تمام لکھنے والے انسان کے متعلق لکھتے ہیں اور لکھنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ظاہری طور پہ ایسا نہیں کرتے جب بھی وہ ایسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسان اس کائینات میں جس چیز کو سب سے زیادہ جاننے کی خواہش رکھتا ہے وہ بھی حیرتناک طور پہ خدا نہیں انسان ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ہے 'راجہ گدھ'۔ ایک ناول جس میں انسان کی نفسیات کو شاید رزق کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی گئ ہے۔ بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری اور ہمارے ملک کی ایک بڑی ادیبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اپنے پڑھنے والوں پہ اپنا اثر بھی رکھتی ہیں۔ کیونکہ غضب کے لکھنے والے تو ہوتے ہیں مگر پڑھنے والوں کو اپنے اثر میں لے آنا یہ ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
انکے اس ناول سے میں نے ایک اصطلاح کا تعارف لیا، عشق لا حاصل۔ لا حاصل کا عشق انسان کو دیوانگی میں مبتلا کر دیتا ہے مجھے انکی تحریر سے یہ سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ عشق میں حاصل اور لا حاصل کی حد تمیز کہاں ہوتی ہے۔
عشق لا حاصل نہیں ہو سکتا۔ جو لا حاصل ہو وہ عشق نہیں ہو سکتا۔ اور ریاضی کے اس کلئیے سے تو ہم واقف ہیں کہ صفر سے جو چیز ضرب کھائے وہ صفر ہو جاتی ہے۔
ویسے عشق کا حاصل کیا ہوتا ہے؟ عرفان ذات، میرے خیال سے اگر عشق انسان کو عرفان ذات نہیں دیتا تو یہ عشق نہیں ہوتا۔
انکے ناول میں رزق حلال اور حرام کے انسانی نفسیات پہ اثرات کا مطالعہ بھی آتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے پڑھنے والے بیشتر قاری اس سے متفق ہوں۔ مگر چند ایک اختلاف بھی رکھتے ہونگے۔ جیسے میں۔
کیونکہ عملی دنیا میں جو ہم دیکھتے ہیں وہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ حلال زندگی نہیں گذارتے لیکن انکی اولاد یہ رجحان نہیں رکھتی۔ مثلا حضرت ابراہیم کے والد ایک بت تراش تھے جبکہ حضرت ابراہیم ایک بت شکن۔
اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
اس طرح رزق حلال انسان میں روحانی اطمینان تو پیدا کرتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو حلال کماتے کھاتے ہیں پھر بھی سخت ترین دنیاوی آزمائیشوں میں گھرے رہتے ہیں اور یہ پے درپے آزمائیشیں ان سے دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔ اور انسان یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے ہیں۔
کیا انسانی اخلاق یا تقدیر کا تعلق رزق سے ہوتا ہے ؟
کیا حلال رزق کھانے والے اعلی اخلاقی کردار رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے رذیل کردار؟ کیا حلال کھانے والے آسان تقدیر رکھتے ہیں اور حرام کھانے والے مشکل؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟
کیا حلال اور حرام رزق انسان کے ڈی این اے پہ اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا مکافات عمل واقعی کوئ وجود رکھتا ہے؟
انسانی نفسیات یا مختلف رویوں کے ماءخذ، لکھنے والے کے لئے اسرار کی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک انسان یا انسانوں پہ مشتمل ایک معاشرہ کیوں ایک خاص رویہ یا رجحان رکھتا ہے؟ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی کیوں ان چیزوں کا شکار ہو جاتا ہے جو اسے نا پسند ہوتی ہیں اور کیوں پسند کی چیزیں اس کی پہنچ میں نہیں آپاتیں؟ کیا یہ سب تقدیر ہے؟ لیکن کیا انسانوں کے لئے کوئ خاص قدرتی نہج موجود ہے؟ کیا سورج چاند ستاروں کی طرح انسان کے لئے بھی کوئ ایک مقررہ رستہ ہے یا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے قدرت انہیں الگ نظر سے دیکھتی ہے؟ قدرت اپنا یہ پیمانہ کس طرح مقرر کرتی ہے؟
کل میں ایک اردو بلاگ سے گذری۔ یہاں بلاگر نے اپنی اس تفصیلی پوسٹ میں جنس سے متعلق مختلف چیزوں پہ اپنے خیالات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جو بچے نفرت کے رشتے سے پیدا ہوتے ہیں وہ ذہنی طور پہ غیر متوازن شخصیت رکھتے ہیں اور صحت مند نہیں ہوتے۔
مصنف جنسی تعلق کو عبادت کے مقابل لاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر عبادت میں خشوع و خضوع نہ ہو تو عبادت رائگاں ہوتی ہے۔ جنسی عمل میں بھی اگر صداقت نہ ہو تو یہ کمزور انسانوں کو وجود میں لاتا ہے اور کمزور انسان کمزور معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انکی اس تحریر سے میں نتیجہ نکالتی ہوں کہ ایک ایسے تعلق، جس میں جذباتی وابستگی نہ ہو، محبت نہ ہو، حاصل لا حاصل کے برابر ہوتا ہے۔
اگر عشق لا حاصل دیوانگی دیتا ہے اور اگر نفرت کا تعلق کمزور انسان اور اگر یہ انسان کے ڈی این اے کو بھی متائثر کرتے ہیں تو یہ سلسلہ زنجیر کی مانند چلتے رہنا چاہئیے اور مستقبل ہمیں تاریک نظر آنا چاہئیے۔ لیکن ہمارے دلوں پہ امید کیوں دستک دیتی ہے۔ اور ہم مستقبل سے اپنے لئے کیوں خوشی چاہتے ہیں؟
raja gidh jaise manjhe hue novel par tanqeed karna jis ke buhat se log buhat hadd tak parastaar hain yaqeenan aik mushkil kaam hai .magar jab aap ne ishq ki baat kia hai tu app ko isse khushi se alag tasawur kar ke dekhna chahyie ,baat bilkul aise hi hai jaise banu aapa ne biyaan ki ke ishq hasil ya lahaasil hoskata hai
ReplyDeletemagar kahani iss markaz par ghoomti hai ke ishq lahaasil insaan ko aik aisi tabahi ki taraf le jata hai jo usse barbaad kar deti hai aur deewana bana deti hai
aap keh rahi hai ke ishq lahasil nahi ho sakta magr agar ishq HAsil hai tu zaroor Lahaasil bhi hai , mutazad chez humesha har amar ke sath majood hoti hai .hone ke sath nahona aur hasil ke sath lahasil ka hona aik qudrati amar hai . ishq aik aisi cheez hai jiske bare main kisi bhi mantiq se kaam nahi liya ja sakta ke bhai yeh ishq nahi hai ya yeh hai , akhir faisla karne ka haq kiske paas hai ke ishq kia hai aur hai bhi ya nahi , app ki masbat rawaiye ki inteha hai hai ke aap ne jo cheez hsail na hoskti ho uss ko ishq mannne se hi inkar kar dia hai magar aisa hargiz nahi hai ishq tu ishq hai lahasil bhi ho sakta hai naa,
aur halal aur haram wali baat app khud practicle life main apply kar ke dekhiye ga apne irdd girdd main ne bhi iss baat ko personally buhat mehsoos kia hai ke haram rizk ya haram chezo main insaan ko buhat attraction hoti hai magar yeh buhat nuqsaan bhi deti hai insaan andar se buhat kamzoor aur bikhra hua ban jata hai , agar haraam itna nuqsaan deh na hota tu isko haram qarar hi kyun diya jata , islam wo wahid mazhab hai jisme haraam aur halal ka nuqta dia gaya hai aur iss main zaror khuda ki buhat barri hikmat hai jis ko pehchane ki banu aapa ne aik koshish ki hai .
