لیلی ایک دس سالہ بچی کا نام نہیں بلکہ خوف اور بے بسی کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ ایک عام بچی نہیں، بلکہ جدو جہد اور امید کے مابین ڈولتی ہمت کی علامت ہے۔ اس نے شاید سند باد جہازی کی کہانیوں میں ہی سمندری قزاقوں کے بارے میں پڑھا ہوگا اور اسے گمان بھی نہ ہو گا کہ وہ زمین پہ رہتے ہوئے انکے ظلم کا شکار ہو جائے گی۔
وہ سنڈریلا ، باربی, کوہ قاف کی دیومالائ کہانیوں کی عمر سے ابھی باہر نہیں آئ اس لئے خواب دیکھ رہی ہے کہ اسکے ارد گرد کے لوگ، اسکی قوم کے لوگ اسکے باپ کے موت کے پنجے سے چھڑا لائیں گے۔ اور وہ صرف خواب ہی نہیں دیکھتی بلکہ اس چیز کے لئے بھی تیار ہے کہ اپنے باپ کی رہائ کے لئے اپنا گردہ بیچ دے۔
اسکے باپ کی صومالی قزاقوں سے رہائ کے لئے اب صرف پانچ کروڑ روپے چاہئیں۔ وہ اس حادثے میں اکیلے نہیں جہاز کے دیگر عملے میں مصری اور انڈینز بھی شامل ہیں۔ تاوان کی کل رقم تقریباً بیس کروڑ بنتی ہے جس میں سے مصری اور انڈیئنز اپنا حصہ ادا کر چکے اور اب پاکستان کی باری ہے۔
لیلی کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ ایک کھلاڑی کی شادی پہ ہماری ایک وزیر سونے کا تاج دے سکتی ہیں مگر پاکستانیوں کی رہائ کے لئے حکومت کوئ دلچسپی نہیں لے رہی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں اربوں روپوں کا غبن اور کرپشن ہوتا ہو جہاں لوگوں کو اپنا بینک بیلینس تک یاد نہ ہو۔ وہاں میں اگر صرف پانچ کروڑکہا جائے تو کیا غلط ہے۔ اگر ایسے دس لوگ صرف پچاس پچاس لاکھ روپے دے دیں تو لیلی کو میڈیا کے سامنے آنسو نہ بہانا پڑیں۔
وہ سنڈریلا ، باربی, کوہ قاف کی دیومالائ کہانیوں کی عمر سے ابھی باہر نہیں آئ اس لئے خواب دیکھ رہی ہے کہ اسکے ارد گرد کے لوگ، اسکی قوم کے لوگ اسکے باپ کے موت کے پنجے سے چھڑا لائیں گے۔ اور وہ صرف خواب ہی نہیں دیکھتی بلکہ اس چیز کے لئے بھی تیار ہے کہ اپنے باپ کی رہائ کے لئے اپنا گردہ بیچ دے۔
اسکے باپ کی صومالی قزاقوں سے رہائ کے لئے اب صرف پانچ کروڑ روپے چاہئیں۔ وہ اس حادثے میں اکیلے نہیں جہاز کے دیگر عملے میں مصری اور انڈینز بھی شامل ہیں۔ تاوان کی کل رقم تقریباً بیس کروڑ بنتی ہے جس میں سے مصری اور انڈیئنز اپنا حصہ ادا کر چکے اور اب پاکستان کی باری ہے۔
لیلی کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ ایک کھلاڑی کی شادی پہ ہماری ایک وزیر سونے کا تاج دے سکتی ہیں مگر پاکستانیوں کی رہائ کے لئے حکومت کوئ دلچسپی نہیں لے رہی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں اربوں روپوں کا غبن اور کرپشن ہوتا ہو جہاں لوگوں کو اپنا بینک بیلینس تک یاد نہ ہو۔ وہاں میں اگر صرف پانچ کروڑکہا جائے تو کیا غلط ہے۔ اگر ایسے دس لوگ صرف پچاس پچاس لاکھ روپے دے دیں تو لیلی کو میڈیا کے سامنے آنسو نہ بہانا پڑیں۔
پتہ نہیں کیوں میں بھی لیلی کی اس کوہ قاف کا حصہ ہوں مجھے۔ مجھے بھی یقین ہے اس کے والد کیپٹین وصی حسن صومالی قزاقوں کے پنجہ ء موت سے نکل آئیں گے اور وہ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی نئے خواب بُنے گی۔
آپ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات استعمال کر کے، قزاقوں کی دی گئ مدت اب ختم ہونے کے قریب ہے۔
اکاءونٹ نمبر؛
1066-0081-009278-01-9
