کراچی میں سی آئ ڈی کی بلڈنگ پہ شدید دھماکہ ہوا۔ پوری عمارت تباہ، پندرہ سے زائد لوگ ہلاک۔ سوسے زائد زخمیوں کی بڑی تعداد سر پہ چوٹ کا شکار۔ ایک کلومیٹر کے علاقے میں دو سو سے زیادہ گھر تباہ۔ بس اس سے آگے میں اس پہ کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ البتہ ان لوگوں میں سے ہوں جو سوچتے ہیں کہ اس قتل و غارتگری، جنگ و جدل کو کیا ہمارے بچوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کون ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کو روکے گا اورکون انکے منجمد دماغوں کو زندگی کی قدر کرنے کی تحریک دے گا۔
-
-
-
-
میری ایک تبصرہ نگارماں ہیں اور ہر ماں کی طرح چاہتی ہیں کہ وہ اپنی بچی کی زندگی میں وہ سب آسانیاں دیں جو وہ دے سکتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں سب سے پہلے تعلیم کا سوال اٹھتا ہے۔
ذمہ دار والدین فکر مند رہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کن بنیادوں پہ استوار کریں۔ کراچی میں بعض اسکولوں میں بچوں کی پیدائیش کے فوراً بعد رجسٹریشن کرانا ضروری ہوتی اور بعض بچے سوا سال کی عمر میں اسکول میں داخل کرا دئیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ والدین کی اکثریت نہیں جانتی کہ یہ اسکول نہیں بلکہ پلے اسکول ہوتے ہیں۔ ان پلے اسکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس عمر میں بچوں کو کھیل ہی کھیل میں اپنے ماحول سے آگہی دی جاتی ہے اور زندگی کے ابتدائ ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ماءووں کی اکثریت چونکہ گھروں میں رہتی ہے اور انکے لئے اسکا وقت نکالنا مشکل نہیں بلکہ یہ انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری ماءووں کی اکثریت یا تو خود ان پڑھ ہوتی ہے، وہ خود ہی اپنے ماحول سے آگاہ نہیں ہوتی تو وہ اس سلسلے میں چاہنے کے باوجود کچھ کرنے سے معذور ہوتی ہے۔
وہ مائیں جو اتنی پڑھی لکھی ہیں کہ کمپیوٹر استعمال کر سکیں اور انکے گھروں میں کمپیوٹر موجود بھی ہے انہیں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتے ہوئے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے آپ اپنے بچے کو اپنے گھر کے اندر اس سارے طریقے سے واقف کرا سکتے ہیں جو کہ والدین بہت زیادہ فیسوں کی ادائیگی اور دن رات کے تناءو کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بچوں کو وہ تمام علم دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دیا جاتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی نے تمام انسانوں کو برابر کی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔
بچوں کی پہلی انسپیریشن انکے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کتابوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو بچے بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں انہیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس لئے سب سے پہلے خود پڑھنے کی عادت ڈالنہ چاہئیے۔
