Friday, June 15, 2012

توقع کی مداخلت

جب توقع ہی اٹھ گئ غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئ

ہاں تو اپنے ملک کے سیاسی نظام سے کوئ توقع نہیں یعنی کوئ تعمیری توقع نہیں رہی۔ لیکن سیاست کے چینل پہ ایک کے بعد ایک دھوم مچا دینے والے ڈرامے اس تسلسل سے آتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ابھی ایک ڈرامہ اپنے انجام تک پہنچ بھی نہیں پاتا اور ہم اندازہ ہی لگا رہے ہوتے ہیں کہ اب کیا ہوگا، کوئ اور ڈرامہ حاضر ہوجاتا ہے اور پرانا بھول کر نئے  پہ دھمال شروع ہو جاتا ہے۔
اب جو یہ  نیا ڈرامہ چلا جس نے سیاستدانوں سے لے کر میڈیا کے افراد اور عدلیہ تک کو اپنے کرداروں میں شامل کر لیا ہے۔ یہ آگے کس طرح چلے گا۔ کیا مہر بخاری اور لقمان مبشر پہ ہی نزلہ گر کر صاف ہو جائے گا یا کچھ بڑے نام بھی اس میں ایک کے بعد ایک شامل ہونگے۔
قارئین یہ جاننے کے لئے ہم نے اپنے ایک دوست سے رجوع کیا۔ یہ ایک ماہر مستقبلیات ہیں۔ اور انکی پیشن گوئیاں بجلی کے بارے میں اکثر درست ہوتی ہیں۔ یعنی انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے نئے اوقات کیا ہونگے۔ آج سے دو سال پہلے انہوں نے پیشن گوئ کی تھی کہ گیس، ڈیزل اور پیٹرول یکساں قیمتوں پہ آجائیں گے۔ جو آج بالکل صحیح ثابت ہوئ۔ اگرچہ کہ میں اس وقت بڑا ناراض ہوئ کہ یہ کیا مذاق ہے اب جبکہ میں نے اپنی گاڑی کو آپکے مشورے پہ گیس پہ کروالیا ہے تو آپ یہ پیشن گوئ کر رہے ہیں۔ ایسی باتوں پہ وہ عموماً ایک مجذوبانہ سیاسی مسکراہٹ دے کر رہ جاتے ہیں لیکن ہماری تسلی کے لئے کہا کہ تب بھی آپ کو فائدہ رہے گا، گیس پہ گاڑی زیادہ فاصلہ طے کرتی ہے۔
 اس کے علاوہ موسم کے بارے میں بالکل درست اندازہ لگاتے ہیں۔ کچھ حاسدی کہتے ہیں کہ وہ انٹر نیٹ سے خبریں لے کر دیتے ہیں۔ لیکن انداز صوفیوں والا بنا رکھا ہے۔ چلیں صحیح انکی بات مان بھی لی جائے لیکن یہ اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو ڈان اخبار کی موسم کی پیشن گوئیاں  درست کیوں نہیں ہوتیں۔
خیر موضوع کو طوالت سے بچانے کے لئے واپس آتے ہیں کہ یہ جو بیٹوں کی جنگ چل پڑی ہے تو کس کا بیٹا بچے گا اور کس کا جائے گا۔ ہمارے مجذوب دوست کا کہنا تھا کہ جس بیٹے میں جان ہوگی وہ بچ جائے گا لیکن امکان غالب یہ ہے کہ ارسلان افتخار کو سزا ہوگی۔
وہ کیوں وہ تو چیف جسٹس کا بیٹا ہے؟ میں نے ایک دفعہ پھر حیرانی کا اظہار کیا۔
وہ اس لئے کہ باقی سب کو عبرت ہو کہ اب ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہونے والا۔ وہ عدالت جو اپنے خون کو بھی معاف نہ کرے وہ آزاد ہے جو دل چاہے کرے۔
یعنی کسی بڑے کھیل کو ارسلان افتخار کے نام پہ شروع کیا گیا ہے؟
نہیں تو انہوں نے کہا ارسلان پہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کہ وہ اس کی سزا پائے گا۔ چیف صاحب سرخرو ہونگے لیکن اسکے بعد وہ عدلیہ کے ذریعے ایک ایک کی کُٹ لگائیں گے۔
یہ سب کس کے ایماء پہ ہورہا ہے؟
انہوں نے شہادت کی انگلی اٹھا کر آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ یہاں کسی کے ایماء پہ کچھ نہیں ہوتا جو صورت حال سے فائدہ اٹھا لے ایماء اسی کا ہو جاتا ہے۔ اس واضح صوفیانہ جواب کو سن کر میں نے ایک واضح غیر شرعی سوال کرنے کی کوشش کی۔
اچھا یہ بتائیں کہ چیف جسٹس صاحب کیا واقعی اپنے بیٹے کی دن دونی اور رات چوگنی ترقی سے ایک دم لا علم تھے۔ مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ پنجاب کے ذات برادی، خاندان جیسی مضبوط روایات والی زمین پہ چوہدری صاحب کو یہ شک نہیں ہوا کہ ان کا بیٹا آخر کس کاروبار سے اتنے کما رہا ہے یہ وہی بیٹا ہے جسکی نوکری کے لئے انہیں پرویز مشرف کا طعنہ سننا پڑا۔ جبکہ ایک عام باپ کو بھی شک ہوجاتا۔
اس سوال پہ انہوں نے کمپیوٹر کی طرف منہ موڑ کر کہا کہ اب انکا مخصوص وظائف کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ جس کے دوران مداخلت پہ اس کا وبال مداخلت کرنے والے پہ پڑ سکتا ہے۔
جس کی توقع ہی اٹھ چکی ہو وہ کیا مداخلت کرے گا۔ اس لئے خود ہی اٹھ آئے۔

No comments:

Post a Comment

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