برصغیر کے مسلمانوں میں روشن فکری کی تحریک شاہ ولی اللہ سے شروع ہوئ۔ یہ خیال ہے وارث میر کا وہ اپنی کتاب حریت فکر کے مجاہد میں لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ نے کسی سائینٹیفک اقتصادی فکر اور سوچ کی نہج تو تلاش نہ کی تھی لیکن اپنی کتاب حجۃ البالغہ میں مسلمانوں کے زوال پذیر معاشرے کی برائیوں اور قیصریت و کسرویت کے نتائج کے تجزئیے میِ وہ اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ اس سارے تجزئیے پہ ہم بعد میں بات کریں گے۔ پہلے انکا ایک اہم کارنامہ دیکھتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ کی تحریک کا مخاطب خواص کے بجائے عوام تھے. چونکہ آپکا روئے سخن عوام کی طرف تھا اس لئے یہ ضروری تھآ کہ وہ قرآن کو اسکے صحیح معنوں میں جانیں۔ اسکے علاوہ اکبر کے دربار میں جب مسلمان علماء اور پرتیگیزیوں کے درمیان مباحثے ہوئے تو مشنریوں نے جو قرآن کا لاطینی ترجمہ پڑھے ہوئے تھے کلام مجید کے بعض حصوں پہ اعتراض کیا اس وقت پتہ چلا کہ مسلمانوں کو صحیح سے اسکے مضآمین سے واقفیت نہ تھی حتی کہ ایسا بھی ہوا کہ پادریوں کے کسی اعتراض پہ یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ تو قرآن میں ہے ہی نہیں اور جب قرآن کھولا جاتا تو اس میں اسکے حوالے نکلتے۔
شاہ ولی اللہ نے ان تمام چیزوں کے پیش نظر اسکا فارسی میں ترجمہ کیا جو کہ اس وقت رائج الوقت زبان تھی۔
علماء نے اسکا علم ہونے پہ تلواریں سونت لیں کہ یہ کلام پاک کی بے حرمتی ہے۔ بعض موءرخین نے یہاں تک لکھا کہ اسکی وجہ سے شاہ صاحب کی جان خطرے میں پڑ گئ۔ اور انہیں کچھ عرصَے کے لئے دہلی سے باہر جانا پڑآ۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ قرآن میں موجود حقائق کو زندگی کا دستور العمل بنانے کے لئے اسکا رائج الوقت زبانوں میں ترجمہ ضروری ہے۔
انہوں نے علم تفسیر پہ بھی کتابیں لکھیں اپنی ایک کتاب الفوز الکبیر فی اصول التفسیر میں وہ لکھتے ہیں کہ
عام مفسرین نے ہر ایک آیت کو خواہ مباحثہ کی ہو یا احکام کی ایک قصے کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور اس قصے کو اس آیت کے لئے نزول کا سبب مانا ہے لیکن حق یہ ہے کہ نزول قرآنی سے مقصود اصلی نفوس بشریہ کی تہذیب اور انکے باطل عقاءید اور فاسد اعمال کی تردید ہے۔
فوز الکبیر کی دوسری خصوصیت شاہ صاحب کی انصاف پسندی اور اخلاقی جرءات ہے۔ مثلاً عام مسلمان زمانہ ء جاہلیت کے عربوں سے فقط برائیاں اور عیب ہی منسوب کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے انصاف کے اصول مدنظر تصویر کے دونوں پہلو پیش کئے ہیں۔
بعض مفسرین نے اہل کتاب سے قصے لیکر انہیں قرآنی تفاسیر اور علوم اسلامی کا جزو بنادیا ہے۔ اسکے خلاف انہوں نے آواز بلند کی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
