Tuesday, January 31, 2012

تقدس سے باہر-۱

تغیر کو پسند کرنا انسانی مزاج ہے۔ اسکے باوجود کہ دنیا کی تمام تہذیبیں اپنے زوال تک تغیر کے خلاف جد و جہد کرتی رہیں۔ اس لئے کہ تغیر کے ساتھ ایک ان دیکھا خوف موجود ہوتا ہے جبکہ جمود سے مانوسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جمود کچھ انسانوں کو اتنا چالاک کر دیتا ہے کہ وہ معاشرے پہ قابو پا لیتے ہیں اور اسے جمود سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔
معاشرتی جمود کے خلاف انسان ہی آواز اٹھاتے ہیں۔ کبھی یہ انبیاء ہوتے ہیں، کبھی اولیاء ، کبھی مصلح اور کبھی انقلابی۔ ایک لا دین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ان سب میں کوئ فرق نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی وہ انکی ذہنی قوتوں، مشاہدات اور انکی حکمت عملی کا قائل ہوتا ہے اور ایک دیندار شخص سے زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا پہ یقین رکھنے والا جس حکمت عملی اور ذہانت کو خدا کی عطا کردہ صفت سمجھتا ہے اوراللہ کے کام اللہ ہی جانے کہہ کر فارغ ہوتا ہے وہاں ایک لادین شخص، اسے اس شخص کے ذاتی وصف میں شمار کرتا ہے اور تجسس میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک اتنا بڑا انقلاب لانا اس کے لئے کیسے ممکن ہوا۔
اگر ہم رسول اللہ کو ایک لادین شخص کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں انکی حکمت اور حکمت عملی دونوں سے متائثر ہونا پڑتا ہے۔ رسول اللہ کے اعلان نبوت سے پہلے اس معاشرے کی حالت دیکھیں جہاں وہ موجود تھے۔
اب ہم اس شخص کے ساتھ چلتے ہیں جو انہیں نبی تسلیم نہیں کرتا اور نہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئ غیبی طاقت انکی مدد کر رہی تھی کیونکہ وہ کسی غیبی طاقت کے وجود پہ یقین ہی نہیں رکھتا۔  پہلے ہمیں اس معاشرتی پس منظر کو دیکھنا پڑے گا جس میں رسول اللہ نے آنکھ کھولی۔
اگرچہ کہ مورخین عرب کا دعوی ہے کہ عرب کے کچھ حصے ایک زمانے میں خاصی ترقی کر گئے تھے اور اسکے آثار بعض آثار قدیمہ سے بھی ملتے ہیں۔ لیکن عرب کے اصلی تمدن و تہذیب میں یہ حالت نہ تھی۔ اسکا ثبوت اسکی زبان سے مل سکتا ہے۔ عربی خاصی وسیع زبان ہے لیکن جن چیزوں کا تعلق تمدن اور اسباب معاشرت سے ہوتا ہے ان کے لئے خالص عربی الفاظ نہیں ہیں۔بلکہ ایران یا روم سے مستعار لئے گئے ہیں۔ مثلاً درہم وہ دینار غیر زبان کے الفاظ ہیں درہم یونانی لفظ ہے جو کہ انگریزی میں ڈرام ہو گیا۔ چراغ جیسی معمول شے کے لئے لفظ چراغ کو سراج بنایا گیا۔ کوزہ کے لئے کوئ لفظ نہیں کوزہ کو کوز کر لیا گیا۔ لوٹے کو ابریق کہتے ہیں جو آب ریز سے بنایا گیا۔ تشت بھی ایک فارسی لفظ تھا جسے عربی میں طست کر لیا گیا۔ پیالہ کو کاسہ کہتے ہیں یہ فارسی سے لیا گیا۔ پائجامہ کو سروال کہتے ہیں جو شلوار کی بگڑی ہوئ شکل ہے۔
جب ایسی ایسی چھوٹی باتوں کے لئے الفاظ نہ تھے تو تمدن کے بڑے سامان کے لئے کہاں سے لفظ آتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب نے کسی زمانے میں جو ترقی کی تھی وہ ارد گرد کے ممالک سے متائثر ہو کر کی تھی سو جو علاقے دور تھے وہ اپنی اصل حالت پہ رہ گئے۔
احادیث صحیححہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے تک عیش و عشرت کے سامان بہت کم تھے۔ اس زمانے میں گھروں میں رفع حاجت کے لئے جائے ضرور تک نہ ہوا کرتی تھی اور خواتین بھِ رفع حاجت کے لئے گھروں سے باہر جایا کرتی تھیں۔ ترمذی باب الفقر میں ہے کہ اس وقت تک چھلنیاں نہ ہوا کرتی تھِ اور بھوسے کو اناج سے الگ کرنے کے لئے پھونکوں سے اڑایا جاتا تھا۔۔ جو بچ جاتا وہی آٹا کہلاتا تھا۔ احادیث سے ہی پتہ چلتا تھا کہ اس وقت رات کو گھروں میں چراغ نہیں جلاتے تھے۔ ابو داءود میں ایک صحابی سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تھا لیکن میں نے کبھی آپ سے حشرات الارض کے حرام ہونے کا نہیں سنا۔ اگرچہ محدثین کہتے ہیں کہ ایک راوی کے نہ سننے سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ واقعی میں اسکی حرمت نہیں تھی۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب حشرات الارض کھاتے تھے۔ عرب تاریخ اور ادب میں یہ واضح طور پہ موجود ہے کہ عرب کھنکھجورا، گوئے، گرگٹ اور جانوروں کا چمڑا بھی کھاتے تھے۔

جاری ہے۔
نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی سے مدد لی گئ ہے۔ اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب۔

Saturday, January 28, 2012

چینل کا چورن

چلئیے جناب، اطلاع ملی کہ مایا خان کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ ان سے غیر مشروط معافی نامہ کا کہا گیا جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ سماء چینل کی انتظامیہ نے انہیں الگ کر دیا اور انکا مارننگ شو ختم کر دیا۔ انکی ذمہ داری ختم ہوئ اور اس طرح چینل نے اپنی ساکھ پہ آنچ نہ آنے دی۔
لیکن کیا یہ ایک سنجیدہ حل ہے؟ اور آیا یہ کوئ حل ہے یا مزید ڈرامہ؟
مایا خان کو جس شو کی وجہ سے الگ کیا گیا۔ اسے دیکھتے ہوئے سوالات اس طرح کے بنتے ہیں کہ کیا پاکستان میں میڈیا، پرائویسی قوانین سے واقف ہے؟ کیا لوگوں کے اخلاقی معیار کو متعین کرنا میڈیا کے صحافیوں کی ذمہ داری ہے؟  کیا میڈیائ صحافیوں کا کام خبر بنانا ہے یا خبر کو پہنچانا  ہے؟
دوسرا خیال جو آتا ہے کہ خودچینلز کی اپنی کوئ میڈیا پالیسی ہوتی ہے یا نہں یا یہ کہ چینلز کی کوئ میڈیا پالیسی ہونی چاہئیے یا نہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت آیا جب  میں مایا خان ہی کے ایک پروگرام کی کلپس دیکھ رہی تھی جس میں وہ ایک ایسے صاحب کے ساتھ ہیں جن کا دعوی ہے کہ انہیں رسول اللہ کی زیارت ہوئ بلکہ انکے بدن پہ ، حتی کہ بیگم کے پکائ ہوئ روٹیوں پہ بھی کلمہ طیبہ ابھر آتا ہے یہی نہیں بلکہ انہیں غیب سے کچھ تبرکات بھی ملے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ مذہبی غلو کا شدت سے شکار ہیں ایسے پروگرام پیش کرنا ایک ٹی وی چینل کی کس پالیسی میں آتا ہے۔ سو قارئین، اب یہ جاننے کو دل کرتا ہے کہ کیا میڈیائ صحافی یا اینکر پرسنز ، چینل انتظامیہ کی پالیسی سے الگ کام کرتے ہیں۔ کیا چینل کی انتظامیہ اس وقت تک کاٹھ کا الو بنی رہتی ہے جب تک عوامی شدید رد عمل سامنے نہ آئے؟


