میں آپ سے کہوں کہ اگر آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپکے بچے اس پہ ایک محفوظ اور قدرتی وسائل سے مالامال زندگی گذاریں تو آپ پیدل چلنے کو ترجیح دیں بجائے گاڑی سے جانے کو، اپنے گھر کے کاکروچ، مچھر اور چیونٹیاں مارنے کے لئے مختلف اسپرے یا کیمیکلز کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ اپنے آپکو ہر وقت اسپرے والے پرفیوم سے مہکائے نہ رکھیں۔ دودھ دہی لینے جانا ہو تو اپنے ساتھ برتن لیکر جائیں۔ چیزیں خریدتے وقت بے تحاشہ پلاسٹک کے شاپرز استعمال نہ کریں۔ اپنے ساتھ کاٹن کا تھیلہ یا باسکٹ رکھیں، اور اگر یہ کرنے میں کوئ حجاب مانع ہے تو کم سے کم شاپرز استعمال کریں۔
یہ سن کر کچھ لوگ سوچیں گے , کیا مصیبت ہے۔ ہر وقت نصیحت، یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔ محبت میں بھی نصیحت۔ چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ۔ چلیں، پہلے آگے پڑھ لیں اور پھر سے سوچیں۔
زمین کے ماحول کے بنیادی حصے جس میں اسکی ساخت، فضا، پانی کے ذخائر اور زمین کو رنگینی عطا کرنے والے نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں ایک دوسرے سے ایک ماحولیاتی توازن اور کیمیائ توازن کی زنجیروں سے جڑے ہیں اس زنجیر کی ایک کڑی بھی متائثر ہونے سے ہر چیز اپنے توازن سے ہٹ جاتی ہے۔ اور نیا توازن بننے میں نہ صرف وقت لگتا ہے بلکہ وہ نئے مطالبات بھی رکھتا ہے۔ اس تمام تعلق میں ہماری بے جا مداخلت اسے ہماری آنیوالی نسلوں کے لئے ناقابل رہائش بنا سکتی ہے۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بے جا مداخلت کیا ہے، یہ کن تبدیلیوں کو جنم دیتی ہیں اور کیسے دنیا کو متائثر کرتی ہیں۔ اور پھر اس میں انسان کا کردار متعین کریں کہ وہ اسکے نتیجے میں تیزی سے ہونے والی تباہی کو کیسے روک سکتا ہے۔
۔جب ہم بہت زیادہ کیمیکلز استعمال کرتے ہیں تو ہم زمین کے ہر حصے کو آلودگی سے آشنا کر دیتے ہیں۔ یہ آلودگی اسکی فضا، سطح اور سمندر سے ڈھکے علاقے ہر ایک کو نقصان پہنچاتی ہے۔
زمین اس وسیع کائنات میں پھیلی وہ واحد جگہ ہے ، جہاں ہم اب تک کسی ذہین مخلوق کے آثار پاتے ہیں۔ یعنی ، ہم انسان۔ اور اسکی فضا اور ماحول اس وسیع کائنات میں وہ واحد توازن رکھتی ہے جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایک فضائ غلاف سے ڈھکی ہوئ ہے جسکی مختلف تہوں کے نام اور موٹائ مندرجہ ذیل تصویر سے واضح ہیں۔
اس تہہ کی وجہ سے سورج کی ضرر رساں شعاعیں زمین تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہیں اور زمین کا ایک مناسب درجہ ء حرارت قائم رہتا ہے۔ زمین کی فضا میں موجود کاربن ڈائ آکسائیڈ کی مقدار بھی اس حرارت کو کنٹرول کرتی ہے۔ زیادہ کاربن ڈائ آکسائڈ موجود ہونے کا مطلب زیادہ حرارت کا محفوظ رہنا یا گرمی کا بڑھنا ہے یہ سارا عمل اصطلاحاً
گرین ہاءوس ایفیکٹ کہلاتا ہے۔ یہ کاربن ڈائ آلسائید ایندھن کے جلنے کے دوران پیدا ہوتی ہے چاہے وہ لکڑی کا ہو یا پٹرول کا۔
کاربن ڈائ آکسائڈ کے علاوہ اور بھی گیسیں ہیں جو گرین ہاءوس ایفیکٹ میں حصہ لیتی ہیں جیسے میتھین گیس۔ جی ہاں، وہی گیس جو ہمارے چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ پچھلی صدی میں زمین کے کل درجہ ء حرارت میں اضافہ ہوا ہے جسے