یہاں پہ یہ جان لینا مناسب ہے کہ حضرات انبیاء سابقین کے قصے احادیث میں کم مذکور ہیں اور انکے لمبے چوڑے تذکرے جن کے بیان کرنے کی تکلیف عام مفسرین کرتے ہیں وہ سب ال ماشاءاللہ علمائے اہل کتاب سے منقول ہیں
آگے کہتے ہیں کہ
اسرائیلی روایات کا نقل کرنا ایک ایسی بلا ہے جو ہمارے دین میں داخل ہو گئ ہے۔ حالانکہ صحیح اصول یہ ہے کہ انکی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب۔
انہی وجوہات کی بناء پہ شاہ صاحب کی وصیت تھی کہ قرآن اور اسکا ترجمہ تفسیر کے بغیر ختم کرنا چاہئیے۔ اور پھر اسکے بعد تفسیر وہ بھی تفسیر جلالین بقدر درس پڑھائ جاوے۔
ایک اور اہم مسئلہ تقلید کا کا تھآ۔ تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ایک اہم سوال یہ تھا کہ جو مسلمان تقلید کا قائل ہے، فقہ کے چار مذاہب میں سے اسکے لئے کسی ایک کی تقلید لازمی ہے جسے لزوم مذہب معینہ کہتے ہیں یا وہ مختلف معاملات میں مختلف مذاہب کی پیروی کر سکتا ہے۔ اس مسئلے پرعلماء میں بڑا اختلاف ہے۔ انکی تصانیف سے یوں لگتا ہے کہ وہ ایک عام آدمی کے لئے تو اسی لزوم مذہب معینہ کے ہی قائل ہیں لیکن مجتہدین اور آئمہ کے لئے اسے ضروری نہیں سمجھتے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہ صاحب کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں
اور علماء کو درست ہے کہ ہمارے آئمہ میں سے ایک کا قول کسی مصلحت وقت پر عمل کرنے کی وجہ سے اختیار کریں۔
اسی طرح انہوں نے اسی کتاب کے آخیر میں لکھا ہے کہ
یعنی اگر انسان کسی مجتہد کے، جس کا اجتہاد جائز ہو۔ ایسے قول کی جستجو کرے جو اسکے نفس پہ سہل ہو تو ہم کو نہیں معلوم کہ شرع نے اس عمل پر اسکی برائ کی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ جو باتیں آپکی امت پر سہولت ہوں انہی کو دوست رکھتے تھے۔
وہ تقلید کو حد سے زیادہ بڑھانے کے بھی مخالف تھے۔ اور تقلید کی ایک قسم کو تو انہوں نے حرام لکھا جس میں دانستہ یا غیر دانستہ مقلد صریح احادیث پر بھی مفتیوں اور فقیہوں کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں
لکھتے ہیں،
اور تقلید حرام کی صورت یہ ہے کہ کسی فقیہ کو گمان کرے کہ وہ علم میں نہایت کو پہنچ گیا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ وہ خطا کرے تو ایسے مقلد کو جب کوئ حدیث صحیح اور صریح پہنچتی ہے کہ مخالف اس فقیہ کے قول کے ہو تو اسکے قول کو نہیں چھوڑتا۔
نوٹ؛ شاہ ولی اللہ پہ یہ تحریر جاری ہے۔
نوٹ؛ شاہ ولی اللہ پہ یہ تحریر جاری ہے۔
حوالہ جات؛
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام، ادارہ ء ثقافت اسلامیہ۔
شاہ ولی اللہ، ایک تعارف
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان
رود کوثر، مصنف شیخ محمد اکرام، ادارہ ء ثقافت اسلامیہ۔
شاہ ولی اللہ، ایک تعارف
عنیقہ صاحبہ میں آپ کا نہایت مشکور ہوں اس علمی تحریر پراور اگلی قسط کا بے چینی سے منتظر ھوں۔
