Friday, May 29, 2009

بنوں میں خدا کے عاشق

میری ایک عزیزہ کے یہاں بیٹی کی پیدائش ہوئ تو میں نے سوچا کہ ان کو مبارکباد بھی دیدوں اور لگے ہاتھوں باقی گھر والوں سے ملاقات بھی کرلوں۔ چلیں اب میری ان کی بات چیت کا سیشن شروع ہوتا ہے۔
میں؛ مبارک ہو بھئ آپ والدہ محترمہ بن گئیں۔
عزیزہ؛ الحمدللہ، جزاک اللہ۔
میں؛ کیسی ہے آپ کی بچی؟
عزیزہ؛ ماشاءاللہ، خیریت سے ہے۔ میری بچی تو سبحان اللہ برکتوں والی رات یعنی شب معراج کو پیدا ہوئ ہے۔
میں؛ اور آپ کی خیریت کیسی ہے؟
عزیزہ؛ الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں۔
میں؛ اور ان کے والد صاحب اور اہل خانہ کیسے ہین؟
عزیزہ؛ الحمد للہ وہ سب خیریت سے ہیں
اتنے میں میری ڈیڑھ سالہ بیٹی پاءوں مڑنے کی وجہ سے چلتے ہوئے ذرا لڑکھڑائ۔ عزیزہ کی والدہ کی آواز آئ۔ بسم اللہ ابھی گرتے گرتے بچی ہے۔ میں نے کہا 'آنٹی اتنے گرنے کی فکر نہ کریں۔ بچوں کا تو سارا دن کام ہی یہی ہے۔ زیادہ توجہ دیں تو ذرا ذرا سی چوٹ پہ ہنگامہ کھڑا کرنے لگتے ہیں۔' انہیں میری بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئ۔ پھر گویا ہوئیں۔ 'ائے تم نے اسے کلمہ سکھایا۔' میں ہنسی۔'پہلے صحیح سے بولنا تو سیکھے۔ کلمہ، نماز روزہ سب سیکھے گی۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئ ہے ۔ مسلمان ملک میں رہتی ہے۔' ان پڑھے لکھے لوگوں کی تو دینداری بھی ایسی ہی ہوتی ہے انہوں نے سوچا ہو گا اور پان کترتے ہوئے گویا ہوئیں ۔' بچہ جب بولنا شروع کرے تو سب سے پہلے اسے کلمہ سکھانا چاہئیے ۔ ہماری ایک نواسی ابھی سوا سال کی ہے پوچھو دعا کیسے مانگتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کہ دکھاتی ہے '۔ میں نے انہیں زیادہ پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا اور وہاں سے اٹھ کر ان کی بہو کے کمرے میں آگئ۔ وہ اپنے چار مہینے کے بچے کے ساتھ مصروف تھیں۔ جو بری طرح رو رہا تھا۔ کہنے لگیں 'بس ایسے ہی روئے جا رہا ہے صبح سے۔' 'ہوں، پہلے بچے میں تو مسئلہ ہوتا ہے۔ سمجھنے میں ٹائم لگتا ہے۔ میں اس لئے مختلف لوگوں سے معلومات لیتی رہتی ہوں اور انٹر نیٹ سے بھی انفارمیشن لیتی رہتی ہوں۔ تاکہ مسائل کا کم سے کم سامنا کرنا پڑء۔ اب آپ نے اسے اتنے موٹے پولیسٹر کے کپڑے اتنی گرمی میں پہنا رکھیں۔ روئے گا نہیں تو کیا کرے گا۔ بولنا تو آتا نہیں کہ کہے اماں مجھے گرمی لگ رہی ہے'۔ اس بات پہ وہ جھلا گئیں ۔ 'میں نے کہاں پہنائے ہیں۔ یہ ہماری ساس ہیں۔ میری امی نے جو ہلکے کپڑے بنا کر دئے تھے وہ پہناءوں تو فوراً اتار کہ پھینک دیتی ہیں۔ کہ انہوں نے بنائے ہیں۔ شوہر صاحب بازار جا نہیں سکتے مصروف ہیں۔ مجھے وہ بازار نہیں جانے دیتی کہ مسلمان عورت کو اکیلے بازار نہیں جانا چاہئے۔ ۔ اب میں کیا کروں۔ کل ڈاکٹر کے یہاں گئ تھی تو وہ بھی یہی کہ رہا تھا'۔ 'خیریت ڈاکٹر کے پاس کیوں جانا ہوا'۔'مجھے اکثر پیچش رہتی ہے اس لئے۔ 'پانی ابال کر پئا کریں۔ پانی کی وجہ سے مسئلہ ہوتا ہے'۔ ' نہیں پانی تو ابلا ہوا ہوتا ہے دراصل امی کے گھر میں تو بہت کم مرچیں کھائیں جاتی ہیں اور یہاں بہت زیادہ ۔ مجھے زیادہ مرچوں والے کھانوں کی عادت نہیں۔ ان مرچوں کی وجہ سے میرے پیٹ میں جلن رہتی ہے'۔'تو اپنے لئے تھوڑا الگ کھانا کم مرچوں والا بنا لیا کریں'۔ میں نے اپنے طور پہ ایک آسان سا مشورہ دیا۔'جی، ایک دفعہ میں نے سوچا کہ اپنے لئے الگ سے کچھ بنا لوں تو یہاں سب خواتین نے شور مچا دیا کہ الگ ہونے کی تیاری کر رہی ہیں۔ تو بس ہر تھوڑے دن پہ جا کر دوا لینی پڑتی ہے'۔ اب میری ساس کہتی ہیں کہ تم تو ہر وقت بیمار رہتی ہو۔ میرے کان میں ان کی ساس کی آوز آئ اللہ اکبر، یہ کس قدر رو رہا ہے لاءو مجھے دیدو اس کی نظر اتاردوں۔ میں وہاں سے اٹھی۔ انہیں خدا حافط کہا۔ ان کی بیٹی نے ایک دفعہ پھر کہا جزاک اللہ آپ تشریف لائیں۔ بزرگ خاتون نے مجھے نصیحت کی کہ اللہ حافط کہنا چاہئیے۔ مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ شاید خدا کو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن خدا کو اس سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ ہم اسکے بندوں، اور اس کی مخلوق کو کتنی آسانی دیتے ہیں۔ میں نے انہیں دوبارہ اللہ حافظ کہا۔میرے نکلنے کے بعد انہوں نے کہا ہو گا۔ ہوں یہ عورتیں کیا اپنے بچوں کو مذہب سکھائیں گی۔ بیشتر لوگ نہیں جانتے کہ علامتوں کو دہرانا اور انہیں نہ سمجھنا کسی کی زندگی میں کوئ فرق نہیں لاتا۔ اور نہ ہی ان کے کاز کو کوئ فائدہ پہنچتا ہے۔

