Monday, May 31, 2010

تابکاری ایک مختصر تعارف-۱

تقریباً ڈیڑھ مہینے پہلے، انڈیا میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سال یعنی دو ہزار دس،  اپریل کے شروع میں نیلام میں ایک مشین بیچی جو انیس اسّی میں خریدی گئ تھی۔ لیکن کبھی استعمال نہیں ہوئ۔ خریدنے والے کباڑئیے کو مشین کے اندر سے دھاتی پینسلیں ملیں۔ ان پہ موجود حفاظتی تہہ کو جب رگڑ کر ہٹایا گیا تو اندر سے چمکدار دھات نکل آئ۔ اس دھات کی پر اسرار چمک سے راجندر کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئ قیمتی دھات ہے اور شاید اسکے پیسے بھی زیادہ ملیں۔ وہ اسے اپنی پتلون کی جیب میں ڈالے مختلف ممکنہ گاہکوں کے پاس لے کر گیا تاکہ اسکی صحیح قیمت حاصل کر سکے۔
چھبیس اپریل کو پینتیس سالہ  راجندر یادیو نے ایک ہسپتال میں پر اسرار علامتوں کے ساتھ زندگی کی جنگ ہار دی۔  وہ مر گیا۔ اسکے ساتھیوں میں سے کچھ اور لوگ بھی بیمار ہوئے، دوکان کے مالک دیپک جین کو انتہائ جلی ہوئ جلد کے ساتھ ہسپتال پہنچایا گیا۔ باقی لوگ بھی شدید زخمی تھے۔ معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں۔
یہ مشین آسیب زدہ نہ تھی، اور نہ ہی وہ دھات کسی مافوق الفطرت مخلوق کی ملکیت تھی۔ وہ دھات ایک تابکار عنصر کوبالٹ 60 کی تھی۔ یہ کوبالٹ کا ایک آئسو ٹوپ ہوتا ہے۔ اس میں سے نکلنے والی تابکاری  نے راجندر کو موت سے ہمکنار کیا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اپنے ساتھ موت کا آسیب لئے گھوم رہا ہے۔
یہاں سے ان ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ تابکاری کیا ہے، جو اس سے واقف نہیں ہیں۔

یہ تحریر، تابکاری کے متعلق ایک مختصر سا تعارف ہے۔
یہ تو آپکو معلوم ہی ہوگا کہ ہماری دنیا مختلف عناصر سے مل کر بنی ہے۔ عناصر وہ مرکب ہیں جو ایک ہی قسم کے ایٹموں سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ جیسے کاربن صرف ان ایٹموں سے ملکر بنا ہے جن میں الیکٹرون اور پروٹون دونوں چھ ہوتے ہیں، آکسیجن میں الیکٹرون اور پروٹون دونوں آٹھ ہوتے ہیں اور نائٹروجن ان ایٹموں سے جن میں الیکٹرون اور پروٹون دونوں سات ہوتے ہیں۔
ایٹم کسی عنصر کا بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ جو مختلف قسم کے ذرات سے مل کر بنا ہے۔ یہ ذرات بنیادی طور پہ تین طرح کے ہوتے ہیں الیکٹرون، پروٹّون اور نیوٹرون۔
ایٹم کےمرکز میں نیوٹرونز اور پروٹونز موجود ہوتے ہیں جبکہ مرکز کے اطراف میں الیکٹرونز ہوتے ہیں۔ الکیٹرونز کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ پروٹونز کی تعداد ہوتی ہے۔  نیوٹرونز کی تعداد پروٹّونز کے برابر بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی۔ ان سے کم بہر حال نہیں ہوتی۔ 
بعض اوقات الیکٹرون اور پروٹون تو تعداد میں ایک ہوتے ہیں لیکن نیوٹرونز کی تعداد اسی عنصر میں مختلف ایٹموں میں مختلف ہوتی ہے۔ انہیں اس عنصر کے آئسوٹوپ کہا جاتا ہے۔ جیسے کاربن میں ایک کاربن میں چھ نیوٹرونز ہوتے ہیں اور چھ پروٹونز اس طرح اسکا کمیتی وزن بارہ ہو جاتا ہے اور یہ کاربن 12 کہلاتا ہے۔ دوسرے میں نیوٹرونز آٹھ ہوتے ہیں اور پروٹونز وہی چھ ہوتے ہیں اس طرح اس ایٹم کا کمیتی وزن چودہ ہوجاتا ہے اور اسے کاربن14  کہتے ہیں یوں یہ دونوں کاربن کے آئسوٹوپس ہیں یہ بات تو سمجھ میں آگئ ہوگی کہ آئسوٹوپس کا ایٹمی نمبر ایک جیسا مگر ایٹمی کمیتی نمبر علیحدہ ہوتا ہے۔ الیکٹرونز پہ منفی، پروٹونز پہ مثبت چارج ہوتا ہے۔ اور نیوٹرونز پہ کوئ چارج نہیں ہوتا۔


