آج میں خالص سائنیس پہ ایک تجرباتی تحریر اردو میں لکھ رہی ہوں۔
کاربن پیریاڈک ٹیبل پہ چھٹے نمبر کا عنصر ہے۔ زیادہ تر لوگ اسکی دو بہروپی اشکال سے واقف ہیں۔ اور وہ ہیں گریفائیٹ اور ڈائمنڈ۔ بہروپی اشکال کسی عنصر کی ایسی اشکال ہوتی ہیں جو ایک ہی عنصر کے ایٹموں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن ان ایٹموں کا ایکدوسرے سے جڑنے کا انداز یا ترتیب مختلف ہوتی ہے۔ یوں مختلف مالیکیول وجود میں آتے ہیں۔
یہ گریفائٹ میں کاربن کے ایٹموں کی ترتیب ہے۔ ہر کونا ایک کاربن ایٹم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح سے ہمیں ان دونوں تصویروں میں تین تہیں نظر آرہی ہیں جو وضاحت کے لئے بنائ گئ ہیں۔ یہ تہیں اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے گریفائٹ گریس جیسے خواص رکھتا ہے۔یہ اوپر والی ساختیں گریفائٹ مالیکیول کی ہیں۔
یہ دونوں اشکال ہیرے کے اندر کاربن کے ایٹموں کی ترتیب ظاہر کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کاربن ایٹم ہر تہہ کے بعد بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ ایکدوسرے سے مضبوط سنگل کو ویلنٹ بانڈ سے جڑے ہیں اس لئے ہیرا بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اور امیر شہر اس سے خود کشی کر سکتا ہے۔
بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ کاربن کی ایک تیسری بہروپی شکل بھی ہے جسے فلیرین کہتے ہیں۔ اس گروپ کا پہلا ممبر انیس سو چھیاسی میں دریافت ہوا۔ یہ دریافت محض ایک اتفاق تھا۔ سائنسدان ستاروں کے بننے کے عمل کا راز جاننا چاہ رہے تھے۔ اسکے لئے انہوں نے گریفائٹ کو ایک ایسی مشین کے اندر اونچے درجہ ء حرارت سے گذارا، جسے ہیلیئم گیس سے ایک خاص دباءو تک بھر دیا تھا۔ یعنی ہوا کھینچ کر باہر کر دی گئ تھی۔
اسکے نتیجے میں جو آمیزہ حاصل ہوا۔ اسکا تجزیہ کرنے پہ ایک ایسا مالیکیول سامنے آیا جس میں کاربن کے ساٹھ یعنی 60 ایٹم موجود تھے۔ مزید تجزیاتی رپورٹس کو سامنے رکھ کر اسکی ساخت بنانے کا مرحلہ جب آیا تو بڑی سوچ وبچار کے بعد یہ طے کیا گیا کہ یہ ایک گول فٹبال کے گیند کی شکل کا مالیکیول ہونا چاہئیے۔
بعد میں مالیکیول کی اس ساخت کا نام امریکن انجینئیر بک منسٹر فلّر کے نام پہ رکھ دیا گیا کیونکہ موصوف نے مونٹریال، کینیڈا میں موجود ایک عمارت کا گنبد جس ڈیزائن پہ بنایا تھآ وہ اس مالیکیول کی ساخت جیسا تھا۔ یوں یہ مالیکیول فلیرین کہلایا۔ اب اگر آپ مونٹریال میں ہیں یا وہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس عمارت کو ضرور دیکھئیے گا۔ باقی لوگ اگر صرف اس وجہ سے کینیڈا جانا چاہتے ہیں تو ویزا فارم پہ ظاہر کریں اور خوبی ء تقدیر کا انتظار کریں۔ نیچے آپکو اس عمارت کی تصویر نظر آرہی ہے۔
بعد ازاں ان سائنسدانوں کے مزید تجسس اور بے قراری کی وجہ سےاسی آمیزے سے مزید اسی طرح کے مالیکیولز نکالے گئے۔ اس لئے بات یہ بنی کہ باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں، کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر۔ یہ مزید مالیکیولز کاربن کی تعداد مختلف رکھتے تھے۔ جیسے ایک مالیکیول میں کاربن ستر اور دوسرے میں چوراسی تھے۔ حتی کہ یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی۔ یوں ان مالیکیولز نے ملکر فلیرین خاندان ترتیب دیا۔
