Friday, July 6, 2012

جرمنز کا پاکستانی وزیر سے مذاق

ہوا تو کچھ خاص نہیں ، میرا مطلب  پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں اور دنیا نے جب سے انٹر نیٹ جیسا چوپال بنایا ہے یہاں کوئ خبر محدود نہیں رہتی۔ حتی کہ یہ لوگوں کے بیڈ رومز ہی نہیں بیت الخلاء کی خبریں نکال لاتی ہے۔
کہا یہ جارہا ہے کہ ہماری ایک وفاقی وزیر نے جب اپنےفضلے میں ایک ثابت دوا کی گولی پائ تو انہیں نہایت تشویش ہوئ کہ یہ دوا کی گولی جو انہوں نے کھائ تھی، پورے نظام انہضام سے گذر کر کیسے ثابت نکل آئ۔ اس کا مطلب اس گولی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ اپنی منسٹری کے ماتحت چلنے والے دواءوں کی ریگولیشن کے ادارے اور شاید  اس دوا کی مستقل ضرورت کی وجہ سے انہوں نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا۔
ایک شکایت نامہ متعلقہ ادارے کو بھیجا گیا۔ کوالٹی کنٹرول کے چیئرمین  نے آرڈرز جاری کئے جسے وصول کرتے ہی ڈرگ انسپکڑز کراچی اور اسلام آباد میں اس دوا کے سیمپل جمع کرنے دوڑے۔
خیر جناب،  یہ دوا جو کہ کتھئ رنگ کی تہہ چڑھی ہوئ ایک گولی ہے اور اسکے ایک طرف  'عدالت تیس' لکھا ہوتا ہے ایک جرمن کمپنی تیار کرتی ہے اور یہ ہائ بلڈ پریشر یا انجائینا کی تکلیف میں استعمال ہوتی ہے جب لیبارٹری پہنچی تو وہاں موجود تجزیہ کار کو خاصہ صدمہ ہوا  کہ کسی نے بھی یہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ اس گولی میں دوا کا ایکٹو جز یعنی نیفےڈیپن اس خول میں ایک لیزر سے کئے ہوئے سوراخ میں موجود ہوتا ہے۔ یہ دوا اس سوراخ میں سے نکل جاتی ہے لیکن خول ویسے کا ویسا ہی فضلے میں آجاتا ہے۔ 
 اس گولی کے بنانے والوں نے تو بڑی دماغی عرق ریزی کے بعد اسےاس طرح تیار کیا تاکہ یہ دوا جسم میں اس طرح خارج  ہوکہ اخراج قابو میں رہے اور دیر تک ہوتا رہے۔ لیکن یہی چیز ہمارے یہاں تشویش پھیلانے کا سبب بن گئ۔
بس لیزر سے کئے گئے اس سوراخ نے یہ سارا وبال کھڑا کر دیا حالانکہ اس دوا کے ساتھ موجود اطلاعی پرچے میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے لیزر سوراخ میں داخل کیا گیا ہے۔ کسی نے نہ وہ اطلاعی پرچہ پڑھا اگر پڑھا تو سمجھا نہیں اور نہ ہی انٹر نیٹ کے اس زمانے میں کسی نے ایک بٹن دبا کر اسکی خصوصیات جاننے کی کوشش کی۔ یوں جرمنز کی بنی ہوئ اس دوا نے وزیر صاحبہ کے گھر بلکہ بیت الخلاء سے لیبارٹری تک کا سفر طے کر ڈالا۔
اب سازشی لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ یہ وزیر صاحبہ کیسے اس وزارت کو چلا رہی ہیں وہی نہیں بلکہ کنٹرول یونٹ کے چیئر مین اور دیگرانسپکٹرز بھی اتنے ہی جاہل نکلے۔ یہ دوا مارکیٹ میں دس سال سے موجود ہے اور انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ یہ کیسے عمل کرتی ہے۔
 لیکن جرمنز کا کیا ہوا یہ مذاق ہمیں بالکل پسند نہیں آیا۔  
 

2 comments:

  1. وزیر کے نام اور خول کے بعد از اخراج مستقبل سے قارئین کو اپ ڈیٹ کیا جائے۔

    ReplyDelete
  2. کس قسم کے وزرا ہیں جو اپنے اخراج پر اتنا غورو فکر کرتے ہیں

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