Sunday, March 13, 2011

ساحل کے ساتھ-۷

گذشتہ سے پیوستہ

جب نازنین مجھے آئ لو یو کا جواب بتا چکی تو اس نے ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ محفل میں بے قرار حقے کو اپنے سامنے کیا۔ اسکی نے کواپنے دوپٹے کے آنچل سے صاف کیا۔  اور اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ پروین شاکر نے کہا تھا کہ
پلکوں سے اسکے پونچھ دوں، میں آج کی تھکن
کل کے سفر میں آج کی گرد سفر نہ جائے
یقیناً یہ کام بھی انہوں نے اپنے دوپٹے سے کیا ہوگا۔
دوپٹے کے یوں تو ہزاروں استعما ل ہیں لیکن  برصغیر میں دوپٹہ بڑا رومانوی کردار رکھتا ہے۔ شاعری ہو، سیاست ہو یا مذہب ہر جگہ دوپٹے کی بڑی جگہ ہے۔



دوپٹہ قاتل چیز ہی نہیں بلکہ اسکی خاطر قتل تک ہو جاتے ہیں۔  یوں تھر کے صحرا میں منہ پہ دوپٹے کا ایک لمبا گھونگھٹ کاڑھے سر پہ پانی کی گگری بلکہ اوپر تلے  دو تین گگریاں رکھے کیٹ واک کی حسیناءووں کو مات دیتیں، پیروں تلے دھنسنے والی ریت پہ مورنی کی طرح چلنے والی سخت جان خواتین ہوں یا شہروں میں دوپٹے کو اپنی آرائیش کا ایک حصہ بنانے والی خواتین۔  ہر ایک دوپٹے سے  قابو کرنا جانتی ہے۔ 
نازنین نے اسکے ساتھ ہی ایک گہرا کش لے کر دھواں چھوڑ دیا۔ یہ دائرے میں گھومتا دھواں جب میرے سامنے کی فضا میں پھیلا تو سچ کہوں کہ میرا بڑی شدت سے دل چاہا کہ میں خود ایک ایسا تجربہ کر کے دیکھوں۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس قصبے میں کوئ ہسپتال اور ڈسپینسری نہیں۔ چکرا کر گرنے کی صورت میں باقی لوگوں کو بڑی پریشانی ہوگی۔ اس تجربے کی خواہش کا گلا گھونٹ کر میں نے اس سے کہا۔  اس میں تمباکو ہے ناں؟ اس میں ، اس نے ایک دفعہ پھر بے نیازی سے دھواں چھوڑا۔ اس میں تمباکو، چرس، افیون، اور پتہ نہیں کون کون سے زہر ہوتے ہیں۔ ہم اسے گُڑاکو کہتے ہیں۔
برا ہوتا ہے صحت کے لئے۔ میں نے ناصح بننے کی کوشش کی۔ یہ تو مجھے پتہ تھا کہ نازنین، میرے دل میں نہیں جھانک سکتی۔ سو ناصح بننے کا کردار اخلاقی اعتبار سے سب سے اعلی ، آسان  اور متائثر کن کردار، میں نے ادا کرنے میں ذرا حرج نہیں سمجھا۔
معلوم ہوا کہ اسکا شوہر بھی یہی کہتا ہے۔ مگر وہ کہتا ہے کہ بچے کے لئے اچھا نہیں ہے۔ میں کہتی ہوں جب بچہ ہوگا تو چھوڑ دونگی، اس نے حقے کو ذرا صحیح پوزیشن پہ لاتے ہوئے اس میں اپنا بیان جمع کیا۔ مگر نازنین، میں نے دخل دیا۔ بچے کی پیدائیش کے بعد نہیں بلکہ  اس وقت جب بچہ ماں کے جسم میں زندگی کا آغاز کرتا ہے اس وقت سے یہ اسکے لئے زیادہ برا ہوتا ہے۔ دھواں کچھ دیر کے لئے اسکے منہ میں بند ہو گیا۔ اس نے میرے چہرے پہ آنکھیں روکیں اور جیسے اسے سمجھ میں آگیا کہ اب کیسے مجھے چت کرنا ہے۔ مسکرائ اور گویا ہوئ، مگر مجھے اچھی طرح پتہ ہے ابھی میرے کو کوئ بچہ نہیں ہے۔
میں نے ہار ماننے کی اداکاری کی۔
اچھا، تم لوگ کتنی عمر سے حقہ پینا شروع کرتے ہو۔ ایک دفعہ پھر نازنین ہنسی۔ اس نے میری بات کا ترجمہ کیا۔ باقی لوگ مسکرائے کچھ تبادلہ ء خیال ہوا۔ پھر وہ ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔ اس نے تو ایک سال کی عمر سے پینا شروع کیا تھا۔ ہمارے یہاں، اس کی کوئ عمرنہیں۔