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteاسلام علیکم
آپ نے اپنی پوسٹ میں بہت سارے سوالات اکٹھے اٹھا دیے ہیں اور ان میں ہر کا علیحدہ علیحدہ جواب دینا تو شاید طوالت کی وجہ سے ممکن نہ ہو مگر ہم صرف آپ کے ایک سوال یعنی حلال اور حرام پر بحث پرتے ہیں ۔
حرام اور حلال کے مسئلے کا تعلق آسمانی مذاہب سے ہے اور مذہبی قوانین اپنے نتائج پیدا کرنے میں کچھ وقت لیتے ہیں ۔ مگر ہمارا آج کا ذہن اس مسئلے کو اپنے سائنسی ذہن کی میزان پر رکھ کر پرکھنا چاہتا ہے ۔
حرام اور حلال کے مسئلے کو ہم ازدواجی تعلقات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر جے ڈی انون کیمرج یونورسٹی کے پروفیسر تھے اور انہوں نے اقوام کے جنسی رویے اور کلچر پر اس کے اثرات پر تحقیق کی ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے اسی غیر مہذب قبائل کے درمیان رہ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔ اس میں ایک قبیلہ اگر قطب شمالی کا ہے تو دوسرا افریقہ کے گھنے جنگلات کا۔ اس تحقیق کو اپنی کتاب " سیکس اینڈ کلچر " میں 1934 میں شائع کیا – اس کتاب کا پہلا فقرہ یہ ہے ۔
" دنیا کی مہذب اقوام ہوں یا غیر مہذب قبائل سب کے ہاں جنسی مواقع اور قوم کی تمدنی حالت کا گہرا تعلق ہے ۔
اصل کتاب سے پہلے دیباچے میں لکھا ۔ " میں اپنی تحقیقات کے بعد جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو اس کی تمدنی سطح کا انحصار دو چیزوں پر ہے ایک ان لوگوں کا نظام اور دوسرا وہ توانائی جو ان حدود قیود کی بنا پر حاصل ہوتی ہے جو اس گروہ نے جنسی تعلقات پر عائد کی ہوئی ہیں ۔ "
اسی بات کو وہ اصل کتاب میں یوں بیان کرتا ہے کہ " کوئی گروہ کیسے ہی جغرافیائی ماحول میں رہتا ہو اس کی تمدنی سطح کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس نے اپنے ماضی اور حال میں جنسی تعلقات کے لئے کس قسم کے ضوابط مقرر کر رکھے ہیں ۔ صفحہ 340 "
آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ" جنسی تعلقات میں تبدیلی کے اثرات تین پشتوں کے بعد تقریبا سو سال کے بعد ظاہر ہوتے ہیں ۔ صفحہ 330 "
اس کے بعد وہ غیر مہذب قبائل کو تین اقسام میں تقسیم کرتا ہے ۔
"1 ۔ جس گروہ نے کنوار پنے کے زمانے میں جنسی تعلقات کی چھوٹ دے رکھی تھی وہ تمدن کی پست ترین سطح پر تھے ۔
2 ۔ جن قبائل میں شادی سے قبل جنسی تعلقات پر کچھ پابندیاں عائد تھیں وہ تمدن کی درمیانی سطح پر تھے ۔
3 ۔ تمدن کی بلند ترین سطح پر صرف وہ قبائل تھے جو شادی کے وقت عفت و بکارت کا شدت سے مطالبہ کرتے تھے اور قبل از نکاح جنسی تعلق کو جرم قرار دیتے تھے ۔ "
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنسی تعلقات پر اس طرح کی حدود قیود کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ۔
" جنسی تعلقات پر پابندی سے ایک قسم کا ذہنی اور عصبی تناو پیدا ہوتا ہے جس سے جذباتے توانائی میں ارتکاز یا کمپریشن پیدا ہوتا ہے ۔ صفحہ 313 "
"یہ مرتکز شدہ معاشرتے توانائی اپنی نمود کے مختلف راستے تلاش کرتی ہے جس کو ڈاکٹر فرائڈ کی اصطلاح میں کظامت یا سبلیمیشن کہا جاتا ہے ۔ نفسیاتی تحقیق سے یہ ظاہر ہے کہ جنسی تعلقات پر پابندیاں عائد کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم میں قوت فکر و عمل بڑھ جاتی ہے نیز محاسبہ خویش کی صلاحیت بھی ۔ صفحہ 317 "
آئیے اب قرآن کریم کی طرف دیکھیں کہ وہ کیا کہتا ہے ۔
قرآن نے ایک جگہ مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ولا یزنون ۔ وہ زنا کے قریب نہیں جاتے ۔ اس لئے کہ ذلک یلق اثاما ۔ اس لئے کہ جو قوم ایسا کرتی ہے اسے اثم سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ عربی زبان میں اثمۃ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تھک کر مضمحل ہو جائے اور اس مین اتنی توانائی نہ رہے کہ وہ باقی قطار کے ساتھ چل سکے ۔
قرآن ایک جگہ اور کہتا ہے
ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو نا گوار سمجھواور وہ تمھارے لئے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لئے مضر ہو اور اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ سورہ بقرہ آیت 216 ۔
سوال ؛
ReplyDeleteڈاکٹر جے ڈی انون کی اپنی قوم زنا کا مسلسل ارتکاب کرتے رہنے کے باوجود عفت یافتہ قبائل سے کہیں ذیادہ تمدن یافتہ کیوں ہے ؟
فریحہ فاروق، سب سے پہلے یہ کہ دنیا کے تمام مذاہب میں حلہال حرام کا تصور موجود ہے لیکن چونکہ عربی انکی زبان نہیں اس لئے وہ اسے حلال یا حرام نہیں کہتے۔ جیسے یہودی جسے کوشر کہتے ہیں وہ غذا کے حلال ہونے کا معیار ہے۔ عیسائیوں کے یہاں ایک سے زائد شادی پہ پابندی ہے یعنی ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی حرام ہے۔ یہی حال ہندءووں کا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ صرف اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں حلال حرام ہے لا علمی ہے۔
ReplyDeleteدنیا کے غیر متمدن قبائل میں بھی معاشرتی اصول ہوتے ہیں تقریباً دنیا کے ہر حصے میں بہن بھائیوں کی شادی حلال نہیں یعنی اسکی اجازت نہیں ہے۔ اسکا اندازہ آپ صرف اس وقت لگا سکتی ہیں جب آپ دوسری تہذیبوں کے قریب ہوتے ہیں یا انکے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔
اب عشق کی طرف آجائیے۔ عشق اور محبت اور رومانس یہ سب مختلف کیفیات ہیں۔ ہمیں یہ کہنا چاہئیے کہ اسلامی ادب میں محبت کے مختلف درجے ہیں۔ جس میں عشق ایک انتہائ درجہ ہے اسکے بعد فنا کا مقام آتا ہے اور کچھ ن۰ہیں۔
اس لئے عشق نہ حصول سے وابستہ ہے نہ لا حصول سے۔ تصوف کے مقامات میں پہلے عشق مجازی آتا ہے پھر عشق حقیقی۔ خدا سے جب انسان عشق کرتا ہے تو کیا چاہتا ہے اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔
میں نے یہاں اس ناول پہ پوری تنقید نہیں لکھی۔ ورنہ یہ بات خاصی عجیب ہے کہ کہانی کے ایک کردار کا بچہ ذہنی طور پہ معذور ہوتا ہے یا مجذوب۔ یہ وہی کردار ہے جو کہانی کے مرکزی کردار سیمی کے ساتھ ایک حرام وقت گذار چکا ہوتا ہے۔ بچے کی دیوانگی کی وجہ کیا باپ کی بے راہروی تھی؟ اگر ایسا تھا تو بات کے مزید رخ نکلیں گے جن پہ اگر آپ چاہیں تو بعد میں بات کر سکتے ہیں۔
