قوم ننگی ہے تو شرم کاہے کی؟۔
غالبا پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بارہ چودہ یا سولہ جماعتیں پڑھنے والے دنیا کے بہت سے ممالک کی آٹھ یا سات لیول کے طالب علم سے علم میں پیچھے ہونگے۔ ایسے میں پاکستان میں ماسٹرز اور ڈاکٹرز کے لئیے اپلائی کرنے والوں اور اسی پاکستانی نظام کی تعلیم سے بنیادی تعلیمی استفادہ کر کے مغربی یونیورسٹیز سے غیر معروف موضوعات پہ اعلمی کی بجائے سیاسی اور حکومتی پیشکش پہ اسکالرشپ کو محض رعب داب اور کری کولوم میں اضافے کا زریعیہ بنایا جاتا ہے ۔ جسے آئیندہ بنیاد بنا کر حکومتی اداروں پہ قبضہ مکمل کرنا مقصود ہوتا ہے کہ جی فلاں ابن ٖ فلاں ، فلاں فلاں موضوعات میں علم کی گھٹڑی کا بوجھ اٹھائے دُبلا ہوا جارہا ہے۔ اسلئیے اس کے سر پہ فلاں ادارے کی بادشاہی کا تاج رکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ بھی یقینی طور پہ جانتی ہونگی ۔ ہم بھی جانتے ہیں ۔ جن کی ڈگریز حاصل کرنے میں انکا کوئی کمال نہیں ۔ وہ علم کے سامنے ویسے ہی کورے اور معصوم ہیں جیسے گلی محلے کا کوئی عام منشی ۔ مگر واہ ر پیارے وطن یہ عام سے منشی جن میں اپنی ذاتی عقل جو علم سے استفادہ کرے نام کی نہیں ۔
پھر ایسے ناک کے بال بادشاہوں سے یہ امید رکھنی کہ وہ قوم کو یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ، سہ طرفہ ، چہار طرفہ ، ہر اینگل اور ہر رخ سے دوسروں اور انکی باتوں ، انکے نقطہ نظر کو سمجھنے ، پرکھنے اور اختلاف کی صورت میں اسے برادشت کرنے اور رواداری برتنے کی ہمت اور حوصلہ عطا کرے۔ کیسے ممکن ہے ۔ جب جنہیں یہ واعظ اور اپنے عم سے ثابت کرنا تھا وہ بجائے خود عدم برداشت کی علت میں مبتلاء ہیں۔
جب خواص کا یہ حال ہو کہ جنہیں قوم کو سدھارنے اور انھیں بہتر زندگی کے لئیے بہتر اہداف دینے کی ذمہ داری نباھنی تھی وہ بجائے خود " خود ترسی " اور شدید " احساس کمتری " کا شکار ہوں اور محض اپنے واجبی سے علم کے ساتھ "ھٹ دھرم" واقع ہوئے ہوں اور کسی بھی ادارے یا زندگی میں اپنے عمل و تحقیق سے کوئی بھی ایسا فرض یا ھدف پورا نہ کرسکتے ہوں جو انھیں تفویض کیا جائے ۔ تو کیا ایسے "محقیقن " اور اکبری دور کے درباری پنڈتوں میں کوئی فرق ہے ؟۔ کیا یہ بھی ایک وجہ نہیں کہ پاکستان کے ہر انتظامی یونٹ میں تقسیم ، افراتفری اور انتشار نظر آتا ہے۔؟ ایسے میں عام آدمی کا قصور کم اور ایسے عالم فاضل محقین جن پہ تحقیق کا بے جا الزام ہے انکا قصور زیادہ ہے ۔ یہ عدم برداشت اوپر سے نیچے پھیلی ہے۔
عدم برداشت کے لئیے مولوی بیچارے کو مفت میں بدنام کیا گیا ہے ۔ اسے بھی عدم برداشت ، عدام روادی کا مارا طبقہ اسے اپنا مزھبی راہنماء چنتا ہے اور اس سے عدم برداشت ، عدم تحمل اور عدم رواداری کی پوری ڈوز کی کی امید اور خواہش رکھتا ہے ورنہ اس کے متبادل کو جگہ دے دی جاتی ہے۔
