اب یہ تو دینیات والے جانیں یا سوشیالوجی والے کہ کیسے مختلف رسوم و رواج مذاہب میں نہ صرف شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اسکے جوش و خروش میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں مثلا میٹھی عید پہ سویاں یا شیر خورمہ بننا اور محرم میں حلیم بنانا۔
محرم میں حلیم کیوں بنایا جاتا ہے؟
اسکے بارے میں جو روایت ہم تک پہنچتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ قافلہ ء حسین جب ظلم یزید کا شکار دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن تھا تو غذا کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بچا کھچا تمام اناج ملا کر کھانا پکایا گیا تھا۔ اب یہ ارتقاء ہی کہلائے گا کہ شدید الم کے عالم میں بنایا جانے والا کھانا ہزار سال بعد حلیم جیسی لذیذ شے میں تبدیل ہو گیا اور آج ہم حلیم نائٹ مناتے ہیں۔
میری ایک جاننے والے خاتون ایک دن کہنے لگیں کہ سنّی مذہب میں ایک بنیادی بات بڑی اچھی ہے۔ وہ کیا؟ ہم نے استفسار کیا ۔ جواب ملا، وہ یہ کہ تمام مذہبی رسومات کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہیں۔ گیارہویں شریف ہو، عید، بقر عید ہو یا رمضان شب براءت۔ ہر ایک کے ساتھ کھانا پینا جڑا ہوا ہے۔ اب محرم ہی کو دیکھ لو سنّی اس میں بھی حلیم پکاتے ہیں، کھلاتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ حلیم تو حلیم، شربت کتنا بانٹتے ہیں۔
مگر یہ کام تو شیعہ بھی کرتے ہیں۔ ہم نے تو شیعوں کا حلیم بھی خوب کھایا ہے۔ میں نے انکی بات پہ حیرانی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں ارے پہلے انکے جتنی محنت تو کرو۔ پورے ڈھائ مہینے مجلسوں میں پے در پے شرکت کرنا، ڈھائ مہینے سوگ کے کرب میں مبتلا رہنا اور پھر کھانا پینا کرنا۔ اگر ایک دفعہ اس سارے عمل سے گذر جاءو تو پتہ لگ جائے گا۔ کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے مقابلے میں سنّی ہونا آسان اور مزے کا کام ہے۔
اچھا تو پھر یہ بات آپ بھی تسلیم کریں کہ صدیوں سے اس واقعے کو تصوراتی طور پہ قائم کرنا اور پھر اسکی منظر کشی میں سننے والوں کو شامل کرنا اس فعل نے انکی تخلیقی سلاحیتوں کو اتنی جلا دی ہے کہ آج پاکستان، ہندوستان میں نمایاں لکھنے والوں کی بڑی تعداد شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے ان سے کہلوانا چاہا۔ لیکن اسکے بعد تخیل اور تخلیق پہ ایک الگ گفتگو چلی۔ جو اس تحریر کے دائرے سے باہر ہے۔
بہر حال ایک سوال یونہی ذہن میں آگیا کہ کیا عقیدہ اپنے ماننے والوں پہ کوئ بنیادی اثر چھوڑتا ہے؟
سنی اور شیعہ دونوں ہی محرم الحرام مناتے ہیں گو کہ الگ نظریات کے ساتھ لیکن اس سے شہر میں بڑی ہمہ رنگیت اور رونق رہتی ہے۔ بقر عید کے مہینے سے ہی دوکانوں پہ کالے کپڑوں کا اسٹاک لگ جاتا ہے۔ اس دفعہ میرے ذہن سے بالکل نکل ہی گیا تھا اور بازار جا کر میں نے سوچا کہ اس دفعہ سردیوں میں لگتا ہے کہ کالا رنگ فیشن کے افق پہ چھایا رہے گا ہر دوکان پہ یہ رنگ ڈھیروں ڈھیرہے۔ لیکن نہیں یہ محرم کی تیاری تھی۔