یہ ایک اور صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں اور اپنے پچھلے ہفتے کی مصروفیات کے بارے میں بتا رہے ہین۔ اپنی داڑھی میں خلال کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے علاقے کی مسجد پہ ایک اور گروپ قبضہ کرنا چاہ رہا تھا لیکن انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کیسےاسے ناکام بنا دیا۔'غیرمسلم تھے کیا'۔ میں نےحیرانی سے پوچھا۔ کہنے لگے ۔ جی نہین دیو بندی تھے۔ اور آپ کیا ہیں۔ ہم ماشاللہ سے بریلوی ہیں۔ تو دیو بندی اور بریلوی ایک مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ جی نہیں۔ پھر بات کا رخ بدلنے کے لئیے میں نے ان سے پوچھا کہ ان کے بھائ کی شادی کا سلسلہ جو میری ایک دوست خاتون کے ساتھ چل رہا تھا اس کا کیا ہوا۔ کہنے لگےآپ نے بتایا نہیں وہ تو دیو بندی ہیں۔ یعنی دیو بندی اور بریلویوں کی آپس میں شادی نہیں ہو سکتی۔ کہنے لگے کوئ کرنا چاہے تو کر لے ۔ لوگ تو غیر مسلموں سے بھی شادی کرلیتے ہیں۔لیکن دیو بندی ہمارے میلاد اور فا تحہ سے بڑے چڑتے ہیں۔ حتی کہ وہ فاتحہ کی چیزیں بھی نہیں کھاتے۔ میری طرف انہوں نے فاتحہ کا لڈو بڑھایا۔ اور میں نے اسے کترنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے آپ کیا ہیں۔ 'جی، والدین نے کبھی بتایا نہیں کہ ہم دیو بندی ہیں یا بریلوی'۔ فرمانے لگے آپ کی حس مزاح اتنی اچھی نہیں۔ جی مجھے اس سے اتفاق ہے۔ میں نے جلدی سے ان کا فقرہ پکڑا۔ کسی کوتو فالو کرتی ہونگیں۔ جی میں پوچھ کر بتاءونگی۔ آپ سمجھتے ہیں ناں یہ بڑے نازک مسائل ہوتے ہیں۔