یہ مرض معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقے کو لاحق ہے۔ کسی کو لسانی طور پہ ، کسی کو علمی، کسی کو مالی، مگر یہ عدم برداشت کا مرض اپنی پوری شدت سے ہر طبقے میں اور ہر جگہ موجود ہے ۔ مذھب کو اس میں ناحق بدنام کیا جاتا ہے۔
نوٹ۔ آپ کا موضوع عمدہ ہے اور اس پہ اختصار سے کچھ بیان کرنا ناممکن ہے۔
بی بی ! آپ کچھ عرصے سے ڈاکٹر مبارک علی کا حوالہ دیتی آرہی ہیں ۔ ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں کچھ حقائق بہت سے لوگ جانتے ہیں ۔ کچھ ڈاکٹر صفدر محمود نے بیان کئیے ہیں ۔ مثال کے طور پہ
ReplyDelete" میرے مہربان ڈاکٹر مبارک علی اور ان کے حامیوں کا فلسفہ حیات یہ ہے کہ ہمیں مذہب اور قرآن سے ماوراء یعنی بلند ہو کر سوچنا چاہئے جبکہ ہم جیسے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روشن خیالی، تحقیق، سائنسی ریسرچ و ایجادات، فلسفہ و تاریخ اسلامی تاریخ و تہذیب کا حصہ ہیں لیکن مسلمان بشرطیکہ وہ صرف نام کا مسلمان نہ ہو ۔ قرآن سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اسلئے مذہب سے ماوراء نہیں سوچ سکتا ،بلکہ مسلمان کی زندگی ، سوچ اور فکر بہرحال قرآن کے تابع ہوتی ہے جس کی ایک روشن مثال علاقہ اقبال بھی ہیں جنہیں عالمی سطح پر ایک مفکر اور شاعر کا مرتبہ حاصل ہے ۔ اگر قرآن انکی عظمت فکر کے راستے میں حائل نہیں ہوا بلکہ انہیں ان بلندیوں پر پہنچانے کا ذریعہ بنا تو پھر آپ کو اس سے خطرہ کیونکر ہے ؟اسی مکتبہ فکر نے امن کی آشا سے روشنی حاصل کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ ہماری نصابی کتابیں ہندوستان کی نفرت سے بھری پڑی ہیں ۔میرے مہربان ڈاکٹر مبارک علی اور امرجلیل کے علاوہ کچھ اور روشن خیال دانشور اور لکھاری بھی اس فلسفے کی حمایت کرکے روشن خیالی کی سند حاصل کرنے کی سعی کر رہے ہیں کہ یہ سکہ رائج الوقت ہے ۔میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ نفرت کا نام دیتے ہیں وہ آزادی ہند، تقسیم ہند اور تحریک پاکستان پر لکھی گئی تمام تحقیقی کتابوں، پی ایچ ڈی کے مقالوں اور سوانح عمریوں میں موجود ہیں چاہے انکے مصنفین انگریز، امریکی ، فرانسیسی یا پاکستانی ہوں ۔ تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ بنیادی حقائق وہی رکھتے ہیں البتہ تجزیات میں کسی حد تک فرق ہوتا ہے اگر یہ لکھا جائے کہ سرسید، قائد اعظم، اقبال حتیٰ کہ ہر بڑامسلمان لیڈر آغاز میں ہندو مسلم اتحاد کا داعی تھا لیکن کانگریسی لیڈروں کے باطن میں جھانکنے کے بعد اسے ترک کر بیٹھا اور بالاخر اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندو مسلمان الگ الگ قومیں ہیں تو یہ ہماری تاریخ، اور تحریک کی ایک بنیادی حقیقت ہے جسے ہمارے نام نہاد روشن خیال نفرت کی بنیاد کہتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق نفرت اور علیحدگی نے اسی مقام پر جنم لیا۔گویا تاریخ کو نفرت سے پاک کرنے کیلئے یہ لکھنا چاہئے کہ ہمارے یہ تمام رہنما ہندو مسلمان اتحاد کے پیامبر تھے اور ہندوؤں مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے ۔ جو لوگ اس کے برعکس لکھتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ نہ کبھی قائد اعظم نے کانگریس سے استعفیٰ دیا نہ کبھی نہرو رپورٹ کو راستوں کی علیحدگی (PARTING OF WAYS)قرار دیا ۔