ایک گھریلو حقہ
 بس مجھے خیال آیا کہ یہی نازنین، کراچی میں جینز اور بغیر آستین کی شرٹ پہنے یہی کام کر رہی ہو تو لوگوں کا ایک گروہ اسے روشن خیالی کے کھاتے میں ڈال کر یہ کہے گا کہ یہ ہے وہ آزادی جو شہر کی روشن خیال عورتیں، مغرب سے مرعوب ہمارے لوگ ہماری عورتوں کے لئے چاہتے ہیں۔ ہماری عورتیں سر عام سگریٹ پیئیں اور دھواں اڑا کر خوش ہوں۔ لیکن یہاں اس مقام پہ یہ ایک روایت ہے، رواج ہے، شغل ہے۔ کوئ برائ نہیں، کوئ مسئلہ نہیں، کوئ روشن خیالی نہیں۔
غذا کا معیاری نہ ہونا، اور تمباکو نوشی شاید وہ چیزیں ہیں جنکی وجہ سے یہ عورتیں اپنی اصل عمر سے کہیں بڑی لگ رہی تھیں۔ اپنی تمام تر کشش کے باوجود، نازنین کا چہرہ اس شادابی سے محروم تھا جو ایک اکیس بائیس سال کی صحت مند لڑکی کے چہرے سے پھوٹتی ہے۔
وہیں رفیق کی بہن بیٹھی تھی۔ جسکا شوہر چار سال پہلے اسے بھائ کے پاس چھوڑ کر چوتھی شادی کر چکا ہے۔ اسکی پہلی دو بیویاں مر چکی ہیں۔  تیسری بیوی، اسکی بہن کا سب سے چھوٹا بیٹا، ایک سال کا ہے۔ چار سال میں اسکے تین اور بچے ہوئے ہیں۔ اس کا مجازی خدا، سال میں ایک دفعہ آکر یہ فریضہ پورا کرتا ہے۔ بچے، رفیق پال رہا ہے۔ یہ ہے وہ بے اختیار مثالی عورت، جس کے مٹنے کے تصور سے روایت پسندوں کو ٹھنڈے پسینے آجاتے ہیں۔
ان لوگوں نے اپنے ہاتھ کے کڑھے ہوئے دوچ دکھائے۔ ان میں سے ایک کی قیمت دس ، پندرہ ہزار ہے، مجھے بتایا گیا۔  یقیناً ہوگی، ان پہ ہاتھ سے باریک کشیدہ کاری ہوئ تھی اور لاتعداد چھوٹے چھوٹے شیشے چمک رہے تھے۔ نازنین کہنے لگی شادی پہ ایسے تیس جوڑے دئیے جاتے ہیں۔ اور سونا بھی ۔ کتنا سونا دیتے ہیں؟ لڑکے کی ماں دیتی ہے، تیس تولے۔ تمہارے یہاں شادی پہ لڑکی کو کیا ملتا ہے؟ اس نے بڑی آن بان سے ان جوڑوں کو تہہ کرتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا ۔ 
ہم، میں نے ایک گہری سانس لی۔ ہمارے یہاں، شادی پہ لین دین لڑکی والوں کے لئےبڑی مشکل چیز ہے۔ لڑکی کی ماں صرف لڑکی کو نہیں بلکہ دولہا، اسکے گھر والوں، اسکی بھابیوں اور بہنوئیوں کو بھی کپڑے دیتی ہے، جہیز دیتی ہے، لڑکی کو سونا دیتی ہے، شادی والے دن باراتیوں کو کھانا دیتی ہے۔ یہ سن کر وہ سناٹے میں آگئ ۔ ماتھے پہ بل ڈال کر کہنے لگی۔ یہ سب کچھ لڑکی کی ماں کرتی ہے تو پھر لڑکے کی ماں  کیا کرتی ہے؟ وہ ، جو انکی حیثیت ہوتی ہے وہ کرتے ہیں، حیثیت ہوتی ہے توسونا دیتے ہیں  ورنہ نہیں دیتے، کپڑے دیتے ہیں لیکن انکی تعداد لڑکی والوں سے کم ہی ہوتی ہے، ولیمہ کرتے ہیں، اور نخرے کرتے ہیں۔ نخرہ سمجھتی ہو تم، میں نے اسے پھر چھیڑا۔
ایک بات جو مجھے جان کر حیرت ہوئ، وہاں خواتین کا ضبط تولید کے طریقوں میں دلچسپی تھی۔ بچے انہیں چار سے زیادہ نہیں چاہئیں۔ مختلف خواتین نے اس سلسلے میں جو مدد لی اسکے نتائج سے وہ مطمئن نہیں۔ ایک عورت نے کہا، دیکھو میں کتنی موٹی ہو گئ ہوں۔ ان گولیوں کی وجہ سے۔ بہر حال، اس چھوٹے سے قصبے کی ان بند خواتین کا بچوں کی تعداد کے سلسلے میں فکرمند ہونا بھی ایک تبدیلی ہی ہے۔ 