  ایک طرف چینل کا دعوی ہے کہ وہ عوامی ایشوز کو سامنے لائیں گے، لوگوں کو شعوری طور پہ بیدار کریں گے دوسری طرف انہی کے چینل سے اس طرح کے شوز آتے ہیں جو لبرل اور روشن خیال ہی نہیں بعض دینی حلقوں کے لئے بھی مسخرے پن سے کم نہیں۔
تو جناب یہ ٹی وی چینلز کیا بیچ رہے ہیں٫ عوام میں بیداری کے لئے جدید دنیا سے واقفیت یا وہی کاروباری نکتہ ء نظر سے عوام میں مشہور عطائ حکیموں کے چورن۔

 

Friday, January 27, 2012

سن یاس یا مینو پاز

اب اسے تغیر کہیں یا یہ کہ جس طرح کائینات میں ہر چیز اپنے انجام کی طرف کی بڑھتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کا جسم بھی توڑ پھوڑ اور تبدیلی کا شکار ہوتا ہے ٹھیک اس دن سے جب وہ جنم لیتا ہے۔
خواتین میں یہ عمل خاصہ واضح ہوتا ہے۔ اور بلوغت کے بعد  انکی طبعی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جب وہ تولیدی لحاظ سے سرگرم ہوتی ہیں یعنی بچے پیدا کر سکتی ہیں اور دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جب وہ اس دور سے گذر جاتی ہیں اورایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
بلوغت میں داخل ہونے کے بعد جسم میں ہارمون اس طرح پیدا ہوتے ہیں کہ ماہانہ نظام باقاعدہ رہے ۔ ہر مہینے کچھ تعداد میں انڈے پیدا ہوں۔ اگر وہ بار آور ہو جائیں تو عورت ماں بننے کے مرحلے میں داخل ہو جائے ۔ جسکے دوران ہارمون اس ترتیب میں آجاتے ہیں کہ بچے کی نمو سے لے کر اسکے دودھ پلانے تک کا مرحلہ بحسن و خوبی طے ہو جائے۔
خواتین میں انڈوں کی یہ تعداد انکی پیدائیش کے وقت تمام عمر کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ جب رحم میں انڈے ختم ہو جاتے ہیں تو جسم کو اشارہ ملتا ہے کہ اب ہارمون کا مخصوص کھیل بھی ختم ہوا۔ یہ مرحلہ سن یاس یا مینو پاز کہلاتا ہے۔
خواتین کی اکثریت مینو پاز تک پہنچنے سے پہلے اسکی علامتوں سے گذرتی ہے۔ لیکن بعض خواتین اس سے اچانک دوچار ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حاملہ ہو گئیں ہیں اس لئے ماہانہ نظام منقطع ہو گیا ہے لیکن چند مہینوں میں پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
خواتین میں ماہانہ نظام ختم ہونے کی ایک اوسط عمر پینتالیس سے ساٹھ سال ہے۔ اسکی علامتیں پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ماہانہ نظام کا بے قاعدہ ہونا، خون ضائع ہونے کی زیادتی, بعض اوقات لوتھڑوں کا خارج ہونا، خون بہت دنوں تک خارج ہوتے رہنا، بہت زیادہ گرمی لگنا، جلد کا خراب ہونا۔
عمر کے علاوہ وہ خواتین جنکی بچہ دانی آپریشن کے نتیجے میں الگ کر دی گئ ہو وہ بھی تیزی سے سنیاس کا شکار ہوتی ہیں چاہے یہ عمل کتنی ہی نوجوانی کے عالم میں کیا گیا ہو۔ کم عمر خواتین میں سنیاس کی وجوہات مزید ہو سکتی ہیں مثلاً اینڈو میٹریوسس، بچہ دانی میں رسولیاں ہونا یا تولیدی اعضاء کا کینسر، زیادہ وزن رکھنے والی خواتین، سگریٹ نوش خواتین، کیمو تھراپی سے گذرنے والی خواتین، بیمار خواتین ، وہ جنکے خاندان میں یہ سلسلہ موجود ہو ، تھائرائید غدود میں خرابی، ذیابیطس میلائٹس، یا خود دفاعی رد عمل۔ خواتین کی اکثریت میں وجہ  نامعلوم  ہوتی ہے۔
جڑواں خواتین بھی سن یاس کا کم عمری میں شکار ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اپنی ساتھی خاتون کی اووریز کا کچھ حصہ ٹرانسپلانٹ کر کے اووریز کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
سن یاس کے بعد یا اس سے گذرتے وقت بعض خواتین شدید علامات سے گذرتی ہیں۔ مثلاً ہاٹ فلیشز ہونا یعنی جسم میں کہیں کہیں آگ سی محسوس ہونا، پیروں میں رینگن محسوس ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا بالخصوص رات کے وقت، بعض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں، کمزوری یا تھکن کا شکار ہونا۔ نیند نہ آنا، یاد داشت کا متائثر ہونا، شوہر سے جسمانی تعلق سے اجتناب برتنا۔
 ان سب علامتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ایسٹروجن کے ختم ہوجانے کی وجہ سے آسٹیو پوریسس کے بڑھنے کا امکان ہے۔
سن یاس کے فوراً بعد ہڈیوں کے کمزور ہونے کی شرح تیزی سے بڑھ جاتی ہے جبکہ میٹا بولزم کی رفتار آہستہ ہوجانے کی وجہ سے وزن میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور خاص طور پہ پیٹ بڑھ جاتا ہے۔
ادھر آہستہ آہستہ مثانہ بھی کمزور ہونے لگتا ہے اور یوں ذرا سے دباءو پہ پیشاب کے قطرے خارج ہوجاتے ہیں یا پھر مثانے پہ قابو نہ ہونے کی وجہ سے بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے۔
ایک اہم تبدیلی کسی خاتون کے مزاج میں آتی ہے اور سن یاس کے ابتدائ زمانے میں شدید ڈپریشن ہو سکتا ہے۔ خواتین کو لگتا ہے کہ اب چونکہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہیں اس لئے انکی نسوانیت ختم ہو گئ ہے۔ وہ ایک ناکارہ وجود بن گئ ہیں۔ اب وہ کسی کام کی نہیں رہیں اور محض ایک  کچرا بن گئ ہیں۔ ان معاشروں میں جہاں عمر رسیدگی کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور  جوان افراد ، درمیانی عمر کے افراد کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں وہاں خواتین میں یہ ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے۔
سن یاس کیوں لاحق ہوتا ہے اسکی طبعی وجوہات ہم نے بتا دیں۔ یہ کیوں ضروری ہے اسکی وجہ ارتقائ سائینسدانوں کے نزدیک انسانی معاشرے کی مضبوطی کی بنیاد ہے۔ تاکہ ایک نسل دوسری نسل کے آگے بڑھنے میں مددگار ہو اور اس طرح انسانی آبادی بھی قابو میں رہے اور یہ کہ مضبوط انسانی نسل مضبوط انسانی جسم کے ساتھ آئے۔
