نظیر اکبر آبادی، اردو شاعری میں عوامی شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ اتنے عوامی ہیں کہ انکی کلیات مرتب کرنے والے مولانا صاحب کو اس میں کئ اشعار میں خالی جگہ یا ڈیش ڈیش لکھنا پڑا۔ خیر یہ زمانہء قدیم کے مولانا صاحب تھے کیونکہ اسکا پہلا ایڈیشن انیس سو اکیاون کا ہے۔ اس بیان کے بعد امید ہے کہ انکی کلیات کو 'کچھ نوجوانوں' میں خاصی پذیرائ ملے گی۔
لیکن نظیر اکبر آبادی کی شاعری کی اہمیت جو مجھے نظر آتی ہے وہ الفاظ کا بے پناہ استعمال ہے۔ایسی ایسی ردیفیں اور قافئیے استعمال کئے گئے ہیں کہ ان کی زبان دانی پہ رشک آتا ہے۔ اس طرح بیت بازی سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس میں اپنے حریف کو چت کرنے کے لئے کافی اشعار مل جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ ساتھ ہی ساتھ موضوعات کا تنوع بھی بھرپور ہے۔ عام زندگی کے بے پناہ موضوعات کا احاطہ انہوں نے کیا ہے۔
انکی اس کلیات سے منتخب اشعار پھر کبھی سہی۔ آج موسم کی مناسبت سے انکی ایک نظم ملی۔ اسکا نام ہے تربوز۔ تربوز کا یہ احسان ہی کم نہیں ہے کہ جب تک گرمیوں کی سوغات آم نہیں آجاتے یہ اپنے گلابی رس سے ہمارا دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔
آئیے پڑھتے ہیں، نظم 'تربوز' کے چند بند۔
کیوں نہ ہو سبز زمرد کے برابر تربوز
کرتا ہے خشک کلیجے کے تئیںتر تربوز
دل کی گرمی کو نکالے ہے یہ اکثر تربوز
جس طرف دیکھئیے بہتر سے ہے بہتر تربوز
اب تو بازار میں بکتے ہیں سراسر تربوز
مجھ سے کل یار نے منگوایا جو دے کر پیسہ
اس میں ٹاکی جو لگائ تو کچّا نکلا
دیکھ تیوری کو چڑھا ہو کے غضب طیش میں آ
کچھ نہ بن آیا تو پھر گھور کے یہ کہنا لگا
کیوں بے لایا ہے اٹھا کر یہ مرا سر تربوز
جب کہا میں نے میاں یہ تو نہیں ہے کچا
اور کچّا ہے تو میں پیٹ میں بیٹھا تو نہ تھا
اسکے سنتے ہی غضب ہو کے وہ لال انگارا
لاٹھی پاٹی جو نہ پائ تو پھر آخر جھنجھلا
کھینچ مارا مرے سینے پہ اٹھا کر تربوز
پیار سے جب ہے وہ تربوز کبھی منگواتا
چھلکا اسکا مجھے ٹوپی کی طرح دے ہے پہنا
اور یہ کہتا ہے کہ پھینکا تو چکھاءوں گا مزہ
کیا کہوں یارو میں اس شوخ کے ڈر کا مارا
دو دو دن رکھے ہوئے پھرتا ہوں سر پہ تربوز
حوالہ جات؛
کلیات نظیر، مولانا عبدالباری صاحب آسی نے مرتب و مدون کیا، پبلشر، مکتبہ ء شعر و ادب لاہور۔
بظیر اکبرابادی عوامی شاعر تھے-- کسی تذکر نگاروں نے انکا زکر نہی کیا- میلون، تہوارون کا خوب ذکر کیا ھے
ReplyDeleteجی ہاں زین صاحب ، نظیر اکبر آبادی کو تنقید نگار اہمیت نہیں دیتے تھے کہ عوامی شاعری کرتے ہیں۔ لیکن قدرت کے بارے میں انہوں نے اتنا کچھ لکھا کہ اب انہیں اردو شاعری کا ویلیئم ورڈز ورتھ کہا جانے لگا۔
ReplyDeleteبڑوں کو کہتے سنا ہے کہ کسی کی مانو اس وقت جب تلک خود سے پرکھ نہ لو ۔ شاعروں اور ادیبوں کے مزاج تو یوں بھی ایکنامکس اور کئی دوسرے فیکٹرز کے تحت تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ کسی حد تک آپ کی باتوں کے درست ہونے کے امکانات تو ہیں مگر چونکہ آپنے پوری نظم بھی پوسٹ نہیں کی اسلئے محترم شاعر کی انسٹنٹینیس آبجیکٹیویٹی کا اندازہ لگانا بھی مشکل کام ہے ۔
ReplyDeleteپوسٹ برائے تربوز کا بہت شکریہ ، کیا خوب انداز ہے کہ
ReplyDeleteکیا کہوں یارو میں اس شوخ کے ڈر کا مارا
دو دو دن رکھے ہوئے پھرتا ہوں سر پہ تربوز
واہ واہ
ہیلو ہائے، یہ آپ سبجیکٹیوٹی سے نکلتے ہیں تو اوبجیکٹیویٹی میں چلے جاتے ہیں۔ اے فلسفی، عوامی آدمی فلسفی نہیں ہوتا۔ یہ اعزاز صرف اقبال کے حصے میں آیا تھا۔
ReplyDeleteپوری نظم اتنی لمبی ہے کہ آپ اسے پڑھنے کے بجائے تربوز پہننا پسند کرتے ۔
عدنان مسعود، نظیر اکبر آبادی کی طرف سے میں شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اس سلسلے میں انکی فنی خرابی تو آپکے علم میں ہوگی
ReplyDeleteہلو ہائے، تصحیح کر لیں، عوامی شاعر فلسفی نہیں ہوتا۔
ReplyDeleteاتنی گرماگرمی کے بعد آپکو تربوز کی خوب سوجھی!
ReplyDelete:)
نظیر اکبر آبادی کی پہلی نظم جو اپنے بچپن میں پڑھی وہ آدمی نامہ تھی بس جب سے اج تک ان کے سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں رہی گالیوں کی بات تو شائد حد سے زیادہ حساس آدمی تھوڑا کوڑا ہوجاتا ہے!
ہماری اوقات کہاں کہ فلاسفر کہلوانے کے لائق ہوتے ۔
ReplyDeleteآبجیکیٹیو کہتے کہتے آپ بھی بلا دماغ کہہ ہی گئے ۔