Tuesday, February 14, 2012

سائینس کا مومن

سائینس اور بالخصوص کیمیاء پڑھنے والوں کے لئے کیکولے کا نام اجنبی نہیں۔ کیکولے کے حصے میں بینزین مالیکیول کی ساخت کی دریافت کا سہرا جاتا ہے۔ جسکے بعد کیمیاء میں ایرومیٹک مرکبات کی ایک نئ گروہ بندی سامنے آئ۔  یہ مرکبات ڈبل بانڈز رکھتے ہیں لیکن یہ ڈبل بانڈ رکھنے والے مرکبات کی نسبت نہ صرف کہیں زیادہ مضبوط ساخت رکھتے ہیں بلکہ انکے کیمیائ تعاملات بھی ان سے مختلف ہوتے ہیں۔
کیکولے نے اسے کیسے حل کیا؟
یہ اسے معلوم تھا کہ بینزین میں چھ کاربن ہوتے ہیں اور چھ ہائڈروجن، جبکہ کاربن ایک وقت میں چار ایٹموں سے جڑ سکتا ہے۔ اس طرح سے اس مالیکیول کی ساخت بنانا ایک لاینحل مسئلہ بن گیا تھا کہ  چھ کاربن اور چھ ہائڈروجن اگر ایک زنجیر کی شکل میں ہوں بھی تو بچ جانے والی ویلینسیاں کیسے پوری کی جائیں۔
اسی ادھیڑ بن میں اسکی لیب اسکے لئے خانقاہ بن چکی تھی۔ پھر ایک دن اس عالم میں اسکی آنکھ لگ گئ۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک سانپ ہے جس نے اپنے منہ میں اپنی دم لی ہوئ ہے۔ اور اس طرح ایک حلقہ بنا ہوا ہے۔ آنکھ کھلی تو  وہ جان چکا تھا کہ بینزین ایک کھلی زنجیر کا مالیکیول نہیں ہے بلکہ ایک بند حلقہ ہے۔ بچ جانے والے الیکٹران 
حلقے پہ بادل کی طرح گھومتے رہتے ہیں اسی میں اسکی زائد مضبوطی کا راز چھپا ہے۔

خواب بشارت، خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ، لیکن کیکولے کو یہ حصہ کیوں ملا؟
کانسٹینٹن فالبرگ ایک کیمیاء داں، کول تار کو نئے طریقے سے استعمال کرنے کے طریقوں پہ کام کر رہا تھا ایک  تھکا دینے والے دن وہ آفس سے ہاتھ دھوئے بغیر گھر آیا اور کھانا کھاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس میں ایک مٹھاس ہے اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ کوئ مٹھاس شامل نہیں کی۔ فالبرگ نے اپنے کالے ہاتھ دیکھے کچھ سوچا اور اگلے دن پھر جا کر اپنی لیب میں لگ گیا۔ یہ مٹھاس سیکرین کی تھا شکر کی طرح کی ایک مصنوعی مٹھاس جو شکر نہیں ہوتی اور کول تار میں موجود ہوتی ہے۔
 الیکزینڈر فلیمنگ، ایک حیاتیات داں جراثیم پہ تحقیق کر رہا تھا۔ جراثیم پہ تحقیق کرنے کے لئے انہیں خاص قسم کی پلیٹوں پہ اگانا پڑتا ہے جنہیں پیٹری ڈش کہتے ہیں۔ جیسے جیسے انکی آبادی بڑھتی ہے پلیٹوں پہ گچھے نمودار ہوتے ہیں۔ جنہیں مختلف تحقیقات کے لئے کام میں لایا جاتا ہے۔ وہ ایک بہت اچھا تحقیق داں تھا لیکن لیب اتنی صاف نہیں رکھ پاتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ان ساری پلیٹوں کو ایک جگہ جمع کر کے چھٹیوں پہ چلا گیا جب واپس لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ جراثیم کی ایک پلیٹ پہ پھپھوند لگ گئ تھی۔ جب اس نے غور کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ پھپھوند نے ان جراثیم کو کھا لیا ہے جو اس نے اگائے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی دریافت تھی۔
ایک پلیٹ پہ جراثیم کی اگائ ہوئ آبادیاں