محترم عثمان صاحباس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے آپ کو تاریخ پڑھنے کی مشقت کرنی پڑے گی جو آپ کے لئے شاید بہت دلچسپ کام نہ ہو ۔ محض اتنا عرض کر دوں کہ پچھلی صدی کے آخر تک ایک یورپین عورت ایک وقت میں اوپر تلے سولہ کپڑے پہنتی تھی ۔
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب میرا سوال بھی یہی ہے جو عثمان کا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں جنسی تعلقات کو قابو میں رکھنے اور اسے تعمیری مقاصد میں استعمال کرنے کے قوانین مقرر کئے گئے ہیں۔ آپ نے یہاں اسلام کی مثال لی ہے۔ اسلام سےدنیا کو متعارف ہوئے ڈیڑھ ہزار سال ہو چکے ہیں۔
ReplyDeleteیہ ایک خاصہ لمبا عرصہ ہے۔ اب ہم تمام اس وقت تمام اسلامی دنیا کے تمدن کا غیر اسلامی دنیا کے تمدن سے مقابلہ کریں تو نتیجہ اس بات کے حق میں نہیں جاتا۔
کون ہے زیادہ تعمیری حالت میں وہ کہ ہم؟
مجھے معاشرے کے مادر پدر آزاد ہونے سے دلچسپی نہیں، میں شادی کے بے انتہا حق میں ہوں۔ یہ معاشرے میں حقوق اور فرائض کا تعین کرتی ہے۔ لیکن میرے خیال سے کمزور اور معذور انسان، نفرت اور فساد کرنے والے انسان، ظالم اور ناکارہ انسان ان سب کی پیدائیش محض حلال اور حرام سے نہیں جڑی۔
ورنہ پیدا یہونے والے ناجائز بچوں کے بارے میں ہم پہلے سے یہ تصور کر لیں کہ وہ کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔ کیونکہ انکی تعمیر حرام سے ہوئ ہے۔ کیا خیال ہے آپکا؟
http://www.youtube.com/watch?v=fV7AS0e9fjc
ReplyDeleteyeh aik interview ka link hai banu aapa ka , jis main woh bataati hain ke kis tarha aur kis cheez ne unhe inspire kia yeh novel likhne ke liye , iss interview main unho ne khud yeh baat kahi hai ke Islam ki essence hai k is main halaal aur haram ka concept hai aur agar aik cheez haram qarar de di gayi hai tu uss cheez ko ya us haram kaam ko karne se insaan main aik itna guilt andar se paida hota hai ke woh uss guilt aur depression ke rehte hue kabhi dosre insaano jaisa normal nahi hota ,maybe woh superficially buhat abaad buhat satisfied nazar aaye magar in his inner world he might be an abnormal person an abnormal mind ,
aur aftaab ke bache ka aap ne zikar kiya wo mantally abnormal hai but even woh tu aik halaal child hai khud aur aftab bhi normal hai story ka end aik naya point open kar raha hai jo super normality ka hai jisko baaz uqaat hum abnormality samjhte hain woh super normality ya farzaangi bhi ho sakti hai kyunki deewangi ki seeerhi charrh kar hi aik insaan farzaangi tak pohanch sakta which is somehow impossible for normal people person to achieve
ہم زندگی کے حقائق کو روایتوں میں قید کرکے سمجھنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے کہ سمجھ نہیں پاتے..... عقائد یہ کہتے ہیں کہ شک حرام ہے ..... جبکہ شک کیے بغیر ارتقاء کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا.....
ReplyDeleteمثال کے طور پر ہم خودساختہ امیرالمؤمنین کے وضع کردہ سلیبس میں پڑھتے آئے تھے کہ ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘.....
یہ قول اُس وقت تک فیصل تھا جب علم عام نہیں تھا، اب کنواں خود چل کر پیاس بجھانے آرہا ہے، تو ہم نے بھی ٹی وی چینلز پر دیکھ لیا کہ شیر تو سب سے سُست اور کاہل جانور ہے.... آس کی ایک دن کی تو کیا پوری زندگی میں بہادری کی کوئی مثال نہیں ملتی....
بھوک سے بیتاب ہو تو اپنے بچے بھی خود ہی کھا جاتا ہے....
اور اس کا انجام نہایت عبرتناک ہوتا ہے، اُسے گیدڑ کی فیملی کا ایک جانور لکڑبگھا اپنے ساتھیوں سمیت مار کھاتا ہے اور وہ آخری لمحے تک تڑپتا رہتا ہے.....
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteمیں عمثمان کی ببات کے جواب میں ایک سطری کومنٹ پہلے پوسٹ کر چکا ہوں اس میں مزید اضافہ یہ کہ کیا اسلام نے آپ کو اب تک دنیا کا متمدن حکمران نہیں رکھا اور کیا اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا کہ 1924 میں آخری ترکی خلیفہ کو معزول کیا گیا تھا ۔ ابھی پچھلی صدی کی بات ہے کہ لارڈ میکالے برٹش گورنمنٹ کی ہدایت پر ہندوستان آیا اور یہ دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گیا کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی تقریباً 90 فیصد ہے۔ باقی دس فیصد بھی ضروری دینی وعصری تعلیمات اور اس کے تقاضوں سے آگاہ تھے۔ اس
نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا۔ چوری ڈاکے کا تصور نہیں ہے۔ یہ علاقہ دولت سے لبالب بھرا پڑا ہے۔ مسلمانوں میں اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں۔ وسیع ظرف ہیں۔ یہاں کے لوگ ذہین فطین اور قابل ہیں۔ شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ بڑوں کا ادب واحترام ہے۔ اپنے مذہب سے گہری وابستگی ہے۔ اپنے کلچر پر مضبوطی سے عمل پیرا ہیں۔ غلامی کو وہ سب سے بڑی لعنت سمجھتے ہیں۔“ اس کے بعد اس نے برٹش گورنمنٹ سے کہا: ”میرا نہیں خیال کہ ہم ان لوگوں کو رام کرکے اس علاقے کو فتح کرسکتے ہیں-
