Friday, April 29, 2011

روایت ہے کہ

ٹی وی چینلز کی سرفنگ کرتے ہوئے میرا ہاتھ ایک چینل کے لئے رک گیا۔ یہاں پہ اینکر پرسن مختاراں مائ کے ساتھ موجود تھے ۔ وہی مختاراں مائ جو اجتماعی زنا کا شکار ہوئ، جس کا مقدمہ تقریباً نو سال چلا اور بالآخر سوائے ایک ملزم کے باقی سب با عزت بری ہو گئے۔
اینکر پرسن نے اپنی بات کے آغاز میں اپنی مثال دی کہ وہ خود کتنا چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف تھے انہوں نے کتنے ہی پروگراموں میں انکے خلاف بات کی لیکن جب وہ عدالت سے انصاف مانگنے گئے تو انہیں انصاف ملا۔ اس لئے مختاراں مائ کے سلسلے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسکے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
لیجئیے جناب، میں اپنی مثال دوں کہ میں نے پاکستان میں اعلی سطح تک کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی، کامیاب ہوئ اور اس طرح یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سب پروپیگینڈہ ہے۔
جس وقت میں یہ سب کہونگی، میرے سامنے گوادر کے ساحل کے ساتھ رہنے والی نازنین، پاکستان کی لاکھوں عورتوں کا جلوس لے کر دھرنا مار کر بیٹھ جائے گی اور کہے گی کتنی جھوٹی ہو تم اور خود غرض۔ صرف اپنی دنیا میں رہتی ہو۔ میں کراچی سے سینکڑوں میل دور رہنے والی نیم خواندہ لڑکی سے ڈر جاتی ہوں۔
اس معاملے میں, جس میں لقمان مبشر خاصی وسعت قلب رکھتے ہیں میرا دل اتنا سا ہے۔ لقمان مبشر اپنے دیگر مہمانوں کے ساتھ مصروف بہ عمل جو اپنی زبان اور علم کے مظاہرے سے ہی لگ رہے تھے کہ کیا اپروچ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کا اصرار اس بات پہ رہا کہ اس کا تو میڈیکل ہی آٹھ دن بعد ہوا۔ اگر اس کا میڈیکل آٹھ دن بعد ہوا تو یہ کس کی کوتاہی تھی، یہ سوال کرنے والا ان سے کوئ نہ تھا۔ زنا بالجبر کے کیسز میں  بر وقت میڈیکل کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
یہ سب این جی اوز کا کھیل ہے مظفر گڑھ میں اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کھل گئ ہیں۔ ان سے یہ سوال نہیں کیا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کراچی میں کیوں نہیں ہیں۔ اس قسم کے جرائم شہروں سے زیادہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں کیوں  ہوتے ہیں، یہ بھی نہیں معلوم۔ تین روایت پسند مرد، کئ روائیتیں۔
اگلے دن میں پھر اسی کام میں مصروف ثناء بُچہ کو پکڑ لیتی ہوں۔ یہاں کچھ کام کی گفتگو جاری ہے۔ کیا اسکی وجہ یہ ہے  کہ ثناء بُچہ نے اپنا ہوم ورک محنت سے کیا اور کچھ کام کے لوگوں سے کام کی بات نکلوانے میں کامیاب ہو گئیں یا  یہ کہ اینکر پرسن ایک خاتون ہیں پاکستان کی ایک ماڈرن خاتون ، کسے معلوم؟
اس گفتگو سے ایک عام آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت ہمارے یہاں جرم ہونے کے بعد تحقیقی پہلے مرحلے یعنی ایف آئ آر سے لیکر شواہد جمع کرنے تک کا کام نا اہل لوگوں کے پاس ہے۔
عدالتیں شواہد پہ کام کرتی ہیں انہیں مادی ثبوت چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پولیس کے محکمے کو شواہد اکٹھا کرنے ہوتے ہیں۔ اور استغاثہ انہیں ثبوت کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اگر شواہد اور ثبوت موجود نہیں ہیں تو آپ پہ جو گذرا اسکی کوئ اوقات نہیں چاہے اسکی وجہ سے آپ کی زندگی ختم ہو جائے۔
یہ کوئ پہلا کیس نہیں جسے ثبوت اور شواہد کے ناکافی ہونے کی بناء پہ اس نتیجے کا سامنا کرنا پڑا ہو یہاں نامی گرامی دہشتگردوں سے لے کر، غبن کرنے والے، کرپشن میں شامل افسران اور طبقہ ء اشرافیہ سے لے کر مافیاز کے  کرتا دھرتا تک یہی طریقے آزماتے ہیں۔ ایف آئ آر کو ہی اس طرح درج کیا جاتا ہے کہ انصاف کم سے کم ہو پائے۔ اور با اثر شخص یا تو بچ نکلے یا پھر اسے کم سے کم نقصان پہنچے۔
یہ سب کوئ راز کی بات نہیں، ان سے ہمارا سابقہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں اس حیرانی سے گذرتا ہے کہ فلاں شخص کیسے قانونی سزا سے بچ گیا۔
دوسری طرف ہم جب اس مقدمے کی نوعیت دیکھتے ہیں تو یہ زنا بالجبر کے گرد گھومتا ہے۔ زنا بالجبر طاقت کے مظاہرے سے منسلک جرم ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے۔ اسکے بڑے حصے میں خواتین کسی مرد کی جاگیر کا حصہ ہیں۔ اگر دو مردوں کے درمیان طاقت کا کھیل چل پڑے تو اسکی سزا ان مردوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حصے میں زیادہ آ تی ہے۔ یوں ونی ، کارو کاری سے لیکر پنچایت اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ کسی عورت کو ایسی سزا بھی دے ڈالے۔ کسی مرد سے تعلق رکھنے والی خواتین کی یہ بے حرمتی سب سے بڑی ذلت سمجھی جاتی ہے، نتیجتاً جو اسے کرے گا وہ زیادہ طاقتور ٹہرے گا۔
ایک اورعام صورت یہ ہو سکتی ہے کہ  چونکہ مردوں کی اکثریت کا ذہنی رخ اس طرح متعین کیا جاتا ہے کہ وہ کسی عورت کو اپنے سامنے کوئ چیز نہیں سمجھتے، اس لئے جب کبھی انکی طاقت کسی عورت کے سامنے کم پڑتی نظر آئے تو وہ یہ جرم کرکے اس کا دماغ صحیح کریں۔
روانڈہ، بوسنیا، ویتنام کی جنگوں میں اور دور کیوں جائیں تقسیم ہندوستان اور تقسیم پاکستان  عمل کے دوران طاقت کے اس شو آف کا کئ لاکھ خواتین شکار ہوئ۔ جنگوں میں عورتوں کو یہ اذیت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا۔
اس لئے ہمیں یہ دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ زنا بالجبر کے واقعات میں ایک اکثریت بالخصوص مردوں کی کیوں خاموش رہتی ہے جبکہ یہ وہی مرد ہوتے ہیں جو عورتوں کے متعلق اپنے انتہا پسند جذبات  کو اپنی غیرت سمجھتے ہیں۔
عدالتیں بھی اسی نظام کے پروردہ مردوں پہ مشتمل ہیں۔ تو اگر ایک طبقہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین ججز کو ایسے  مقدمات میں شامل رکھا جائے، پولیس  اور عدالتی نظام کی اس تربیت کا انتظام کیا جائے کہ وہ انصاف کے حصول کے لئیے اپنے آپکو ذہنی طور پہ توازن میں رکھ سکیں، وہ کیا غلط کہتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں تو ایسے جرائم کو پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔
دنیا کے کتنے ہی آزاد معاشرے سے تعلق رکھنے والی عورت کیوں نہ ہو اسکے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز چیز کوئ اور نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں ہر آٹھ گھنٹے میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔  ہونے والے واقعات میں سے تقریباً ستر فی صد رپورٹ نہیں ہوتے۔ شکار ہونے والی لڑکیوں میں سے تینتالیس فی صد کی عمر سولہ سال سے کم ہوتی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں کسی لڑکی کو جو ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتی ہو بآسانی ہراساں کیا جا سکتا ہے اور انہیں خاموش رہنے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان  میں رجسٹر کیسز میں سے دو تہائ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا محض یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہاں یہ جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ستر فی صد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں  ایسے جرائم کو رجسٹر کرانے کی شرح زیادہ ہے۔
پاکستان اس حساب سے دنیا کا واحد ملک نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اس میں ہم سے آگے ہے۔ دارالحکومت دہلی میں خواتین سورج ڈوبنے کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتیں۔ گلیوں میں  ہوس کے مارے گینگسٹرز کا راج ہوتا ہے۔ وہ بھی پدر سری معاشرہ رکھتے ہیں، وہ بھی فیوڈل سوچ سے آزاد نہیں ہو سکے، انکے یہاں بھی انتہا پسندی اپنے عروج پہ ہے۔ لیکن ہندو مذہب کے بنیادی عقائد کے مطابق عورت کو مرد کی شانتی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ مرد دیوتا ہے عورت  داسی۔ 
 ان میں اور ہم میں نظریاتی فرق ہے جس کی بناء پہ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہم نے یہ ملک حاصل کیا۔ اگر یہ درست ہے تو کیا اس فرق کو ہمارے روئیے میں نہیں نظر آنا چاہئیے۔
ایسا کیوں ہے کہ  دہشت گردی کی جنگ میں مصروف عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کی تو مذمت کی جائے، اس کی مظلومیت کے تو واسطے دئیے جائیں۔ اسکے بچوں کی تو فکر ہو۔ لیکن اپنے ملک میں، اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے ہی ملک کی ہم مذہب، ہم زبان  عام گھریلو عورتوں کے تحفظ کی خاطر مناسب قانون سازی کے لئے آواز نہ بلند کی جائے۔ یہ بھی تو قوم کی بیٹیاں ہیں، انکے بچے بھی تو بچے ہوتے ہیں۔ اور کون جانے ان میں سے کس میں واقعی قوم کی عظیم بیٹی بن دکھانے کا حقیقی جذبہ موجود ہو۔ مگر اس سلسلے میں ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ ان لوگوں تک کوئ این جی او پہنچے اور پھر یہ کہیں کہ یہ سب تو این جی اوز کا کھیل ہے۔
کوئ معاشرہ اگر اپنے تمام طبقات کے لئے انصاف نہیں چاہے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پنپ سکے، ، خوش حال ہو، مستحکم ہو۔ اسکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ نہیں، ایسا ممکن نہیں۔  