گلوبل وارمنگ کہتے ہیں اور جو ممکنہ طور پہ انسان کی صنعتی ترقی کے نتیجے میں آئ ہے۔ یعنی فوسلزایندھن کا زیادہ استعمال اور جنگلات کا خاتمہ۔
حرارت کی مناسب مقدار وہ ہے، جس میں حیات پھلتی پھولتی ہے۔ اگر زمین کا یہ مقررہ درجہ ء حرارت بڑھ جائے تو پہاڑوں پہ موجود برف پگھل جائے گی جو شروع میں تو دریاءووں میں زیادہ پانی آجانے کی وجہ سے سیلاب کا باعث بنے گی اور بعد میں ان برفافانی ذخائر کے ختم ہو جانے کی وجہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ بن جائے گی۔ جس سے خشک سالی اور قحط جنم لے سکتے ہیں۔
جیسے اگر ہمارے ہمالیہ کے پہاڑ اپنی برف کھو دیں تو پاکستان کا کیا ہوگا۔ اسکے تمام دریا بنجر ہوجائیں گے۔ اسی طرح دنیا کے پول پہ موجود برف کے ذخائر اگر پگھل جائیں تو ساری دنیا میں سمندر کے پانی کی سطح بہت زیادہ بلند ہو کر، دنیا کے بیشتر علاقے کو زیر آب کر دے گی۔
زمین کو سورج کی ضرر رساں شعاعوں سے بچانے والی
اوزون کی تہہ اسٹریٹو اسفیئر میں پائ جاتی ہے، جسے آپ شکل نمبر ایک میں دیکھ سکتے ہیں، صنعتی اداروں سے پیدا ہونے والی گیسوں کا فضا میں اخراج، دنیا بھر میں چلنے والی گاڑیوں کے دھویں کا فضا میں شامل ہونا اور گھریلو سطح پہ کلوروفلورو کاربن مرکبات والی اشیاء کا بے تحاشہ استعمال اس اوزون کی قدرتی حفاظتی تہہ کو تباہ کر رہا ہے۔
کوپن ہیگن میں کچھ عرصے پہلے ہونے والی ایک ماحولیاتی کانفرنس میں چین اور بھارت سمیت کچھ ممالک نے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنے کارخانوں سے ان زہریلی گیسون کے اخراج کو ایک مناسب سطح پہ لائیں۔ اس پہ کوئ قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔ کیونکہ کارخانوں سے ان گیسوں کی پیداوار کم کرنے کے لئے یا تو پروڈکشن لیول کو کم کرنا ہوگا یا پھر جو احتیاطیں کیجائیں گی انکے نتیجے میں انکی پروڈکٹس کی لاگت بڑھ جائے گی۔
عوامی سطح پہ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ جمع ہونے والے کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے اسے آگ لگادی جاتی ہے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور یہ بھی ماحوللیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔،
ان گیسوں کی وجہ سے بعض جگہ آلودگی اتنی زیادہ ہو گئ ہے کہ وہاں بارش میں بھی ان کیمیاَئ مرکبات کا اثر پایا جاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ آلودہ فضا انسانی صحت کے لئے جو مسائل پدا کرتی ہے وہ الگ۔ ان میں سر فہرست مختلف اقسام کے کینسرہیں۔ اسکے علاوہ مختلف کیمیائ مرکبات مختلف پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً
ہوا میں لیڈ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پہ کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافہ، دماغی امراض اضافہ یا نروس سسٹم میں خرابی ہونا۔ یہ آلودگی
عورتوں اور مردوں میں بانجھ پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے شہروں کی سطح پہ مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔
صنعتی کارخانوں کا فضلہ جسے پانی میں بہا دیا جاتا ہے اور یہ زمین کی اوپری سطح کو تباہ کرتے ہوئے زمین کے نیچے موجود میٹھے پانی کے ذخائر کو آلودہ کرتے ہوئے سمندر میں پہنچتا ہے اور وہاں کے ماحولیاتی نظام کو ختم کر کے اسے بنجر بنا دیتا ہے۔
شاید آپکو یاد ہو کہ سن دو ہزار آٹھ میں کراچی کے ساحل پہ ایک اطالوی جہاز جو خام تیل لیکر جا رہا تھا۔ تیل بہہ نکلا اور پندرہ سو ٹن تیل کراچی کے چودہ کلومیٹر ساحل پہ پھیل گیا۔ تیل کے اس طرح پھیلنے سے ایک تو اوپر کی سطح سے جانوروں کو آکسیجن نہیں مل پاتی اور دوسرے اس میں موجود بھاری عناصر سمندر کی تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں موجود سمندری قشرئیوں جیسے سیپ، گھونگھے اور مرجان کی چٹانوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور اس طرح سے اس ماحول کو تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ تیل اور دیگر مرکبات ساحل پہ پانی کے جہازوں کی آمد ورفت سے بھی سمندر میں شامل ہوتا ہے
صرف صنعتی اداروں کے کیمیکلز ہی نہیں گھریلو سطح پہ استعمال ہونے والے کیمیکلز بھی پانی کے راستے بالآخر سمندر میں نہیں پہنچتے ہیں۔ بلکہ اسکے ذرائع ہمارے گھر میں ہو سکتے ہیں۔ جیسے گھروں میں بچی ہوئ دوائیں نالی میں بہا دینا، صفائ کے لئے مختلف کیمیکلز استعمال کرنا۔ تعلیمی یا تحقیقی اداروں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کو صحیح سے ضائع نہ کرنا بلکہ بغیر سوچے سمجھے پانی میں بہا دینا۔
یہ پانی میں موجود کیمیلز کی آلودگی کا شکار ایبنارمل مینڈک ہیں۔
پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال, جبکہ پلاسٹک کو قدرتی طریقے سے ختم ہونے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اندازہ لگایا ہے کہ پچاس کی دہائ میں پلاسٹک نے عام زندگی میں قدم رکھا اور اب تک اسکی ایک بلین ٹن مقدار پیدا کی جا چکی ہے۔ یہ پلاسٹک کچرا جو ہم نے پھینکا ہے اسے ختم ہونے میں ہزاروں برس کا عرصہ درکار ہوگا۔ پلاسٹک کی مصنوعات پانی راستے سمندر میں بھی پہنچ جاتی ہیں اور سمندری مخلوقات کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ پلاسٹک کی وہ مصنوعات زیادہ بہتر ہوتی ہیں جو بیالوجیکلی تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں۔
نیوکلیئر پاور پلانٹ ہوں یا ایٹمی دھماکے ہر صورت میں تابکار فضلہ جمع ہوتا ہے جو نہ صرف انسانی صحت کے لئے مہلک ترین ہے بلکہ زمین کے لئے بھی نقصاندہ ہے۔ اس تابکار فضلے کو عام طریقے سے ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ اور انہیں مخصوص کنٹینرز میں بند کر کے یا تو دور افتادہ مقام، جیسے کسی بیابان صحرا میں دفن کر دیا جاتا ہے یا پھر سمندر کی تہہ میں دبا دیا جاتا ہے۔ ہر صورت میں یہ ایک محفوظ حالت نہیں ہے ، کیونکہ بہر حال تابکار فضلہ اس میں موجود ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں ارد گرد کے ماحول کو آلودہ کر دیگا۔ اور اس سے زمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس تصویر میں ایٹمی فضلے کے کنٹینرز کسی صحرا میں دفن کئے جا رہے ہیں۔