یعنی قدرت  کے نزدیک عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے اور عمر کے ایک حصے میں وہ اسے فرصت دیتی ہے تاکہ وہ دیگر سرگرمیوں میں بھی کھل کر حصہ لے سکے۔ اسی طرح عورت اور مرد کا ساتھ رہنا صرف جسمانی تعلق کے لئے نہیں ہوتا بلکہ قدرت اسکے علاوہ بھی انسان سے کچھ چاہتی ہے۔
 ایسا نہیں ہوتا کہ عورت سن یاس میں داخل ہونے کے بعد فوراً بعد ختم ہو جائے  اگر وہ اپنی صحت کا خیال رکھے تو اسکے بعد بھی نصف صدی کی زندگی گذار سکتی ہے۔
اس لئے وہ خواتین جو سمجھتی ہیں کہ وہ سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئیے۔ تاکہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکے کہ ایسا ہوا ہے۔
وہ خواتین جو اپنی چالیسویں سالگرہ منا رہی ہیں انہیں احتیاطاً آسٹیو پوریسس سے بچاءو کے لئے طبی امداد لینا شروع کر دینا چاہئیے۔ ویسے بھی خواتین کو ابتدائ عمر سے ہی کیلشیئم والی غذاءووں کو زیادہ استعمال کرنا چاہئیے۔ اپنی بچیوں پہ توجہ دیں اور انکی غذا میں کیلشیئم اور فولاد کی مقدار کا دھیان کریں۔ تاکہ وہ مستقبل میں نہ صرف صحت مند ماں بنیں بلکہ اپنا بڑھاپا بیماریوں اور معذوری سے محفوظ گذاریں۔
مینوپاز کے دوران جب ہاٹ فلیشز زیادہ ہوتے ہیں اپنی غذا پہ دھیان دینا چاہئیے۔ ایسی اشیاء زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گریز کریں جن میں اینٹی ایسٹروجن مرکبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً چائے، سبز چائے، اخروٹ، بروکلی، اور ایسی اشیاء زیادہ استعمال کریں جن میں ایسٹروجن ہوتے ہیں۔ زیادہ ایسٹروجن کے لئے گوشت، انڈے، دودھ، دہی، ، السی کے بیج یا اسکا پاءوڈر، ،گاجریں اور ٹماٹر وغیرہ استعمال کریں۔ السی کے بیج مسلسل کئ مہینوں تک استعمال نہ کریں بلکہ وقفہ دیں۔  اسکا پاءڈر ایک چائے کے چمچ سے زیادہ روزانہ نہ لیں۔  گرم جگہوں پہ نہ رہیں۔ ہلکے ڈھیلے سوتی کپڑے پہنیں۔
ایسا نہ کریں کہ کوئ چیز بالکل ترک کر دیں۔ مثلاً اخروٹ کھانا بالکل ہی چھوڑ دیں۔ اخروٹ کھائیں تو تھوڑی گاجریں  بھی کھالیں یا دودھ بھی پی لیں اس طرح غذا متوازن رہے گی۔
اس طرح اس عمر میں متوازن غذا کا ذرا مختلف تصور اپنے لئے سیٹ کریں۔
وہ خواتین جو پیشاب خارج ہونے کے عارضے میں مبتلا ہیں وہ ایک آسان سی ورزش کر سکتی ہیں جو کیگل ورزش کہلاتی ہے اور  ہر عمر کی خواتین حتی کہ حاملہ خواتین کے لئے بھی کار آمد ہے۔ اور بہت آسان ہے۔ اسے کرنے کے لئے ایک خاتون کو اپنے پیٹ کے نچلے حصے کے عضلات کو سمجھنا ہوگا۔
پیشاب کرتے ہوئے اگر بیچ میں ایکدم روکنا ہو تو جو عضلات کھینچے جاتے ہیں۔ انہیں فالتو وقت میں کھینچنے کی مشق کریں۔ یہ ایسی مشق ہے جووہ کسی بھی کام کو کرتے ہوئے کر سکتی ہیں چاہے پڑھ رہی ہوں یا ٹی وی دیکھ رہی ہوں۔ شروع میں کم تعداد میں کریں مثلاً ایک وقت میں پانچ دفعہ ان عضلات کو کھینچیں اور چھوڑ دیں۔ پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھاتی جائیں۔  
سن یاس کے بعد بھی ایک خوشحال زندگی گذاری جاتی ہے فرق یہ ہے کہ اسکے بعد حاملہ ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں خواتین سنیاس کو اپنے لئے آزادی کی علامت سمجھتی ہیں۔
وہ خواتین جو کم عمری میں سن یاس کا شکار ہو جاتی ہیں ان میں آسٹیو پوریسس کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ایسٹروجن کی کمی کی وجہ سے زیادہ کم عمری میں ہڈیاں کمزور ہونے لگ جائیں گی۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ آپکا ڈاکٹر آپکو ہارمون تھراپی کا مشورہ دے۔ یہ طریقہ ء علاج ایک زمانے میں کافی رائج ہوا۔ پھر مختلف نتائج کی بناء پہ روک دیا گیا آجکل پھر سے تجویز کیا جانے لگا ہے۔ اس وقت یہ ہارمونز مختلف طرح کی شکلوں اور منبع کے موجود ہیں۔ ان میں سے کون سا ایک خاتون کے لئے مناسب ہے اسکا فیصلہ ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔
جو خواتین اس طریقہ ء علاج کو لے رہی ہیں انہیں اپنی غذا کا دھیان رکھنا چاہئیے۔  ہارمون سپلیمنٹ کے ساتھ وٹامن بی کمپلیکس والی غذاءووں کا باقاعدہ استعمال کریں اور آسٹیو پوریسس کی دواءووں اور کیلشیئم والی غذاءووں کا بھی خیال رکھیں۔ آسٹیو پوریسس کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں دیکھئیے۔
ہر تھوڑے عرصے بعد اپنے کچھ ٹیسٹ ضرور کرواتی رہیں۔ مثلاً چھاتی کے کینسر کے لئے میمو گرافی کیونکہ سنیاس کے بعد چھاتی کے کینسر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح پیڑو یا بچہ دانی کے کینسر کو معلوم کرنے کے لئے پیپ اسمیئر ٹیسٹ اور پیلوک الٹرا ساءونڈ چاہئیے ہوتے ہیں۔ اگر ہارمون تھراپی لے رہی ہوں تو یہ ٹیسٹ کروانا اور بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ ہارمونز کا کوئ بھی ضمنی اثر فوراً علم میں آجائے۔
سن یاس کے بعد خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مختلف ہارمونز کی وجہ سے جو تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے دل کے امراض کے بنیادی ٹیسٹس بھی ایک خاتون کے لئے ضروری ہو جاتے ہیں۔
ہڈیوں کو بہتر بنانے کے لئے ورزش اور چہل قدمی ضروری ہے۔ روزانہ تیس منٹ کی چہل قدمی ہڈیوں اور عضلات کے لئے آب حیات ہے۔ ورزش کے لئے وزن اٹھانے والی ورزشوں کو ترجیح دیں جس سے اعضاء میں کھنچاءو پیدا ہو۔ اگر کوئ خاتون دل کے کسی عارضے میں ، یا کسی اور بیماری میں مبتلا ہیں تو اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئ ورزش شروع نہ کریں۔
خِواتین کے لئے ورزش کے حوالے سے ایک علیحدہ تحریر لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس وقت تک انتظار کریں۔