ہم جہاں رہتے ہیں یہاں قریبی ہر نکڑ پہ امام بارگاہ موجود ہے۔ محرم سے لے کر ربیع الاول تک ان امام بارگاہوں میں بڑی رونق رہتی ہے۔ امام بارگاہوں پہ روشنی کا خاص انتظام ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ اب سیکیوریٹی کا بھی۔ اگرچہ قریبی امام بارگاہ تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے لیکن رات کو ایک بجے بھی میں نعرہ ء حیدری سن سکتی ہوں۔
اب سے چند سال پہلے تک سنّی بھی ان جلوسووں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے مجھے بھی نو محرم کو صدر کے علاقے میں جسے شاید محلہ خراساں کہتے ہیں رات گذارنے کا موقع ملا۔ ایک شیعہ دوست ساتھ میں تھے۔ سبیلیں لگی ہوئ ہیں۔ شربت بٹ رہا ہے۔ لوگ ایک قافلے کی صورت کالے کپڑے پہنے رواں ہیں۔ زنجیروں کا ماتم ہو رہا ہے۔ تعزئیے آ جا رہے ہیں۔ بچے ،خواتین ، بوڑھے جوان سب ان میں شریک ہیں۔ ساری کمیونیٹی اکٹھا ہے۔ سب اپنی سرگرمیوں میں مصروف۔ باہر نکلے تو قائد اعظم کے مزار کے پاس دیگیں لائن سے لگی ہوئیں جانے کتنی۔ حلیم کی تیاری زوروں پہ۔
اب اس سارے قصے میں حلیم پھر سے آگیا۔ حالانکہ محرم کا بنیادی الم کا موضوع پانی کی عدم دستیابی وہ بھی ایسی کہ دریا کا پانی چند گز کے فاصلے پہ موجیں مار رہا ہے مگر اس تک پہنچنے کے لئے خون کا دریا پار کرنا ہے۔
اور جبکہ ہمارے شیعہ دوست بتا رہے تھے کہ کس طرح انکا سلسلہ ء نسب کس امام سے جا کر ملتا ہے۔ میں اپنی والدہ کا بچپن دیکھ رہی تھی جو لکھنوء میں گذرا۔ اور جہاں انکے بقول محرم میں چاہے گھر والے جائیں یا نہ جائیں ہم بہن بھائ مجلسوں میں جاتے تھے تبرکات کھانے کے لئے چپکے سے گھر سے فرار ہو کر۔
اس وقت ایسی کوئ منادی نہیں تھی کہ شیعہ مجالس میں سنّی نہیں جائیں گے۔ لکھنوء میں تعزئیے بڑے خوبصورت بنائے جاتے تھے اور انکے والد یعنی ہمارے نانا اپنے بچوں کو تعزئیے دکھانے بھی لے جاتے تھے۔ان تعزیوں اور جلوسوں کا تذکرہ رجب علی بیگ نے بڑے اہتمام سے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔ یہ تقسیم ہندوستان کے خاصے بعد کی بات ہے۔ آجکل تو وہاں بھی ان جلوسوں پہ پابندی ہے۔
البتہ یہ کہ میرے والد صاحب ہجوم والی جگہوں پہ بچوں کو نہیں جانے دیتے۔ انہیں اس بات کی پریشانی رہتی تھی کہ بچے ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔ ہم نےبھی مختلف پالے ہوئے خوف کی بناء پہ کبھی والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان جلوسوں کو دیکھنے کی کوشش نہ کی۔
ادھر لکھنوء میں تو تعزئیے سنّی بھی بنایا کرتے تھے۔ خود میرے بچپن میں، یہاں کراچی میں ایک دوست کے گھر میں محرم میں اجرت پہ تعزئیے بناتے تھے۔ انکے گھر میں، میں نے بڑے خوبصورت تعزئیے رکھے دیکھے۔ مجھے تو وہ اس وقت پریوں کے گھر لگا کرتے تھے۔