کانگرس مسلمانوں سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور ان کے تمام مطالبات کو نہ صرف تسلیم کرتی تھی بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی بے تاب رہتی تھی حتیٰ کہ جسونت سنگھ نے بھی کانگریسی رویے کی مذمت کرکے نفرت پھیلائی ہے۔ خود گاندھی اور ان کے حمایتی شدت پسند ہندوؤں نے کبھی نہیں کہا کہ جو مسلمان ہندو دھرم میں واپس نہیں آتے انہیں بحرہ عرب میں پھینک دو، بٹوارے کے وقت مسلمانوں کے خون کی ندیاں نہیں بہائی گئیں بلکہ انہیں ہار پہنا کر رخصت کیا گیا۔ہندوستان نے مسلمان اکثریتی کشمیر کئی بار پاکستان کو دینا چاہا لیکن پاکستان لیتا ہی نہیں اور نہ ہی آج کل ہندوستان پاکستان کو آبی قحط کے ذریعے ریگستان میں بدلنے کی سازش کر رہا ہے۔ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے اور لکھتے ہیں وہ نفرت کے پیامبر ہیں۔
یارو سچی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جسے نفرت کی داستان کہتے ہیں وہ نفرت کی کہانی نہیں بلکہ ہماری تاریخ ہے اور یہ ہماری تاریخ کے بنیادی حقائق ہیں۔ تاریخ بدلی جا سکتی ہے نہ ان حقائق سے دامن چھڑایا جا سکتا ہے کیونکہ اقبال وحی کے بعد تاریخ کو علم کا اصلی ماخذ قرار دیتا ہے ۔ تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور ہمارا تو جغرافیہ ہی ہماری تاریخ کی پیداوار ہے ۔"
ڈاکٹر صفدر محمود کے کام کا مکمل متن پڑھنے کے لئیے اس کالم کا لنک درج ذیل ہے
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=429358#
اس تمام سعی اور گزارش کا مطلب یہ تھا کہ جن کو انکے ہم عصر انھیں غیر جانبدار نہ سمجھیں جیسے کہ ڈاکٹر مبارک علی کے بارے میں ڈاکٹر صفدر محمود نے بیان کیا ہے تو ایسے افراد کے کھوج کردہ نتائج و حقائق کو حتمی تو کُجا انھیں معتبر بھی نہیں گردانا جا سکتا۔چہ جائیکہ ان کے حوالوں سے دوسروں کو قائل کیا جاسکے۔
ReplyDeleteجاوید گوندل صاحب، مجھے آپکی طرف سے خاصی فکرات لا حق ہو گئیں تھیں کہ آپ کہاں غائب ہو گئے، سب کچھ خیریت سے ہو آپکے ساتھ۔ آپکے تبصرے تو اب کہیں نظر ہی نہیں آتے۔
ReplyDeleteیہ جو سب سے اوپر آپ نے ایک بیان دے کر از عنیقہ لکھ دیا ہے یہ تو میں نے کسی رپورٹ کے الفاظ دوہرائے ہیں جس کی تصدیق وقت کے کسی بھی لمحے اپنے ماحول میں کرنا مشکل نہیں ہے۔