Tuesday, January 24, 2012

میڈیا کے عقاب

سنتے ہیں کہ ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں ساحل سمندر پہ جانے والے جوڑوں سے نکاح نامہ طلب کرنے کے لئے وہاں پولیس والے عقاب کی طرح منڈلاتے رہتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ عقاب ناپید ہو جاتا ہے اور روح فنا رہتی ہے۔ مولوی صاحب کے مزے رہتے ہیں کہ دے دھڑا دھڑ نکاح پڑھا رہے ہیں کہ عورت اور مرد کا ایک ساتھ تفریح کے لئے نکاح نامہ ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں میاں بیوی کے علاوہ کوئ رشتہ اور تعلق باقی نہیں رہتا اور جنسیات کے علاوہ کوئ انسانی مسئلہ وجود نہیں رکھتا۔
جب ہم نے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو سنا کہ یہ کام وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمے تھا۔ کہنے والے کہتے کہ وہ تو بھلا ہو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن  کا جمعیت کے بھائ بندوں کے منہ سے نہ صرف یہ نوالہ چھین لیا بلکہ وہ جو ہر مرد کو مخاطب کرنے سے پہلے بھائ کا لاحقہ یا سابقہ اور خاتون کے نام سے پہلے بہن کہنا فرض عین  ہوا کرتا تھا وہ بھی لغت سے نکل گیا۔  ورنہ عالم یہ تھا کہ ہماری رشتے دار خاتون  اپنے ماموں کے ساتھ یونیورسٹی آنرز میں داخلے کے لئے پہنچیں تو انہیں جمعیت کے اسکواڈ کے سامنے حلفیہ بیان دینا پڑا کہ وہ جس مرد کے ساتھ ہیں وہ انکے ماموں ہیں۔
جماعتی روح جب بیدار ہوتی ہے سینوں میں تو عقابی روح والی کیفیات کیوں طاری ہو جاتی ہیں یہ مجھے نہیں معلوم؟
شاعر کہتا ہے کہ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ شاعر کی اس بات کو میں دماغ کا خلل نہیں سمجھتی۔ پوری طرح سے یقین رکھتی ہوں۔
ضیائ پولیس سے جمعیت میں یہ روح پہنچی، پنجاب یونیورسٹی میں اب تک قائم ہے۔ لیکن جامعہ کراچی سے  جمعیت کا کنٹرول  ختم ہوا۔   اہل ایمان انکے جھنڈے تلے سے نکل کر میڈیا میں آگئے۔ اور شکل کچھ یوں بنی کہ ہرچینل سے عقاب نکلے گا تم کتنے عقاب مارو گے یا خدا جانے تم جتنے عقاب ماروگے۔
مایا خان ان عقابوں میں ایک ہیں۔ ڈیڑھ دو مہینے پہلے میں جیسمین منظور کا ایک شو دیکھ رہی تھیں وہ پولیس لاک اپ میں موجود ایک شخص پہ سخت ناراض ہو رہی تھیں اور غصے میں کہہ رہی تھیں کہ عدالت تمہیں بعد میں سزا دے گی میں تمہیں مار مار کر درست کر دونگی۔ اور میرے جیسا ناظر حیران بیٹھا کہ ایک اینکر پرسن کس طرح ایک پولیس کسٹڈی میں موجود ایک ملزم تک بآسانی رسائ حاصل کر کے اسے درست کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
ہمارا ملک کسی حیرت کدے سے کم نہیں۔ اس لئے ہر تھوڑے دنوں بعد حیرانی کے نئے تجربے سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس دفعہ اس ریس میں مایا خان جیت گئیں۔ مجھے انکا شو دیکھنےسے بالکل دلچسپی نہیں۔ فیس بک کی وجہ سے دیکھنا پڑا کہ کیا ہو گیا ہے بھئ۔ 
کیا دیکھتی ہوں کہ دو خواتین ہنستی مسکراتی ایک بینچ پہ بیٹھی ہوئ ہیں۔ ویڈیو کے لنک کو کلک کیا تومیڈیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ٹولہ جن میں سے کچھ مغربی لباس میں  اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ پارک میں تفریح کے لئے آئے ہوئے جوڑوں کے تعاقب میں یوں سرگرداں  جیسے ہم سانگھڑ کی جھیلوں کے پاس ایک دفعہ مگر مچھ تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ کراچی کے پارکس میں اب تک مگرمچھ نہیں چھوڑے گئے یہ شاید پہلا تجربہ کیا تھا میڈیا کے مگرمچھ چھوڑنے کا۔ وقت انتہائ مناسب، مگرمچھ سرد دنوں میں صبح صبح سرد پانی سے نکل کر ساحل پہ  دھوپ  سے اپنے آپکو سینکتے ہیں۔ ہمارا یہ ٹولہ ملک بے حیائ کی دھوپ میں سنِکنے واے جوڑوں کی تلاش میں تھا۔
پارک میں موجود لوگ ایسے سراسمیہ  کہ جیسے وہ سوئس بینکوں سے اپنا روپیہ نکال کر پارک میں بیٹھے گن رہے تھے۔ یا ایکدوسرے کو خود کش جیکٹس پہنا رہے تھے۔ اسی پہ بس نہیں ہماری اینکر نے ایک نقاب پوش خاتون کو ایسے پکڑ لیا جیسے وہ ان کا پرس چھین کر بھاگی ہو۔
   
پارکس میں اکثر ایسے جوڑے نظر آتے ہیں۔ انکی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کو حجاب پہن کر اپنے آپکو چھپانے سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ انکے لئے زیادہ پر تعیش جگہیں موجود ہیں۔ وہ ان عوامی پارکس میں کیا کریں گے۔ مڈل کلاس بچے زیادہ تر مخلوط اداروں میں پڑھتے ہیں انہیں میل ملاقات کے لئے پارکس میں وقت ضائع کرنے کی فرصت نہیں۔ لے دے کر لوئر مڈل کلاس بچ جاتی ہے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ میڈیا کے ان شکاریوں کو اسی وجہ سےاتنی ہمت ہوئ۔ ورنہ یہ سب خواتین و مرد اپنے سے بڑے لوگوں کے جائز اور ناجائز لو افیئرز سے خوب اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر انکے سامنے انکی وہی حالت ہوتی ہے جس کے لئے مناسب لفظ استعمال کرنے کے لئے منا بھائ ایم بی بی ایس والے کی ٹپوری لغت کی مدد لینی پڑے گی۔
خیر، اس ٹولے میں اگر کسی شخص کی کمی مجھے محسوس ہوئ تو ایک مولوی صاحب کی تھی۔ اگر وہ ساتھ ہوتے اور گپ شپ لگاتے جوڑوں کو وہیں پکڑ کر  نکاح پڑھا دیتے تو یہ منظر نہ صرف ڈرامے کے کلائمیکس پہ پہنچ جاتا بلکہ  والدین خود ہی آئیندہ کے لئے حفاظتی اقدامات اٹھا لیتے۔  یوں کہ پسند کی شادی ہمارے والدین کے لئے ایک تازیانے سے کم نہیں ہوتی۔ چاہے اپنے بچوں کی شادی اپنی  پسند سے کروانے کے لئے وہ ایک مرد کو چالیس سال کا کر دیں۔ یا لڑکی کی شادی اسکی عمر سے دگنے، جاہل مرد سے کر دیں۔
شادی ہمارے یہاں ایک رومانی تعلق نہیں بلکہ ایک  جسمانی  اور کاروباری تعلق کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے اصل فریق شادی کرنے والے مرد عورت نہیں والدین ہوتے ہیں۔
ادھر خدائ نظام میں بڑی خرابیاں ہیں، مثلاً خدا ایک بے حس اور عاقبت نا اندیش کاریگر کی طرح اپنے کوزے پہ انسان تخلیق کئے جا رہا ہے وہ یہ تک خیال نہیں کرتا کہ اماں کو کترینہ کیف اور مادھوری جیسی بہو چاہئیے۔ آنے والے انسان کے بچے خوبصورت ہونے چاہئیے۔ وہ خود جمیل ہے لیکن جمال کو محفوظ کرنے کے منصوبے نہیں بناتا۔  سو جو لڑکیاں حسن کے اس معیار پہ پوری نہیں اترتیں لیکن انسانی تقاضوں کی وجہ سے چاہتی ہیں کہ انہیں بھی صنف مخالف کا ساتھ نصیب ہو وہ کیا کریں۔ وہ لڑکیاں کیا کریں؟ جنکے والدین کے پاس دینے کے لئے لمبا چوڑا جہیز نہیں ہے، وہ لڑکیاں کیا کریں؟ وہ لڑکے کیا کریں جو اپنے جبلی تقاضوں سے مجبور صنف مخالف کے پیچھے بھاگتے پھر رہے ہیں مگر والدین کو ابھی انکا صحیح بھاءو نہیں مل پا رہا۔  معاشرتی سطح پہ اتنے بڑے انسانی مسئلے کو اس وقت کوئ سمجھنا نہیں چاہتا۔
سو اگر اس غیر فطری ماحول میں نوجوان یہ نہ کریں تو کیا کریں؟
 میری یادداشت میں ایک ذاتی واقعہ ہے جس میں ایک باپ کو جب اسکے لڑکے کی شکایت کی گئ کہ وہ کس طرح ہماری بیٹی کو آتے جاتے چھیڑتا ہے اور اس سے اس لڑکی کی ریپوٹیشن خراب ہو رہی ہے اور اسکی شادی میں مسئلہ ہو جائے گا تو اسی شام کو لڑکے کے ابا اپنے لڑکے اور قاضی کو لے کر انکے گھر پہنچے۔ اور اپنے بیٹے سے آٹھ سال بڑی لڑکی کو گھر کے کپڑوں میں شادی کر کے اپنے گھر لے آئے۔ انکا بیٹا اس وقت بی کام کر رہا تھا۔ آج اس خوشحال  جوڑے کے تین بچے ہیں۔
والدین جو خود اپنے آپکو کسی بھی اخلاقی سدھار سے ماوراء سمجھتے ہیں وہ کس بل بوتے پہ اپنی اولاد کو سدھار سکتے ہیں۔  وہ کیسے یہ نعرہ بلند کر سکتے ہیں کہ والدین کو دھوکا نہ دو۔ آپ اپنی اولادوں کو، اپنی نسلوں کو دھوکا دے رہے ہیں جناب آپ کو بھی دھوکا ہی ملے گا۔
ادھر، میڈیا جو خود کسی اخلاقی پابندی کا اپنے آپکو ذمہ دار نہیں سمجھتا اور پروگرام کی ریٹنگ کے لئے ہر گری ہوئ حرکت کرنے کو تیار ہے۔ اگر اسکے نمائیندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو درست کرنے کا ٹھیکا لے کر خدائ فوجدار بن جائیں تو عوام تو ان سے کہیں زیادہ مضبوط اور تعداد میں زیادہ ہیں وہ کیوں نہ انہیں درست کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ 
اگر کیمرہ کریو کے ساتھ موجود اس ٹولے کے آگے چند نوجوان آ کر کھڑے ہوجاتے کہ یہ کیا بے حیائ ہے کہ خواتین ٹی شرٹ اور ٹراءوژرز جیسے مغربی لباس میں پارک میں مردوں کے ساتھ  سر عام بھاگتی پھر رہی ہیں تو کیا ہوتا؟ مجھے تو مزہ آتا، اگرچہ کہ مجھے انکے اس لباس سے کوئ تکلیف نہیں ہوتی۔ لیکن ایسے دو رُخے لوگوں کے ساتھ یہی ہونا چاہئیے۔ آپکے لئے ہر چیز جائز اور صحیح لیکن اپنے آپ سے کمزور شخص کو دبانے کا کوئ موقع آپ ضائع نہ جانے دیں اور بنیں بڑے کردار والے مبلغ اور مصلح۔
وقتی فائدہ اور دور اندیشی میں یہی فرق ہے۔ دور اندیشی کہتی ہے کہ کوئ بھی ایسا قدم کیوں اٹھاءو جو خود پہ پڑے تو سہا نہ جائے۔ وقتی فائدہ کہتا ہے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو کل کی کل دیکھی جائے گی۔
لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے کل کو آنے سے روک دیا ہے، یہاں ہر گذرا ہوا دن، ہر آنے والا دن ہر چیز آج بن گئ ہے۔آج سے نکل پائیں گے تو کل دیکھیں گے۔ پچیس سال پہلے کی ضیائ پولیس، اب میڈیا پہ آ گئ ہے۔ نگاہ منتظر ہے کہ جمیل اور جمیلہ اب کیا راستہ چنیں گے؟

