Saturday, September 22, 2012

کیا واقعی؟

اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ رسول اللہ پہ بنائے جانے والی فلم کے متعلق میرا کیا خیال ہے۔
 ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں کسی بھی قسم کا فضول مواد نیٹ پہ ڈالنا کسی بھی شخص کے لئے کوئ مشکل کام نہیں۔ اسکی مثال وہ فحش مواد ہے جو خود مغربی معاشرے کے لئے ایک مصیبت سے کم نہیں۔
ہمارے یہاں اس فلم کے اوپر غم غصے کا ہونا بجا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام  کے پیغمبر، کوئ تصوراتی شخصیت نہیں ہیں۔ انکی یہی خوبی جہاں ایک مسلمان کے لئے بے حد کشش کا باعث بنتی ہے وہاں نہ ماننے والوں کے لئے تنازعوں کا کھڑا کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
میرے نزدیک یہ فلم  آزادی ء اظہار رائے کے ضمن میں نہیں آتی بلکہ اسکا تعلق ہیٹ میٹیریئل یعنی نفرت انگیز مواد سے ہے۔  سو اس سلسلے میں مسلمانوں کا یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے کہ اسے نیٹ پہ سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ مسلم دنیا سے نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ اور جب تک اسے نیٹ پہ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ مسلم دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب رہے گی کہ یہ نفرت انگیز مواد ، مسلم دنیا کو مشتعل کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے۔
مسلم دنیا  اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک اجتماعی حل تو یہ ہے  کہ تمام مسلم ممالک کو اس سلسلے میں متحد ہو کر کسی ایسے بین الاقوامی قانون کے لئے کوشش کرنی چاہئیے جس سے اس قسم کے نفرت انگیز مواد کا پھیلاءو ممکن نہ رہے۔ 
لیکن اس سے پہلے ہمیں بحیثیئت پاکستانی خود سے بھی پوچھنا چاہئِے کہ کیا ہم دوسرے مذاہب کی تکریم کرتے ہیں۔ کیا ہم دوسرے انسانوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پہ جیسے دل چاہے عمل کریں۔
کل میری نظر ایک مضمون پہ سے گذری جو کسی مغربی لکھاری کا لکھا ہوا تھا اور انہوں نے اس میں بے شمار چیزیں گنوائیں جو مسلمان ، غیر مسلموں کے لئے کہتے ہیں اور جو نفرت انگیز مواد میں شامل ہونا چاہئیے۔ جب ہم دل آزاری کے اس مرحلے سے بغیر کسی قباحت کے گذر جاتے ہیں تو اپنی باری میں پہ ہم کیوں پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے رسول کی تکریم ہو تو ہمیں اپنے اعمال کی بھی نگہداشت کرنی چاہئیے۔

ON CHRISTIANS Hasan Rahimpur Azghadi of the Iranian Supreme Council for Cultural Revolution: Christianity is “a reeking corpse, on which you have to constantly pour eau de cologne and perfume, and wash it in order to keep it clean.”http://www.memritv.org/clip/en/1528.htm — July 20, 2007.

Sheik Al-Khatib al-Baghdadi: It is permissible to spill the blood of the Iraqi Christians — and a duty to wage jihad against them.http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/5200.htm — April 14, 2011.

Abd al-Aziz Fawzan al-Fawzan, a Saudi professor of Islamic law, calls for “positive hatred” of Christians. Al-Majd TV (Saudi Arabia),http://www.memritv.org/clip/en/992.htm — Dec. 16, 2005.

ON SHIITES The Egyptian Cleric Muhammad Hussein Yaaqub: “Muslim Brotherhood Presidential Candidate Mohamed Morsi told me that the Shiites are more dangerous to Islam than the Jews.” www.memritv.org/clip/en/3466.htm — June 13, 2012.

The Egyptian Cleric Mazen al-Sirsawi: “If Allah had not created the Shiites as human beings, they would have been donkeys.” http://www.memritv.org/clip/en/3101.htm — Aug. 7, 2011.

The Sipah-e-Sahaba Pakistan video series: “The Shiite is a Nasl [Race/Offspring] of Jews.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6208.htm — March 21, 2012.

ON JEWS Article on the Muslim Brotherhood’s Web site praises jihad against America and the Jews: “The Descendants of Apes and Pigs.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6656.htm — Sept. 7, 2012.

The Pakistani cleric Muhammad Raza Saqib Mustafai: “When the Jews are wiped out, the world would be purified and the sun of peace would rise on the entire world.”http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6557.htm — Aug. 1, 2012.