بینک الحبیب لمیٹڈ
بفرزون برانچ ، کراچی
آپ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات استعمال کر کے، قزاقوں کی دی گئ مدت اب ختم ہونے کے قریب ہے۔
اکاءونٹ نمبر؛
1066-0081-009278-01-9
بینک الحبیب لمیٹڈ
بفرزون برانچ ، کراچی
صومالی قزاقوں کی یہ سرگرمیاں پچھلے کئ سالوں سے جاری ہیں۔ یہ قزاق، بنیادی طور پہ صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ بر اعظم افریقہ کا حصہ ہے۔ قزاقوں کی اس سرگرمی کا باعث کئ باتوں کو بتایا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیاسی عدم استحکام اور کئ سالوں تک جاری خانہ جنگی جسکی وجہ سے عملاً کوئ حکومت نہیں۔ یا صومالی مچھیروں کی انتقامی کارروائ ان غیر ملکی ٹرالرز کے خلاف جو کہ انکے سمندری حصے میں آکر اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑتے تھے کہ انہوں نے سمندر کو مچھلیوں سے خالی کر دیا اور اس سے مقامی مچھیروں کا ذریعہ ء روزگار ختم ہو گیا۔
ان قزاقوں میں تین طرح کے لوگ شامل ہیں۔
مقامی مچھیرے، جنہیں سمندر سے پوری واقفیت ہے اور یہ قزاقوں کا ماسٹر مائینڈ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی بوٹس کو انکے ساحل کے قریب سے گذرنے کا کوئ حق نہیں۔
سابق فوج کے افراد جو پہلے اپنے جنگی سرداروں کے لئے لڑا کرتے تھے اب اس کام میں شامل ہو گئے۔
تیکنیکی مددگار جو تیکنیکی آلات کو دیکھتے ہیں مثلاً جی پی ایس۔
یہ صومالی قزاق اپنی سمندری حدودوں کے قریب سے گذرنے والے پانی کے جہازوں پہ قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر لاکھوں ڈالر تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔
صومالیہ ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے لیکن غربت یہاں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ قزاقوں کو ایک لمبے عرصے سے اتنی کامیابی سے حملہ کرتے دیکھ کر ذہن میں کئ سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ ان قزاقوں کو اسلحہ کہاں سے ملتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اسلحہ انکے پاس یمن اور موغادیشو کے رستے سے آتا ہے۔ دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ تاوان کی رقم ادا کیسے کی جاتی ہے۔ تاوان کی رقم ڈالرز کی شکل میں ادا کی جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز تک پہنچائ جاتی ہے۔
قزاقوں کے ذریعے آئ آمدنی نے علاقے کے معاشی حالات کو بہت بہتر کر دیا ہے۔ بہترین گھر بنے، تفریحی مقامات وجود میں آئے، مختلف اشیائے زندگی کی ڈیمانڈ بنی انکی مارکیٹ وجود میں آئ اور یوں خوشحالی نے جگہ بنائ۔ خوش شکل لڑکیوں کو بھی مالدار بحری قزاقوں کی رفاقت ملی۔
مقامی آبادی کے لوگ اس چیز سے خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے سمندر کے ماحول کو جو نقصان پہنچایا گیا اس طرح وہ اسکی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں بھی چند شکایات ہیں اور ان میں سر فہرست قزاقوں کا نشہ آور اشیاء اور اسلحے کا بے دریغ استعمال۔