تابکاری کا شکار ہونے والے جاندار جنیاتی تبدیلیوں کے باعث عجیب الخلقت بچوں کو جنم دے سکتے ہیں اور انتہائ صورت میں وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ تصوراتی تین آنکھوں والی مچھلی۔
جنگلات کو اپنے استعمال کے لئے بے دریغ کاٹنا، اپنے آپکو ایک قدرتی دولت سے محروم کرنا ہے۔ جیسے کراچی کے ساحلوں کے نزدیک مینگروز نامی درخت کے جنگلات جوساری دنیا میں مینگروز کے جنگلات میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ خاصے کم ہو گئے ہیں کیونکہ ان درختوں کو مقامی آبادی نے ایندھن کے طور پہ استعمال کیا۔
اسکی وجہ سے انکی جڑوں کے ساتھ پائے جانیوالے جھینگے، کیکڑے اور دیگر جاندار اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور یوں ایک ماحولیاتی توازن تباہی سے دو چار ہوا۔
اگر ہم دیگر جانداروں کے ماحول کی حفاظت نہ کریں ، انکے رہائشی جنگلات اپنے استعمال کے لئے کاٹ دیں، اپنے شہروں کو بڑھاتے چلے جائیں اورانکے سمندر میں اپنی آلودگی انڈیلتے رہیں تو وہ نایاب نسل میں شامل ہوکر دنیا سے غائب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اور آج بہت سے جانور جو ہم دیکھتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کل ہم اپنی اولادوں کو صرف تصویر میں ہی دکھا پائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے ماحول میں وہ جس حیاتیاتی توازن کو قائم رکھتے ہیں وہ انکی غیر موجودگی میں تبدیل ہو کر ہمارے لئے مسئلہ بن سکتا ہے۔
اسکی ایک مثال
انڈیا اور پاکستان میں پایا جانیوالا گدھ ہے جو پہلے ایک بڑی تعداد میں ملتا تھا ۔ گدھ مردہ جانوروں کوکو کھا کر ماحول کی صفائ کا اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ مگرپندرہ سال کے اندر انکی تعداد میں ستانوے فی صد کمی آئ۔ تحقیق پہ پتہ چلا کہ مویشیوں کو دی جانیوالی دوا ڈکلوفینیک کے باقیات انکے جسم میں رہ جاتے ہیں۔ ان مویشیوں کا گوشت کھانے سے یہ دوا گدھ کے جسم میں پہنچ جاتی ہے ۔ گدھ اس دوا سے گردے کے امراض کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
اس لئے ، ہمیں اپنی تمام ترقی اور سرگرمیوں کے دوران یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ زمین پہ ان دیگر جانداروں کا بھی حق ہے جنہیں ہم اپنے مقابلے میں کمتر جانتے ہیں۔
اب اس مختصر جائزے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ اس سیارے کو اپنے لئے اور آئندہ آنیوالے انسانوں کے لئے محفوظ بنانے کے واسطے ہمیں اس طرز زندگی کو اپنانا ہوگا جہاں زمین اور اسکے ماحولیات کا حق سب سے پہلے ہونا چاہئیے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
نوٹ؛ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں
ارتھ ڈے، بائیس اپریل کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن، زمین کے ماحول کے متعلق علم دینے اور اسے بچانے کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے مقرر کیا ہے۔ اسکی تجویز سن انیس سو انسٹھ میں امن کے کارکن
جون میک کونیل نے دی تھی۔ اور یہ اپنے ایک قاری کی فرمائش پہ لکھی گئ ایک تحریر ہے۔
:)
مزید تفصیلات کے لئے دئیے گئے لنکس دیکھیں یا سوال کریں۔ آپکی دی ہوئ مزید معلومات کے منتظر۔
حوالہ جات؛