بچوں ک تربیت میں ایک چیز کا خیال ضروررکھنا چاہئیے کہ جب بھی آپکا بچہ کوئ نئ چیز سیکھتا ہے چاہے وہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو اسکی حوصلہ افزائ ضرور کریں۔ جب وہ آپکی ہدایات پہ عمل کرتا ہے اسے ڈھیر سارا پیار کریں اور خوب ساری تعریف۔ والدینکو بچوں کے سامنے لڑائ جھگڑے سے گریز کرنا چاہئیے۔ تعریف، محبت اور تحفظ کا احساس بچوں کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پہ اپنے والدین کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ذرا سی تربیت سے وہ ہر کام آپکی مرضی کے مطابق کرنے لگتا ہے۔ سو تعریف اور محبت سب سے بڑی رشوت ہے۔
میں نے اپنی بچی کی ابتدائ تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نیٹ گردی سے بڑا فائدہ اٹھایا اور آج بھی اٹھا رہی ہوں۔
بچوں کے سامنے چیزیں دوہراتے رہنے سے وہ اسے یاد کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں رٹوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کمپیوٹر پہ چیزوں کو دوہرانا آسان ہوتا ہے۔ بچوں کو چیزیں یاد کروانے کے بجائے انکے سامنے چیزیں دوہرائیں، ایک ہی ویڈیو بار باردکھائیں۔ مگر اس میں وقفہ رکھیں۔ ایکدن ایک چیز کروالی اور دوسرے دن دوسری۔ کتاب کو بار بار انکے سامنے رکھ کر پڑھیں۔ انہیں مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن اسکے لئے آپکے اندر ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے اور وہ ہے صبر۔
میں نے اپنی بیٹی باقاعدہ تعلیم شروع کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کی عمر میں
اس لنک کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے وہ چھوٹے بچوں کے پزل کرتی تھی۔ یہ پزلز ابتدا میں تو مجھے بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے لا دئیے تھے۔ لیکن اب کراچی میں لکڑی کے یہ پزل بآسانی دستیاب ہیں۔ یہ مخلتف ساختیں کٹی ہوتی ہیں اور ان میں پلاسٹک کی میخ لگی ہوتی ہے جس سے بچے انہیں اٹھا کر دئیے ہوئے بورڈ پہ جما لیتے ہیں۔ لکڑی کے یہ پزل مختلف جانوروں سے لے کر انگریزی اور اردو کے حروف اور گنتی کے اعداد میں بھی مل جاتے ہیں۔ اعداد یا حروف کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے پہلے بچوں کو بالکل سادہ سے پزل سے شروع کرائیں۔ جن کی بیرونی ساخت کم پیچیدہ ہو۔ جیسے جیسے وہ اسے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں پیچیدہ پزل کروانا شروع کر دیں۔
ڈیڑھ سال کی عمر میں، مشعل نے بارنی شو دیکھنا شروع کیا۔ اور اسکی ایک ویڈیو
سانگز ان دا پارک اسکی پسندیدہ ویڈیو تھی۔ یہ ویڈیوز کسی بھی اچھے ویڈیو سینٹر سے بآسانی دستیاب ہیں۔ کراچی میں رینبو سینٹر میں صرف پچاس روپے میں ایک ڈی وی ڈی مل جاتی ہے۔ ہمم، لیکن یہ پائیریٹڈ ہوتی ہیں۔
جب ہم سب گھر والوں کو بارنی کی موجود ساری ویڈیوز یاد ہو گئیں اور ہم اس قبل ہو گئے کہ اسکے گانوں کی دھن ترتیب دے سکیں اور اسکے گانے
آئ لو یو پہ ہم ہرروز مشعل کے ساتھ دن میں چھ دفعہ پرفارم کرتے تو اس وقت
ڈورا دی ایکسپلورر نے زندگی کی اس گتھی کو سلجھایا۔ بارنی نے جہاں مشعل کو انگلش زبان سے واقفیت دی بچوں کے ناز و انداز سکھائے وہاں
ڈورا نے مسائل اور انکے حل کی طرف مشعل کی توجہ مبذول کروائ۔ مجھے بھی یہ ویڈیوز خاصی پسند ہیں یہ نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں بلکہ انہیں کافی کچھ سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہیں سے مشعل کی زندگی میں یہ جملہ داخل ہوا , آئ ڈِڈ اٹ۔ اسکے بعد مشعل نے کافی انگریزی اس سے سیکھی بلکہ اسپینش بھی۔ اسے اسپینش گنتی بھی دس تک یاد ہو گئ تھی۔ انکی پسندیدہ