قزاقوں کی اس مصیبت سے وہاں سے گذرنے والے جہاز خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس علاقے کی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں سے ہر سال ہزاروں پانی کے مال بردار اور مسافر جہاز گذرتے ہیں۔ یوں یہ منظر بیک وقت قزاقوں کے لئے خوشحال زندگی کی نوید بنتے ہیں اور پانی کے جہاز سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک مسلسل خطرہ۔ اسکے علاوہ کاروباری حلقوں کی سرگرمیاں بھی اس سے متائثر ہوتی ہیں اور اعتماد دگرگوں ہوتا ہے۔
اس ساری بظاہر دہشت ناک صورت حال کے باوجود ان قزاقوں کی پیدائیش کا ایک مثبت اثر محسوس ہو رہا ہے اور وہ صومالیہ اور اسکے ارد گرد کے سمندر کی ماحولیاتی زندگی کی بحالی ہے۔ صومالیہ سے منسلک کینیا میں رواں سال مچھلی کی بہترین پیداوار رہی۔ اسکی وجہ، بحری قزاقوں کے خوف کی وجہ سے باہر کے ٹرالرز کا شکار سے دور رہنا ہے۔
خوف، شکار ہو جانے والوں کو کمزور بنا سکتا ہے مگر استعمال کرنے والوں کو مضبوط۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا اس دہشت گردی پہ قابو پانے کے لئے کیا راستہ نکالتی ہے۔
ایک دفعہ پھر لیلی کو اس خوف سے باہر نکالنے کے لئے آگے آئیے۔
عوام کے گردے تو ملٹری پہلے ہی کھا چکی ہے .. اب کیا باقی ہے جو عوام سے مزید مانگا جارہا ہے۔ ملٹری کیوں نہیں مدد کرتی کپتان صاحب کی؟ کتنے ہی لاچار بلڈی سویلینز ہیں جن کی دردناک داستانیں روزانہ اخبارات کی زینیت تک بننے کے قابل نہیں۔
ReplyDeleteخیر یہ تو ماری ہے میں نے چول ..
سنجیدہ نوٹ پر یہ ہے کہ دردمند قارئین میری بکواس کی بجائے استانی محترم کی اپیل پر کان دھریں۔
پانی کے جہازوں
ReplyDeleteتصحیح فرما لیں۔
بحری جہاز
Jazak Allah Aniqa,and thanks for the account number,
ReplyDeletewe will do our best InshaAllah!!!
May Allah save them all,Aameen.
جب پہلے دن ميں نے انٹرنيٹ پر ايک اور بحری جہاز کے اغواء اور اس ميں پاکستانيوں کی موجودگی کا پڑھا تھا تو دل پريشان ہوا تھا کہ ہمارے ہموطنوں ميں زندہ رہنے کا حق صرف بے شرم اور بے غيرت سياستدانوں يا جرنيلوں کو حاصل ہے ۔ جس کی تجوری سے آپ مانگ رہی ہيں وہ تو ہماری پوٹلياں خالی کرنے پر تُلے ہيں
ReplyDeleteيہ دنيا ہے ہی ڈاکوؤں اور بحری قزاقوں کی ۔ سوائے اُن علاقوں کے جہاں اللہ کے بندوں کی حکمرانی رہی باقی علاقوں اور وقتوں ميں ڈاکوؤں اور بحری قزاقوں کی حکومت رہی ۔ برطانيہ کے موجودہ حکمرانوں کے آباؤ اجداد بحری قزاق ہی تھے ۔ امريکا اور آسٹريليا کے سفيد فام بھی لُٹيروں اور بحری قزاقوں کی اولاد ہيں
ويسے ذرا غور سے ديکھيئے تو موجودہ اور سابقہ امريکی حکومت بھی لُٹيروں سے بھرپور ہے ۔ صرف طريقہ واردات فرق ہے ۔ ميں آجکل اعداد و شمار اکٹھے کر رہا ہوں اِن شاء اللہ جلد اس کی وضاحت کروں گا کہ بظاہر امن اور انسانيت سے پيار کا دعوٰی کرنے والے دراصل دہشتگرد ہيں
کاش لیلی کے والد کپٹین وصی حسین امریکن شہری ھوتے ۔۔
ReplyDeletethanks god, i was not born there :)
ReplyDeleteمیری بھی تمنا کاشف صاحب کی طرح یہی ہے کہ کاش کیپٹن وصی امریکی شہری نہ سہی کم ازکم انڈین ہی ہوتے تو شاید ان کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteمجھے تو اپنی حکومت کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں تو 35/35لاکھ روپے تو دے سکتی ہے ۔ لیکن ایک طرف پاکستانی مصیبت میں گرفتار ہیں ان کی رہائی کی ان کو پرواہ ہی نہیں ۔ شائد انہیں آخرت کا خوف نہیں یا پھر یہ اللہ کے خوف سے آزاد ہوچکے ہیں
ReplyDelete