اس رپورٹ پر برٹش حکومت نے بہت سوچ بچار کی۔ اس کے بعد یہ تہلکہ خیز رپورٹ ”وائسرائے ہند“ کو روانہ کردی گئی۔ مہینوں کے غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جس شخص نے اس مرض کی تشخیص کی ہے، اسی سے اس بیماری کا شافی کافی علاج بھی پوچھا جائے۔ چنانچہ برٹش گورنمنٹ نے سیاح کے روپ میں آنے والے اس شخص سے پوچھا کہ اس کا حل کیا ہے؟ ہم کس طرح اس علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اس کے علاج کی تفصیلی رپورٹ لکھ کر پیش کریں۔ حکومت اس پر عمل کرے گی۔ اس ذہین اور شاطر دماغ نے بڑی عرق ریزی سے مسلمانوں کو ان کی شناخت ختم کرنے کے لیے بھیانک منصوبہ تیار کیا اور حکومت کے سامنے وہ تفصیل رکھ دی۔ اس نے لکھا: ”جب تک برٹش گورنمنٹ مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ توڑے اس وقت تک یہ سب ممکن نہیں۔ وہ ہے ان کو روحانی اور ثقافتی طورپر مفلوج کرنا۔ ان کے طرزِ معاشرت اور زندگی کو بدلنا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے نصاب ونظام تعلیم کو بدلا جائے۔ ان کے قدیم طرز کی تعلیم کو ختم کیا جائے۔ میں تجویز دیتا ہوں کہ برٹش گورنمنٹ فوری طورپر مسلمانوں کے ایجوکیشن سسٹم تبدیل کرے۔ اس سے کچھ عرصے میں خود بخود ان کا کلچر بدل جائے گا۔ مسلمانوں کی اپنے مذہب سے گہری وابستگی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید کلچر کو فروغ دیا جائے۔ غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان سمجھنے لگیں ان کا مذہب، کلچر اور ثقافت پسماندہ ہے۔ وہ انگریزی طرزِ معاشرت پر فخر کرنے لگیں۔ اپنی ثقافت، معاشرت کو گھٹیا تصور کرنے لگیں۔“
میرے خیال میں ہمارا احساس کمتری بھی اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمیں سارا تمدن اس بات میں نظر آتا ہے جو غیر مسلم ممالک میں ہے ۔ اور کیا تمدن کے اس عروج پر اقوام متحدہ میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس نہیں چلتی اور کیا اج کے دور میں قوموں کو بے گناہ مارا نہیں جاتا ۔ اگر تمدن اس بے پناہ قوت کا نام ہے جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو مار سکے تو وہ قوت ہمارے پاس موجود ہے ۔
رہی بات ناجائز بچے کی تو ایسے واقعات مسلم معاشرے میں کم پیش آتے ہیں ۔ اور ابھی تک ہمارے معاشروں نے جنسی بے راہ روی کو قبولیت کا درجہ نہیں دیا ۔
رہی بات جینز میں سفر کرنے کی ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ یہودی اس لئے بھی ذہین ہیں کہ انہوں نے من و سلوی کھایا ہوا ہے جس کا اثر ان کی نسلوں میں سفر کر رہا ہے ۔
بعض بیماریاں بھی موروثی منتقل ہوتی ہیں ۔
فریحہ فاروق، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ حلال اور حرام کا تصور دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہے۔
ReplyDeleteایک دلچسپ بات ہے کہ جو چیز انسانی تربیت میں شامل نہ ہو وہ برائ نہیں لگتی۔
مثلاً ایک بے حجاب معاشرے میں حجاب نہ پہننے پہ کوئ احساس برائ نہیں پیدا ہوتا۔ جہاں شادی سے پہلے جسمانی تعلقات بنانے کو برا نہیں خیال کیا جاتا وہاں ایسا کرنے پہ کوئ احساس برائ نہیں پیدا ہوتا۔
ایک شخص جو ذبیحہ کے تصور سے واقف نہیں اسے غیرائ نہیں ہوتا۔
اب چونکہ برائ کا احساس بنیادی طور پہ ابتدائ تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے آپکی یا بانو آپا کی دی ہوئ یہ دلیل کام نہیں کرے گی۔
I respect your expression of thoughts :)
ReplyDeleteریاض شاہد صاحب، یہ نوے فی صد تعلیم والی بات پہ مجھے تو شبہ ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں انگریز چھاپہ خانے کی مشین بر صغیر میں لانا چاہتے تھے لیکن جہانگیر نے منع کر دیا۔ غالب کے زمانے میں یعنی اٹھارہوی صدی میں چھاپ خانہ بر صغیر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔
ReplyDeleteکتابوں کی پہنچ عام انسان تک نہیں تھی اور تعلیم امراء میں ہی رائج تھی۔ اسی طرح مغلوں کے زمانے میں شدید قحط آئے جنکی تفصیلات ہمیں انکے خیراتی کاموں سے ملتی ہے اس لئے یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ کوئ ایک بھکاری نہ تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ جس وقت شاہجہاں کی بیوی اپنے چودہویں بچے کی پیدائیش میں مر رہی تھی یوروپ میں خواتین کی ٘محفوظ ڈلیوری کے لئے ہسپتال قائم ہو چکا تھا۔
برصغیر میں علم میدان میں جو ذہانت کے کام ہیں وہ افسوس ہے کہ مسلمانوں کے دور سے پہلے کے حکمرانوں کے حصَ میں جاتے ہیں۔
بر صغیر میں مسلمانوں کے دور میں ایسے کام گنوائے جو کہ باقی دنیا پہ اپنا اثر رکھتے ہوں شاید ہی کوئ ہو، سائینس کے میدان میں کوئ کام، کوئ ایک کام مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا۔
کون سی ذہانت اور فطانت، ہمارے یہاں کے ذہین اور فطین دماغ بھی مغرب میں جا کر کھل پاتے ہیں۔
۔ دنیا بھر میں ہونے والی تحقیق میں مسلم ممالک کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ عرب ممالک میں دولت کے انبار ہیں مگر کوئ ایک ایسی دریافت پچھلے پچاس کیا پانچ سو سالوں میں عربوں کے پاس لے کر آئیے۔ عرب دنیا کا کوئ مستند تحقیقی ادارہ میرے علم میں تو کوئ نہیں ہے۔
ہم صرف اس سطح پہ بات کر رہے تھے جہاں انسانوں کی صلاحیت کی بات ہو رہی تھی اور معاشرتی توانائ کی۔ من حیث القوم ہماری توانائ کس طرح کی ہے ہماری دلچسپی تو اس میں ہے۔ دنیا میں بڑی قوتوں کی سیاسی توانائ کس نہج پہ ہے یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ اگر وہ مار رہے ہیں تو ہم بھی انکے برابر کا ہی کام کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بگاڑ کے ساتھ وہ جو تعمیر کر رہے ہیں وہ ہمارے پاس غیر موجود ہے۔
وہ اپنی انسانی صلاحیتوں کو استعمال کر رہے ہیں اور ہم کر نہیں پا رہے۔ اور اسکے لئے جو دلائل ہم دیتے ہیں وہ ہم اپنی تحریر میں دے چکے ہیں۔
ناجائز بچے کی میں نے ایک مثال اس حوالے سے دی کہ دیکھا جائے تو اسکا وجود حلال سے نہیں اٹھا تو کیا اب ہم اس وجود سے خیر کی توقع نہ رکھیں گے۔ اچھا اب ایک لمحے کے لئے من و سلوی والے نظرئے کو یکسر بھلا دیں اور دوبارہ غور کریں کہ یہودی کیوں ذہین ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے جواب خاصہ مختلف ہوگا۔
یہ آپ نے بالکل درست کہا کہ بعض بیماریاں موروثی بھی چلتی ہیں۔ ان میں ذہنی بیماریاں بھی شامل ہیں۔ موروثی چلنے والی بیماریوں کی بھِ وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان سے نجات پائ جا سکے۔ جیسے سائینس اب جینز میں تبدیلی کر کے بیماریوں کو درست کرنے کی جانب رواں ہیں۔ جسکے بعد بہت سی دواءووں سے نجات مل جائے گی۔