Wednesday, January 18, 2012

جا چھوڑ دیا

میں انکے پاس خالصتاً کاروباری سلسلے میں موجود تھی۔ لیکن جیسا کہ ہماری روایات ہیں ملنے والے سےپہلے ادھر ادھر کی ایک آدھ بات کر لی جاتی ہے۔ ہمارے درمیان بچوں کی بات آ گئ۔ انکے چار بچے تھے سب سے بڑی پندرہ سال ی بچی اور سب سے چھوٹی سات آٹھ سال کی۔  اپنے اکلوتے بارہ سالہ بچے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ قرآن حفظ کر رہا ہے۔ تیسری جماعت تک اسکول میں پڑھا لیکن چونکہ ہم نے اسکی پیدائیش پہ یہ ارادہ کیا تھا کہ اسے قرآن حفظ کرائیں گے اس لئے وہاں سے نکال کر اسے مدرسے میں ڈال دیا۔
حلئیے سے ایک فیشن ایبل خاتون، جنکی بھنوئیں بنی ہوئیں، بال کندھے تک ترشے ہوئے اور رنگے ہوئے، ہونٹوں پہ ہلکی سی لپ اسٹک کی تہہ جمی ہوئ، جدید تراش خراش کے کپڑے پہنے ہوئے، کیا اس خاتون سے کوئ توقع کر سکتا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک جدید اسکول سے نکال کر ایک مدرسے میں ڈال دے گی؟
وہ اکیلی نہیں، میں انگلش ڈپارٹمنٹ میں انگریزی  پڑھانے والی ایک خاتون سے ملی جنہوں نے انگریزی لسانیات میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ انکی بچی ایک انگلش میڈیئم اسکول میں پڑھ رہی تھی ایک ذہین بچی، انکی اکلوتی اولاد۔ اس عرصے میں وہ جماعت اسلامی سے متائثر ہو گئیں۔ خود حجاب لینا شروع کیا اپنی بچی کا اسکول چھڑایا۔ یونیورسٹی سے کئ سال کی چھٹی لی، گھر پہ ایک مولوی صاحب کی خدمات لی گئیں اور بچی کو حفظ کرانے سے لگا دیا۔ اب تیرہ سال کی عمر میں انکی بچی فافظہ قرآن ہے۔ جہاں سے کہیں فر فر سنا دے گی لیکن اسکے معانی کیا ہیں اس سے آگاہ نہیں۔
حفظ کرانے کا فیشن اسّی کی دہائ میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بہت کم بچے حفظ کرتے تھے۔ حفظ کرانے والے مدرسے اسّی کی دہائ میں مشرومز کی طرح سے ایک دم اگ آئے۔کسی بھی روڈ سے گذر جائیں ایک نہ ایک ایسا مدرسہ ضرور نظر آجائے گا۔ مجھے یقین ہے ساری دنیا میں پاکستان اس معاملے میں اول نمبر پہ ہوگا جہاں بچوں کی ایک کثیر تعداد اس وقت قرآن حفظ کر رہی ہے اور سب سے زیادہ مدرسے اس ضمن میں موجود ہیں۔
لوگ کیوں اتنا زیادہ حفظ قرآن کی طرف راغب ہوئے؟ اسکا جواب بڑھتی ہوئ انتہا پسندی میں ہے۔
اس سے پہلے  مدرسے بہت کم ہوتے تھے اور اکثر بچے خاندان کے کسی بزرگ سے ہی قرآن ناظرہ پڑھا کرتے تھے یا پھر محلے کی کوئ فارغ ضعیف خاتون یہ کام انجام دیتی تھیں یوں عمر کے اس حصے میں انہیں یہ سرگرمی حاصل رہتی۔
یہ ہمارے مرد حق، جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔  ان مدرسوں کے قیام کے لئے فنڈ کہاں سے آئے ہونگے۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ یقیناً ہمارے سعودی کرم فرماءوں کی ہم جیسی گنہاگار قوم پہ نظر عنایت ہوگی کہ حافظ بچوں کی وجہ سے ہی ہم بخشے جائیں۔ کیونکہ زیادہ تر ان مدرسوں کا فقہ سعودی فقہ سے متائثر تھا۔ مثلاً اقراء حفظ مراکز میں بچوں کی ماءوں سے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے اور اصرار ہوتا ہے کہ کسی مرد کو بھیجیں۔
میں نے خود بھی سعودی فنڈ سے چلنے والے ایک مدرسےسے ناظرہ قرآن کی تعلیم لی۔ اور اب مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ہمارے مدرسے کے منتظمین نے اچانک یہ فیصلہ صادر کیا کہ یا تو اسکول کی تعلیم حاصل کرو یا پھر اس مدرسے میں ناظرہ قرآن پڑھو۔
میں نے ان خاتون سے پوچھا کہ قرآن حفظ کرنے کے بعد آپ نےاپنےبچے کی باقی زندگی کے لئے کیا سوچا ہے۔ جواب ملا ہم نے تو ہمیشہ خدا پہ توکل کیا ہے۔ وہی کوئ راستہ نکالے گا۔
ہمم، میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ جو کاروباری معاہدہ ہم کرنے جا رہے ہیں اس کے لئے بھی تو آپ نے کوئ منصوبہ بندی کی ہے ناں ۔ بغیر منصوبہ بندی کے تو کوئ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھاتا۔ اسے تو آپ نے خدا توکل پہ نہیں چھوڑا۔ پھر اپنے بچے کو کیسے آپ نے اس طرح چھوڑ دیا؟
ایک کمزور آواز میں جواب آیا ، ہو سکتا ہے کل وہ کوئ بڑا عالم دین بن جائے۔
میں نے آواز کی اس کمزوری کو جان کر  ان سے پوچھا نہیں کہ مودودی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے وہ حافظ  قرآن نہیں تھے لیکن عالم دین کی صف میں کھڑے ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں عالم دین ہیں جو حافظ قرآن نہیں۔ عالم دین بننے کے لئے دین کی سمجھ ہونا ضروری ہے جس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں اس زبان کا سمجھ میں آنا ضروری ہے اس لئے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ بجائے اسے حفظ کرنے میں وقت لگانے کے عربی زبان سیکھنے میں وقت لگایا جائے تو بات ہے سمجھ کی۔ 
کیا بچوں کو قرآن حفظ کرانے سے دین کی کوئ خدمت ہوتی ہے؟
  ہم ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہیں کہ قرآن  با ترجمہ کمپیوٹر پہ اس طرح موجود ہے آپ جب چاہیں کسی حوالے سے کوئ آیت نکال لیں۔ قرآن پہلے سے زیادہ محفوظ ہے۔
کیا واقعی قرآن حفظ کرنے والے بچے کے چالیس یا ستر رشتے دار بخشے جائیں گے یا اسکے والدین کو روز قیامت عام معافی مل جائے گی؟
اگر یہ سچ ہوتا تو قرآن یہ کیوں کہتا کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔
یا اس لئے کہ حافظ قرآن کو معاشرے میں خاص احترام حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے کہ شاعر بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآں سمجھ کے
لیکن شاعر تو جناب شاعر ہوتا ہے اسکی بات کا کیا بھروسہ۔
اب ایک نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے ادارے کیوں نہیں اتنی بڑی تعداد میں بن جاتے جہاں عربی زبان سکھائ جائے تاکہ اپنی مذہبی کتاب تک ہر مسلمان کی پہنچ آسان ہو جائے اور خدا کی کتاب کو وہ بغیر کسی ذریعے کے سمجھ پائے۔ ایسے ہی جیسے دنیا کی کسی اور عوامی کتاب کو ہم سجھتے ہیں۔ قرآن حفظ کرنے میں کم از کم پانچ سال لگتے ہیں ، عام طور پہ تین چار سال کے بچے کو مدرسے کے حوالے کیا جاتا ہے۔  اگر اس جذبے سے دن رات عربی زبان سیکھائ جائے تو اس میں بے پایاں مہارت پیدا ہو جائے۔
اسکے جواب کے لئے کسی ذہنی تگ و دو کی ضروت نہیں۔ ہمیں ایک بہتر مسلمان دیکھنے کے خواہشمند خدا اور اور ہمارے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ پسند نہیں کرتے ورنہ انکا وجود بے مصرف ہو جائے انکی بڑائ جھوٹی قرار پائے  اور انکے روزگار کو بھاری زک پہنچے۔