بعد ازاں ان سائنسدانوں کے مزید تجسس اور بے قراری کی وجہ سےاسی آمیزے سے مزید اسی طرح کے مالیکیولز نکالے گئے۔ اس لئے بات یہ بنی کہ باغ بہشت سے مجھے اذن سفر دیا تھا کیوں، کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر۔ یہ مزید مالیکیولز کاربن کی تعداد مختلف رکھتے تھے۔ جیسے ایک مالیکیول میں کاربن ستر اور دوسرے میں چوراسی تھے۔ حتی کہ یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی۔ یوں ان مالیکیولز نے ملکر فلیرین خاندان ترتیب دیا۔
یہ خاندان کیمیاء میں نئ دریافتوں کا خاندان بن گیا کیونکہ انکی وجہ سے نئے کیمیائ تعاملات نے جنم لیا۔ کچھ تعاملات انکی کروی سطح کے اوپر ہوئے، کچھ میں انکے اندر والی خلاء کو استعمال کیا گیا، کچھ میں انکی گولائ کو کہیں سے توڑ دیا گیا۔ محض چھ سال میں اس خاندان سے ایک ہزار سے زائد کیمیائ مرکبات تیار کئے گئے۔ اور اس طرح انیس سو چھیانوے کا کیمیاء کا نوبل پرائز فلیرین دریافت کرنے والوں کے حصے میں آیا۔
اسی خاندان نے آگے چل کر نینو ٹیوبز فراہم کئے اور یوں نینو ٹیکنالوجی وجود میں آگئ۔ نینو ٹیوبز بھی خالص کاربن سے بنے ہوتے ہیں۔ اور انہیں بعض اوقات بکی ٹیوبز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تو اب آپ جان گئے ہوگے کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ یہ رہی ان نینو ٹیوبز کی مالیکیولر تصویر۔
بہت عمدہ تحریر ہے. لطف آ گیا پڑھ کر. مجھے بھی بس اتنی ہی معلومات تھی جتنی مکمل بیزاری سے پڑھنے والے کیمسٹری کے متعلم کو ہو سکتی ہے.
ReplyDeleteبہت خوب!!معلوماتی تحریر کا بہت بہت شکریہ
ReplyDeleteI have visited your blog You are doing such a good job for your readers and I found here very good and informative stuff........well done ..... for beauty guide you can visit my blog. http://buttips.blogspot.com
ReplyDeleteبہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے-- کسطرح عام ادمی کےلئے کیمیا کو پڑھبے کے قابل کیا!! پیراڈیکل تیبلس یاد ا گئے شاید گابل کا تیبل مستند ہوا-- تیسری کاربن کی دریاف ہوئی یہ کہان سے معلوم ہوتا؟ ھندؤوں ایک بات بہت اچھی ہے-- سال مین کم از کم اپکے چھے بار اپبکے پیر چھوٰنگے-- گرو کا درجہ بھگوان سے کے برابر-- کیا کرین اپ کا علم عصری ہے -- ھم اپکو اتنا درجہ نہی دے سکےتے-- با ت اختصار سے "ھیرے پر زکواہ نہی یہ شریعت مہں ہے "
ReplyDeleteابن سعید اور یاسر صاحبان ، شکریہ آ پکا۔ بس محنت وصول ہو گئ کہ آپ کو دلچسپ لگا۔
ReplyDeleteمس شگفتہ میں نے آپکے بلاگ کا سر دست ایک تعارفی چکر لگایا اور گلاب پہ سیر حاصل معلومات حاصل کیں۔ آپکی آمد کا شکریہ۔
زین صاحب، مجھے اس بات سے خوشی ہوتی ہے کہ انڈیا میں جہاں اردو زبان کا فروغ ہوا، اب یہ ختم ہو رہی ہے وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں بلاگنگ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ادھر، دوسرا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ پاکستانی مسلمان اپنے تئیں جو کچھ فرض کر کے بیٹھے ہیںاسکے بارے میں آپ لوگوں سے بھی معلومات ہوتی ہیں۔ اس طرح دو ممالک میں رہنے والوں کے درمیان یہ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے
اچھی تحریر ہے ۔ لگے ہاتھوں یہ بھی ذکر کر دیتیں کہ نہنو ٹیکنالوجی مستقبل میں کیا کیا چمتکار دکھانے والی ہے , دنیا کی دس ایمرجنگ ٹیکنالوجینز میں شامل ہے اور جو ان ٹیکنالوجیز کا ماہر ہو گا راج کرے گا تو شایدبہت سوں کی آنکھیں کھل جاتیں
ReplyDeleteعنیقہ صاحبہ بہت عمدہ لکھا ہے کاش انٹر کی کیمیسٹری بھی اتنی دلچسپ ہوتی:)
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب نے بڑا ہی اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔۔ ابھی اگلے روز ہی خیالی اڑن طشتری بنانے والے سائنس دان اس کے بچاؤ کے لیے کاربن نینو فائبر کی بنی چارد سے حفاظتی دیوار کی بات کررہے تھے۔ اگر آپ اس بارے میں اسی طرح کی آسان اردو میں کچھ لکھ سکیں تو کیا اچھی بات ہو۔
زبردست۔ آپ کے بلاگ پر موجود جتنی تحریریں میں نے پڑھی ہیں مجھے سب سے زیادہ یہ تحریر پسند آئی۔ وجہ شاید ماضی میں کیمسٹری میرا پسندیدہ مضمون تھا۔
ReplyDeleteکبھی کبھی اس طرح کیمسٹری پر تحریریں لکھ دیا کریں۔
معلوماتی تحریر کیلیے بہت شکریہ۔
نہایت عمدہ ۔ ریفرنسس تو ہیں مگر ریفرنس سیکشن نہیں۔
ReplyDeleteہمارے ہاں معلومات کتنی دير سے پہنچتی ہيں سن چھياسی ميں دريافت ہوئی کاربن کی تيسری فارم دو ہزار چار تک ميں نے کورس کی کسی کتاب ميں نہيں پڑھی تھی حالانکہ يہ ہيرے کی طرح قيمتی نہيں ثابت ہوئی پھر بھی اسے جانے کيوں چھپايا گيا
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب اور راشد کامران صاحب، شکریہ آپکا۔ چلیں یہ چیز نوٹ کر لی ہے۔ وقت ملنے پہ اس پہ بھی کچھ لکھتے ہیں۔
ReplyDeleteہیلو ہائے اے او اے، یہ ریفرنس والی بات ایکطرف، یہ بتائے آپ کو اسلام آباد کے قریب بھونچال کا مرکز بنانے کی ضرورت کیوں پیش آگئ۔ میجھے تو بڑآ تجسس ہو رہا ہے کہ آپ نے یہ کیا کیسے۔ دارلخلافہ کے قریب اور وہ بھی ایچ ای سی کا کنکشن استعمال کر کے۔ میں تو آپ سے متائثر ہو چلی ہوں۔
اسماء، اب یا تو ہم ستاروں پہ رہتے ہیں یا وہ۔ سنا ہے کہ ستاروں سے یہاں روشنی پہنچنے میں بڑآ وقت لگتا ہے بعض اوقات ہم مرے ہوئے ستاروں کی روشنی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ویسے قیمتی یہ ہیرے کی طرح ثابت ہوئ، یہ تو جنہیں نوبل انعام ملا ان سے پوچھیں۔ کتنا مال بنایا؟
سعد، آپ کو اس لئے زبردست لگ رہا ہے کہ کچھ چیزیں آپکے لئے بالکل نئ ہونگیں۔ اس میں میرا کوئ کمال نہیں، یہ تو میں نے بس مناسب طریقے سے لکھ ڈالا ہے۔
زبردست تو اپنا تخلیقی کام لگتا
یقینا آپ کا بھی دل دکھایا ہوگا اور شائد متعدد بار بھی ۔ آپ اپنے ویب سائٹ کا لاگ دیکھ لیں آپنا آئی پی چینج ہوا نہیں ملے گا ۔ بڑی مشکل کے ایک شعر بنا کر بھیجا تھا مگر ڈیلیٹ کردیا گیا ۔ اسی کو عرض کیا ہے :
ReplyDeleteویسے انکار بھی کہاں کے آپ سے جلن نہیں مگر ایسا ظالم شعر ہمارے بس کا نہیں ۔
ایک صرف ہم ہی آپکے دوست خاص نہیں اور بھی ہونگے جن کا آپ نے دل دکھایا ہوگا ۔
ویسے ہمیں پتا ہے کہ ملا سے اسکی مسیت میں لڑائی وہ بھی اسکے پیچھے نمازیں پڑھنے والوں کی موجودگی میں بلا سود ہے ۔
نہیں میرا دل ایسی باتوں پہ نہیں دکھتا۔ میں جانتی ہوں جو کچھ کے میرے اطراف میں ہے۔ دکھ صرف اسی چیز سے ہوتا ہے جو خلاف توقع ہو اور جسکا آپکو اندازہ نہ ہو اور جو بہت برا ہو۔ البتہ ذہین ، حاضر جواب، اور شرارتی لوگوں کے قدر دانوں میں سے ہوں۔
