Friday, December 30, 2011

شیر، درخت اور وہ

بال کترنے سے مردہ ہلکا نہیں ہوتا۔ اصل حقیقت تو مردہ ہی بتا سکتا ہے یا مردہ اٹھانے والا۔ ہم آپ تو محض گمان ہی کر سکتے ہیں۔  لیکن کچھ محاوروں تک پہنچ آسان ہوتی ہے یعنی ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، سامنے نظر آرہا ہے۔
مجھے کیا آپ میں سے بھی کچھ کو یاد ہو گا جب اردو بلاگنگ کی دنیا میں ایک محاورے پہ دھمال مچی تھی۔ محاورہ تھا لکھے موسی پڑھے خدا۔ ایک بلاگی ساتھی نے اپنے پچاس سال پرانے ایک استاد کے توسط سے اس محاورے کو غلط بتایا اور کہا کہ اصل محاورہ ہے لکھے مُو سا پڑھے خود آ۔ معتقدین نے واہ واہ کی۔ مجھے بے قراری ہوئ تو میں نے اسے مختلف لغات میں دیکھا اور ہر کسی میں یہی ملا،  لکھے موسی پڑھے خدا۔
بلاگی ساتھی کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے بال جیسا باریک لکھنا کہ خود ہی پڑھ سکے۔ میرا خیال تھا کہ یہ محاورہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب تحریر اتنی خراب ہو کہ خود بھی نہ پڑھ سکے خدا ہی پڑھے کیونکہ وہی علیم و خبیر ہے۔
عوامی مبصرین نے موسی والے محاورے کو نبی اور خدا دونوں کی شان میں گستاخی قرار دیا۔  ایک ایسی  صالح حکومت کے آنے کی دعا کی جو لغت سے خلاف مذہب محاورے نکال کر باہر کرے۔ اور ایک دفعہ پھر ان بلاگی ساتھی کے لئے عوامی دعائے خیر کہ اصل محاورے سے روشناس کیا۔
ہم نے سوچا جان بچی، ایمان بچا اور دنیا میں کیا چاہئیے۔
توحید پہ یقین رکھنے والوں کے لئے میں یہ سمجھتی تھی کہ خدا کے سوا باقی سب محبوب ، بت ٹہرتے ہیں اس لئے اردو شاعری بتوں اور صنم پہ زیادہ بات کرتی ہے۔ لیکن دلوں کو جھانکیں  تو ایسا نہیں نظر آتا۔
یہ  اگر ایک محاورے میں خدا اور موسی کی حفاظت کرتا ہے تو دوسرے میں شیر کی حفاظت پہ بھی کمر بستہ نظر آتا ہے۔ محاورہ ہے بلی شیر کی خالہ ہوتی ہے۔ کیونکہ شیر درخت پہ نہیں چڑھ سکتا بلی چڑھ جاتی ہے۔ ہم نے مذاقاً کہا کہ یہ محاورہ غلط ثابت ہو گیا ہم نے ایسی دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں جن میں شیر درخت پہ قیلولہ فرماتے ہیں۔
ہمارے ایک مبصر جو کہ ویسے ہمارے بلاگ کی طرف تھوکنا  بھی پسند نہ کریں اس بات پہ ایسے جوش میں آئے کہ  اپنے تھوک اور شیر کو  ہمارے علم اور جہالت  پہ قربان کر دیا۔ اول تو شیر درخت پہ چڑھ نہیں سکتا چار سو پاءونڈ وزنی ہوتا ہے اور اگر بالفرض محال ایسا ہوتا بھی ہے تو مادہ ہی چڑھ سکتی ہے نر نہیں۔  انہوں نے فرمایا۔ شیرنیوں کو ایشوریا رائے کی طرح اپنے وزن کا خیال رہتا ہے۔ اس خیال سے مجھے خاصہ حسد محسوس ہوا۔
 چنانچہ، شیر پنجاب کے آجکل کے نازک حالات کو ایک طرف کیا، حالیہ پر کشش سونامیوں سے بھی منہ موڑا اور یو ٹیوب پہ ایک ویڈیو کو جا لیا۔ شیر وہ بھی نر، درخت پہ اپنے شکار سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پھر فاتحانہ جذبے سے اسے جواب  میں ڈال دیا۔

اس پہ دوسرا بیان آیا کہ سیدھے درخت پہ نہیں چڑھ سکتا، ٹیڑھے پہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ خاصیت شیر اور ہمارے درمیان ملتی جلتی ہے۔ حالانکہ میرا وزن شیر کے چار سو پاءونڈ کا چوتھائ بھی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیڑھے درخت پہ ہی  جم کر چڑھ پاتے ہیں۔ سیدھے درخت کو صراط مستقیم سمجھ کر اس کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔ کیا شیر جیسا بہادر جانور بھی صراط مستقیم سے گھبراتا ہے؟