میے اس میں کہیں مولوی صاحب کی تخصیص نہیں کی۔ اس عمل میں وہ خاتون بھی شامل ہوتی ہیں جو سر سے دوپٹہ نہیں اوڑھتیں، وہ شخص بھی شامل ہوتا ہے جو کسی نجی سینما گھر سے کوئ ایکس ریٹڈ فلم دیکھ کر نکل رہا ہو۔ کیونکہ یہ سبکو پتہ ہے کہ ہم مذہب کو استعمال کر کے ایک بہت محفوظ پناہ حاصل کر لیں گے۔ تو آپ نے ناحق مولوی صاحب کو اس میں لے لیا اگر صرف وہی یہ کرتے تو خدا گواہ ہے کہ مجھے بالکل تکلیف نہ ہوتی۔ یہ انکا حق ہے لیکن کوئ ایسا شخص کرے جو ابھی ابھی کاغذ کے ایک رقعے پہ ایک گھٹیا عاشقانہ خط پتھر میں لپیٹ کر پڑوس کے گھر کے چھجے پہ پھینک کر اسکا انتظار کر رہا ہو وہ بھی آپکا راستہ روک کر اسلام کے نام پہ ایک دقیانوسی سوچ کو انپی زبان ، ہاتھ، پاءووں اور ہتھیار سے بیان کرنے ہ آمادہ ہوتو مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ امید ہے آپکو بھی ہوتی ہوگی۔
جہاں تک ڈاکٹر مبارک علی کی بات ہے، میں نے اپنی ایک تحریر کے علاوہ کبہیں بھی انکی بات کو انکے مخالف سوچ رکھنے والے شخص کی رائے کے بغیر نہیں دیا۔ م یہ قاری کا حق ہے کہ اسے ہر دو باتیں پتہ ہوں اور وہ پھر اپنی رائے بنائے،
جہاں تک ڈاکٹر صفدر محمود کا تعلق ہے وہ ڈاکٹر مبارک علی کے مخالف انتہا پسند گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر ہندو ہر مسلمان کا ہمیشہ سے دشمن رہا بلکہ ہر غیر مسلم طاقت ہر مسلمان کی دشمن ہے۔ اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی پہلی آمد بر صغیر میں جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ انتہائ امن امان کی حالت میں ہوئ۔ اور برصغیر کا پہلا مسلمان کسی غازی یا صوفی کے ہاتھوں نہیں مسلمان تاجروں کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا۔
تو اگر آپ ذرا بھی کشادگی سے سوچیں تو نہ یہ ممکن ہے کہ دنیا غیر مسلموں سے پاک ہو جائے نہ ایسا ہوا کہ بر صغیر میں ہندو ہمیشہ مسلمانوں کے دشمن رہے۔ اگر تاریخ سے کچھ سیکھ کر مستقبل ککی راہیں سدھارنی ہیں تو واقعات جس طرح ہوئے انہیں انہی تناظر میں دیکھنا پڑےگا۔
اور ہاں یہ بات ڈاکٹر مبارک علی نے نہیں بلکہ شیخ محمد اکرام نے لکھی کہ اکبر کی عبادت گاہ نامی مبحثوں کی جگہ پر علماء بھی ان مباھثوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔
لیکن ہماری ٹیکسٹ بکس میں تو یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اکبر نے ایسی کوئ جگہ بھی بنائ تھی اور بیشتر دینی کتابیں وہ اگرچہ پڑھ نہیں سکتا تھا لیکن اس نے پڑھوا کر سنیں تھیں۔ ہماری ان ٹیکسٹ بکس میں صرف ہندو پنڈتوں کا تذکرہ ہوتا ہے یا پھر دین الہی کا۔ جبکہ شیخ محمد اکرام ایسا نہیں لکھتے۔ اب شیخ محمد اکرام کی تینوں کتابیں ضرور پڑھیں۔۔
Hi im aijaz aneeqa please contact me i also have lot of blogger and i would like to meet you. contact:aijaz_ali_khoso95@yahoo.com or aijazalikhoso95@gmail.com im pakistani. please contact with me plzzzzzzzzzz
ReplyDelete۔"جاوید گوندل صاحب، مجھے آپکی طرف سے خاصی فکرات لا حق ہو گئیں تھیں کہ آپ کہاں غائب ہو گئے، سب کچھ خیریت سے ہو آپکے ساتھ۔ آپکے تبصرے تو اب "کہیں نظر ہی نہیں آتے۔۔۔
ReplyDeleteبی بی!