لیکن ان کے جانے کے بعد جب میں نے اپنے آپ سے سوال پوچھا تو لگا کہ اس کا جواب تو مجھے آتا تھا میں اس اسلام کو فالو کرتی ہوں جو اپنی ابتدائ حالت میں تھا۔ جس کا مقصود انسان کو اشرف المخلوقات بنانا تحا۔ اسے چند رٹے رٹائے جملے یاد کرانا نہیں تھا۔ وہ مذہب تو انسان دوستی پہ مبنی تھا جہاں رسول اپنے سجدے کو اس لئے لمبا کر دیتے ہوں کہ ان کی پیٹھ پہ ان کا کم عمر نواسہ کھیل رہا ہے۔ اپنی دودھ پلانے والی ماں کے استقبال کو کھڑے ہوکر ان کے لئے اپنی جگہ خالی کرتے ہوں۔ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے اس کے ساتھ دوڑ لگاتے ہوں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہوں۔ اس زمانے کے مروجہ طریقے کے مطابق جب آپ کے داماد آکر دوسری شادی کی اجازت مانگتے ہیں تو آپ ایک شفیق باپ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں میری فاطمہ کو دکھ ہو گا۔ ان کے داماد ان کی بات کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی بیٹی کی زندگی میں دوبارہ شادی نہیں کرتے۔

خلیفہء اول خلیفہ بن جانے کے بعد بھی اپنے قبیلے کی بیوہ اور ضعیف عورتوں کی خیر خیریت معلوم کرنےجاتےہیں ان کو پانی بھر کے لا کے دیتے ہیں ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔ خلیفہ دوئم جو اپنی سخت گیری کی بنا پر مشہور ہیں لیکن میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ انصارکی کسی عورت نےان سے کسی مسئلہ پہ اختلاف کیا۔ اور آپ سے رائے تبدیل کرنے کو کہا تو آپ نے فرمایا'عورتیں ایسی جری تو نہ ہوتی تھیں'۔اس خاتون نے کہا۔ ' کیوں نہیں۔ رسول اللہ کی بیویاں آپ سے مباحثے کیا کرتی تھیں اور اپنی اصابت رائے سےرسول اللہ کو قائل کر لیا کرتی تھیں۔' حضرت عمر نے اس عورت کے دلائل کے سامنے سر جھکا دیا اور خاموش ہو گئے۔

تاریخ کے یہ چھوٹے چھوٹے جھروکے ہمارے سامنے ان انسانون کو لاتے ہین جن کو ظاہری اصولوں اور عقیدت کی مصنوعی دیواروں کے پیچھے جان بوجھ کر دفن کردیا گیا ہے۔ بس یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یا تو وہ ہر وقت صرف کفار سے جنگ اور جہاد میں مصروف رہتے تھے اور وہاں ہر وقت نعرہء تکبیر اللہ اکبر کہتے تھے۔ یا ہر وقت سب تسبیح ہاتھ میں لئے اللہ اکبر کرتے رہتے تھے۔ اخر وہ سب ایک انسانی معاشرے میں رہتے تھے۔ ان کی خانگی زندگی بھی تھی اور خاندانی زندگی بھی۔ نظریات اور سمجھ بوجھ میں اختلاف بھی ہوتا تھا انہی سے انسانی زندگی عبارت ہے۔ ہم نے مذہب کو اپنی ثقافتوں سے قریب کرنے کےلئے اس کی شکل بگاڑ دی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتنی سختی سے اس کی ظاہری علامتوں کو نبھاہیں گے اتنے اچھے مسلمان ہونگے۔ حالانکہ سفید رنگ میں رنگ جانے سے کوا کبوتر نہیں بن جاتا۔

اب اقبال کا ایک شعر ہے جسے کسی نے یہ ثابت کرنے کے لئے سنایا تھا کہ انکے بنوں میں خدا کے عاشق بہت ہیں۔

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اسکا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا


شہیدالمحراب، عمر بن الخطاب، سید عمر تلمسانی ترجمہ حافظ محمد ادریس ، البدر پبلیکیشنز، اردو بازار، لاہور۔

1 comment:

  1. کیونکہ ہمیں عادت ہے دونمبری کام کرنے کی اس لیئے ہم اللہ میاں سے بھی دو نمبری کیا کرتے ہیں اللہ کے بندوں کو تکلیف دو اور اللہ سے رحم کی امید رکھو ہے نا کتنی بڑی منافقت
    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