Wednesday, April 27, 2011

رو چھجّو رو

معین اختر اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ سب لوگوں نے اپنے اپنے طور پہ سوگوارانہ جذبات کا اظہار کیا۔ جہاں اکثریت نے یہ کہا کہ پاکستان میں  تفریحی میڈیا ایک بڑے نقصان سے دو چار ہو گیا وہاں یہ بھی سننے میں آیا کہ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے درمیان سے ہنسنے ہنسانے والے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں۔
 معین اختر کے انتقال  کا ملال اپنی  جگہ لیکن شاعر کہتا ہے کہ عام ہوئ شہر میں دانشوری مرتبہ ء اہل ہنر بھی گیا۔ بالکل یہی صداقت  ہنسے ہنسانے پہ بھی صادق آتی ہے۔ جہاں ہمارے ہنسنے ہنسانے کے ساماں کرنے کو حکومت کی مشینری کا ہر پرزہ 'چالو' ہو ، جہاں حزب اختلاف بھی مزاح کے حقے کو گرم رکھنے میں کوئ کسر نہ چھوڑتی ہو، غنڈے اور بدمعاش بھی مذاق ہی مذاق میں اپنا نشانہ چیک کرتے رہتے ہوں،  وہاں معین اختر کو جینے کے لئے کیوں مجبور کیا جائے۔
خدا حافظ معین اختر، ہم اب زندہ مذاق کے دور میں رہتے ہیں۔
اور جب تک کسی مذاق میں خود ایک فریق کے طور پہ موجود نہ ہوں اس وقت تک قسم لے لیجئیے بھائ میاں ، مزہ نہیں آتا۔ جس نے زندہ مجرا دیکھا ہو اسکے لئے  اسکرین پہ آنے والی منی اور شیلا کی ادائیں کوئ معنی نہیں رکھتیں چاہے وہ  بد نام ہونے اور لٹانے کے لئے کتنا ہی کیوں نہ تیار ہوں۔
آج ہم ، ہمہ وقت چھجو کے چوبارے پہ حاضر، جہاں بھانت بھانت کے بھانڈ اپنی پٹاری کھولے بیٹھے ہیں۔ اس میں سے ایک ناگ نکلتا ہے اور ہمارے آگے جھومنے کے بجائے ہمیں اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہم اسکے آگے جھومتے ہیں۔
  ایک طرف معین اختر ہاف پلیٹ  میں انور مقصود کے نپے تلے ڈائیلاگ بول رہے ہوں اور دوسری طرف فیصل رضا عابدی، زرداری اسکرپٹ کو سامنے رکھ کر بہے جارہے ہوں، کھلے جارہے ہوں، بکھرے جا رہے ہوں کہ ایوان صدر کے عملے کی تعداد ہم کیسے کم کر سکتے ہیں ہم نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ روزگار انکو انکے گھر کی دہلیز پہ دیں گے۔ کیا انور مقصود اتنا شاندار، رواں اور اوریجینل آئیڈیا لا سکتے ہیں اور اس پہ فیصل رضا عابدی کی پرفارمنس، آپ ہی منصفی سے سوچیں ہم کیوں نہ سیٹیاں بجائیں، ووووں۔


وجود زن سے صرف تصویر کائنات میں ہی رنگ نہیں بلکہ دنیا کا بیشتر مزاح خواتین کے متعلق ہی لکھا گیا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے لکھنا آسان ہوتا ہے اور یہ زیادہ چٹپٹا اور دل کھینچ لینے والا ہوتا ہے۔ یہ دیکھیں ایک اور لائیو پرفارمنس۔