رفیق کی بیوی اور نازنین نے اذان کے ساتھ اٹھ کر عصر کی نماز پڑھی۔ میں نے انہیں مطلع کیا کہ میں رخسانہ اور طیبہ کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ کیا وہ میرے ہمراہ ہونگیں۔ نازنین تو میرا ساتھ دینے کو فوراً تیار ہوگئی۔ رفیق کی بیوی کچھ سوچنے لگی۔ میں نے پوچھا کیا تمہارا اس سے جھگڑا ہے۔  مترجم نے بتایا کہ وہ کہہ رہی ہے ایسی کوئ بات نہیں،  ہم انکے یہاں بس کسی تقریب میں جاتے ہیں۔ خیر پھر وہ بھی چلنے کو تیار ہو گئ۔
لیکن نازنین کہنے لگی پہلے میری امی سے تو مل کر جاءو۔ وہ یہیں قریب میں رہتی ہے۔ جب تک میرا ویزہ نہیں آتا۔ میں اسی کے پاس رہونگی۔
ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئ چادر نہیں ہے؟ نازنین نے پوچھا۔ نہیں۔ تم جب کراچی سے آتی ہو تو سفر کے دوران بھی چادر نہیں لیتیں؟ نہیں، میں اپنی گاڑی سے آتی ہوں یا جہاز سے، اسکی ضرورت نہیں سمجھتی۔ پھر میں نے اپنے سوتی سوٹ کے دوپٹے کو پھیلا کر اسے دکھایا۔ یہ ڈھائ گز کا دوپٹہ کافی نہیں، وہاں کراچی میں تو بعض خواتین دوپٹہ بھی نہیں اوڑھتیں۔ ہاں ، ہاں میں جانتی ہوں نازنین نے جلدی سے کہا۔ ادھر مسقط میں بھی عورتیں فراکیں بھی پہنتی ہیں اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں۔ مجھے ساڑھی بہت پسند ہے میں نے ادھر مسقط میں ساڑھی پہنی تھی، میں وہاں شلوار قمیض بھی پہنتی ہوں۔ مگر یہاں ابا کہتا ہے کہ بلوچی کپڑا پہنو۔ یہ سب سے اچھا ہوتا ہے۔ تمہیں اچھا نہیں لگتا ہمارا لباس۔ میری آواز ابھری، بہت اچھا ہے لیکن بات یہ ہے  اور یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی مختصر۔ ہم رخسانہ کے گھر پہنچے، اور مجھے سمجھ میں آیا کہ رخسانہ، سماجی حیثیت میں ان سے خاصی کم ہے اس لئے شاید انکا آپس میں زیادہ میل جول نہیں ہوگا۔
رخسانہ کے گھر کی کھانا پکانے کی جگہ
 مہمانداری کی پہلی نشانی حقہ سامنے لایا گیا۔ دونوں خواتین نے اس حقے کی نے  پہ اپنا دوپٹہ لپیٹ کر پیا ایک اور امتیازی رویہ۔ مزید تواضع ہوئ، اورنج شربت کے چار گلاس اور ایک پلیٹ  بھر کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھالیہ سپاری۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے اسے پانی کی بوتل دکھائ۔ میں اسکے علاوہ کوئ اور پانی پیءونگی تو بیمار پڑ جائونگی۔ یہاں تو کوئ ڈاکٹر بھی نہیں۔ اس لئے شربت نہیں پی سکتی۔ نازنین نے میرے اس مسئلے کو سمجھا اور گردن ہلا کر کہا۔ ادھر میری بہن  مسقط سے آتی ہے تو وہ بھی یہ پانی نہیں پیتی۔ بوتل کا پیتی ہے۔ 
دیکھیں، بالکل معمولی تعلیم اور ایک ذرا باہر کی دنیا دیکھنے سے اسکی شعوری پہنچ کتنی بدل گئ تھی۔ میں نے سوچا۔
 رخصت ہونے لگے  تو پلیٹ  میں بھری سپاریاں دونوں مہمان خواتین نے آپس میں بانٹ لیں۔ اور ہم باہر نکل آئے۔ جہاں مشعل ایک گوادری بچی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، بچوں کے ایک جلوس کی قیادت کر رہی تھی۔  اس جلوس کو باریک مٹی کی دھول نے اپنی لپیٹ میں لیا ہو تھا۔ ہمارا مستقبل، تمام نفرتوں سے، طبقاتی فرق سے بے نیاز آزادی کے مزے لوٹ رہا تھا۔