 فلیمنگ نے پھپھوند میں سے اس مرکب کو الگ کیا اور اسے پینسلین کا نام دیا۔ لیکن وہ اسے اس مقدار میں نکالنے میں ناکام رہا جس سے اسے کسی بیماری کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔  اس مرکب پہ ایک اور کیمیاء داں نے کام کیا اور پینسلین کو زیادہ مقدار میں خالص کرنے کے قابل ہوا اس طرح سے اسکی دریافت کے دس سال بعد وہ دوا سامنے آئ جس نے لاکھوں لوگوں کو ان بیماریوں سے بچایا جو جراثیم سے ہوتی ہیں۔ یہ پہلی اینٹی بائیوٹک یا ضد حیاتیات دوا تھی۔
تابکاری  کی دریافت بھی ایک ایسے ہی اتفاقی حادثے کا نتیجہ تھی۔ جس سے آج دنیا کے بڑے ممالک میں نہ صرف بجلی پیدا کی جا رہی ہے بلکہ علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دل کے مریضوں کا دل چلانے والا پیس میکر بھی اسکے موءجد کی ایک  غلطی کی وجہ سے اپنی موجودگی سامنے لانے میں کامیاب ہوا۔ آج دنیا بھر میں لاکھوں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔  
یہ تو چند مثالیں ہیں جو مجھے اس وقت یاد آئیں۔ سائینس کی دنیا میں ایسے بہت سے واقعات بھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں جان کر 
خوشی ہوگی، حیرانی ہوگی۔ آپ میں سے شاید کچھ کہیں کہ انسان محنت کرے تو اسکا صلہ اسے ضرور ملتا ہے۔


فلیمنگ کا کہنا تھا کہ اتفاقی دریافت ان ذہین لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اسکے لئے پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ اتفاقی
 دریافت ہی نہیں ایک اچانک مل جانے والے اچھے موقع سے بھی وہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں جو ذہنی طور پہ فائدہ اٹھانے کے
لئے تیار ہوتے ہیں

 لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں اگر میں ان سارے سائینسدانوں کے اصل نام دینے کے بجائے مسلمان نام دے
دوں۔ کیکولے کو خلیل بنادوں، فلیمنگ کو فہیم کر دوں  اور آپ اس تحریر کو دوبارہ سے پڑھیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کچھ کہہ اٹھیں گے مومن جب کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے خدا اسکی فہم و فراست بن جاتا، خدا اسکی آنکھ بن جاتا ہے، خدا اسکے ہاتھ بن جاتا ہے اور اسے  ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔
 ہممم، انسان اگر سچ کی جستجو کے لئے کام کرنے کا ارادہ کرے تو اللہ اسکا رتبہ مومن کے برابر کر دیتا ہے۔ پھر وہ اسکی فہم و فراست بن جاتا ہے، اسکی آنکھ بن جاتا ہے، اسکے ہاتھ بن جاتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔

5 comments:

  1. محترمہ عنیقہ صاحبہ
    اچھا لکھا ہے ۔ کچھ نکات کی وضاحت کے لیئے سر الیگذنڈر فلیمنگ کا انٹرویو میں نے اپنے بلاگ پر نقل کیا ہے ۔

    ReplyDelete
  2. اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کے، بے شک تم ہی غالب آو گے اگر تم مومن ہو۔ اسے اگر تھوڑا پلٹا کے پڑھیں تو بنتا ہے کے جو غالب ہے وہ ہی مومن ہے۔

    ReplyDelete
  3. فکر پاکستان صاحب بڑے ادب سے عرض ہے کہ اسطرح پلٹا کر اگر پڑھنے لگ گئے تو منطق و فلسفہ کی
    ایسی کی تیسی ہوجائے گی اور ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتے گے بھئی جیتیں گے کلیہ بن جائے گا۔

    ReplyDelete
  4. Need more explanation very informative.

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