   یہ تو تاریخ میں درج ہو گیا کہ وعدے کوئ قرآن اور حدیث ہیں کہ پورے کئے جائیں۔  چلیں ہم بھی مانتے ہیں کہ حدیث اور قرآن کی تو انکی نظر میں اہمیت نہیں جو اسے دن رات دوہراتے ہیں۔ آپ کو کیا ضرورت پڑی کہ آپ اسکی پاسداری کریں۔ لیکن ذرا اس تقریر میں صدر صاحب کے ڈائیلاگز اور انکی پرفارمنس ملاحظہ فرمائیں۔ شاندار۔


بلوچستان کے وزیر اعلی کے اس ڈائیلاگ کا کہ  ڈگری ، ڈگری ہے اصلی ہو یا جعلی۔  اس کا کوئ جواب ڈھونڈھ لائیں۔ اتنا ہٹ ہوا کہ اس پہ بے شمار طرحی ایس ایم ایس بنے۔  اس ویڈیو میں انہی بلوچستان کے وزیر اعلی کی پرفارمنس، لاجواب ہے۔ اور اس سے ہنس ہنس  کر پیٹ میں بل نہ پڑ جائیں تو جو چور کی سزا وہ اسے لوڈ کرنے والے کو۔



ایم کیو ایم نے  پاکستان کو ناجائز اسلحے سے پاک کرنے کا بل اسمبلی میں پیش کیا اور حکومت نے اسے بغیر کسی مخالفت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا۔  ایک ایسا ملک جہاں عام گھر میں بیٹا  پیدا ہونے کی حیرانی  پہ، کسی خاتون کو شادی کے بعد گھر لے آنے پہ دولہا کے متعلقین کی خوشی سے بد حالی کا اظہار،  حتی کہ نئے  وزیر قانون کا اپنے صوبے میں استقبال،  ہر قسم کے اسلحے کی ہوائ فائرنگ سے ہوتا ہے۔ وہاں یہ بل کیا  معنی رکھتا ہے۔ سوچیں ، ہنسیں اور اس عوامی مظاہرے سے محظوظ ہوں۔

ہمارا یہ نیا مزاح لکھنے والے اور پرفارم کرنے والے لوگ ابھی ایک لمبے عرصے تک زندہ رہیں گے۔ ابھی ہم بہت ہنسیں گے۔ کہتے ہیں جو قوم اپنے اوپر نہیں ہنس سکتی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں ہم اپنے اوپر ہنس ہنس کر تھک چکے ہیں بلکہ بور ہو چکے ہیں۔ لیکن ترقی ہمارے پاس نہیں پھٹکتی۔  بہت سارے اور مقولوں کی طرح یہ بھی غلط ہی لگتا ہے۔ اب ایک چکر رو کر دیکھتے ہیں۔ رو چھجّو رو۔

Friday, April 22, 2011

صومالی قزاق اور لیلی

لیلی ایک دس سالہ بچی کا نام نہیں بلکہ خوف اور بے بسی کی کیفیت کا نام ہے۔ وہ ایک عام بچی نہیں، بلکہ   جدو جہد اور امید کے مابین ڈولتی  ہمت کی علامت ہے۔ اس نے شاید سند باد جہازی کی کہانیوں میں ہی سمندری قزاقوں کے بارے میں پڑھا ہوگا اور اسے گمان بھی نہ ہو گا کہ وہ زمین پہ رہتے ہوئے انکے ظلم کا شکار ہو جائے گی۔
وہ سنڈریلا ، باربی, کوہ قاف کی دیومالائ کہانیوں کی عمر سے ابھی باہر نہیں آئ اس لئے خواب دیکھ رہی ہے کہ اسکے ارد گرد کے لوگ، اسکی قوم کے لوگ اسکے باپ کے موت کے پنجے سے چھڑا لائیں گے۔ اور وہ صرف خواب ہی نہیں دیکھتی بلکہ اس چیز کے لئے بھی تیار ہے کہ اپنے باپ کی رہائ کے لئے اپنا گردہ بیچ دے۔
اسکے باپ کی صومالی قزاقوں سے رہائ کے لئے اب صرف پانچ کروڑ روپے چاہئیں۔ وہ اس حادثے میں اکیلے نہیں جہاز کے دیگر عملے میں مصری اور انڈینز بھی شامل ہیں۔ تاوان کی کل رقم تقریباً بیس کروڑ بنتی ہے جس میں سے مصری اور انڈیئنز اپنا حصہ ادا کر چکے اور اب پاکستان کی باری ہے۔
لیلی کے رشتے دار سوال کرتے ہیں کہ ایک کھلاڑی کی شادی پہ ہماری ایک وزیر سونے کا تاج دے سکتی ہیں مگر پاکستانیوں کی رہائ کے لئے حکومت کوئ دلچسپی نہیں لے رہی۔
ایک ایسے ملک میں جہاں اربوں روپوں کا غبن اور کرپشن ہوتا ہو جہاں لوگوں کو اپنا بینک بیلینس تک یاد نہ ہو۔ وہاں میں اگر صرف پانچ کروڑکہا جائے تو کیا غلط ہے۔ اگر ایسے دس لوگ صرف پچاس پچاس لاکھ روپے دے دیں تو لیلی کو  میڈیا کے سامنے آنسو نہ بہانا پڑیں۔
پتہ نہیں کیوں میں بھی لیلی کی اس  کوہ قاف کا حصہ ہوں مجھے۔ مجھے بھی یقین  ہے اس کے والد کیپٹین وصی حسن صومالی قزاقوں کے پنجہ ء موت سے نکل آئیں گے اور وہ ایک دفعہ پھر ہنسی خوشی  نئے خواب بُنے گی۔
آپ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل معلومات استعمال کر کے، قزاقوں کی دی گئ مدت اب ختم ہونے کے قریب ہے۔
 اکاءونٹ نمبر؛
1066-0081-009278-01-9
بینک الحبیب لمیٹڈ
بفرزون برانچ ، کراچی
 صومالی قزاقوں کی یہ سرگرمیاں پچھلے کئ سالوں سے جاری ہیں۔  یہ قزاق، بنیادی طور پہ صومالیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ بر اعظم افریقہ کا حصہ ہے۔ قزاقوں کی اس سرگرمی کا باعث کئ باتوں کو بتایا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیاسی عدم استحکام اور  کئ سالوں تک جاری خانہ جنگی جسکی وجہ سے عملاً کوئ حکومت نہیں۔ یا صومالی مچھیروں کی انتقامی کارروائ ان غیر ملکی ٹرالرز کے خلاف جو کہ انکے سمندری حصے میں  آکر اتنی زیادہ مچھلیاں پکڑتے تھے کہ انہوں نے سمندر کو مچھلیوں سے خالی کر دیا اور اس سے مقامی مچھیروں کا ذریعہ ء روزگار ختم ہو گیا۔
ان قزاقوں میں تین طرح کے لوگ شامل ہیں۔
مقامی مچھیرے، جنہیں سمندر سے پوری واقفیت ہے اور یہ قزاقوں کا ماسٹر مائینڈ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ باہر کی بوٹس کو انکے ساحل کے قریب سے گذرنے کا کوئ حق نہیں۔
 سابق فوج کے افراد جو پہلے اپنے جنگی سرداروں کے لئے لڑا کرتے تھے اب اس کام میں شامل ہو گئے۔
تیکنیکی مددگار جو تیکنیکی آلات کو دیکھتے ہیں مثلاً جی پی ایس۔
یہ صومالی قزاق اپنی سمندری حدودوں کے قریب سے گذرنے والے پانی کے جہازوں پہ قبضہ کر لیتے ہیں اور پھر لاکھوں ڈالر تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