آپکے خلوص کا ممنون ہوں کہ آپ کو میری خریت کی فکر لاحق ہوئی۔ اللہ آپ کو جزآئے خیر دے۔ اور خوش رکھے ۔آمین
جہاں تک میرے غائب ہونے کا تعلق ہے۔ اسکی وجہ بس وہی ہمیشہ کی عدم الفرصتی اور عدم فراغت ہے۔ کچھ عرصے سے ایک براجیکٹ پہ کام کر رہا ہوں۔ اور بزنس کے علاوہ بھی کئی ایک شغل پال رکھے ہیں۔ بس وقت ایک ایسی شئے ہے جسکی کمی کا شدت سے احساس رہتا ہے۔ ویسے تقریباََ سبھی قابل ذکر بلاگز کی سیر عموما کرتا ہوں۔
ایک دفعہ پھر آپکا شکریہ۔
میرے تو خیال میں شاہ صاحب کے لئے اس قوم میں کوئی خاص گنجائش نہیں ۔ مجھ بیچارے کو قائد کی زاتی زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ پتا تو نہيں مگر جب سے انکی اپنی ماں جائی کو اس قوم نے مادر ملت ( وہ بھی شائد کسی بہت ہی یوزلس نظریہ ضرورت کے تحت) کا خطاب دیا ہے، انکی روح تڑپ رہی ہو گی ۔ویسے اس بات کی کوئی اگر گہرائی میں جائے تو راجہ داہر اور اسکی قوم والی کہانیاں فلم کی طرح نگاہوں کے سامنے چلتی نظر آئیں گی ۔ سچی سچی بات ہے کہ مجھے اس تبصرے پر بڑا ہی افسوس رہے گا ۔
ReplyDeleteAniqa,
ReplyDeleteHappy Mother's Day
:)
عبداللہ،
ReplyDelete:)
شکریہ، میری بیٹی بھی حیران ہے کہ آج اماں، دادی اماں، نانی اماں سب کی برتھ ڈے ہے۔
ہیلو ہائے اے او اے، یہ آپ تبصرہ کرتے ہیں یا خودکلامی۔ مجھے نہیں معلوم آپ کو کس تبصرے پہ افسوس ہے۔ اسی والے پہ ہے تو کیوں ہے۔ اور یہ تبصرہ ایسا کیوں ہے۔ یہ میری پوسٹ پہ تبصرہ ہے یا اپنی سوچ پہ، علی ہذالقیاس۔
Mr Aijazz, how can you meet me :) I, myself get this chance very rarely :)
ReplyDeleteI could not understand what do you mean by having lots of bloggers.
Anyway, you can contact me at my email address given at home page of my blog. You are most welcome anytime.
ہم تو ٹھہرے بکواسی بہرحال آپ کے اریسٹوکریٹک سٹائل کو داد ضرور دینگے ۔ باقی کی بات آپ اور وکیپیڈیا کے درمیان ۔ ہمیں اجازت، اللہ نگہبان ۔ویسے واپسی کیلئے خواہ مخواہ نہ کہہ دیجیئگا ۔
ReplyDeleteشاہ صاحب کی کتابون کو دیوار پر دے مارو-- جزے اور ذمی کی جو بات ہے وہ نہایت ہی تشدد امیز ہے-- اب دیکھو مین ھندوستان مین رہتا ہون جہاں کے مسلم ابادی انڈونیشیا کے بعد ہے-- کیا ایسے احکامات لاگو ہوسکتے ہین-- یہ ایک درباری عالم تھے-- جہانگیر سے پرخاش تھی اور دور ھوگئی- اور دربار تک رسائی ھو گئی-- علماء جو مرگئے ہون یا زندہ ہون اپنے اطراف ایک پکی فصیل بنا رکھی ہے ایک دروازہ اجتہاد کھولا رکھا ہے-- بی بی عنیقہ اپ بہت اچھے دور مین ہو-- اپ کی دسترست مین کتابین ہین-- یہ اپ کی عمدہ تحریرین شاہ ولی اللہ دیکھتا تو بنا اجتہاد کادرواسہ کھولے اپ کو سزا دیتا-- یہ سارے علما کا درس / نصآب یون ھوتا تھا کہ ہو پڑی مسجیدو ں کے امام ہون، بیٹ المال سے تنخواہ ہو، محتسب کا عہدہ ملے-- کسی علاقے کا مفتی بنے حرام کی روتی کھائے-- اور تو اور بادشاہ کو معبد کا درجہ دے رکھا تھا--
ReplyDeleteقران کی اصل روح ایات محکمات ہین-- برصغیر کے علماء کلامی ہین-- اللہ نے سختی سے منع فرمایا ہے متشبہات پر بحث یا واعظ کرنے سے-- وقت ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کھولا جائے--
Shah Waliullah urged Muslim rulers to a jihad against the enemies of Islam and hoped to restore the Ulama's former power and influence.