ڈورا سیوز مر میڈ کنگ ڈم بلا مبالغہ دو مہینے تک روزانہ دو دفعہ چلتی تھی۔ اور اسے دیکھنے کے دوران انکی کمنٹری بھی، اب یہ ہونے والا ہے۔ اس میں مشعل کا پسندیدہ سین ڈورا کا ایک مرمیڈ میں تبدیل ہونا تھا۔
لیکن اس دوران ہمارا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اینیمل زو سے ہم نے انگریزی کے بڑے حروف سیکھے۔ جبکہ مونٹیسوری میں پہلے چھوٹے حروف سکھائے جاتے ہیں یہ پتہ چلتے ہی میں نے چھوٹے حروف کی ویڈیو تلاش کی اور میں ایک اور مزے کی سائیٹ پہ پہنچی جسکا نام ہے
سپر سمپل سونگز۔ یہاں پہ
گنتی کے اعداد سکھانے کے لئیے مدد ملی۔ اور یہیں سے دنوں کے نام سیکھے۔ یہاں بچوں کے لئے مزے کی انگلش نظمیں اور سرگرمیاں موجود ہیں۔ انگلش نظموں کے لئے مجھے ایک اور سائیٹ بے حد پسند ہے جو ہے
کلّن کی سائیٹ۔
ہمم، لیکن مونٹیسوری کی جس چیز سے اکثر والدین بڑے مرعوب ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اسے بچوں کو کسطرح سکھائیں۔ وہ ہیں انگریزی حروف کی آوازیں یعنی
فونیٹک ساءونڈز۔ اسکے لئے بہت ساری سائیٹس موجود ہیں ابتداً جو سائیٹ مل وہ
ایک ایسی خاتون کی تھی جو اشاروں کی زبان بھی اپنی بچی کو ساتھ ساتھ سکھا رہی تھیں۔ اس طرح مشعل نے بھی کچھ اشارے سیکھے۔ یوں آوازوں والا مرحلہ نہایت ہمواری سے طے ہوا۔ مونٹیسوری جانے والے بچوں کی ماءووں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مشعل نے حروف کی آوازیں گھر پہ سیکھی ہیں۔
رنگوں کی پہچان، مہینوں کے نام اور چھوٹے چھوٹے انگریزی سوال و جواب کے لئے ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا
بزی بیورز۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا،
لیٹس اسٹارٹ اسمارٹ۔
اردو حروف کے لئے پریشانی ہوئ۔ جو
ایک آدھ سائیٹ ملیں وہ اتنی دلچسپ نہ تھیں۔ اگرچہ کہ میں نے انہیں پھر بھی مشعل کو دکھایا۔ اسکے لئے ایک ویڈیو میں نے خود بھی بنائ جو
اس لنک پہ موجود ہے۔
یہ تو تھی اس نیٹ گردی کی ایک مختصر داستان، جو کہ خاصی طویل ہے لیکن یہ پوسٹ اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ آجکل ہم تصویروں میں فرق معلوم کرنا، ،جگسا پزل اور بھول بھلیاں کر رہے ہیں۔ یہ نیٹ پہ بھی موجود ہیں۔ نیٹ پہ بچوں کے لئے ایکٹیویٹیز کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بس اسے آپکا وقت اور دلچسپی چاہئیے۔
ان تمام چیزوں کے ساتھ میں نے جس چیز کا خیال رکھا وہ یہ کہ بچی کے سوالوں کے آسان مگر صحیح جوابات ہونے چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہم اپنی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں اسے آسان الفاظ اور آسان خیال میں بتاتے رہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ سوائے اسکے کہ بچوں کو اسکول میں دوسرے بچوں کی سنگت ملتی ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے والدین ہیں اور آپ کے پاس وقت ہے تو اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنا بالکل ضروری نہیں۔ اپنی عمر کا یہ حصہ ہم میں سے بہت کم کو اور بہت ٹوٹا پھوٹا یاد ہوتا ہے۔ مگر اپنے بچوں کے ساتھ مونٹیسوری پڑھنا اسے سحر انگیز بنا دیتا ہے۔
یہ تحریر امن ایمان کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ امن ایمان میرا خیال ہے کہ آپکے سوال کا جواب آپکو مل گیا ہوگا۔