صومالیہ ایک مسلمان اکثریتی ملک ہے  لیکن غربت یہاں کا بنیادی مسئلہ ہے۔ قزاقوں کو ایک لمبے عرصے سے اتنی کامیابی سے حملہ کرتے دیکھ کر ذہن میں کئ سوال پیدا ہوتے ہیں۔   پہلا سوال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ ان قزاقوں کو اسلحہ کہاں سے ملتا ہے۔ اندازہ ہے کہ اسلحہ انکے پاس یمن اور موغادیشو کے رستے سے آتا ہے۔ دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ تاوان کی رقم ادا کیسے کی جاتی ہے۔ تاوان کی رقم ڈالرز کی شکل میں ادا کی جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز تک پہنچائ جاتی ہے۔

قزاقوں کے ذریعے آئ آمدنی نے علاقے کے معاشی حالات کو بہت بہتر کر دیا ہے۔ بہترین گھر بنے، تفریحی مقامات وجود میں آئے، مختلف اشیائے زندگی کی ڈیمانڈ بنی انکی مارکیٹ وجود میں آئ اور یوں خوشحالی نے جگہ بنائ۔ خوش شکل لڑکیوں کو بھی مالدار بحری قزاقوں کی رفاقت ملی۔
مقامی آبادی کے لوگ اس چیز سے خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکے سمندر کے ماحول کو جو نقصان پہنچایا گیا اس طرح وہ اسکی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں بھی چند شکایات ہیں اور ان میں سر فہرست قزاقوں کا  نشہ آور اشیاء  اور اسلحے کا بے دریغ استعمال۔
قزاقوں کی اس مصیبت سے وہاں سے گذرنے والے جہاز خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اس علاقے کی پوزیشن ایسی ہے کہ یہاں سے ہر سال ہزاروں پانی کے مال بردار اور مسافر جہاز گذرتے ہیں۔ یوں یہ منظر بیک وقت قزاقوں کے لئے خوشحال زندگی کی نوید بنتے ہیں اور پانی کے جہاز سے وابستہ لوگوں کے لئے ایک مسلسل خطرہ۔ اسکے علاوہ کاروباری حلقوں کی سرگرمیاں بھی اس سے متائثر ہوتی ہیں اور اعتماد دگرگوں ہوتا ہے۔
اس ساری بظاہر دہشت ناک صورت حال کے باوجود ان قزاقوں کی پیدائیش کا ایک مثبت اثر محسوس ہو رہا ہے اور وہ صومالیہ اور اسکے ارد گرد کے سمندر کی ماحولیاتی زندگی  کی بحالی ہے۔ صومالیہ سے منسلک کینیا میں رواں سال  مچھلی کی بہترین پیداوار رہی۔  اسکی وجہ،  بحری قزاقوں کے خوف کی وجہ سے باہر کے ٹرالرز کا شکار سے دور رہنا ہے۔
خوف، شکار ہو جانے والوں کو کمزور بنا سکتا ہے مگر استعمال کرنے والوں کو مضبوط۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا اس دہشت گردی پہ قابو پانے کے لئے کیا راستہ نکالتی ہے۔
ایک دفعہ پھر لیلی کو اس خوف سے باہر نکالنے کے لئے آگے آئیے۔