Dr. Ismail Ali Muhammad, a senior Al-Azhar scholar: The Jews, “a source of evil and harm in all human societies.” http://www.memri.org/report/en/0/0/0/0/0/51/6086.htm— Feb. 14, 2012.

ON SUFIS A shrine venerating a Sufi Muslim saint in Libya has been partly destroyed, the latest in a series of attacks blamed on ultraconservative Salafi Islamists.http://www.bbc.co.uk/news/world-africa-19380083 — Aug. 26, 2012.


عوام کی مذہب کے نام پہ  سلطان راہی بننے کی لگن دیکھتے ہوئے سیاستداں بھی اس سے کم فائدہ نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ مذہب کا نام لے کر کسی کو قتل کر دیں یا کسی کی زمین چھین لیں یا کسی کو قید کرا دیں یہ کوئ مشکل کام نہیں۔ معاشرہ بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ جو اس چکر میں پھنستا ہے اسکی جاں بخشی اس ملک کی سرحدوں کے باہر ہی ممکن ہو پاتی ہے۔ سو وہ لوگ جو آجکل خواب میں بھی اپنے ہاتھ میں تلوار اور سامنے گستاخ کا سر دیکھتے ہیں انکو بلور صاحب نے پیغام دیا ہے کہ گستاخ فلم بنانے والے کے سر کی قیمت انہوں نے رکھ دی ہے۔ جسے ہو شوق جائے کرے شکار اسے۔ اس طرح صوبہ ء سرحد میں موجود طالبان کو انہوں نے ایک سخت چیلینج دیا ہے۔ دیکھتے ہیں طالبان  کیا زیادہ سخت سزا اس گستاخ کے لئے رکھتے ہیں۔ بلور صاحب سے معذرت کے ساتھ کیا یہ پیغام تشدد، شدت پسندی اور نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے والا نہیں ہے۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ مغربی ممالک میں کئ دہائیوں سے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیا ان مغربی لوگوں نے اجیرن کی ہوئ ہے۔ کیا وہ انکے سامنے انکے نبی کی توہین کرتے ہیں۔ مجھے آج تک کوئ ایک شخص مغرب میں ایسا نہیں ملا جس نے مجھ سے میرا مذہب پوچھا ہو یا میرا مذہب جاننے کے بعد کوئ توہین آمیز ریمارک دیا ہو۔
کسی بھی ایسے گستاخ کے سر کی قیمت رکھ کر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پاگلوں کی کمی نہیں۔ کیا سلمان رشدی کے سر کی قیمت رکھنے کے بعد لوگوں نے مرنے کے ڈر سے گستاخی کرنے کی جراءت نہیں کی؟
مجھے یقین ہے کہ یہ اس سلسلے کا آخری واقعہ نہیں ہوگا جیسا کہ مجھے کارٹونز والے معاملے میں بھی یقین تھا کہ یہ سلسلہ ایسے نہیں رکے گا۔
  اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ کل ہمارے یہاں یوم عشق رسول  ایسے منایا گیا کہ لوٹ مار کے واقعات کے ساتھ چھبیس افراد اپنی جان سے گئے۔ یہ وہ بے گناہ ہیں جنہیں کوئ شہید بھی نہیں کہتا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں نے اس پہ مذمت سے زیادہ اس پہ مذمت کی کہ میڈیا نے پر امن ریلیوں کی کوریج کے بجائے ہنگامے کی کوریج زیادہ کی۔ مجھے جس چیز پہ انتہائ افسوس رہا وہ یہ کہ سوائے فضل الرحمن صاحب کے کسی اور مذہبی تنظیم نے جاں کے زیاں پہ اپنے افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ حتی کہ سوشل میڈیا پہ موجود دائیں بازو کا پروپیگینڈہ کرنے والوں کی اکثریت اس وقت ایسے خاموش ہوئ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جیسے یہ واقعہ پاکستان میں نہیں مریخ پہ پیش آیا ہو، جیسے مرنے والے ہمارے ہم مذہب اور ہم وطن نہیں بلکہ کسی جنگل میں شیر اور ہاتھی کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں کچلی ہوئ گھاس تھے۔
آخر یہ کیسے ہوا کہ اتنے لوگ ہلاک ہو گئے؟
ایک اسٹیٹس میری نظر سے فیس بک پہ گذرا۔ جس میں لکھنے والے نے لکھا کہ ریلیاں انتہائ پر امن تھی۔ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے لیکن معاملہ ان جگہوں پہ خراب ہوا جہاں افغان مہاجرین نے ریلیوں میں شرکت کی۔ یہ افغان توڑ پھوڑ اور ہلاکتوں میں شامل تھے۔ اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے ہنگامے کی تصویر تھی۔