باتوں میں لگا کر انہیں یہاں تک تو لائے کہ ٹیڑھے درخت پہ چڑھ جاتا ہے لیکن اب اس کا کیا ہو کہ انہی مبصر کو یہ  شیر کی توہین لگی کہ شیر اپنے بچے کھالیتا ہے۔ حالانکہ اس پہ لغت والوں کو زیادہ اعتراض ہونا چاہئیے کہ اس سے یہ محاورہ مشکوک لگتا ہے، شیر کا ایک بھلا۔ ایک بھلا، اگر وہ شیر کی دسترس سے بچ جائے۔
  شیر بے چارے پہ کیا موقوف، یہاں ایسے جانوروں کی ایک فہرست ہے جو اپنے بچے کھالیتے ہیں انسانوں کی طرح بیچتے نہیں۔ معاشی سطح پہ حیوان ، انسان سے کہیں پیچھے ہیں۔ جہاں یہ ان جانوروں کی بے غرض طبیعت کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرتے۔ کچھ لوگ اسے حیوانی جبلت بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ اندیشہ ہے کہ شیر کو حیوان کہنے پہ بلاگنگ کی دنیا کسی انقلاب سے دوچار نہ ہوجائے۔
شیر اس فعل کو خوب سوچ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ شیرنیوں کو شکار کی اور بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری دے کر وہ زیادہ وقت  اپنی تولیدی صلاحیتوں اور اپنی حکومت کی حفاظت کے غور و فکر میں گذارتا ہے۔  جب شیرنیوں کو اس پہ اعتراض نہیں تو کسی اور کو وہ بھی ایک انسان کو اس پہ تاءو کھانے کی کیا ضرورت۔ میری اس بات کو بعض طبقے کسی خاص طبقے کی طرف اشارہ نہ سمجھیں۔ بخدا شیر ایسا ہی ہوتا ہے۔
   بات یہ ہے کہ شیر کسی انتخابی پارٹی کا نشان ضرور ہو سکتا ہے۔ لیکن خود شیر کو انتخابات میں کھڑے ہونے سے دلچسپی نہیں۔ وہ آمریت کو بغیر کسی شرمندگی کے پسند کرتا ہے۔ اسے دھاڑنا  آتا ہے جس سے جنگل کے جانور ایک دم قابو میں آجاتے ہیں  وعدے کرنا نہیں آتا کیونکہ جنگل کے جانور نہیں جانتے کہ وعدہ کیا ہوتا ہے وفا کسے کہتے ہیں۔ اس لئےکوئ اسکے شخصی معاملات کی جتنی کرید کرے۔ شیر کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی شیر طاقت کے استعمال پہ اتنا زیادہ یقین رکھتا  ہے کہ شیر کا منہ چوم کر طمانچہ کھانا پڑتا ہے۔ کس سے؟  اس میں نر مادہ کی تخصیص  نہیں اسی سے جس کا منہ چوما ہوتا ہے میرا مطلب شیر ہے۔
۔
۔
محاوروں کے سلسلے میں مزید چُل اٹھی اور کچھ اور کے بخئیے ادھیڑے ہیں۔ متائثرہ قارئین سے پیشگی معذرت۔
زیادہ بولنے والا ڈھول کی طرح خالی ہوتا ہے یہ ایک محاورہ ہے اسکا رد ہے زیادہ وہی بولتا ہے جسکے پاس بولنے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔
غیر جانبداری ایک اچھا وصف ہے، یہ ایک خیال ہے اسکے مخالفین کا کہنا ہے کہ غیر جانبداری کا مطلب ہے کہ آپ ظالم اور مظلوم دونوں کو یکساں سمجھتے ہیں۔
اور سب سے مشہور جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ عقلمند ہوتا ہے نہیں جناب، جو بولنے سے پہلے تولتا ہے وہ غیر مخلص ہوتا ہے۔

3 comments:

  1. لگتا ہے کہ چھٹیاں خوب انجوائے کر رہی ہیں۔
    لیکن یہ چھٹیاں التواء میں پڑے کچھ معقول پراجیکٹس میں بھی صرف کر سکتی تھیں نا کہ سب کام چھوڑ کر کتے کی دم سیدھی کرنے چل پڑیں ؟

    ReplyDelete
  2. عنیقہ آپ بھی کس کی بات کو اہمیت دے بیٹھی ہیں اس کو تواس کے گھر والے اس قابل نہیں سمجھتے!
    :)

    آمریت کا نشان شیر نون لیگ نے صحیح پہچان رکھی ہے،آخردوسروں کی محنت پر عیش کرنے والے کمزور کو چیر پھاڑ کھانے والے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی اکثریتی جماعت جو ہے،

    اب اسی شیر کے بارے لکھ کر لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ بلکہ پیر رکھیں گی تو تھوک کے جھاگ اڑاتے لوگ تو پہنچیں گے ہی!


    بات تو عثمان نے بھی پتے کی کی ہے کتے کی دم بھی کوئی سیدھی کرنے کی چیز ہے بھلا۔۔۔۔۔؟

    ReplyDelete
  3. شیر درخت پر اس لئے نہیں چڑھتا کہ اس کی جسامت اور خوراک کی مناسبت سے اس کے لئے کوئی جانور درخت پر نہیں بستا۔ تاہم یہ بات میں کوئی کلام نہیں کہ شیر درخت پر چڑھ سکتا ہے اور شیرنی بھی۔ چاہے وہ بنگال کے ہوں، روس یا پھر افریقہ کے :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