Tuesday, April 19, 2011

تُف ہے

خبر محض خبر نہیں ہوتی۔ ہر خبر اپنے معاشرے کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ جیسے آدم خور خاندان کی خبر۔ رپورٹ کہتی ہے کہ صرف دو تین لوگ نہیں بلکہ پورا خاندان مردہ انسانوں کو کھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ عرصے سے یہ فعل انکے یہاں جاری تھا۔   خاندان کے ایک بچے نے کہا کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد میرا باپ میرے جسم کے نازک حصوں کو مجروح کرتا تھا۔ بڑے ہو کر اسے لگا کہ اسکی مردانہ قوت کم ہے سو اس نے مردہ انسانوں کا گوشت کھانا شروع کیا۔ بہر حال  رپورٹ لکھنے والے صحافی کے خیال میں ابھی بھی یہ ایک معمہ ہے کہ وہ مردہ انسانی گوشت کیوں کھاتے تھے اور کیوں انکے ارد گرد کے لوگوں نے اتنے لمبے عرصے سے پولیس کو اسکی رپورٹ نہیں کی۔
 دوسری خبر اپنے بلاگستان سے ملی یہ لڑکیوں کے کنوارے ہونے سے متعلق ہے۔ جیسا کہ مجھے توقع تھی کہ یہاں پہ یہ ، یہ لوگ موجود ہونگے اور یہ تبصرے ہونگے۔ عین وہی ہوا۔ لیکن حیرانی مجھے وہاں موجود دو تبصروں پہ ہوئ۔
ایک عبداللہ نامی مبصر، جنہوں نے ایک دلچسپ سوال رکھا کہ خواتین کے کنوارے ہونے پہ جتنی دلچسپی دکھائ جارہی ہے اتنی مردوں کے کنوارے ہونے کے ٹیسٹ کے بارے میں کیوں نہیں ہے۔  یہ مخصوص قبائلی مزاج کا طبقہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ کیونکہ بات ہے سمجھ کی یہ وہی طبقہ ہے جو مردوں کی بے راہروی پہ تو فخر فرماتا ہے اور عورت کے حیادار ہونے پہ زور ڈالتا رہتا ہے۔
تف ہے ایسی ذہنیت پہ اور اسکو پروان چڑھانے والوں پہ۔ اور اگر کوئ منصف خدا موجود ہے تو اسے ایسے لوگوں کو انکے قرار واقعی انجام کا مناسب بندو بست کر کے رکھنا چاہئیے۔
خواتین کے کنوارپن کی شادی کے وقت تصدیق ہونی چاہئیے اور مردوں کی نہیں۔ انہیں چھوٹ ہے  وہ جتنے استعمال شدہ ہوں چاہے جائز یا ناجائز طریقے سے انکا کنوارہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ واہ، جناب واہ ، آپکی انہی اداءوں پہ درے لگانے کو دل کرتا ہے۔
دوسرا تبصرہ ایک ڈاکٹر صاحب کا ہے۔ حیرت ہے انہوں نے کس ادارے سے میڈیکل کی ڈگری لی ہے۔ میں پی ایم اے والوں سے گذارش کروں گی کہ وہ ایسے ڈاکٹرز کو جو مسیحا ہونے کے نام پہ دھبہ ہیں اور جو انسانیت تو دور اپنے علم سے ہی پوری طرح واقف نہیں انہیں اس طرح کی اہم ڈگریاں دینے سے گریز کرے۔
در حقیقت یہ بات کوئ بھی ڈاکٹر بتا سکتا ہے کہ خواتین کےکنوارے ہونے کے لئے جو خصوصیت بتائ جاتی ہے وہ جہالت پہ مبنی ہے اور بعض خواتین میں یہ محض معمولی بھاگ دوڑ سے ختم ہو سکتی ہے۔
 میرے علم میں بھی یہ بات داکٹر شیر شاہ کے ایک مضمون کے حوالے سے آئ جو نہ صرف پاکستان کے مایہ ناز گائناکولوجسٹ ہیں بلکہ دنیا کے ان بہترین سو گائناکولوجسٹس میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی کمیونٹی کی خواتین کی صحت اور ترقی کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
اگر ڈاکٹر شیر شاہ جیسے لوگوں سے دنیا واقف نہ ہوں اور صرف اس بلاگ کے لکھنے والے سے یا اس  پہ تبصرہ کرنے والے مردوں سے ملے ہوں تو انکے نزدیک پاکستان صرف ایسے مردوں پہ مشتمل ہوگا جہاں حیوان رہتے ہیں۔
پردہ ءبکارت یا اس سے منسلکہ تمام متھس، قبائلی اقوام کی خصوصیت ہیں۔ صرف یوروپ کے قبائل ہی نہیں ، عرب کے بیشتر قبائل اور پاکستان کے بھی قبائلی علاقوں میں عورت کو اس امتحان سے گذرنا پڑتا ہے۔
البتہ جیسا کہ قبائلی اقوام کی شان ہوتی ہے مردوں کو نیکی کے کسی ایسے امتحان سے نہیں گذرنا ہوتا۔ وہ خدا کے پاس ایڈوانس میں نیکیاں جمع کرا کے آئے ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ تم کنوارے ہوں تو جواب ملے گا کہ ہماری مرضی ہم بتائیں یا نہ بتائیں۔ سوال پوچھنے والا البتہ روشن خیال کی گالی سے نوازا جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ان تمام قبائلی علاقوں کے مرد تو ہر طرح کی عیاشی کر سکتے ہیں مگر انکی عورتیں قابل ترحم زندگی گزارتی ہیں۔ وہ اپنے پوشیدہ امراض کے متعلق کسی عورت تک کو بتانے سے گھبراتی ہیں۔ کیا یہ بات قابل ترحم نہیں کہ ایک عورت اپنے پردء بکارت کا آپریشن کرانے بیٹھی ہو تاکہ اسکی قدر و قیمت برقرار رہے چاہے اسکے حصے میں آنے والا مرد دنیا کا اوباش ترین مرد ہو۔
اگر زانی مرد کسی عورت کے حصے میں آتا ہے تو قرآن کی یہ آیت دہرا دی جاتی ہے کہ زانیوں کے لئے زانی۔ حالانکہ زندگی کا ہلکا سا تجربہ رکھنے والے لوگ بی جانتے ہیں کیسی کیسی پردے دار متقی عورتوں کے شوہر کس قدر آوارہ نکلے۔ اور کیسے کیسے متقی مرد عورت کے معاملے میں آزمائے گئے۔ کیا واقعی یہ لوگ تفیہم قرآن سے واقف ہیں؟
  میں اس بلاگ کو پڑھ کر اسکے تبصروں کو جان کر اب تک حیران ہوں کیا جہالت کی کوئ انتہا ہو سکتی ہے۔ کوئ نہیں ہو سکتی۔ نیکی کی انتہا ہو سکتی ہے مگر بدی کی نہیں۔
حضرت عمر کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میری بیٹی کنواری نہیں ہے اسکی شادی ہونے جارہی ہے کیا میں اسکے ہونے والے شوہر کے علم میں یہ بات لے آءوں۔ آپ نے فرمایا جس بات کا پردی اللہ نے رکھا اسے تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔ حتی کہ رسول اللہ نے اپنے آخری خطبے میں کہا کہ بچہ جسکے بستر پہ پیدا ہو گا اس کا کہلائے گا۔
صاحب بلاگ کی اس تحریر اور اسکے اعلی تبصروں کی وجہ سے اگر کسی عورت کی زندگی تباہ ہوتی ہے تو یقیناً اسکا گناہ ان سب لوگوں کے سر ہوگا۔ خدا ہمیں انفرادی دین کی اس برتری کے جذبے سے محروم رکھے جو معاشرے کو بدی کا گڑھ بنادیں۔   اللہ ہمیں لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
یہ وہ دعا ہے جو اکثر اشفاق احمد مرحوم مانگا کرتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ اسکے سنگین تبصرہ نگاروں میں بابا اشفاق احمد کے چاہنے والے بڑی تعداد میں ہیں۔ ہائے نام نہاد عاشق، عاشق تو دور صرف انسان ہی بن جائیں تو بہت۔
اور ہاں،  اب ہمیں اس بات پہ تو قطعاً حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آدم خور گھرانے کی خبر ایک لمبے عرصے تک کیوں نہیں ہو سکی۔

Friday, April 15, 2011

تعلیم کے لئے جہاد

ایک مبصر کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لئے جنگ نہیں تعلیم کے لئے جہاد کی اصطلاح استعمال ہو تو لوگ تعلیم کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے۔ لگتا ہے یہ سچ ہے۔
ہم اکثر اپنے ملک کی تعلیمی حالت کی زبوں حالی کا رونا سنتے ہیں۔ ہمارے احباب علم و دانش اس بات پہ فکر مند رہتے ہیں کہ ہم علمی سطح پہ قحط الرجال کا شکار ہیں اور ہمارے احباب محفلاں گپ بازی ، اپنی اس کمی کو چند پڑھے لکھے لوگوں کا مذاق اڑانے کی کوششوں میں اپنا وقت لگاتے ہیں۔ کیونکہ انکے پاس اس وقت کی قلت ہے جس سے وہ اپنی اس کمی کو پورا کر پائیں۔
خیر جناب یہ میرے سامنے اس وقت دو پی ایچ ڈی کے تھیسس پڑے ہیں۔ ان پہ بات کرنے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے کی سب سے مایہ ناز یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لئے جمع کرائے گئے۔ دونوں ہی تھیسس، اپنے موضوع کے لحاظ سے پاکستان میں تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں۔
دونوں تھیسس اپنی ضخامت کے لحاظ سے قابل توجہ ہیں۔ ایک کوئ سوا چار انچ بلند ہے اور دوسرا تقریباً تین انچ۔ یعنی دیکھنے والے کو ایک دم دبدبے میں لے آتا ہے۔ ایک تھیسس کوئ آٹھ سو صفحات پہ مشتمل ہے اور دوسرا کوئ پانچ سو صفحات پہ۔
تحقیقی ضابطوں سے نا آشنا لوگ سمجھیں گے کہ کیا زبردست محنت کی گئ ہوگی لیکن یہاں میں یہ اطلاع دیتی چلوں کہ اپنی پی ایچ ڈی کے دوران مجھے اس سلسلے میں انتہائ تناءو میں رہنا پڑا کہ ایک اچھے تھیسس کو زیادہ سے زیادہ دو سو صفحات پہ مشتمل ہونا چاہئیے اور اسکا زیادہ سے زیادہ حصہ آپکے اپنے کام پہ ہونا چاہیے نہ کہ دوسروں کی محنت کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے۔ یہ میرے ساتھ کوئ امتیازی سلوک نہ تھا بلکہ دنیا میں معیاری رائج طریقہ یہی ہے۔
ان موضوعات پہ اس قدر دلجمعی کے ساتھ کام کیا گیا ہے کہ تعلیمی موضوع پہ لکھے جانے والے ایک تھیسس میں ایک خاص علاقے کے کھانوں کی تراکیب تک موجود ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دونوں تھیسس غیر معیاری ہیں ہیں۔
خیر ، اس میں طالب علم نہیں ان کا سپر وائزر زیادہ قصوروار ہے۔ پی ایچ ڈی کرانے والا استاد  اپنے طالب علموں کا معیار اپنے حساب سے بناتا ہے۔