Monday, January 16, 2012

تہہ جام

سگنل کی لائٹ سرخ ہوئ تو میں نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے روک دیا۔ یہ کرتے ہوئے میری نظر فٹ پاتھ پہ بیٹھی تین لڑکیوں پہ پڑی۔ سات آٹھ سال کی یہ لڑکیاں اپنے درمیان کوئ چیز رکھے کھارہی تھیں اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی کا چہرہ اور تاثرات مجھے صاف نظر آرہے تھے۔ 
کھانے کے دوران باتیں کرتے ہوئے تھوک نے اسکے گلابی ہونٹوں کو مزید گلابی کر دیا تھا۔ اسکے گال موسم میں خنکی کی وجہ سے لالی لئے ہوئے تھے۔ کسی نے اسکے بالوں کو بلیچ کر دیا تھا اور یہ سنہری کالے بال اسکی نیلاہٹ لئے ہوئ آنکھوں کے ساتھ ایک دل کش منظر تخلیق کر رہے تھے۔ میں بس اسے دیکھتی ہی رہی۔  بہت زور سے ہنستے ہوئے دفعتاً اسکی آنکھیں میری آنکھیں سے چار ہوئیں۔ اب ان میں حیرانی اور شرم بھی گھل گئ تھی۔ اجنبی لوگوں کے دیکھنے پہ بچے اکثر شرما جاتے ہیں۔ میرے ہونٹوں پہ ہنسی ابھر آئ۔ وہ ہنس کر ہاتھ ہلانے لگی۔ میرا ہاتھ بھی اظہار مسرت میں اٹھا اور ہلنے لگا۔
سگنل کھل چکا تھا۔ اسکا ہاتھ اب بھی ہل رہا تھا۔ حالانکہ ہم دونوں میں مسکراہٹ کے تبادے کے علاوہ کوئ دنیاوی کاروبار نہ ہوا تھا۔ سودو زیاں سے لاپرواہ صرف قدرت ہوتی ہے۔ ڈوبتا ہوا  سورج بغیر کسی خراج کے آسمان پہ دھنک بکھیرتا ہے، آبشار کے گرتے پانی میں روشنی بغیر کسی ستائیش کے قوس و قزح بناتی ہے، چاند ، ستارے آسمان کو سجانے کا کوئ کرایہ نہیں لیتے۔ قدرت فیاض ہے۔ کبھی کبھی انسان بھی ایسا ہی فیاض ہوتا ہے۔ میں بھی ایک فیاض  مسکراہٹ کو لئے آگے بڑھ گئ۔ 
میرے برابر بیٹھی تیرہ سالہ بچی نے جو آسٹریلیا میں پیدا ہوئ اور پلی بڑھی ہے مجھ سے پو چھا یہ لڑکیاں یہاں کیا کر رہی تھیں۔ میں چونک کر اس دنیا میں واپس آئ، جہاں ہر پل کیوں  اور کیسے کے سانپ منہ پھاڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔ 
وہ یا تو بھیک مانگ رہی ہونگیں یا پھر سگنل پہ کھڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتی ہونگیں۔ میں نے ڈرائیونگ کے تمام افعال منعکسہ کو بغیر سوچے سمجھے انجام دیتے ہوئے جواب دیا۔
مجھے یہ جان کر بے حد افسوس ہوا کہ اتنی پیاری بچی یہ کام کرتی ہوگی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
میں اسے تیسری دنیا کے ایک غریب ملک پاکستان کی معیشت اور اسکے باشندوں پہ اسکے اثرات سمجھانے لگی۔
اس ساری معاشی فلاسفی کے درمیان ایک سوچ ذہن میں رینگ گئ جب خوب صورتی پہ برا وقت پڑتا ہے تو دیکھنے والوں کے دل  نرم کیوں ہو جاتے ہیں؟