وقت گذر گیا، ہر طرح کا وقت گذر ہی جاتا ہے۔ اب بھی اس شہر میں حلیم کی دیگیں چڑھتی ہیں، بچے سبیلوں کے چندے مانگتے ہیں، شربت بانٹا جاتا ہے۔ لیکن اب دل میں یہ خوف رہتا ہے کہ دیکھیں کہاں سے کس وقت دھماکے کی یا فساد کی خبر آتی ہے۔
روڈ پہ میں نے بڑے بڑے بینرز لگے دیکھے عشرہ ء عمر و حسین۔ مذہبی رواداری پیدا کرنے کی ایک اچھی مثبت کوشش۔ اس بات کو دوہراتے ہوئے کہ نہ ایک نظریہ مکمل طور پہ ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ دوسرا نظریہ مکمل طور پہ چھا سکتا ہے۔ اختلاف میں خوبصورتی ہے۔ ہم نعرہ ء حیدری کے درمیان حلیم کھاتے ہیں۔ پانی کے لئے یہ کہ پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین کی۔
حیدرآباد (دکن) میں تو "حلیم" کو مونث لکھا جاتا ہے۔
ReplyDeleteحیدرآبادی صاحب، یہ حلیم اور دہی مذکر اور موءنث کت معاملے میں مختلف علاقوں میں مختلف رجحان رکھتے ہیں۔ کراچی میں زیادہ تر لوگ حلیم اور دہی کو مزکر بولتے ہیں اور بعض موءنث۔ میرے اوپر لکھنءوی اثر زیادہ ہے اور میرا خیال ہے کہ لکھنوء میں مذکر بولا جاتا ہے۔ کم از کم میں نے اپنے ارد گرد اسے مذکر سنا ہے۔
ReplyDeleteدلچسپ مشاہدہ ہے۔ ہم نے اسی بہانے فیروز الغات کھولی تو پتا چلا کہ حلیم اردو کا اسم مذکر ہے جبکہ ہم اسے ہمیشہ مونث ہی سنتے آئے ہیں۔ حلیم پک رہی ہے، فلاں کے گھر سےحلیم آئے گی وغیرہ۔ اس کی وجہ شائد ہمارا حیدرآبادی پس منظر ہو۔
ReplyDeleteجہاں تک بات رہی برداشت و تحمل و صبر و ضبط کی، من الحیث المعاشرہ اس کا تو ریپچر ہو چکا ہے، چاہے وہ تعزیے ہوں یا روز پریڈ۔
پاکستان میں محرم کی سب سے زبردست بات یہ ہے کہ دو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ لاہور میں محرم کے دنوں حلیم کا تو کبھی نہیں سنا۔ البتہ حلوہ پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ نان کھیر بھی بانٹتے ہیں۔
ReplyDeleteیہ کون لوگ ہیں جو فیصلہ صادر کردیں کہ یہ چیز مذکر یا مؤنث ہے؟
ReplyDeleteمیرا یہی فیصلہ کہ حلیم کو مؤنث ہی رہنے دیں ـ
کیونکہ حلیم کھائی ہے اور نہ کہ کھایا ـ
لغات کی ایسی کی تیسی!
ReplyDeleteلاہوری اردو میں حلیم ہوتی ہے اور دہی ہوتا ہے۔
عثمان، آپ نے بھلا کیا بتا دیا کہ دہی لاہوری اردو میں مذکر ہوتا ہے ورنہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ لاہوریوں کو جو چیز بھی اچھی لگے اسے موءنث بولتے ہیں۔
ReplyDeleteشعیب صاحب، خطرہ لگ رہا ہے کہ محرم کے مہینے میں موءنث مذکر پہ فساد نہ ہو جائے۔
:)
عدنان مسعود صاحب، آپکے بیان سے ڈھارس بندھی کہ ہمارے پاس بھی ماحول کے علاوہ دلیل ہے۔
او جی فیروز الغات اہل کراچی کی مرتب کردہ ہوگی۔
ReplyDeleteجبکہ میں صرف لغات لاہوری بزبان عثمانی کا قائل ہوں۔ جس کی رو سے ...
حلیم ہوتی ہے ، ہوتی ہے ، اور ہوتی ہے۔
آہو!