خوشامد کسے اچھی نہیں لگتی۔ لیکن اگر کسی کو خوشامدی کہہ دیا جائے تو یہ بڑی غیر اخلاقی بات ہوتی ہے۔ اس طرح سے لگتا ہے کہ خوشامد ایک برا پہلو ہے انسانی ذات کا۔
وارث میر اپنی کتاب 'حریت فکر کے مجاہد' میں پاکستانی معاشرے کی تنزلی کے دو اسباب گنواتے ہیں ایک جھوٹ اور دوسرا خوشامد۔ انکے اس مضمون میں سے لئیے گئے کچھ اہم نکات پہ آگے کی تحریر ہے۔
علامہ اقبال اپنی نوٹ میں خوشامد کو ایک مبالغہ آمیز خوش خلقی کا نام دیتے ہیں سر سید نے بھی اپنے مضامین میں اسکی مذمت کی ہے۔لیکن جدید تشریحات اسے ایک قابل قبول عنصر بناتی ہیں۔
ہمارے ایک ادیب اظہر ادیب نے اس پہ انشائیہ لکھا۔ اسکا نام ہے در مدح خوشامد۔ بقول وارث میراس سے نہ اتفاق کرنے کو جی مانتا ہے اور نہ اختلاف کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔
خوشامد وہ لوری ہے جو انسان کے وحشی پن کو سلا دیتی ہے اور صبح کی پہلی کرن بن کر معصومیت کے گلابی گالوں کو چھوتی ہے اور اسے بیدار کرتی ہے۔ خوشاد کرنے والا شاید ہی کسی جابر آدمی سے زک اٹھاتا ہووہ ہر آن انسان کومہذب ہونے کا درس دیتا ہے۔ خوشامد کرنے والے کو اپنی جھوٹی انا سے زیادہ اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہوتا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے کھلاڑی کی طرح خود کو کیموفلاج کئے رہتا ہے اور اپنی حکمت عملی سے نہ صرف خلق خدا کو فساد سے بچائے رکھتا ہے بلکہ خود بھی تلوار اٹھائے بغیر اپنی جگہ محفوظ رہتا ہے۔اور کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھتا۔
لیکن یہ صلاحیت ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے حصے میں نہیں آتی اسکے لئے بھی فہم و دانش درکار ہوتی ہے۔ خوشامد کرنے والے کا قیافہ شناس اور ماہر نفسیات ہونا ضروری ہے۔ انسانی چہرے کی تحریر پڑھنے والا ہی اس اعلی مقام تک پہنچنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اس لئے اس مقام کو حاصل کرنے والے سے لوگ حسد کرنے لگتے ہیں۔ اور اس قابل تعظیم شخص کو خوشامدی کا نام دے دیتے ہیں۔
مجھے ہمیشہ ان لوگوں سے چڑ رہی ہے جو کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی خوشامد نہیں کی۔ حالانکہ زندگی کے خاکے میں سے خوشامد کا رنگ اڑ جائے تو بے رنگ لکیروں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
خوشامد وہ علم ہے جو سلیقہ سکھتا ہے۔ خوشامد کرنے والا منہ پھاڑ کر اپنا مدعا نہیں بیان کرتا۔ بلکہ پہلے زمین کے ایک قطعے کی صفائ کر کے اسے ہموار کرتا ہے، اس پہ چھڑکاءو کرتا ہے، ایک مرصع اور منقش تخت بچھاتا ہے، اگر بتیاں سلگاتا ہے، آپکے گلے میں موتیا اور چنبیلی کے ہار پہنا کر آپکے سر پر زریں تاج رکھنے کے بعد آپکو اس تخت پر بٹھاتا ہے اور خود سائل بن کر آپکے سامنے دست بستہ کھڑآ ہو جاتا ہے۔ اس وقت آپکے اندر کا حاتم طائ زقند لگا کر باہر آجاتا ہے اور آپ بے حیل و حجت سائل پہ سخاوت کے موتی نچھاور کرنے لگتے ہیں۔ خوشامد صلح کا سفید جھنڈا ہے جو فوراً متحارب شخصیتوں کو فائر بندی پہ مجبور کر دیتا ہے۔ البتہ اسے لہرانا حوصلے، جراءت، فراخدلی اور امن دوستی کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے خوشامد کی باقاعدہ تعلیم اور تربیت کا بندو بست کرنا چاہئیے اور کامیاب خوشامدی کو امن کا نوبل پرائز دینا چاہئیے۔
اس طرح اظہر ادیب کے مضمون کا میرے ہاتھوں تیار گجر بھتہ یہاں ختم ہوتا ہے۔البتہ وارث میر یہ لکھتے ہیں کہ
پاکستان کے بیمار معاشرے میں لکھنے والوں کی مجبوری اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ آج جھوٹ بولنے والے کو جھوٹا، فریب دینے والوں کو فریبی اور خوشامد کر کے اپنا الو سیدھا کرنے والے کو خوشامدی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ضمیر داری کا مظاہرہ کرنے والےکو ذلیل و خوار اور اخلاقی لحاظ سے ہکلاتے کرداروں کو ترقی کے زینے طے کرتے دیکھا ہے
