دل خوشامد سے ہر ایک کا راضی ہے
آدمی جن و پری بھوت بلا راضی ہے
بھائ فرزند بھی خوش باپ چچا راضی ہے
شاہ مسرور غنی شاد گدا راضی ہے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
اپنا مطلب ہو تو مطلب کی خوشامد کیجئیے
اور نہ ہو کام تو اس ڈھب کی خوشامد کجیئیے
انبیاء اولیا اور رب کی خوشامد کیجئیے
اپنے مقدور غرض سبکی خوشامد کیجئیے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
چار دن جسکو خوشامد سے کیا جھک کے سلام
وہ بھی خوش ہو گیا اپنا بھی ہوا کام میں کام
بڑے عاقل بڑے دانا نے نکالا ہے یہ دام
خوب دیکھا تو خوشامد ہی کی آمد ہے تمام
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
مفلس ادنی و غنی کی بھی خوشامد کیجئِے
یا بخیل اور سخی کی بھی کوشامد کیجیئے
اور جو شیطاں ہو تو اسکی بھی خوشامد کیجیئے
گر ولی ہو تو ولی کی بھی خوشامد کیجیئے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
پینے اور پہننے کھانے کی خوشامد کیجیئے
ہیجڑے بھانڈ زنانے کی خوشامد کیجیئے
مست و ہشیار و دوانے کی خوشامد کیجیئے
بھولے نادان سیانے کی خوشامد کیجیئے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
خوب دیکھا تو خوشامد کی بڑی کھِتی ہے
غیر کیا اپنے ہی گھر بیچ یہ سکھ دیتی ہے
ماں خوشامد کے سبب چھاتی لگا سیتی ہے
نانی دادی بھ خوشامد سے بلا لیتی ہے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
بی بی کہتی ہے میاں آ ترےصدقے جاءوں
ساس بولے کہیں مت جا ترے صدقے جاءوں
خالہ کہتی ہے کہ کچھ کھا ترے صدقے جاءوں
سالی کہتی ہے بھیّا ترے صدقے جاءوں
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
آپڑا ہے جو خوشامد سے سروکار اسے
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں الفت کے خریدار اسے
آشنا ملتے ہیں اور چاہتے ہیں سب یار اسے
اپنے بیگانے غرض کرتے ہیں سب پیار اسے
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
جو کہ کرتے ہیں خوشامد وہ بڑے انساں
جو نہیں کرتے وہ رہتے ہیں ہمیشہ حیراں
ہاتھ آتے ہیں خوشامد سے ہزاروں ساماں
جس نے یہ بات نکالی ہے میں اسکے قرباں
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
ہم نے ہر دل میں خوشامد کی محبت دیکھی
پیار اخلاص و کرم مہر ومحبت دیکھی
دل بروں میں بھی خوشامد ہی کی الفت دیکھی
عاشقوں میں بھی خوشامد ہی کی چاہت دیکھی
جو خوشامد کرے خلق اس سے سدا راضی ہے
سچ تو یہ ہے کہ خوشامد سے خدا راضی ہے
اس نظم کے خالق نظیر اکبر آبادی ہیں۔
حوالہ جات؛
کلیات نظیر، مولانا عبدالباری صاحب آسی نے مرتب و مدون کیا، پبلشر، مکتبہ ء شعر و ادب لاہور۔
اگر شاعر صاحب کی ایکسپلیسٹنس کو داد نہیں دی جائے تو ذیادتی ہوگی ۔ ایسی باتیں ہومر (ایچ۔او۔ایم۔ای۔آر) کے دور سے بھی کافی پہلے سے اب تک کافی لوگوں نے کہی ہیں ۔ویسے فرق صرف انداز بیان اور لوکلائیزیشن کا ہے اور بات وہی اقبال صاحب کی "مکڑا اور مکھی" والی ۔
ReplyDeleteڈھونڈنے اور سمجھنے کی بات ہے ورنہ عصمت چغتائی صاحبہ نے بھی ایساکچھ ضرور کہا ہوگا ۔ مزید ذیادتی ایسا کہنے میں ہو گی کہ بانو صاحبہ نے ایسی باتیں کہی نہ ہوں ۔
ReplyDelete:)
ReplyDeletewell done Aniqa!
;)
بڑی مزیدار سیریز چل رہی ہے
ReplyDeleteتیسری قسط کا انتظار ہے
:)
ڈفر، آپکو مایوسی ہوگی یہ ختم ہوگئ۔
ReplyDeleteاب اس پہ میں خود ہی کچھ تحریر کروں تو کروں۔ لیکن ابھ نہیں۔ ابھی تجربات کر کے لکھونگی۔
ہیلو ہائے،
:)
عصمت چغتائ کا ایسا کوئ مقولہ نظر سے گذرا نہیں۔
ویسے یہ آپ کرتے کیا ہیں۔ مجھے آپکے مضمون میں دلچسپی ہو رہی ہے۔
واہ نظم واقعی بہت اچھی ہے اور اس بات کی متقاضی ہے کہ میں اپنی پچھلی رائے میں کچھ نظرِ ثانی کروں،کچھ نرمی اختیار کروں ۔ ویسے بھی فطرتاً مجھ پر نظم نثر سے کہیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
ReplyDeleteشکریہ اس خوبصورت نظم کا۔
ميرے بارے ميں نظم کہاں سے ملی آپکو
ReplyDelete