ہمارے لئے ان کا موضوع زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ خاص طور پہ اس کا آخری حصہ جس میں پاکستان میں تعلیمی حالات کو بہتر کرنے کی تجاویز و سفارشات ہیں۔ ان میں سے چیدہ چیدہ سفارشات یہاں نقل کر رہی ہوں۔ یہ دکھانے کے لئے کہ ہمارے سب سے بڑے صوبے  کی سب سے بڑی جامعہ میں سوچنے کا انداز کیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ کہ یہ تھیسس ضیاءالحق کے زمانے کے نہیں ابھی حال ہی میں پاس ہوئے ہیں۔

سفارشات؛
اپنے مدارس، کالجوں یا جامعات کے معلمین و معلمات کے انتخاب میں انکی سیرت و اخلاقی اور دینی حالت کو انکی تعلیمی قابلیت کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہمیت دیں اور آئیندہ کے لئے معلمین کی تربیت میں بھی اسی مقصد کے مطابق اصلاحات کریں۔
مقاصد تعلیم اور نصاب تعلیم کی تدوین و ترتیب اس طرح کی جائے کہ تمام افراد چاہے وہ ڈاکٹر ہوں یا انجینیئر استاد ہوں یا وکیل تاجر ہوں یا کسی اور شعبے سے سے متعلق اپنے پیشے میں مہارت کے علاوہ اول و آخر صحیح مسلمان ثابت ہوں۔ یعنی ہر تعلیمی سطح پر تشکیل اور تنقید نصاب میں تلاوت آیات تزکیہ اور کتاب حکمت کی تعلیم کو اساسی حیثیت حاصل ہو۔

تشکیل سیرت کو کتابی علم سے زیادہ اہمیت دی جائے۔
ہر سطح کے نصاب میں عربی زبان کو  لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے تاکہ طلبہ اسلام کی اصل روح کو پوری طرح سمجھ سکیں۔ مجموعی طور پہ ابتدائ ، ثانوی اور اعلی سطح کے نصابات کی ترویج کے حوالے سے مسلم مفکرین کے افکار خصوصاً سید مودودی کی کتاب تعلیمات کو پیش نظر رکھیں۔

عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئیے کہ انکی اصل  اور فطری ذمہ داری زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کے بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔
ایسی تعلیم جو ہماری نسلوں کو غیر مسلم بناتی جا رہی ہے اس تعلیم میں اتنی ترمیم کر دی جائے جس سے ارتداد و بے دینی کے سیلاب کا انسداد ممکن ہو سکے۔ اسکے لئے مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے 'نظام تعلیم کی وحدت' کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس تعلیمی خاکے میں ہر بات کو تفصیلی جواب موجود ہے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
طلبہ کویہ باور  کرانا چاہئیےکہ  وہ علوم و فنون  اور تہذیب و ثقافت کے تعمیری پہلوءوں میں یوروپ کے استاد و رہنما رہے ہیں اور یوروپ نے ان ہی کے دکھائے ہوئے راستوں پر چل کر آج کے نئے علم اور ترقی کی منزل پائ ہے۔ اس لئے نئ سائینس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا گویا اپنے ہی سرمائے کی بازیافت کے مصداق ہے۔
مندرجہ بالا سفارشات کی تفصیلات و جزیات کے لئے مولانا سید مودودی کے اصلاح تعلیم کے مقالاجات اور مختلف کتب سے رہنمائ حاصل کی جا سکتی ہے۔
جن اداروں سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہیں۔ ادارہ ء تعلیم و تحقیق تنظیم اساتذہ پاکستان لاہور، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد۔ پاکستان ایجوکیشن فائونڈیشن اسلام آباد، ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور۔
ہمیں آئیندہ نسلوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لئے اسلامی تعلیم کو اپنانے میں کوئ لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہئیے اوردوسروں کی غلامی کا طوق گلے سے اتار دینا چاہئیے۔
چونکہ یہ تھیسس اپنی اپنی سطح پہ قبول کئے جا چکے ہیں تو کیا واقعی ہمارے تعلیمی نظام کو سدھار کے لئے یہ چیزیں درکار ہیں؟
 میرا خیال ہے اس میں واقعی ایک کمی ہے اور وہ یہ کہ تعلیم کے لئے جہاد کا اعلان کیا جائے۔