اس تحریر پہ تاریخ نہیں ہے۔ چونکہ انکا انتقال انیس سو ستاسی میں ہوا تھا تو یہ کم سے تئیس سال پرانی تحریر ہے۔ کیا واقعی یہ تئیس برس پرانی تحریر ہے۔
میرے پیارے قاری، اب جبکہ آپ نے مجھ ناچیز کی اس جسارت کو پورا پڑھ ہی ڈالا ہے تو اے محترم انسان میں آپ سے تہہ دل سے یہ درخواست کرونگی کہ خوشامد پہ ایک نظم پڑھنے کے لئے دوبارہ یہاں آنا مت بھول جائیے گا۔
ہمیں اور لکھنے کی چاہت نہ ہوتی، اگر تم نہ ہوتے، اگر تم نہ ہوتے
یہ مضمون بطورِ انشائیہ تو بہت اچھا ہے لیکن کسی کی جھوٹی تعریف کر کے اپنے جائز ناجائز کام نکلوانا اگر کوئی اچھی بات ہوتی ہے تو ہم میں سے بہت سے لوگ خوش آمدی کہلانا پسند کرتے۔
ReplyDeleteہاں البتہ ہم کافی لوگوں سے تعلقات اچھے کر سکتے ہیں اگر ہم اُن کی اُن خوبیوں کا اعتراف کریں جو اُن میں واقعی موجود ہوں لیکن ہم بطورِ مجموعی اس چیز میں بہت بخیل ہیں اور خوش آمدی لوگ بھی اس کام کو کرنے سے گھبراتے ہیں کہ جب آپ کسی کی جھوٹی تعریف کرتے ہیں تو آپ کو اس شخص کی خوبی کو دل سے تسلیم نہیں کرنا پڑتا لیکن سچی تعریف کے لئے آپ کو دوسرے کی خوبیوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جو یقیناً بہت سے لوگوں کے لئے آسان نہیں ہے۔
خوشامد پر ہمارا ایک بے وزن شعر ہے
ReplyDeleteپتھر دلوں کو پل بھر میں موم کرے
ہائے کیا چیز خوشامد ہوتی ہے
ماموں-
ReplyDeleteواقعی یہ ایک آرٹ ہے جو فی زمانہ " ٹیم ورک " کے طور پر ہو رہا ہے-
اس سلسلے میں فارسی کی حکایت " دمینہ اور کلیہ" قابل ذکر ہے-
ہمارے بزرگ کہا کرتے ہیں کہ جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکل سکتا ہو انگلیاں ٹیڑھی کرنے کی کیا ضرورت؟
ReplyDeleteاب آپ اسے خوشامد سمجھیں یا بندہ شناسی،البتہ کبھی کبھی بندہ شناسی میں زک بھی اٹھانا پڑ سکتی ہے!
؛)
ویسے کچھ معاملہ فہم لوگوں پر بھی لوگ خوشامدی کا الزام لگایا کرتے ہیں، کیا خیال ہے آپکا اس معاملے کے بیچ؟؟؟
بلاگ کی تحریر اچھی ہو تبصرہ کرنے والوں کی شامت ورنہ مصنف کی ۔خوشامد کو چھوڑیں اور تعریف کو ہی دیکھ لیں، اپنی یا اپنی پسند کے لوگوں کی ہو تو آبجیکٹیو ورنہ سبجیکٹیو ۔
ReplyDeleteآپکی تحریر اچھی ہے اور اگر تو اگلی قسط میں بچوں والی مکڑا اور مکھی ہے پھر تو پیشگی واہ بھئی واہ ۔
محمد احمد ، عبداللہ، آپکی ان باتوں کا جواب اس نظم میں موجود ہے جو میں نے نکال رکھی ہے۔
ReplyDeleteہیلو ہائے، آپکا اندازہ اتنا درست نہیں ہے۔ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ اکثریت نے انکی یہ نظم پڑھ رکھی ہوگی۔ابھی گھوڑے دوڑائیے، خیالات کے۔
:)
ہم نے کیا سوچنا جی، آپ نے ہی ماموں والی "دمینہ اور کلیہ" اور اقبال کی "مکڑا اور مکھی" سے کوئی مختلف بات کرنی ہوگی ۔ویسے اقبال صاحب نے کسی کو بڑی عمر میں "مکڑا اور مکھی" پڑھنے سے خود سے تو منع نہیں فرمایا ہوگا ۔
ReplyDeleteہیلو ہائے،
ReplyDeleteیہ تو کسی اور شاعر کی لکھی ہوئ نظم ہے۔ آپکو بس یونہی سسپنس دے رہی ہوں۔
ویسے انہوں نے اسے بڑی عمر میں
پڑھنے سے منع کیا ہے یہ بات میرے علم میں نہیں۔ البتہ راجہ گدھ کے بارے میں ضرور بانو قدسیہ کا کہنا ہے کہ ایک خاص عمر سے پہلے پڑھنے سے یہ کتاب پڑھنے والے کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
:)
راجہ گدھ کے بارے میں اگر آپ کچھ آبجیکٹیولی اور کچھ سبجیکٹیولی لکھ دیں تو ہم بھی کچھ تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں آجائيں گے ۔اس مختصر سی زندگی میں اب تک اتنی زیادہ غور طلب باتیں پڑھ لی ہیں کہ اب مزید غور طلب باتیں پڑہنے اور سمجھنے کی گنجائش ختم ہو گئی ہے ۔ویسے موجودہ دور کے تناظر (بشمول پچھلے چالیس لوکل سال) میں تو راجہ گدھ کا سیدھا سیدھا انجام تو آبجیکٹیو ہی ہے ۔
ReplyDeleteیہ خوشامد سیریز "خاص" تبصرہ نگاروں کے لیے ہے نا
ReplyDelete;)