ReplyDeleteAbdul Aziz is quite right.
http://en.wikipedia.org/wiki/Shah_Waliullah
آپ لکھتی بہت اچھا ہیں اور شائد ایسی بات پہلے بھی آپ سے کہی ہے ۔ لیکن اب سمجھ سے بالا تر ہے کہ اب اور کیا کہا جائے ۔ آپکی باتیں بہت ہی درست ہیں مگر جانتے بوجھتے مکھی کوئی نہیں نگلتا ۔ویسے اشاروں اور کافی حد تک سیدھے سادے اعتراضات کسی حد تک جائز ہی لگے باقی مرضی تو آپ کی اپنی ہے ہی ۔ ویسے پھپھے صاحبہ نے مان لیا کہ میری بالکل سیدھی سی بات کو سمجھنے میں بھی انہیں کافی گھنٹے لگے ۔ یقین نہ آئے تو پوچھ لیجئے گا ۔ ہائے ہائے تو اسوقت بھوپال صاحب کے پیچھے لگا ہوا ہے اور وہاں کافی حد تک سیدھی سیدھی باتیں چل رہی ہیں ۔ کہا سنا معاف کر دیجئے گا ۔
ReplyDeleteجاہل سنکی، آپ تو مجھے ہیلو ہائے کہ برادر خورد لگے۔
ReplyDeleteہیلو ہائے، کہیں یا نہ کہیں اللہ تو نگہبان رہتا ہی ہے۔ انکا بھی جو اس پہ یقین نہیں رکھتے۔ لیکن آپ کو اتنا کہنے کی نوبت کیوں آگئیں۔ یہ تو مجھے لگ رہا ہے کہ آپ تبصرے کرتے وقت فیس بک پہ چیٹنگ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
آپ شائد یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ تبصروں پر پرسنل ہونے کی بجائے میں موڈریشن بھی استعمال کرسکتی تھی لیکن میں خود سے بھی پرسنل ہونا پسند نہیں کرتی ۔شکریہ ۔
ReplyDeleteبکواسی ہونے میں تو اپنی مرضی تھی اور ساتھ ہی منافق کا تمغہ بھی مل گیا ۔چلیں قبول ہے کیونکہ کچھ زاتی مجبوریاں بھی اہمیت رکھتی ہیں ۔ لوجی اب آپ ہی ساری زندگی ثابت کرتی رہیں کہ آپ میں کم از کم منافقت نہیں ہے اور کوئی آپکو یہ الزام بھی نہ دے پائے ۔ ہماری طرح مجبوریوں کا سہارا مت لیجئیگا ۔ اب اللہ آپ کا بھی نگہبان ۔
ReplyDeleteجاہل اور سنکی،میں کچھ ایسا مشکل نہیں لہنا چاہ رہی ہون۔ سوائے اسکے کہ آپ دونوں کی حساسیت ملتی جلتی ہے۔
ReplyDeleteتقریباً ڈیڑھ سو پوسٹوں کے بعد ایسے معصوم بیانات پہ موڈریشن کیوں لگاءونگی بھئ۔ میرا کبھی بھی موڈریٹ کرنے کا موڈ نہیں ہوا۔ میں خود کو جو آزادی دے رہی ہوں اپنے مبصروں کو بھی دینا پسند کرونگی۔
آپ اس بلاگ پہ آتی یا آتے رہیں یہاں خاصے پرسنل ہونے والے تبصرہ نگار بھی ملیں گے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ میری طرف سے تو اس میں پسند ناپسند کا کوئ سوال نہیں۔ ورنہ تنصروں کا خانہ کیوں ہوتا۔ بس یہ مت پوچھیں کہ رات کو کس کروٹ پہ سوتی ہیں۔ ٹوتھ برش کس طرف سے کرنا شروع کرتی ہیں۔ کیونکہ انکے جوابات مجھے خود بحی نہیں پتہ۔