Wednesday, April 13, 2011

الم نشرح

ایم کیو ایم  کے پنجاب میں جلسہ کرنے کے بارے میں مختلف قیاسات جاری تھے۔ میں اتوار بازار میں سبزی لے رہی تھی جب دو دوکانداروں کو جوش و خروش سے اس پہ  بات کرتے سنا کہ آج دیکھو پنجاب میں کیا ہوتا ہے۔ دماغ پہ زور ڈالا ، پنجاب میں ایسا کیا ہونے جا رہا ہے جس سے کراچی کے سبزی فروشوں کو دلچسپی ہو۔
جلسہ ہو گیا۔ اس بارے میں بھی مختلف خیالات ہیں۔ کچھ کے نزدیک ناکام تھا اور کچھ اسے کامیاب کہتے ہیں۔ ناکام کہنے والوں کے نزدیک اس میں لوگوں کی تعداد اتنی نہ تھی اور کامیاب کہنے والوں کے نزدیک اس جلسے سے ایم کیو ایم نے اپنی آواز تو پنجاب تک پہنچا دی ہے اور دوسرا یہ کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں اپنے علاقوں میں محدود ہوتی جارہی ہیں اور وفاق کی ترجمانی کرنے کے بجائے لسانی طبقوں کی نمائمندگی کرتی ہوئ نظر آتی ہیں۔ یہ ایک مثبت قدم ہے کہ ایم کیو ایم اپنی جنم بھومی سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے دوسری سیاسی جماعتوں کے بر عکس  لسانی سیاست سے آغاز کیا تھا۔
میں اس جلسے کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتی اور نہ ہی میں ایم کیو ایم کی اس حالیہ سرگرمی میں کوئ خاص دلچسپی رکھتی ہوں ۔ لیکن بحیثیت ایک  پاکستانی میں یہ ضرور جاننا چاہتی ہوں کہ ایم کیو ایم نے اپنے اس جلسے میں ایسی کون سی کشش  اپنے نئے متوقع ووٹروں کے لئے رکھی ہے جس سے وہ اپنے پرانے نظام کے پرانے گھاگ اور لسانی طور پہ قریب رہ نماءووں کو چھوڑ کر انکے پیچھے ہو لیں۔
سیاسی پارٹیاں ایسی کشش اپنے منشور کے ذریعے پیش کرتی ہیں۔
 پارٹی مینیفیسٹو یا منشور ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کی بد قسمتی سے ہمارے یہاں کوئ شناخت نہیں۔ ہماری سیاست، پارٹی منشور کے گرد گھومنے کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاست کی اس طرز کی بناء پہ ہم جمہوریت کی اصل روح سے اب تک دور ہیں اور اس چلن پہ ہمیشہ دور رہیں گے۔
عوام کے ذہن کو چند رہ نماءووں کی شخصیت کا اسیر بنا لیا جاتا ہے اور اسکے بعد عوام کے  لئے ہر دروازہ بند اور رہنماءووں کے لئے ہر دروازہ کھلتا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں یہ چلن شاید ذوالفقار علی بھٹو کی 'شہادت' کے بعد زیادہ واضح طور پہ شروع ہوا۔ اس سے پہلے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کی شخصیت  مرکز بنی رہی۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس واضح طور پہ ایک منصوبہ موجود نہ تھا کہ نئ مملکت کس طرح کام کرے گی۔ قائد اعظم موجود تھے۔  نئ مملکت کے قیام کے تقریباً تیرہ ماہ بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور اسکے ساتھ ہی ہمارا شیرازہ بکھرگیا۔
آج کے پاکستان میں ہم اس بات سے واقف نہیں کہ مختلف پارٹیز کے منشور کیا ہیں۔ لیکن ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس پارٹی کا کون سا شخص وہ طوطا ہے جس میں پارٹی کی جان ہے۔
یہ پیپلز پارٹی ہے۔ اسکے سربراہ زرداری ہیں جو سب پہ بھاری ہیں۔ انکا پلہ بھاری ہے کیونکہ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے جسکا فیصلہ ہم آسانی سے نہیں کر سکتے انکے پچھلے تمام بڑے رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ ان شہید رہنماءووں کے مزار پہ نئ سیاسی امنگیں رکھنے والے آشیرباد کے لئے حاضریاں دیتے ہیں۔ عوام اپنے ازلی مسائل کے حل کے لئے ان مزاروں پہ حاضر ہوتے ہیں شاید انہیں یاد دلاتے ہیں کہ کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ میرا اندازہ تو کہتا ہے کہ مردہ لوگ اپنے جسم کے ساتھ اپنی یادداشت بھی بھلا دیتے ہیں۔ لیکن اس بات کے لئے میرے پاس  کوئ ثبوت نہیں۔ وہ شاید یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ  جو مسائل اپنی زندگی میں حل نہیں کر سکے اسکے لئے اب آپکے پاس وقت ہوگا اب ذرا کوشش کر لیں۔ اس سے بہرحال ایک بات ثابت ہوتی ہے، عوام موت کے بعد کی زندگی پہ یقین رکھتے ہیں جبکہ رہ نما نہیں رکھتے۔
یہ مسلم لیگ ہے، اسکے اتنے ٹکڑے ہیں اوریہاں، وہاں، جہاں، تہاں گرے ہوئے ہیں کہ انہیں بھی شخصیات کی وجہ سے پہچانا جاسکتا ہے منشور کی وجہ سے نہیں۔ یہ مسلم لیگ نون ہے اسے پہلے ابا جی چلایا کرتے تھے آجکل سعودی حکومت کے تعاون سے چل رہی ہے۔ خوف خدا کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے اس لئے پنجاب کی مڈل کلاس جو کہ مذہبی رجحان زیادہ رکھتی ہے انکی طرف مائل ہے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات کی برکت سے یہ جماعت اب تک پاکستان میں جمہوریت کا عمل سازگار رکھنے کی کوششوں میں سرگرداں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بحسن و خوبی ادا کر رہی ہے یہ جماعت  اپنے دو شریف بھائیوں کے اتحاد کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس لئے ان سے امیدیں لگانے میں اتحاد پاکستان کی امید نظر آتی  ہے۔
یہ مسلم لیگ قاف ہے۔ پہلے اسے مشرف کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ پھر مشرف کو اڑنگا لگا کر گرانے والی جماعت سمجھا گیا، پھرقاتل لیگ کے نام سے مشہور ہوئ۔ آجکل نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اسکی پہچان الہی خاندان کے دو سپوت ہیں۔ مشاہد حسین صاحب نے بڑی کوشش کی کہ انکا نام بھی ہوجائے، لیکن انکی گوری رنگت اور اچھے خاصے نین نقش کے باوجود دلہن وہی جو پیا من بھائے۔ ہر کسی کو خدا ایسی سحر انگیز شخصیت نہیں دیتا کہ لوگوں کا دماغ ماءوف ہو جائے۔ یہ امتحان بھی کسی کسی کا ہوتا ہے۔
یہ مسلم لیگ فنکشنل ہے، اسکے اس نام کی وجہ شاید پیر پگارا صاحب کی ذات ہے۔ اسّی سال کی عمر میں انکے سب سے چھوٹے جڑواں بچوں کی عمریں شاید پانچ چھ سال ہیں اس لئے اس کا نام فنکشنل رکھا گیا ہے۔ اپنے مریدوں کو جب زیارت کا موقع دیتے ہیں تو دیدار کا ٹیکس لیتے ہیں۔ مرید تحفوں سے لدے پھدے آتے ہیں اور دعاءووں سے سر سبز جاتے ہیں۔ اپنے بنیادی مسائل کو وہ پیر صاحب کی کرامت سے خدا کا لکھا سمجھ کر آسانی سے جھیل جاتے ہیں۔ جبکہ پیر صاحب نئے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ مرید پیج پگارا کے نعرے لگاتے ہیں۔
یہ اے این پی ہے۔ کسی زمانے میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں میں شامل تھی آج اسمگلرز اور مافیا کے مفاد کی نگرانی کرتی ہے۔  انکے پاس باچہ خان کی یادوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ سب اسمگلرز اور مافیا سمیٹ لے گئے۔ افسوس، باچہ خان شہید نہ ہوئے۔ اب انکی تصویر کسی رقّت آمیز نعرے کے بغیر استعمال ہوتی ہے۔