جمیل خان صاحب، اکثر کہاوتیں بھی لا علمی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ جیسے یہ کہا جاتا تھا کہ بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے کیونکہ وہ درخت پہ چڑھنا جانتی ہے جبکہ شیر نہیں چڑھ سکتا۔ لیجیئے صاحب مختلف دستاویزی فلموں میں شیر کو درخت پہ قیلولہ فرماتے دیکھا تو اس کہاوت سے بھی منہ پھیرنا پڑا۔
ReplyDeleteفریحہ فاروق، شکریہ، میں بھی آپکی رائے کا احترام کرتی ہوں۔
ReplyDelete:)
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteآپ لارڈ میکالے کا دو فروری 1835 کو برٹش پارلیمنٹ سے خطاب گوگل کر کے پڑھ سکتی ہیں -
میں سمجھتا ہوں کہ مسلم معاشرے میں بھی وہی توانائی موجود ہے مگر اس کا رخ منفی سمت میں ہے ۔ کیا اس توانائی سے ہمارے کے لزرتے درودیوار نا آشنا ہیں ؟ ۔ ضرورت اس توانائی کو مثبت رخ پر موڑنے اور احساس کمتری سے نجات کی ہے
مسلمانوں کی سائنسی تحقیقات سے آشنا ہونے کے لئے میں آپ کو مائکل مورگن کی کتاب لوسٹ ہسٹری پڑھنے کا مشورہ دوں گا ۔
محترم ریاض شاہد صاحب ،
ReplyDeleteفرض کرتے ہیں کہ مغرب میں پہلا زنا اس وقت ہوا جب ڈاکٹر نون نے اپنی کتاب 1934ء میں شائع کی۔ اب 77 سال گذر چکے ہیں اور مغرب کا "زنا کلچر" اور تہذیب و تمدن کا عروج آپ کے سامنے ہے۔ کیا آپ کے خیال میں اب سے 23 سال بعد ڈاکٹر کے نظریہ اور آپ کے ایمان کے رو سے مغربی تہذیب افریقی جنگلی قبائل کی تہذیب سے بوجہ زنا پست ترین ہوتی جائے گی ؟
میں نے تراش خراش کر آسان ترین کر کے یہ سوال آپ کے سامنے رکھا ہے تاکہ اس بار آپ کو "تاریخ" کھنگالنے اور انگارے چبانے کی نوبت نہ آئے۔ ورنہ "فلسفہ زنا" کے علاوہ میں آپ سے من و سلویٰ کی "تاریخ" اور "سائنس" پڑھنے میں بھی کافی دلچسپی رکھتا ہوں۔
ریاض شاہد صاحب، میں تو ایک تحقیقداں کی نظر سے دیکھ رہی ہوں ایک ایسا معاشرہ جہاں کتابیں ہاتھ سے کتابت کی جاتی ہوں۔ شرح تعلیم کی حد کیا ہو سکتی ہے؟ ڈاکٹر مبارک علی کے بقول مغلوں کی خوشحالی کا دور صرف امراء کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے اور اس تاریخ میں اس زمانے کے غریب شامل نہیں کئے جاتے۔
ReplyDeleteدوسری طرف ، مسلمانوں کی سائینسی ایجادات کا زمانہ اب قصہ ء پارینہ ہے اور ایک سائینس کے طالب علم کے ناطے میں اب آپکو بتاتی ہوں کہ جب ہم تحقیق کے میدان میں جاتے ہیں تو ہماری نظریں صرف ترقی یافتہ دنیا کے کام کو دیکھتی ہیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی تحقیقی جرنلز شائع ہو رہے ہیں انکی فہرست میں کوئ نامور جرنل اسلامی دنیا سے نہیں آتا۔ اور یہ صورت حال کم از کم پچھلے پانچ سو سالوں میں نہیں بدلی۔
اس وقت جو محفوظ تحقیقی مقالے موجود ہیں وہ تقریبا دو سو سال پرانے ہیں۔ اور ان میں اسلامی دنیا کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی نہیں دنیا میں پچھلے دو سو سالوں میں جو سائینسی ترقی ہوئ ہے اور پچھلے پچیس سالوں میں جو علمی زلزلہ آیا جسکے نتیجے میں ہر روز سینکڑوں چیزیں علم کی دنیا میں شامل ہو رہی ہیں اس میں مسلمانون کا اپنی آبادی کے لحاظ سے حصہ ناقابل ذکر ہے۔ اگر کسی سائینداں نے کچھ کیا بھی ہے تو اسکا سہرا ترقی یافتہ دنیا کی تحقیق گاہوں کو جاتا ہے جہاں اسے اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملا۔
دو سو سال کا مطلب کم از کم چھ نسلیں ہیں۔
کیا انسانی صلاحیتوں کا استعمال اس نظرئیے سے ملتا ہے جو راجہ گدھ میں پیش کیا گیا؟ ایک دفعہ پھر وہی سوال۔
This comment has been removed by a blog administrator.
ReplyDeleteمحترم عثمان صاحب
ReplyDeleteڈاکٹر انون کا بیان میں ایک پھر اپنے پہلے کومنٹ سے کاپی کرتا ہوں
کتاب سے پہلے دیباچے میں لکھا ۔ " میں اپنی تحقیقات کے بعد جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ انسانوں کا کوئی گروہ ہو اس کی تمدنی سطح کا انحصار دو چیزوں پر ہے ایک ان لوگوں کا نظام اور دوسرا وہ توانائی جو ان حدود قیود کی بنا پر حاصل ہوتی ہے جو اس گروہ نے جنسی تعلقات پر عائد کی ہوئی ہیں
یہ بات بہر حال قابل ستائش ہے کہ مغربی اقوام نے جدو جہد کر کے ملوکیت سے نجات حاصل کر کے ہم سے بہت پہلے ایسے ادارے قائم کر لئے تھے جو معاشرے میں فرد کی آزادی کو یقینی بناتے تھے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسا نہیں ہو سکا تھا اور اس دور کی مسلم اشرافیہ کی ترجیحات عوام سے مختلف رہی ہیں ۔ مسلم اشرافیہ عوام کی کسی بھی تبدیلی کی مثبت تحریکات کا رخ موڑنے میں کامیابی حاصل کرتا رہی ہے جو آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی توانائی آپس کی جنگوں میں ضائع کرتی رہی ہیں ۔
رہی بات مغربی معاشرے کو درپیش خطرات کی تو اس کی دو مثالیں حاضر ہیں
امریکہ کے قومی سلامتی کے ایک سابقہ مشیر برزنسکی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’برتری کے دائرے سے باہر‘ برزنسکی اس کتاب میں لکھتا ہے :
” کمیونزم کے بعد وجود میں آنے والی دنیا ایک خطرناک دنیا ہے ۔یہ ایک پریشان اور کشیدہ دنیا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کا ادراک کرلیں جو مغربی ڈیمو کریسی سے جنم لے سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں ایک طرح کی بے قید اور مادر پدر آزاد روش پیدا ہوگی۔ جہاں ہر بات جائز ہوگی اور ہر چیز کی اجازت ۔جس کے نتیجے میں افراد کے مفادات آپس میں ٹکرا ئیں گے اور یہ صورتحال شخصی انانیت میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گی اور اس سے معاشرے میںٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی بڑھے گا اور ایک بڑے خطرے کی گنجائش بھی ۔“
برزنسکی کے الفاظ میں یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کمیونزم کے فلاپ ہوجانے کے بعد بری طرح جوش کھارہی ہے۔