میں تو واقعی باہر ۔ اب ہائے ہائے مرد ہو یا کہ عورت آپ کے سائٹ کو ہی ہو مبارک ۔
ReplyDeleteنئے افکار خاصے مشکل ہيں سمجھنے ميں حصول تو انکا ميرے ليے تقريبا ناممکن ہے اور ترويج تو ميں پہلے ہی لکر رہی ہوں پرانے والے افکار کی اپنے بلاگ پر
ReplyDeleteعنيقہ ناز ہيلو ہائے اور اور اور اور سنکی پليز اردو ميں باتيں کيا کريں فارسی بلاگ الگ سے ہيں
ReplyDeleteاپنی حد تک تو میں حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ فارسی کے چند محاورے اور چند بہت سادہ سے جملوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ کافی عرصہ پہلے فارسی سیکھنے کے لئے فارسی بول چال کی ایک کتاب لی تھی مگر، تونے آتے ہی ختم کر ڈالے، آرزءووں کے سلسلے تھے بہت۔ اشارہ تو آپ سمجھ گئ ہونگیں۔
ReplyDeleteلیکن اک بات بتائیں ابھی میں پوچھوں کہ قومی ترانہ کس کس کو سمجھ میں آتا ہے تو ہاتھ اٹھانے والوں میں آپ بھی ہونگی۔ پھر میری اردو کو فارسی کا نام کیوں دیا۔
باقی یہ کہ جاہل سنکی تو میرے بلاگ کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ کر گئے یا گئیں۔ اب نام بدل کر آئیں تو اور بات ہے۔ ہیلو ہائے اپنی صفائ خود پیش کریں۔
اسماء، مجھے بھی لکھتے وقت خاصی کاہلی ہوتی ہے۔ مگر بس دو شخصیات کا تذکرہ اور باقی ہے ۔ پھر پرانے افکار پہ میں بھی آپکے ساتھ ہونگی۔
ReplyDeleteخوب گذرے گی جو مل بیٹھے گے دیوانے دو۔
ارے اسماء لکھنے دیں نا شائد کچھ کوئیں کے مینڈکوں کو باہر کی دنیا سمجھ میں آجائے،بشرطیکہ وہ ان تحریروں کو آنکھیں اور دماغ کھول کر پڑھیں،
ReplyDeleteویسے ایک بزبان خود عالم فاضل بزرگ بلاگر نے تو میری امیدوں پر پانی ہی پھیر دیا ہے!
http://www.theajmals.com/blog/2010/05/%d9%be%d8%b1%d9%88%d9%be%d9%8a%da%af%d9%86%da%88%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%84%d8%b7%d9%8a%d9%81%db%92/
کہتے ہیں تحریر شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے بس اس تحریر کو آپ انکا تعارف سمجھ لیں!
آج ایک بار پھر التتمش کے واقعے کو اپنے چہیتے نواب کالا باغ سے منسوب کر کے تاریخ زخمی کردیا ہے اوربڑے بڑے جھوٹوں کی روح کو شرمندہ !