تب مجھے یاد آیا کہ بے نظیر کے مرنے پہ کراچی میں ملیر کے علاقے میں سب سے زیادہ ہنگامہ ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ انکے گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مار کی گئ بلکہ خواتین کو اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا ذمہ دار افغان مہاجرین کو بتایا۔
ادھر کراچی میں میری آج ایک صاحب سے بات ہوئ جو حافظ قرآن ہیں اور لیاری کے علاقے میں رہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ عینی گواہ ہیں کہ کل صدر کے علاقے میں جو لوٹ مار اور جلاءو گھیراءو ہوا وہ لیاری کے امن کمیٹی والوں کا کیا دھرا ہے۔  چند سال پہلے بھی کراچی پیپر مارکیٹ میں آگ لگانے کا ذمہ دار امن کمیٹی کو بتایا گیا تھا۔ حتی کہ اس وقت کی جانے والی لوٹ مار کا سامان بعد میں لیاری کے ایک گودام سے بر آمد بھی کیا گیا۔ یہ پیپر مارکیٹ صدر کے ساتھ ہی ہے۔
 میں نے حیران ہو کر ان صاحب سے پوچھا، لیکن میڈیا اس سلسلے میں کچھ نہیں بتا رہا اور امن کمیٹی والوں کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق؟
کہنے لگے، امن کمیتی کی خبریں میڈیا نہیں دے سکتا۔ مزید یہ کہ  یہ سب ایجنسیز یعنی پاکستانی فوج کے ایماء پہ ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام مذہب کے نام پہ بڑھکوں اور قتل و غارت گری سے بھرپور ڈرامہ دیکھ کر اپنا خون گرم رکھے۔ کیونکہ وہ ایک طرف عوام کو مذہب کے نام پہ طیش میں لاتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ بہادر کو جتاتے ہیں دیکھا، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیل کر آپکو اپنے علاقے میں تحفظ دیا ہوا ہے۔ اور آپ ہمارے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف فوج بلکہ حکومت کے بھی پو بارہ ہیں۔
سوسائٹی میں وہ جن لوگوں کو استعمال کر سکتے ہیں انہوں نے کیا، ایک طرف افغان ذرائع انکے قابو میں  دوسری طرف کراچی میں جو قوتیں انکے قابو میں ہیں ان سے بھی حتی الامکان کام لیا ہے۔ مذہبی جماعتیں جہاد کے نام پہ انکے قابو میں ایسے آتی ہیں جیسے تر نوالہ۔
مجھے تو انکی بات پہ شبہ ہی تھا یہ تو آئے دن کا معمول ہے کہ جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو کہہ دیتے ہیں کہ اس میں ایجنسیز شامل ہیں۔  لیکن آج صبح جب میں نے کیانی صاحب کا یہ بیان ٹی وی پہ سنا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے تو میں نے سوچا کہ جہاد اور جنگ میں معمولی سا فرق ہے وہ چاہتے تو اوبامہ کی طرح لفظ جنگ استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن در حقیقت اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خدا حافظ اور اللہ حافظ میں ہے۔ عوام کو کتنی آسانی سے سمجھ میں آیا کہ اللہ حافظ سے ہی اللہ ہمیں حفاظت دے گا۔ کیونکہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے۔ خدا تو ہر کس و ناکس کا ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کا خدا خاص امت کا خدا کیسے ہو سکتا ہے۔ کیانی صاحب نے بڑا ناپ تول کر بولا۔
یہ پاک فوج ہے جس نے مذہبی شدت پسندی کا بیج بویا، اسکی آبیاری کی، اسے تناور بنایا، اسکے سائے میں بیٹھ کر اپنے لئے گلشن بنائے اور اب بھی اسکا کردار شفافیت سے محروم ہے۔ 
کیا واقعی؟ پاکستانی فوج  اب تک اس نشے کا شکار ہے کہ وہ بوتل کے جن کو جب چاہے گی اندر کر لے گی اور جب چاہے گی باہر کر لے گی۔ وہ جب چاہے گی مولوی صاحب کی خدمات حاصل کرے گی اور جب چاہے گی مولوی صاحب کو ایک طرف کر دے گی۔ کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟

10 comments:

  1. بہت شاندار تحریر ہے....