مغربی تہذیب کے خاتمہ کی بابت مغر ب میں ہونے والی تحقیقات اور تجزیوں میں ایک اور نظریہ جسے تہذیبی کشمکش کے نظریے کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی اسے تہذیبوں کی کشمکش کہاجاتا ہے اور کبھی تہذیبوں کی جنگ۔ یہ نقطہ نظر مشہور زمانہ کتاب ”تہذیبوں کا تصادم “ مصنفہ سموئیل ہنگ ٹنگٹن نے پیش کیا گیا ہے ۔ اس کا مصنف اعتقاد رکھتا ہے کہ مختلف تہذیبوں میں عنقریب ایک کشمکش شدت اختیار کرجائے گی اور اس مقابلے کےلئے وہ مغربی تہذیب کے علاوہ دنیا کی چھ تہذیبوں کو نامز د کرتا ہے
١۔ کنفوشس (چینی)
٢۔ جاپانی
٣۔ اسلامی
٤۔ انڈین
٥۔ سلاوی آرتھوڈکس
٦۔ لاطینی امریکی
تہذیبوں کی اس جنگ کےلئے پھر ان تہذیبوں میں سے بھی مستقل قریب میںوہ پہلے نمبر پر اسلامی اور چینی تہذیب کو نامزد کرتا ہے چنانچہ وہ ان دو تہذیبوں کو مغربی تہذیب کےلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔
اپنے موقف کی تائید میں مولف نے دلائل اور شواہد کی بھر مار کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ اب تہذیبی کشمکش کی باری ہے اور یہ کہ آج مغرب کی راہ میں عالمی طور پر سب سے بڑا خطرہ اسلامی تہذیب ہے یا چینی
مصنف اس توقع کا اظہار بھی کرتا ہے کہ مسلمانوں اور چینیوں میں ایک طرح کا تعاون ہونا بھی ممکن ہے اور برملا کہتا ہے کہ یہ مغربی تہذیب، مغربی اقدار اور مغربی مفادات کے لئے ایک کھلا خطرہ ہے۔
چنانچہ یہ تحقیق (تہذیبوں کا تصادم)تہذیبوں کی کشمکش میں دین اور مذہب کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف عرب یہود کشمکش کو دو ادیان یعنی اسلام اور یہودیت کی جنگ قرار دیتا ہے۔
حرام اور حلال کا فلسفہ میرے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور میرا اندازہ ہے کہ آنے والے تیس سے پچاس سالوں میں مغرب کے ہاتھ سے دنیا کی زمام نکل جائے گی اور کوئی اور اس کا وارث بنے گا ۔
پڑھنے اور جاننے کے لئے آپ کو خود ہی کوشش کرنا پڑے گی کیونکہ کیونکہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteیقیننا مغل دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی اہمیت تھی چناچہ مغل بادشاہ اورنگزیب اپنے اتالیق کو ایک خط کے ذریعے اس بات کی شکایت کرتا ہے کہ آپ نے میرے جو سال صرف نحو ، منطق اور فلسفہ جیسے قدیم علوم میں ضائع کیے اس کا مداوا ممکن نہیں کاش آپ مجھے عصری علوم کی تعلیم بھی دیتے تو میں آج کے زمانے کے چلینجز کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتا ۔
مسلمانوں کے ہاں تعلیم کا رواج مسجد مدرسوں کے ذریعے تو شروع ہی سے چلا آ رہا ہے مگر ان علوم کا حال شاید وہی تھا جس کی طرف مغل بادشاہ نے اشارہ کیا تھا ۔
ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مسلمان سلطنتیں ہمہ وقت جنگ میں مشغول رہتی تھیں۔ یورپین ہسٹورین انہیں واریر ایمائرز کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ کوئی دشمن میسر نہیں آتا تحھا تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے تھیں ۔ جب معاشرے کے نوجوانوں کی تونائیاں جنگ میں صرف ہو جاتی ہوں گی تو یقیننا کسی تعمیری کام کے لئے باقی کچھ نہیں رہ جاتا ہو گا ۔ اگر کچھ تھا بھی تو اس کا اظہار تعمیرات کے فن میں ظاہر ہوا ۔
سپین کی شکست کے بعد ترکی کے مسلمان حکرانوں نے سائنس کی طرف دیھحنا گوارہ نہیں کا اور اگر کوئی کوشش کی بھی تو وہ مذہبی علماء کی کونسل کے ہاتھوں ناکام ہو جاتی تھی ۔
بحثیت مجموعی مسلمان حکمرانوں نے پچھلے پانچ سو سالوں میں دستیاب انسانی اور مادی وسائل کا درست استعمال نہیں اور نہ کہیں ٹیکنالوجہ کی حصول ان کی ترجیح رہا ہےاور یہ روش آج بھی جاری ہے کہ اپنی چیز بنانے کی بجائے باہر بنی بنائی خرید کر استعمال کر زیادہ آسان لگتا رہا ہے۔
سوال گندم جواب چنا
ReplyDeleteمحترم ،
موضوع جنسی تعلقات میں حدود و قیود اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں پیدا ہونے والے اثرات ہیں۔ آپ ڈاکٹر انون کے اس دعویٰ کے قائل ہیں کہ جنسی تعلقات میں حدود و قیود کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے عروج و زوال میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔میری اور غالباً صاحبہ بلاگ کی گذارش صرف اتنی ہے کہ فلسفہ حرام و حلال اور عقائد کی رو سے طے پانے والے حرام و حلال افعال کسی قوم کے عروج و زوال میں بنیادی عوامل نہیں ہوتے۔ اقوام کے عروج و زوال کا فلسفہ اسقدر عمیق ہے کہ اول تو اسے کسی ایک پیمانے سے ماپنا ممکن نہیں۔ تاہم اگر آپ اس کا احاطہ کرنے کی کوشش بھی کریں تو بھی عدل و انصاف ، علم دوستی ، جستجو تحقیق جیسے عوامل ہی بنیادی اہمیت پاتے ہیں۔ ایمانیات سے متعلقہ افعال کا کردار کہیں بہت بعد میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ انبیاء کرام کی دشمن ترقی یافتہ اقوام بھی محض ان کی بنیاد پر خود سے پسپا نہیں ہوگئیں بلکہ اس کے لئے خدا کو آسمان سے خود مداخلت کرنا پڑی۔
جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف چارج شیٹ اہل مذہب کے پاس ہردم موجود رہتی ہے۔ درست ، سود جیسے حرام فعل پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام پر تمام اعتراضات درست، لیکن آئیڈلزم پر اصرار کیوں ؟ موازنے پر کیوں نہیں آتے ؟ سود پر مبنی یہی معاشی نظام پچھلے چند سو برسوں سے متعلقہ اقوام کو ہر قسم کا عروج دیے ہوئے ہے۔ اسی حرام نظام کے زیر سایہ ان اقوام نے جہاں چند قباحتوں کو جنم دیا ہے وہاں معاشی ترقی اور خوشحالی کے وہ غیر معمولی نمونے بھی دیکھائے ہیں جن کی مثال تاریخ اور بالخصوص "حلال نظام" کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اس حرام نظام کے مقابل کیا ہے ؟ پری میچور حلال خاکے ؟ یہ حرام نظام اپنی موت آپ کیوں نہیں مر جاتا ؟ اپنے منفی اثرات سے وارث اقوام کو فی الفور تباہ کرنے کی بجائے صدیوں کا دوام کیسے مہیا کر دیتا ہے ؟ مغرب آپ کی خواہش کے مطابق پچاس سال بعد روبہ زوال ہو بھی جائے تو ممکنہ طور پر اس کی جگہ لینے والے چین اور بھارت میں بھی یہی حرام نظام اپنی مختلف اشکال میں موجود ہے۔ موازنے کے لئے محض اپنے من پسند رخ کی بجائے کل منظر احاطہ کرنا ہوگا۔ خدشہ ہے کہ اس جمع تفریق کے چکر میں آپ کے حق میں کچھ ذیادہ نہ بچے۔
تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ مغرب سے ذیادہ مغرب مخالفین میں مقبول ہے۔ اس کی رد میں دیے گئے دلائل کا انبار پیسٹ کرنے کی فی الحال حاجت نہیں کہ خاکسار ابھی مشاہدے کو ہی آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے فلسفہ سے ایک قدم باہر آئیں تو عالمگیریت کا مشاہدہ کریں جہاں اقوام عالم دشمن کی بجائے مدمقابل کے طور پر سامنے آتی دیکھائی دیتی ہیں۔
پس موضوع: گفتگو کا مقصد محض تبادلہ خیال ہی ہے۔ امید ہے یہ تبادلہ خیال تناؤ سے آزاد ہی رہے گا۔
:)
محترم عثمان صاحب
ReplyDeleteیقیننا کسی تہذیب کے زوال کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں مگر ان سب اہم اور بنیادی سبب اس کے کلچر کی موت ہوتا ہے ۔ کلچر کی بنیاد کسی عقیدہ پر استوار ہوتی ہے ۔ تاریخ میں جب بھی کسی قوم نے اپنے عقیدے کو خیرباد کہ دیا تو اس تہذیب کا زوال شروع ہو گیا ۔ مشہور مورخ ول ڈیورانٹ کہتا ہے کہ تاریخ میں ایسی کوئی قابل ذکر مثال موجود نہیں ہے کہ کوئی تہذیب مذہبی بنیاد کی عدم موجودگی میں اپنی اخلاقیات کو قائم رکھ پائی ہو ۔ڈاکٹر کارل زمرمین اپنی کتاب "خاندان اور تہذیب " میں کسی بھی تہذیب کے زوال کی علامات کو چھ بتاتا ہے۔
شادی کا ادارہ اپنی تقدیس کھو دیتا ہے ۔
شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا عام ہو جاتا ہے
خواتین بچے پالنے کی رغبت کھو دیتی ہیں
والدین کا عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے
نوجوان گستاخ اور باغی ہو جاتے ہیں
شادی شدہ افراد خاندان کی ذمہ داریوں سے بھگنے لگتے ہیں
معاشرہ جنسی کجروی کو قبولیت کا درجہ عطا کرتا ہے اور اسے کوئی برائی نہیں سمجھتا ۔"
ان سب کا نتیجہ ایک ایسے معاشرے کی شکل میں نکلتا ہے جہاں فرد محض ذاتی تسکین کے سامان ڈھونڈتا ہے- اس کی وفاداریاں محض اپنی ذات کے ساتھ استوار ہو جاتی ہیں اور معاشرے کو انحطاط سے دوچار کرتی ہیں ۔
اسی طرح ڈاکٹر کارل و لسن اپنی کتاب " آور ڈانس ٹرنڈ تو ڈیتھ " میں یونانی تہذیب اور رومن تہذیب کے زوال کی وجوہات بھی مندرجہ بالا قرار دیتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ اقوام خاندان اور شادی کے ادارے پر کھڑی ہوتی ہیں اور جب شادی کا ادارہ ٹوٹتا ہے تو معاشرے میں حرکی توانائی مفقود ہو جاتی ہے اور وہ جامد ہو جاتا ہے ۔ "
عثمان صاحب آپ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حرام نظام اپنی موت آپ مر کیوں نہیں جاتا اور صدیوں تک برقرار کیوں رہتا ہے ؟-
دیکھا جائے تو موجودہ نظام کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے ۔
ابھی 1945 میں یورپین اقوام ایک دوسرے کو ایک ہولناک جنگ میں نوچ کر فارغ ہوئی ہیں ،ابھی 1960 میں امریکہ میں کالوں کو آزادی ملی ہی اور 1971 میں ڈالر فلوٹنگ کرنسی بنا ہے ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد م خواتین اور مردوں نے عائلی زندگی کو بوجھ سمجھنا شروع کیا ہے ۔ اور ویسے بھی قوموں کی زندگی میں سو سال کوئی زیادہ نہیں ہوتے ۔ آپ کا حلال نظام اپنے ابتدا سے لیکر تقریبا ہزار سال تک اپنی جگہ کھڑا رہا ہے ۔ اب کمزور ضرور ہے مگر انشاءاللہ پھر کھڑا ہو گا ۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی حرام نظام سو سال سے زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا ۔ ہاں اگر وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں تو شاید مزید زندہ رہ سکیں ۔ کم از کم تاریخ کا سبق یہی ہے –
میں نے آپ کے لئے اپنے کمنٹس میں قرآن ، حدیث، ابن خلدون ، مقری ، تاریخ فرشتہ ، اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے اسلامسٹ سوسز کا حوالہ نہیں دیا کیونکہ شاید انہیں آپ زیادہ قابل اعتماد نہ سمجھیں ۔
آپ اپنا مشاہدہ جاری رکھیے ۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
محترمہ عنیقہ صاحبہ
ReplyDeleteآپ کے سوال پر ایک مختصر بحث ہم پہلے بھی میری اس پوسٹ میں کر چکے ہیں
http://jaridah.wordpress.com/2010/07/14/%DB%81%DB%8C%D8%B1%D9%88-%DB%8C%D8%A7-%D8%B2%DB%8C%D8%B1%D9%88/#comments
ریاض شاہد صاحب، یہ مذہب اور تہذیب کا تعلق مجھے اتنی درست بات نہیں لگتی۔ مذہب نے انسان کی زندگی میں گذشتہ تین ، چار ہزار سال میں دخل دینا شروع کیا ہے۔ جبکہ انسانی تہذیب ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس ہزار سال سے زائد پرانی ہے۔
ReplyDeleteہر تہذیب کو زوال ہوا، در حقیقت ہر مذہب کو بھی زوال سے گذرنا پڑا۔ اور اسکے بعد جو نہا مذہب آیا اس میں انسانی معاشروں کو دیکھتے ہوئے تبدیلیاں کی گئیں۔ جدید مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام اس سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔
تمام الہامی مذاہب کا تعلق مڈل ایسٹ کے آس پاس کے علاقے سے رہا جبکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں یا تو کوئ خاص مذہب موجود نہ تھا یا پھر وہ قدرتی مذہب موجود تھا جو اپنے مشاہدات سے ایک ماورائ طاقت کو عمل کرتے دیکھتے ہے۔ جنکے آثار ہمیں چین، یوروپ اور امریکہ۔ افریقہ اور آسٹریلیا کی پرانی تہذیبوں میں ملتے ہیں۔ ان سب کے بہت سے خدا ہیں، یا الگ خدا ہیں انکے قوانین اپنے علاقے سے منسلکہ ہوتے ہیں۔ جنکی کوئ ماورائ حیثیت نہیں ہوتی سوائے اسکے وہ اپنے ضروریات کے حساب سے قوانین بناتے ہیں تاکہ اپنے قبائل کو متحد رکھ سکیں اور غیر اقوام انکی جگہ اور وسائل ]پہ قبضہ نہ کر سکیں۔
تہذیب انسان کی بنیادی ضرورت معلوم ہوتی ہے اور مذہب روحانی۔ مذہب، تہذیب میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور تہذیب بھی مذہب کو متائثر کرتی ہے۔ ہر مذہب تبدیلی کے عمل سے گذرا ہے جبکہ تہذیبوں نے ہزار ہا سال تک اپنے وجود کو باقی رکھا۔ اس لئے تہذیب کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ اس میں اسلام بھی شامل ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں ہی اتنے فرقے وجود میں آئے ہیں۔