Wednesday, January 11, 2012

پیر کی بیوہ

آج کے اخبار میں بڑی دلچسپ خبریں ہیں ۔ پاکستان کے سیاسی حالات ایک دفعہ پھر ،اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے کی تصویر بن گئے ہیں۔ خیر کوئ بات نہیں، ہم ہر کچھ عرصے بعد اسی طرح نئے اور نازک موڑ پہ کھڑے ہوتے ہیں اب ہمیں ایسے موڑوں پہ کھڑے رہنے کی عادت ہوگئ ہے۔ نہ ہوں تو عجیب سی بے چینی طاری ہو جاتی ہے۔
ڈان اخبار کے پہلے صفحے پہ کورٹ کی طرف سے حکومت کو دئیے گئے نکات کا خلاصہ ہے۔  مجھے سپریم کورٹ کے چھ نکات سے کوئ خاص دلچسپی نہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات یونہی ہیں کہ گرتی ہوئ دیواروں کو ایک دھکا اور دو۔
گیلانی صاحب یا زرداری صاحب اگر عرصہ ء چار سال کے بعد نا اہل قرار پا جائیں تو کیا اور نہ پائیں تو کیا۔  جہاں اتنا برداشت کیا وہاں ایک سال  کیا معنی رکھتا ہے۔ گیلانی صاحب تو ایسے  مجاور ہیں کہ وزیر اعظم ہاءوس سے نکلیں گے تو یادوں کے مزار پہ بیٹھ  کر گل ہائے عقیدت پیش کرنے لگ جائیں گے۔ اس کام کے لئے پہلے انہیں ایوان صدر جانا پڑتا تھا۔ تب انکی  پسندیدہ قوالی میرا کوئ نہیں ہے تیرے سوا کی جگہ، بعد میں کچھ اس طرح ہوگی کہ نصیب آزما چکا، قسمت آزما رہا ہوں، کسی بے وفا کی خاطرمزدا چلا رہا ہوں۔  
اس موقع پہ جہاں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے ایک ہلچل میں ہیں کہ انکی کٹی انگلی ضائع نہ ہو جائے اور کہیں نہ کہیں انکو بھی پذیرائ مل جائے وہاں اندرون خانہ نئے الیکشن کے فوری انعقاد کے پیش نظر نگراں حکومت میں اپنے مقام کے لئے کوشاں گِدھ پرواز کے لئے تیار ہیں۔ مجھے انکی پروازوں سے بھی دلچسپی نہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپی تو مجھے ان گِدھوں سے ہے جو پاکستان اور انڈیا میں اس لئے مر گئے کہ انہوں نے جن جانوروں کا گوشت کھایا تھا وہ ایک ایسی  دوا استعمال کر چکے تھے جو گِدھوں کے کے لئے سم قاتل ثابت ہوئ۔ یہ گوشت انہوں نے حلال ذریعے سے حاصل کیا تھا لیکن پھر بھی راس نہ آیا اور یہ گِدھ تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اب شاید نایاب نسل میں شامل ہو جائیں۔
میں ایک انسان ہوں ، جانوروں سے بس اتنی ہی ہمدردی کر سکتی ہوں۔ ویسے بھی ہمدردی زیادہ کروں یا کم، جانوروں کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ شعور کی اس سطح پہ نہیں جہاں اس قسم کے احسانات کو یاد رکھ سکیں۔
میرے لئے سب سے دلچسپ خبر پاکستانی سیاست کے ایک اہم کردار پیر پگارا کے انتقال کی ہے۔ کل نفس ذائقہ الموت۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ انکی عمر نوے سال سے زیادہ تھی دستاویزات کے مطابق صرف تراسی یعنی  ۸۳ سال کے تھے۔ مرنے کے لئے ایک جائز عمر۔  تراسی سال کی عمر میں بیمار شخص کا مرنا کوئ ایسی سنسنی نہیں رکھتا۔ پھر مجھے کیوں اتنی دلچسپی ہو رہی ہے؟
کیا اس لئے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کے ساتھ اگلی دنیا میں کیا ہوگا؟ میں اور آپ اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔ چاہے ہم نے وہ کتاب ازبر کر لی ہو جس کا عنوان ہے مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ وہ اگلی دنیا میں بھی حروں کے سردار ہونگے یا نہیں، وہاں بھٹو کے خلاف کسی چلائ جانے والی مہم کا حصہ ہونگے یا نہیں۔
۔
۔
مجھے دراصل اس لڑکی کے بارے میں جاننے کی بڑی خواہش ہے کہ جس سے پیر صاحب نے چھ سات سال پہلے شادی کی تھی۔ ایک نو عمر، اخباری اطلاعات کے مطابق سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی جس نے پیر صاحب کے دو جڑواں بچوں کو بھی جنم دیا۔
اب جبکہ پیر پگارا اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس لڑکی کا کیا ہوگا۔ اب اسکی عمر پچیس چھبیس سال ہو گی۔ اس نو عمری میں پیر پگارا کی بیوہ کا اعزاز حاصل کرنے والی لڑکی اب کیا کرے گی؟
کوئ ہے جو مجھے اسکی خبر لادے۔ 
ہائے رباں، میں تجسس سے بے حال ہوں۔


Saturday, January 7, 2012

پھر ٹیگے گئے

یہ عرفان احمد شفقت نے گلے میں ٹیگ کا ڈھول ڈال دیا ہے۔ اس لئے بجا رہے ہیں۔
مستقبل کے بارے میں جتنے سوالات ہیں وہ سب انتہائ مشکل لگتے ہیں۔ کیا پتہ کب دل بدل جائے اور ہم  گوتم بدھ کی طرح سب تیاگ کر کسی مختلف دنیا میں جا نکلیں۔ اس لئے اس ٹیگ کے اکثر سوالات ذرا اوکھے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن سب کے جوابات دینے کی کوشش ضرور کی ہے۔

2012ء میں کیا خاص یا نیا کرنا چاہتے ہیں؟
 اس سال  لکھنا چاہتی ہوں۔ سنجیدگی سے وہ جو کافی عرصے سے لکھنے کی سوچ میں ہوں۔ لیکن اس سے پہلے کچھ پڑھنا بھی چاہتی ہوں۔ کچھ چیزیں جو پہلے نہیں پڑھیں۔ ایک فہرست ہے جسے عملی رکھنے کے لئے میں نے خاصہ مختصر رکھا ہے۔  ہیمنگوے کے کچھ ناول، مزید جارج آرویل کے دو ناول نائینٹین ایٹی فور، اینیمل فارم۔ کچھ کو پورا کرنا ہے مثلاً ایلڈوس ہکسلے کا بریو نیو ورلڈ، وار اینڈ پیس ۔ کچھ چیزیں جاننا چاہتی ہوں مثلاً یہ کہ گھر بیٹھ کر سٹہ کیسے کھیلتے ہیں۔
:) 

۔ 2012ء میں کس واقعے کا انتظار ہے؟
کسی خاص واقعے کا انتظار نہیں,  ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔  
۔ 2011ء کی کوئی ایک کام یابی؟
-کامیابی اور ناکامی بالکل نسبتی اصطلاحیں لگتی ہیں۔  سو یہ کامیابی کم نہیں ابھی تک زندہ ہیں اور صحت مند ہیں،  خود کو اور دوسروں کو بم سے نہیں اڑایا، کسی مالیاتی کرپشن کا حصہ نہیں، کسی انسان کا حق نہیں کھایا نہ چھینا، کوئ نئ سیاسی جماعت نہیں بنائ، انقلاب کا نعرہ نہیں لگایا، کینیڈا جا کر غائب نہیں ہوئے۔ حالانکہ اس میں سے بیشتر کاموں کا بڑا دل چاہا۔
۔ 2011ء کی کوئی ایک ناکامی؟
- کوئ ایک وقت ورزش اور چہل قدمی کے لئے مقرر نہ ہو سکا۔
۔ 2011ء کی کوئی ایک ایسی بات جو بہت یادگار یا دل چسپ ہو؟
 - کینیڈا گئے،ایک اردو بلاگر سے ملاقات کی، زندگی میں نئ چیزیں ، نئے لوگ نئ ثقافت دیکھی۔  وہاں کے شہر،  کیوبک سٹی میں چار سو سیڑھیاں چڑھ کر پہاڑ کے اوپر گئے اور ساڑھے تین سو سیڑھیاں اتر کر نیچے واپس آئے۔ وہ دن بڑا دلچسپ اور یادگار رہا۔
۔ سال کے آغاز پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟
 - ویسا ہی جیسے نئے دن کے آغاز پہ کرتے ہیں۔
تم کو بھی ہم دکھائیں  کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشا کش غم پنہاں سے گر ملے