    ReplyDelete
  2. آپ نے بھی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنواتے ہوئے اس تحرير پہ دتخط کيئے ہيں؛

    DECLARATION IN CASE OF MUSLIM.

    I, s/d/w/of aged adult Muslim, resident of hereby solemnly declare that:

    a. I am a Muslim and believe in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him) the last of the prophets.

    b. I do not recognize any person who claims to he prophet in any sense of the word or of any description whatsoever after Muhammad (peace be upon him) or recognize such a claimant as prophet or a religious reformer as a Muslim.

    c. I consider Mirza Ghulam Ahmad Quadiani to be an impostor nabi and also consider his followers whether belonging to the Lahori or Quadiani group, to be NON-MUSLIM.

    آپ پہ بھی توہين رسالت لگنی چاہيئے :)

    دنيا کی اکثريت تو اسلام کو سچا مذہب ہی نہيں مانتي- ان سے توہين رسالت کيسے منوائی جائے جب وہ اس رسالت کو مانتے ہی نہيں-

    ReplyDelete
  3. "کیا مولوی صاحب اتنے ہی بے وقوف ہیں؟"

    molvi sahibaan ku awam say vote nahin miltay isleeay molvi sahibaan ki bi majboori hai

    ReplyDelete
  4. مولبی ساب اتنے بیوقوف نہیں۔
    اپنا مقام حاصل کر لیتے ہیں اور دام آہستہ آہستہ اقساط میں وصول ہوتے ہی رہتے ہیں۔۔کبھی کبھی چھکا بھی لگ جاتا ہے

    ReplyDelete
  5. بی بی کیا وجہ ہے آپ کی سائٹ بہت دیر میں کھلتی ہے ۔ جبکہ تبصروں کو پڑھنے کیلئے بار بار بار بار آپ کی سائٹ پر آنا پڑتا ہے ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. وجہ تو مجھے نہیں معلوم۔ کیونکہ میرے پاس یہ آرام سے کھلتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپکے مقامی کنکشن میں کچھ مسئلہ ہو۔

      Delete
  6. محترمہ آپ سے ایک درخواست ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی مِکس پلیٹ تحاریر لکھنے کے بجائے، ایک دفعہ ہی کوئی ایسا طویل سلسلہ شُروع کریں، جس میں مرحلہ وار آپ اپنے خیال کی مطابق دین ِاسلام اور معاشرتی رویوں کی درست تشریح فرمادیں تاکہ آپ کے ساتھ ساتھ قاریئن کا بھی بھلا ہوسکے، یہ کیا انداز ہے کہ مختلاف واقعات کے کاندھے پر بندوق رکھ کر من پسند نشانوں پر گولیاں برسانا شروع کردیتی ہیں۔ اور کچھ نہیں تو فوٹون کے تلاشِ حق والے سفرنامے کو ہی مکمل کردیں۔ تو چین نوازش ہوگی۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. کیا آپ نے خدا سے کبھی کہا کہ یہ کیا کہ آپ نے قرآن کو مکس پلیٹ بنا رکھا ہے جہاں دل چاہا جو چیز ڈال دی۔ سیدھا سادہ اپنے پیغام کو ایک پمفلٹ کی صورت بھیج دیتے جس میں مختلف ابواب میں اوامر و منکرات لکھے ہوتے۔
      میں اس رب جلیل کی ایک تخلیق ہوں۔ وہ پاک بے نیاز، زمان و مکاں اور وقت سے آزاد ہے نہ اسکی کوئ اولاد ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اسکے باوجود اس نے اپنے پیغام کو تسلسل سے نہیں دیا بلکہ واقعات کے تابع بنایا تو آپ انسان سے جو وقت، مقام اور رشتوں ناطوں اور ذمہ داریوں میں بندھا ہوا ہے اور عقل کل بھی نہیں اور نہ ہی اپنے مزاج پہ قابو رکھ پاتا ہے اس سے ایسی توقع کیوں رکھتے ہیں۔

      Delete
    2. قُرآن مکس پلیٹ نہیں ہے، بلکہ اس میں وارد ہونے والے ہر واقعے اور آیت میں بہترین نظم موجود ہے، حمید الدین فراہی اور انکے شاگرد رشید امین احسن اصلاحی نے اس سلسلے میں کافی بہترین کام کیئے ہیں۔

      Delete
  7. ap ka tajzia theek hota hai par ap se gher janabdar nahi raha jata yaktarfa tajzia ap karty hain or aksar tasab ki boo bhi ap ki tehriron main atti hai jiss ki waja se wo sab ko nahi bhati

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