اسلام دوبارہ مضبوط ہوگا، یہ عمل اسی صورت میں ہوگا جب اسکے ماننے والے انسان کو اہمیت دینا شروع کریں گے۔ کیونکہ لہر مذہب انسان کی فلاح کے لئے وجود میں آیا اگر اس میں سے انسان کو منفی کر دیں تو وہ کمزور ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو خدا کو انسانوں کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کو باہمی یگانگت اور محبت کے لئے خدا چاہئیے۔ ورنہ انسان خاصہ خود غرض ہو جائے۔
اب اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھنے کی باری ریاض شاہد صاحب ںے اٹھائی؟
ReplyDeleteبڑے دنوں سے پرسکون تھا۔ جعفر کو میرا سکون نہیں بھایا۔
خیر آنٹی نہایت ادب سے گزارش ہے۔ شیر درخت پر نہیں چڑھتے۔ شیرنیاں چڑھ سکتی ہیں۔ آپ خوامخواہ نہ آپنا مذاق بنوایا کریں۔
سر شیر اپنے بچے نہیں کھاتا۔ جب دوسرے گروہ پر حملہ آور ہو تو اس گروہ کے بچے مار دیتا ہے کھاتا تب بھی نہیں۔ یہ بھی اس لئے کہ بچے کی موجودگی میں شیر اپنے بچے شیرنی سے پیدا نہیں کر سکتا۔
شیر کے بچے بڑے ہو کر اپنی راہ لیتے ہیں اور اپنے اپنے گروہ بناتے ہیں۔ حلال و حرام پر ڈسکس فرمانے والے معلومات کی کمی کا اعتراف کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟
بد تمیز میں آپکی ایسی باتوں کا برا نہیں مانتی ، صرف ایک گذارش دست بدستہ ہے کہ باقاعدہ سائِنسی تعلیم کی نہ سہی زبان کی تعلیم سے ضرور بہرہ مند ہوں۔
ReplyDeleteاور یہ کہ جب آپ کسی پہ اور خاص طور پہ مجھ پہ حملہ آور ہونے کا ارادیہ کریں تو پہلے ٹیکنالوجی کی مدد ضرور حاصل کریں یعنی نیٹ کی دنیا جھانک لیا کریں۔ ایسا کرنا نہ صڑف ذرا مشکل نہ ہوگا بلکہ لوگوں میں آپکی جہالت کی پے درپے آنے والے دلائل پہ مایوسی بھی نہ پھیلے گی۔ یہ ایک لنک ہے یو ٹیوب پہ اس میں آپکے احمقانہ خیالات پہ ایک سیر حاصل ویڈیو موجود ہے۔ اسے دیکھئیے اور دوبارہ بھاری پتھر کو چومنے سے پہلے اپنے ہاتھوں میں مضبوطی پیدا کریں۔
http://youtu.be/B71qY7EU7jE
دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ جب محاورے میں یہ نہیں کہا گیا کہ نر شیر درخت پہ نہیں چڑھ سکتا تو آپ جواب میں اس بات کی توقع کیوں کر رہے تھے کہ مادہ لکھا جائے۔ آپ دراصل زبان کے استعمال سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔ جب عمومی بات ہو رہی ہو تو نر اور مادہ کی تخصیص نہیں رکھی جاتی۔ مثلاً انسان بچے پیدا کرتا ہے۔ اس وقت یہ نہیں لکھا جائے گا کہ مادہ انسان بچے پیدا کرتی ہے۔
مجھے آپ پہ وقت ضائع کرتے ہوئے افسوس ہوتا ہے مگر یہ وقت صرف آپ پہ نہیں لگتا بلکہ آپکے پورے حلقے پہ لگتا ہے اس سے تسلی رہتی ہے۔
چونکہ ریاض شاہد صاحب آپکے طبقے سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا۔ دنیا میں صرف ایک حلقہ آپکا ہی نہیں پایا جاتا اور بھی لوگ موجود ہیں۔ اس پہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔
بد تمیز اگرچہ اس پوسٹ اور اسکے تبصروں میں کہیں بھی شیر کے بچوں کا تذکرہ نہیں تھا لیکن یہ آگ آپ شاید اس وقت سے سینے میں دبائے بیٹھے ہیں جب میں نے کہیں یہ تذکرہ کیا تھا کہ شیر اپنے بچے کھا جاتا ہے۔ آپکی معلومات میں اضافے اور درستگی کے لئے ایک اور لنک حاضر ہے۔
ReplyDeletehttp://en.allexperts.com/q/Wild-Animals-705/Animals-kill-young.htm
شیروں کے اور بھی کواص ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہم ایک علیحدہ پوسٹ اس پہ لکھ دیتے ہیں۔ یا آپ اپنی پرانی معلومات سے مطمئن ہیں؟
ناقابل یقین۔ چار سو پاوںڈز سے زیادہ وزنی شیر کے بارے میں میرا علم یہی تھا کہ یہ درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ شیرنی چڑھ جاتی ہے مگر ٹیڑھے درخت پر۔ سیدھے درخت پر دونوں نہیں چڑھ سکتے۔ خیر جن لوگوں کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ نہ ہو وہ اپنی کم علمی یا بیوقوفی کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کے برعکس جنکو اپنے ایک تبصرہ نگار کا تبصرہ صرف اس لئے ڈیلیٹ کرنا پڑے کہ وہ یہ لکھ سکیں آپ اپنا دوسرا لنک خود ہی پڑھ لیں ایسا نہ ہو کوئی اور عزت افزائی کر جائے۔
ReplyDeleteد تمیز اگرچہ اس پوسٹ اور اسکے تبصروں میں کہیں بھی شیر کے بچوں کا تذکرہ نہیں تھا لیکن یہ آگ آپ شاید اس وقت سے سینے میں دبائے بیٹھے ہیں جب میں نے کہیں یہ تذکرہ کیا تھا کہ شیر اپنے بچے کھا جاتا ہے۔
جیسے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر کوئی بچہ شیر اور بلی کی کہانی میں بلا اور شیرنی ڈال دے وہ ضرور پیپر میں انڈا اور منھ پر چنڈ کھائے گا۔ اسی طرح مجھے آپ کی تازہ ترین حرکت سے پورا یقین ہے کہ آپ جونسی دنیا اپنی بچی کو دینے کا لکھتی ہیں اس دنیا کی سب سے بڑی رکاوٹ خود آپ اور آپکا تعصب ہے۔
بزرگ سچ کہہ گئے ہیں کچھ چیزیں کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ کل یہاں ہر تبصرہ نگار پر عبداللہ صاحب لپکتے تھے۔ آج کل یہ ذمہ داری کسی اور نے سنبھال لی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ اور چھ مہینے میں شائد یہاں کچھ نہ کچھ بدل جائے۔ رب راکھا
بد تمیز، آپ نے یہ ویڈیو دیکھے بغیر شاید یہ تبصرہ کر ڈالا۔ وہی پرانی عادت۔ اگر ویڈیو دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ شیر درخت پہ چڑھ سکتا ہے۔
ReplyDeleteاب آپ اس طرح کے قصے لا رہے ہیں کہ درخت سیدھا ہو یا ٹیڑھا۔ حالانکہ پہلے آپ اس سے انکاری تھے۔ ویڈیو میںآپ دیخ سکتے ہیں شیر ایک مادہ نہیں بلکہ نر ہے۔
آپکی اس ہٹ دھرمی کی یہ داستان خاصی طویل ہے جس پہ آپ ہمیشہ تعصب اور عبداللہ کا فل اسٹاپ لگاتے ہیں۔
شیر کے بچوں کے بارے میں آپکی رائے بدلی یا وہی ہے؟
آپ اپنے آپکو نہیں بدل سکتے جبکہ آپ غلطیوں اور بدتمیزیوں کے ڈائینامائیٹ پہ کھڑے ہیں کسی دوسرے سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں۔ یہ عظیم راز آپ کب کھولیں گے؟