۔ کوئی چیز یا کام جو 2012ء میں سیکھنا چاہتے ہوں؟
- ایک چھوٹی سی چیز جو آئیندہ دو تین مہینوں میں سیکھنا چاہتی ہوں وہ ہے، اسکرین ریکارڈنگ۔ اسکے علاوہ مہ رخوں سے ملنے کے لئے مصوری سیکھنا ہے۔ مہ رخوں سے میری مراد کچھ دلچسپ اور مزے کے لوگ ہیں۔ مصوری کا مطلب ایسے کام جن میں انہیں دلچسپی ہو۔ اس لئے کہ تقریب ملاقات  ، فیس بکنگ سے زیادہ مزیدار لگتی ہے۔ یہ الگ بات کہ جب دلچسپ اور مزے کے لوگوں کا کردار بنانے لگتی ہوں اس پہ پورا اترنے والے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔
:)
مزید جن افراد کوٹیگنا چاہونگی وہ ہیں ریاض شاہد، راشد کامران، فہد کہر، عدنان مسعود، شاکر عزیز، غلام مصطفی خاور، شعیب صفدر اور نام یاد نہیں آ رہے۔

Monday, January 2, 2012

نیا سال

جس طرح ہر تہوار کے کچھ  رسوم اور آداب ہوتے ہیں اسے منانے کے لئے. اسی طرح نئے سال  کو خوش آمدید کہنے کے انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ اسے محبوب دلنواز کے ساتھ منانا چاہتے ہیں۔ اسکے لئے مناسب مقام و طعام کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ کچھ دوستوں کے ساتھ منانا چاہتے ہیں انہیں  مقام اور مشروب چاہئیے ہوتا ہے۔ کچھ کو نہ دوست چاہئیے ہوتے ہیں نہ محبوب، وہ زمانے کو دکھانا اور ہلانا چاہتے ہیں۔ انہیں مقام اور کچھ گولہ بارود چاہئے ہوتا ہے۔ کچھ آگ سے کھیلنے کے شوقین ہوتے ہیں اور آتشبازی سے دل بہلاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے کم درجے پہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جو موٹر سائیکل کے سائیلینسر ہٹا کر سڑکوں پہ دوڑتے پھرتے ہیں۔ صرف سڑکوں پہ دوڑنے کے ہم نہیں قائل، جو پھٹپھٹا کر سنائ نہ دے وہ سائیکل کیا ہے۔
ہم نئے سال کی پہلی رات کیا کرتے ہیں؟
شروع کےتین چار گھنٹے اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ یہ فائرنگ کی آواز تھی یا آتشبازی کا پٹاخہ۔  کراچی میں جنم لینے اور پیدائیش کے بعد سے اب تک اس شہر سے جڑے رہنے کی وجہ سے یہ ایک انتہائ دلچسپ مشغلہ لگتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے بعض مردوں کو یہ اندازہ لگانے میں لطف آتا ہے کہ سامنے سے گذرتی خاتون شادی شدہ ہے یا نہیں۔
باقی ساری دنیا میں جہاں نئے سال پہ فائرنگ اور آتشبازی کے پٹاخوں کا نادر نمونہ نہیں چلایا جاتا،ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ محض نشے میں دھت ہو کر اپنے ہی پیشاب اور قے میں لوٹیں لگانے سے کیا خاک مزہ آتا ہوگا۔ نئے سال کے آغاز کو مناتے ہوئے تین افراد کراچی میں مارے گئے۔ اس پہ ہمیں کوئ افسوس نہیں، خوشی کے اظہار کے لئے گولی اور آتشبازی میں  مرنے کا مقام، شراب کے نشے میں دھت ہو کرکسی نالے یا موری میں پڑے رہنے کے مقام سے کہیں اعلی معلوم ہوتا ہے۔ سلام ان پہ جنہوں نے اظہار اور اس دوران انتقال کے لئے معروف روائیتی  و مثالی پاکستانی طریقوں کو اپنایا۔
۔
۔
۔
نئے سال کا آغاز چونکہ ہماری روایت نہیں بلکہ نئے معاشرتی رکھ رکھاءو کی دیگر لا تعداد اداءووں کے ساتھ یہ بھی مغرب کی دین ہے۔ اس لئے اسے منانے کے طور طریقوں پہ اب تک اتفاق نہیں پیدا ہو پایا۔ جہاں سے یہ ہمارے یہاں آیا انہوں نے اسکے ساتھ ایک پخ یہ بھی لگا رکھی ہے کہ آنے والے سال کے لئے کوئ قرار داد بھی رکھی جائے۔ میں نے  کچھ قرار دادوں کا اندازہ لگایا ہے۔ تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
حکومتی قرارداد، عوام کے لئے فوری بنیادوں پہ کم قیمت  چنوں کی فراہمی تاکہ وہ چنوں سے گیس پیدا کر سکیں۔ چنا گیس امید کی جاتی ہے کہ سی این جی کی نسبت زیادہ تسلسل کے ساتھ فراہم کی جا سکے گی۔ اس سلسلے میں مزید گیس پیدا کرنے والی روائیتی اشیاء پہ بھی غور کیا جائے گا، مثلاً گوبھی اور مولی۔ ادرک اور کالے نمک کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی۔
تحریک انصاف، تمام لوٹوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہو گی۔ لوٹوں کے پائڈ پائیپر ، عمران خان کا یہ احسان قوم جلد ہی ووٹوں کی صورت میں اتارے گی۔ اگچہ اب تک یہ ایک سوال ہی ہے کہ جمع کئیے ہوئے لوٹوں کو کیسے ری سائیکل کیا جائے گا۔
خفیہ طاقتیں، میمو گیٹ نامی چوہے کو تین چار مہینے اور دوڑائیں گی جب تک انکے پیچھے دوڑنے والی بلیاں انکی پسند کے پنجروں میں نہ پہنچ جائیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کا اب ایک موسیقی کا ونگ بھی ہوگا۔ اس طرح ملک میں فن اور فنکار کی اہمیت بڑھنے کا امکان ہے ۔



اسکے علاوہ چند پیشنگوئیاں جو بالکل درست ثابت ہونگیں۔
 اس سال  ملک کی زیر بحث مشہور زندہ شخصیات، زرداری،   مشرف، الطاف حسین، عمران خان، اور وینا ملک رہیں گی۔ مردہ شخصیات میں سید ابوالاعلی مودودی اور بھٹو کے درمیان مقابلہ جاری رہے گا۔
رواں سال بھی یہ طے نہیں ہو پائے گا کہ قائد اعظم سیکولر تھے یا مولانا۔
بے نظیر بھٹو کے قاتل کی تلاش جاری رہے گی۔
عوامی گفتگو میں مشہور الفاظ کچھ اس طرح ہونگے، چور، جھوٹے، بے غیرت، کرپشن، لوٹے، انصاف ، تحریک اور تحریک انصاف۔
اس سال بھی اس برہمن کا پتہ نہ چل پائے گا جو ہر سال کے آغاز پہ عشّاق کو تسلی دے کر روانہ ہوتا ہے کہ یہ سال اچھا ہے۔ اسکی وجہ سے عشاق کی تعداد میں روز افزوں اضافہ جاری رہے گا۔
پاکستان بلاگ ایوارڈز والے ایک دفعہ پھر فرحان دانش کو بہترین اردو بلاگر کا ایوارڈ دیں گے تاکہ اردو بلاگرز میں صحیح سے رن کا میدان چھڑے اور وہ بلاگنگ سے تائب ہو جائیں یا پھر انگریزی میں بلاگنگ کریں۔

میں کیا کرونگی؟
 میں سر سید جیسی عظیم ہستی پہ اپنی تحاریر کو مکمل کرونگی۔
:)
آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔ وائے افسوس کہ غالب نے نئے سال کے متعلق برہمن کے ارشاد کے سوا کچھ نہیں فرمایا لیکن امید کرتے ہیں عشاق کے علاوہ ہمیں بھی کچھ بہتر ملے گا۔