ReplyDeleteبہترین کاوش ہے جس کے آپ کا ممنون ہوں۔
ReplyDeleteاور تقلید حرام کی صورت یہ ہے کہ کسی فقیہ کو گمان کرے کہ وہ علم میں نہایت کو پہنچ گیا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ وہ خطا کرے تو ایسے مقلد کو جب کوئ حدیث صحیح اور صریح پہنچتی ہے کہ مخالف اس فقیہ کے قول کے ہو تو اسکے قول کو نہیں چھوڑتا۔
ہمارے مذہبی اختلافات کے تمام مسائل کا حل اسی بات میں ہے۔
مغليہ بادشاہ جلال الدين اکبر کے دربار ميں علمائے دين ؟ وہ اکبر جس نے اسلام کو چھوڑ کر دينِ الٰہی کے نام سے کفر قائم کيا
ReplyDeleteشاہ ولی اللہ دہلوی صاحب کی مشکلات کا سبب فارسی ترجمہ نہ تھا بلکہ دينِ الٰہی کو قرآن کی روح سے غلط ثابت کرنا تھا ۔ فارسی ترجمہ تو اُن سے قبل بھی ہو چکا تھا ۔ ہندوستان ميں فارسی مغل نہيں لائے بلکہ شہاب الدين محمد غوری لے کر آئے
یاسر خومخواہ جاپانی اور خورشید آزاد صاحب، آپکا شکریہ۔
ReplyDeleteافتخار اجمل بھوپال صاحب، تاریخ ایک گروہ نے اکبر کا کردار بہت زیادہ مسخ کرنے کی کوشش کی۔
اکبر نے دینی مبحچوں کے لئے ایک علیحدہ جگہ بنائ تھی جسے عبادت گاہ کا نام دیا تھا۔ اکبر کی اس مجلسملک بھر کے علماء آتے تھے۔ ان علماء کی آپس کی چپقلش نے اکبر کا دل بہت خراب کیا۔ کیونکہ وہ دینی مباحث کے بجائے اپنی اناءوون کے اسیر تھے۔
ملا بدایونی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب مرزا مفلس نے دربار شاہی میں ایک تفسیر پیش کی تو اس وقت حاجی ابراہیم سرہندی نے ان سے سر دربار پوچھا کہ کہ آپ یہ تو بتاءے کہ موسی کا کیا صیغہ ہے اور اسکا ماخذ اشرقاق کیا ہے۔ مرزا مفلس علوم عقلی میں طاق تھے لیکن اس سوال کا ان سے کوئ جواب نہیں بن پڑا لوگوں نے اس بات کو پکڑ لیا اور بات اڑا دی کے حاجی نے مرزا کو لاجوب کر دیا۔ اور ان جیسا کوئ لائق نہیں۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ نے ایک اور عالم سے پوچھا تم ہماری مجلس میں کیوں نہیں آتے۔ وہ کہنے لگے میں آءووں تو سہی لیکن اگر وہاں حاجی ابراہیم نے یہ پوچھ لیا کہ عیسی کا کیا صیغہ ہے تو فرمائیے کیا جواب دوں۔
اسکا تذکرہ میں اپنی ایک پوسٹ میں الگ کر چکی ہوں لنک یہ ہے۔
http://anqasha.blogspot.com/2010/04/blog-post_17.html
اکبر کے قائم کردہ ذاتی آءین کو جو اس نے اور اسکے چیلوں نے اختیار کیا دین الہی کا نام اسکے انتقال کے ساٹھ ستر سال بعد انگریزوں نے سازش کے ذریعے دیا۔ تاکہ اس بادشاہ کے بقیہ تمام کارناموں پہ پردہ ڈال دیا جائے۔
آپ غالباً مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے درمیان الجھن کا شکار ہیں۔ اکبر ۱۶۰۵ میں انتقال کر گیا تھا، جبکہ شاہ ولی اللہ ۱۷۰۳ میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مجدد الف ثانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آئین اکبری کے خلاف کام کیا۔