ReplyDeleteالسلام علیکم آنٹی۔ میری درخواست کو اہمیت دینے کا بہت بہت شکریہ۔ :)
ReplyDeleteاب میری اگلی فرمائش یہ ہے کہ کبھی کبھار کوئی تحریر ماہنامہ گلوبل سائنس میں بھی بھیج دیا کریں۔ اگر آپ نے اس کا نام نہ سنا ہو (جس کا امکان کم نظر آتا ہے) تو اس کی سادہ سی ویب سائٹ دیکھ لیں۔
http://www.globalscience.com.pk
تحریر پڑھ کر لطف آیا۔۔۔ ایسے موضوعات اتنے دلچسپ انداز میں کم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اگر اساتذہ اپنے طریقۂ تدریس کو اس انداز میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو طلبہ خاصی مشقت اور اذیت سے نجات پائیں۔ جامعہ کراچی میں ہمارے ایک استاد نے اس سمسٹر میں آرگنائزیشن، منیجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن جیسے موضوعات کچھ ایسے دلچسپ انداز سے پڑھائے کہ لیکچرز کا مزا آگیا۔
ReplyDeleteعمار، جب کبھی آپ اپنے بلاگ پہ جامعہ کراچی کا تذکرہ کرتے ہیں تو مجھے بھی لطف آجاتا ہے۔ اور یونیورسٹی کے در ودیوار اور کشادگی میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ آپ بھی ایسا کیوں نہیں کرت کہ ان پسندیدہ لیکچرز میں جو جو باتیں آپکو پسند آئ ہیں انہیں اپنے بلاگ پہ جگہ دیں۔ تاکہ اگر کبھی کوئ کامیاب استاد بننے کی کوشش کرنے والا ان پہ سے چذرے تو اسے پتہ چلے کہ اسٹوڈنٹ کیا چاہتے ہیں۔ شکریہ۔
ReplyDeleteتصحیح کر لیں، ان پہ سے گذرے۔
ReplyDelete:)
جی، اکثر لیکچرز کے دوران ایسی باتیں ہوتی ہیں جن پر لکھنے کو میرا دل چاہتا ہے لیکن پھر جونہی اس ماحول سے باہر نکلتا ہوں، دوسرے جھنجھٹ اتنا گھیر لیتے ہیں کہ پھر طبیعت اس بات کو لکھنے کی طرف مائل ہی نہیں رہتی۔ بلاگ پر جامعہ کے حوالے سے آخری تحریر ’’قصہ نصاب کے تین حصوں، سمسٹر کے تین مہینوں اور آخر کے تین دنوں کا‘‘ ایک ایسی تحریر ہے جسے لکھنے میں بہت عرصے بعد لطف آیا۔ بہرحال، میری کوشش ہوگی کہ لیکچرز میں شامل مفید نکات پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔
ReplyDeleteبہت خوب تحریر ہے، اردو میں سائنسی مواد بہت کم دستیاب ہے، اور جو تھوڑا بہت انٹرنیٹ پر دستیاب ہے وہ اردو ویکیپیڈیا پر منظم انداز میں موجود ہے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اردو ویکیپیڈیا پر موجود کیمیاء کے مضامین کی نوک پلک سنواریں یا پھر نئے مضامین کا اضافہ کر سکیں؟
ReplyDeleteعمر احمد بنگش، آپکی خواہش پہ میں ضرور ان سائینسی مضآمین کو دیکھونگی۔ لیکن ایک لمبے عرصے تک سائینس انگریزی میں پڑھنے کی وجہ سے میری سائینسی اردو بس یونہی سی ہے۔ اس لئے میں ویکیپیڈیا کے لئے لکھنے سے گریز کرتی ہوں۔
ReplyDeleteجی بہت شکریہ۔ سائنسی اردو کا رونا میں بھی رو رہا ہوں۔ دل میرا بھی چاہتا ہے کہ ویٹرنری سائنس کا منصوبہ اردو میں بھی شروع ہو سکے لیکن بات وہی ہے کہ اردو اصطلاحات سے ناواقف ہوں۔۔۔۔
ReplyDeleteخیر، آپ ضرور وہاں کیمیاء کے مضامین کو دیکھیے، کل یہاں سے سیدھا وہاں کیمیاء کے زمرے پر گیا تھا۔ واقعی بہت مشکل اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ لیکن یہ اس وقت کے مضامین ہیں جب ویکیپیڈیا پر اردو اصطلاحات بارے کافی سختی تھی، اب صورتحال قدرے بہتر ہے، یعنی آسان اردو کا استعمال اب عام ہے۔
شکریہ