 چھوٹے سے مرکزے میں جیسے جیسے پروٹونز کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔  پروٹونز کے اوپر مثبت چارج ہونے کی وجہ سے ایک جیسے چارج رکھنے والے ذرات ایکدوسرے سے بے حد قریب ہوجاتے ہیں اور  ایک دوسرے کو دفع  کرتے ہیں۔ اس حالت میں نیوٹرونز کی موجودگی کی وجہ سے ایک اور قوت جنم لیتی ہے جو دفع کرنے والی قوت کے اثر کو زائل کرتی ہے اوران سب کو جوڑے رکھتی ہے۔ زیادہ ایٹمی نمبر کے عناصر میں نیوٹرونز کی تعداد پروٹونز سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اس طرح وہ مرکز کو مستحکم رکھنے میں سرگرمی سے حصہ لینے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کوششیں بھی ایک خاص تعداد سے آگے کامیاب نہیں ہو پاتیں۔  مرکزے میں دفع کی قوتیں زیادہ ہوتی ہیں، اس سے مرکزے کی توانائ زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ غیر مستحکم ہوجاتا ہے۔






5 comments:

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    سسٹرعنیقہ، بہت علمی موضوع شروع کیاہےآپ نےبہت اجھاایسے موضوع پرکم ہی لکھاجاتاہےآپ نےبہت اچھےطریقہ سےبتایایہ تابکاری کےمتعلق

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  2. آپ اردو بلاگ لکھتی ہیں ربط انگریزی اخبار کا دیتی ہیں سارا موڈ خراب ہو جاتا ہے ۔
    ویسے آپ کا اپنا بلاگ ہے جو چاہے کریں۔

    ReplyDelete
  3. شکریہ جاوید اقبال صاحب۔
    شاہد صاحب، اردو میں ان چیزوں کے بارے میں کچھ لکھا گیا ہو تو اور کوئ ربط ہو تو آپکو دیا جائے۔ لامحالہ انگریزی کا ہی ربط دینا پڑتا ہے۔

    ReplyDelete
  4. بہت ہی عمدہ ارٹیکل ہے-- دوسری بات یہ ہے کہ اپ اپنے پوشٹ کو کم الفاظ مین لکھتے ہو-- رہی بات شاھد کی بھائی اردو مین صرف غزل کےکیا ہے-- ایک مردہ زبان ہے-- کم ماءگی اتنے ہے کہ صرف فتوون اور پمفلٹ (نفرت امیز) کے لئے ہی کافی ہے --

    ReplyDelete
  5. بہت زبردست تحاریر ہیں تینوں۔ سائنس کے موضوعات پر لکھنا بہت ضروری ہے۔ اردو وکیپیڈیا پر یہ کام سمرقندی صاحب نے سنبھالا ہوا اور ماشآ اللہ گزشتہ پانچ سالوں سے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔
    اس موضوع پر لکھنے پر آپ کا بیحد شکریہ

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