شاہ ولی اللہ سے پہلے قرآن کی فارسی تفاسیر کا بیان ملتا ہے۔ جتنی تاریخ میں نے پڑھی ہے جو کہ مختلف کتابوں میں مذکور ہیں جن میں سے کچھ کے میں نے حوالے بھی دئِے ہیں اگر یہ آپکو مل نہ سکیں تو اسے آپ وکیپیڈیا پہ بھی دیکھ سکتے ہیں شاہ ولی اللہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کا فارسی ترجمہ پاک و ہند میں کیا۔
یہ میں نے کہیں نہیں لکھا کہ ہندوستان میں فارسی مغل لائے تھے۔ میں نے یہ لکھا ہے کہ فارسی اس وقت عام طور پہ بولی جانیوالی ایک زبان تھی۔
تصحیح، کچھ الفاظ کے ہجوں کی تصحیح کر لیں۔
ReplyDeleteاکبر نے دینی مباحثوں کے لئے ایک علیحدہ جگہ بنائ تھی۔
کیونکہ وہ دینی مباحثوں کے بجائے اپنی اناءووں کے اسیر تھے۔
موسی کا کیا صیغہ ہے اور اسکا ماخذ اشتقاق کیا ہے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteسسٹرعنیقہ صاحبہ، بہت ہی پراثرتحریرہےاوربہت سی معلومات ملیں ہیں اللہ تعالی آپ کےزورقلم کواورترقی دے۔آمین ثم آمین
واقعی جب ہمارےرسول کریم نبی معظم حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم مومن کےلیےآسانی پیدافرماتےتھےتوہم نےدین کواتناسخت بنادیاہےکہ ایک مسلک دوسرےمسلک کوکافرکہنےسےبھی نہیں چوکتا۔جبکہ چاروں آئمہ اکرام نےواضح طورپرفرمایاکہ اگرکوئی بھی صحیح حدیث ان کےقول کےمخالف ہوتوان کےقول کوچھوڑدو۔اورصحیح حدیث پرعمل کرو۔ اللہ تعالی ہم کوصحیح طورپراسلام کوپڑھنےسمجھنےاورپرکھنےکی سمجھ بوجھ عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
ارے! آپ وکیپیڈیا پہ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ وکیپیڈیا کو کونسا عقلمند اور دانا صحیح سمجھتا ہے ۔ جہالت اور اندھیر نگری کا سب سے بڑا گڑھا ہے ۔ سبھی کچھ تو سبجیکٹیولی لکھا ہوا ہے ۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا محال کردیا ہے ۔ سچ کو نوبل لائی (توبہ! توبہ! ) کہتا ہے اور نہ ہی اسکو کسی قسم کی مذہبی یا سیاسی حمایت حاصل ہے ۔یقینا یہ بھی "انہی کی" کوئی چال ہے ۔ اللہ کی مدد سے انکے بنائے ہوئے شوشلزم کا ابھی بمشکل صفایا کیا ہی تھا کہ ایک نئی مصیبت مصلت کر دی گئی ہے ۔
ReplyDeleteارے! آپ وکیپیڈیا پہ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ وکیپیڈیا کو کونسا عقلمند اور دانا صحیح سمجھتا ہے ۔ جہالت اور اندھیر نگری کا سب سے بڑا گڑھا ہے ۔ سبھی کچھ تو سبجیکٹیولی لکھا ہوا ہے ۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا محال کردیا ہے ۔ سچ کو نوبل لائی (توبہ! توبہ! ) کہتا ہے اور نہ ہی اسکو کسی قسم کی مذہبی یا سیاسی حمایت حاصل ہے ۔یقینا یہ بھی "انہی کی" کوئی چال ہے ۔ اللہ کی مدد سے انکے بنائے ہوئے شوشلزم کا ابھی بمشکل صفایا کیا ہی تھا کہ ایک نئی مصیبت مصلت کر دی گئی ہے ۔
ReplyDeleteKindly pardon me for an unintentional duplicate post.