 بچے اس نامعلوم ابدیت سے جب یہاں آتے ہیں تو خالی ہوتے ہیں اور ابدیت کا مظہر ہوتے ہیں۔ دنیا انہیں محدودیت سے آگاہ کراتی ہے۔ وتایو فقیر نے کہا کہ دوزخ میں کوئ آگ نہیں ہم اپنے حصے کی آگ اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ دنیا میں یہ آگ کہاں سے آتی ہے؟
رات سب کاموں سے فارغ ہو کر، کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کرتے ہوئے، میں نے سمندر کی آواز کو دل لگا کر سنا۔ ہمارے اور اس آواز کے درمیان صرف ایک رات کا ساتھ اور تھا۔ رات جوتاریکی کی علامت ہے در حقیقت اپنے اندر خدائ خوبی رکھتی ہے۔ یہ ہر فرق کو اندھیرے کی شفقت سے مٹا کراپنے دامن میں پناہ دیتی ہے ہررنگ  مٹ جاتا ہے اور صرف حدیں باقی رہ جاتی ہیں۔ شاید اس لئے رب کائنات نے رات کی عبادت میں خود کو چھپا دیا۔ تاریک رات، دن سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ یہ ہمیں روشنی کی اہمیت سمجھاتی ہے، یہ ہمیں دعا کے انداز سکھاتی ہے، ملاقات کے آداب بتاتی ہے، یہ بے سکونی کو سکون سمجھاتی ہے اور سکون کو شورش، یہ راز رکھنا بتاتی ہے اور راز کھوجنا بھی، یہ پگھلنا سکھاتی اور پگھلانا بھی ۔
مجھ کو پانا ہے تو ہر لمحہ مجھے طلب نہ کر
رات کے پچھلے پہر مانگ دعا ہوں میں بھی

جاری ہے

2 comments:

  1. بلوچی حسینہ کی تصویر نہیں لگائی آپ نے .. اور نہ ہی گوادر کی تعمیر و ترقی کا احوال سامنے آیا ہے۔

    ReplyDelete
  2. ہمم، حسینہ نے اجازت نہیں دی۔ حالانکہ میں نے اس سے کہا میں اپنے پاس رکھونگی کسی کو نہیں دکھاءونگی۔ مگر وہ راضی نہ ہوئ تو میں نے اصرار نہیں کیا۔ اعتبار ایسی ہی قربانیاں دے کر جیتا جاتا ہے۔
    گوادر کی ترقی، میرا خیال ہے میں اس پہ دو تحاریر مزید لکھونگی اور اسے آخیر میں نہ رکھا جائے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