ReplyDeleteہیلو ہائے اے او اے، ایسا بھی نہیں ہے کہ سب چیزین ہی غلط ہوتی ہیں۔ میں نے کتابوں کے حوالے دئے تو ہیں انکے علاوہ کسی بھی تاریخ کی اچھی سی کتاب سے آپکو یہ حوالہ مل جائےگا۔
ReplyDeleteوکیپیڈیا پہ دئے ہوئے حوالے کو مزید جگہوں سے دیکھ لیا جائے تو غلطی کا امکان نہیں رہتا۔ اسکا حوالہ اس لئے بھی دے دیا جاتا ہے کہ نیٹ پہ آپ اسے چیک کر سکتے ہیں کسی اور ذریعے کے مقابلے میں زیادہ قابل بھروسہ ہوتا ہے۔ البتہ متنازعہ چیزوں کے لئے ہر رائے کے بارے میں ضرور دیکھنا چاہئیے۔ میں وکیپیڈیا پہ دی ہوئ معلومات کو کتابوں میں دیکھ چکی ہوں۔
اب میں آپکو صرف ذرائع بتا سکتی ہوں۔ یہ سب چیزیں آپکے گھر پہ نہیں پہنچا سکتی۔
اور سبجیکٹولی لکھنے میں آپ کے لئے ہی آسانی ہے۔ بری معلوماتی تحریر تو وہ ہوتی ہے جس میں لکھنے والا کسی ایک طرف ہو جاتا ہے۔ اور لازماً یا تو سب اچھا دیکھتا ہے یا سب برا۔
ReplyDeleteشاہ ولی اللہ کا نظریہ دولت آپکو سوشلزم سے قریب لگ رہا ہے اسی لئے تو شروع میں کہا تھآ کہ انہوں نے اپنے خیالات کی سائینٹیفک تجزیہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت تک یہ بھی اطلاعات نہیں ملتیں کہ جنوبی ایشیا تک سوشلزم کی ہوا بھی پہنچی ہو۔ لیکن اس سے ایک بات پتہ چلتی ہے کہ انکے زمانے میں دولت کی تقسیم میں سخت نا ہمواری تھی۔ اسی لئے انگریز صاحب بہادر کو یہاں قبضہ کرنے میں آسانی ہوئ۔
ان شدید ناہمواریوں کی وجہ سے انہیں اسکا خیال آیا ہوگا کہ دولت کی تقسیم اس طرح ہونی چاہئے۔ چونکہ انہوں نے اس سلسلے میں کوئ ایسے عملی اقدامات نہیں کئے ، ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ انکے معاشی منصوبے نا مکمل تھے اور اس سے انہی امراء کو استحکام حاصل ہوتا۔
سبجیکٹولی لکھنے کی حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔چلیں جی اب ہماری سبجیکٹیویٹی بھی سن لیں اور دیکھتے ہیں کہ سبجیکٹیویٹی کو سہنے کیلئے آپ میں برداشت کس حد تک ہے ۔
ReplyDeleteارے یہ کیا بھئی مارکس صاحب اور انکے کچھ دوسرے جاننے والوں نے شاہ صاحب کو پلیجرائز کردیا اور "وہ لوگ" ایسے ہی خواہ مخواہ بدنام ہیں ۔ کوشش کرتے ہیں کہ یہ بات وکیپیڈیا والے بھی اگر مان نہ لیں تو کم از کم جان ضرور لیں ۔ایک بات کا خدشہ ہے کہ پچاس سال بعد کسی کتاب میں کہیں یہ نہ لکھا مل جائے کہ وکیپیڈیا کا آئیڈیا بھی اصل میں ایک دوسرے شاہ صاحب کا تھا ۔
اگر کسی دوسرے صاحب یا صاحبہ کا کوئی اور اعتراض برائے وکیپیڈیا باقی نہ رہ گیا ہو گیا تو ؟
وکیپیڈیا زندہ باد ۔ وکیپیڈیا زندہ باد ۔
وکیپیڈیا واہ بھئی واہ ۔ وکیپیڈیا واہ بھئی واہ ۔
شائد دو سو سال بعد کوئی ایلیئن پارٹی ہماری دنیا پر قبضہ کرنے کے بعد یہ کلیم کریگی کہ یہ وکیپیڈیا انکی فلاں پیٹینٹ کتاب کا وہ چیپٹر ہے جو انکے پچھلے وزٹ کے دوران کسی بھی وجہ سے یہاں رہ گیا ۔ انہوں نے اس گمشدگی کی رپٹ بھی کرائی ہوئی ہوگی اور کہیگی کہ یہ لو اس بات کا ثبوت ۔ سچی مچی بتائیں کہ مزا آیا یا نہيں؟
یہ صاحب تو اس وقت عالم بالا کی سیر کر رہے ۔
ReplyDeleteہیلو اے او اے،
ReplyDeleteمزہ تو کیا آتا، مجھے تو یہ سمجھ نہیں آیا کہ باقی تین کتابوں کو چھوڑ کر ، بھائ جان آپ نے ویکیپیڈیا کو کیوں پکڑ لیا ہے۔ اور آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھنا چاہ رہے ہیں کہ میں نے کوئ بھی حوالہ خالصتاً ویکیپیڈیا سے نہیں دیا جب تک اسے مزید کسی اور ذریعے یا کسی اور کتاب سے چیک نہ کر لیا ہو۔ میں اس بات سے کما حقہ آگاہ ہوں کہ مجھے اپنے لکھے ہوءے کا جواب دینا ہے اور غالب کی طرح یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتی کہ آدمی ہمارا کوئ دم تحریر بھی تھا۔ مجھے تو ابھی لائبریری میں پڑھی ہوئ کتابوں کے نام یاد نہیں آرہے تھے اس لئے وہ اس میں نہیں ڈالے۔ اب براہ مہربانی کچھ مزید لکھنے سے پہلے حوالے میں دی گئ کتابیں ضرور پڑھ لیجئیے گا۔ وکیپیڈیا کا حوالہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جوکتاب نہیں خریدنا چاہتے۔
ورق پلٹنے اور آنکھیں ان پہ چپکانے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ سچی مچی۔
پتا تھا کہ سنجیکٹیویٹی پسند بھی نہیں آسکتی ۔اپنی اپنی سیر کی بات ہے کچھ لوگوں کو ہمیشہ ہی کسی دوسرے کی انگلی پکڑ کر ہی سیر کرنے میں مزا آتا ہے ۔
ReplyDeleteویسے ناولٹی کیلئے سبجیکٹیویٹی لازمی ہے ۔ پرسونلی وکیپیڈیا سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ۔ اور انگلی پکڑ کر سیر کرنے والوں سے بھی نہیں ۔ اور اگر ناقابل اعتراض بکواسیات پر اس دور میں بھی اعتراض ہے تو ہمیں اجازت، اللہ نگہبان ۔
ReplyDeleteناقابل اعتراض بکواسیات پر تو کیا میرا ایمان ہے قابل اعتراض بکواسیات پر بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے بشرطیکہ اس کا کوئی مقصد ہو۔ یہاں تو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اعتراض کس بات پر ہے۔
ReplyDeleteap bhut acha likhti hain .. bhut informative..
ReplyDeleteکچھ علماء کا خیال ہے کہ شاہ صاحب آئمہ اربعہ کے درجے کو پہنچے ہوے مجتہد تھے ۔ اگر میں نے غلط نہیں سنا ۔ لیکن بہرحال شاہ صاحب کو ایک درجے کا مجتہد ماننا پڑے گا۔ اسی لیے شاہ صاحب نے شروع میں تقلید کو چھوڑنے کی کوشش کی لیکن پھر خود ہی کہتے ہیں (شاید فیوض الحرمین میں) کہ مجھے اس سے روک دیا گیا ۔
ReplyDelete