یہ تحریک انصاف ہے، سنا ہے کہ پنجاب کے نوجوانوں میں مقبول ہونے والی جماعت ہے۔ اگرچہ کہ اسکے لیڈر پنجاب یونیورسٹی میں پنجاب کے نوجوانوں کے ہاتھوں دھوکے سے پٹ گئے۔ لیکن  پھر بھی اپنی والدہ کی یاد میں بنائے جانے والے ہسپتال کو کامیابی سے چلانے اور کرکٹ میں پاکستان کو ایک دفعہ ورلڈ کپ دلانے کے احسان میں ان سے یہ مضبوط امید کی جاتی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست کا بھی نقشہ بدل دیں گے۔ انکا منشور تو دور انکی جماعت کے کسی اور عہدے دار سے بھی ہم واقف نہیں۔ عمران خان کی سحر انگیز شخصیت نے کسی اور کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
یہ ایم کیو ایم ہے، کراچی میں مڈل کلاس کی نمائیندہ جماعت۔ یہ پہلے مہاجر قومی مومنٹ تھی۔ اسکے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مملکت خداداد  کے جتنے بھی فرزند زمین تھے وہ وقتاً فوقتاً اپنی اپنی باری پہ یہ کہہ چکے تھے اور کہتے ہیں  کہ یہ ہم تھے جنہوں نے ان مہاجروں کو پاکستان میں جگہ دی، پناہ دی، احسان کیا۔ ان سب کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ پاکستان اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہندوستان تھا۔ اور اسے پاکستان بنانے کے لئے ایک لمبی جنگ لڑی گئ۔ ان علاقوں میں جہاں پاکستان نہیں بنا۔ تو اس بھولی بسری یادداشت کا ایک حصہ اس جماعت کی شکل میں آگیا۔  جب اسلحے، دنگے فساد اور طاقت میں یہ جماعت پاکستان کے دیگر فرزند زمین کے برابر آ گئ تو اب یہ چکر شروع ہوا کہ یہ تو لسانی جماعت ہے اور ہم تو سیاست کے ڈگری ہولڈرز۔  ایک دفعہ پھر اس جماعت کے مہاجروں نے قربانی دی اور اسکا نام متحدہ رکھنے پہ متحد ہو گئے۔ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ فریقین کے درمیان اب جھگڑا اس بات کا اٹھ کھڑا ہوا کہ نشانہ کس کا اچھا ہے۔ استاد کا یا شاگرد کا۔
اس جماعت کے اس نعرے سے مجھے بالکل تکلیف نہیں ہوتی کہ جفا کروگے، جفا کریں گے، وفا کروگے، وفا کریں گے، ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔ کیونکہ سماجی سائینسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ انسان سماجی جانور ہے۔  لیکن جب میں یہ نعرہ دیکھتی ہوں کہ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہئیے۔ تو پھر یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ اتنے وزن  کا نہیں چاہئیے۔ بات میں وزن ہونا چاہئیے، لیڈر میں نہیں۔ دوسرے یہ کہ جب تقریر کرے تو یہ فرق واضح ہونا چاہئیے کہ کوئ شیعہ ذاکر وعظ کر رہا ہے یا پاکستان میں انقلاب کی بات ہورہی ہے۔ تقریر کے درمیان دو جملوں میں اتنا لمبا وقفہ ہوتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں قدرتی ضرورت سے فارغ ہونے گئے تھے۔ مجھے امید ہونے لگتی ہے اگلے جملے تک انقلاب برپا ہو چکا ہوگا۔ اس لئے فوراً رفو چکر ہو جاتی ہوں۔ ہمیشہ اگلے دن کے اخبار سے تقریر کا متن پتہ چلتا ہے۔  یوں دستک انقلاب، صرف الطاف پہ میں راضی نہیں۔ خیر،  آجکل انہیں بھی نعرہ انقلاب لگانے سے فرصت نہیں۔ انقلاب کیسے آئے گا اسکی کیا ترجیحات ہونگیں ، اس سے ہم لا علم ہیں۔
اچھا، یہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں ہیں، ان کی خوشش قسمتی یہ ہے کہ انہیں منشور بنانے کی قطعاً کوئ ضرورت نہیں انکا منشور صرف اسلام ہے۔ بجلی کی کمی ہو، تعلیم کا بحران ہو، بے روزگاری ہو،، عوام کے لئے کسی صحت پالیسی کی عدم موجودگی، فضائ آلودگی، سیلاب و زلزلہ، پاکستانی خواتین کی بڑھتی ہوئ فحاشی، پاکستانی مردوں کا لمحہ ء فکر و پریشانی،    پاکستانی خواتین کا کاروکاری میں مرنا ہو  یا ایک بڑی تعداد کا چھاتی کے کینسر سے مرنا ہر مسئلے کا ایک جواب۔ الحمد للہ ہم نے ماضی میں بھی، ماشاللہ سے حال میں بھی اور انشاءاللہ مستقبل میں بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے، کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ صرف اسلام ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ الحمد للہ، غیرت مند مسلمان ہمارے ساتھ ہیں۔
خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے وطن عزیز میں صرف طالبان ایسے ہیں جن کے منشور سے ہمیں آگہی حاصل ہے یعنی ہم تو دھماکے سے مر جائیں گے صنم تجھ کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ یہ وہ ہیں جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں۔ انکی اس ادا پہ ایک طبقہ نثار ہے۔ لیکن ایک دفعہ پھر خوش قسمتی سے یا بد قسمتی سے طالبان اس سیاسی عمل پہ یقین نہیں رکھتے جسکے لئے منشور کی ضرورت پڑے۔
یہ سب باتیں آپکو پہلے سے پتہ ہونگیں۔ اپنے اپنے رجحان کے باعث کچھ کم ، کچھ زیادہ۔ لیکن اس مختصر جائزے کے بعد یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوتی کہ پاکستانی عوام کے بھولپن کی وجہ سے شخصیات کا تسلط قائم ہے اور اس طرح وہ چیز جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئ سیاسی پارٹی عوام کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا اسٹرٹجی اپنانا چاہتی ہے اسکی طرف جانے سے ان پارٹیز کی بچت ہو جاتی ہے۔
 ایسے ہی آج خیال آیا کہ کہ پارٹیز تو منشور بتانے سے قاصر ہیں کیوں نہ ہم عوام ہی ایک منشور ترتیب دے ڈالیں اور انکے حضور پیش کریں کہ جناب سوئیمبر رچانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ہمیں کیا چاہئیے۔ اس لئے شروع کرتے ہیں خدا کے با برکت نام سے۔  ایک دو تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, April 11, 2011

تعلیم کے لئے جنگ

 یہ صرف چار سال پہلے کی بات ہے , مجھے وفاقی اردو یونیورسٹی میں  پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ یہ یونیورسٹی پہلے کالج تھی جہاں پوسٹ گریجوایٹ کی سطح پہ تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں شاید اسے یہ سوچ کر یونیورسٹی کی سطح تک ترقی دی گئ کہ یہ پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہوگی جہاں ذریعہ ء تعلیم اردو میں ہوگا۔
مگر ہوا کیا؟  یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ وہی تھے جو کالج کے زمانے سے پڑھا رہے تھے۔ تقریباً سبھی ماسٹرز کی ڈگری رکھتے تھے۔ تقریباً سبھی کسی علمی تحقیق سے وابستہ نہ تھے، کسی نے کبھی کسی سیمینار یا کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی۔ انکا کوئ تحقیقی مقالہ موجود نہ تھا۔ در حقیقت انکی اکثریت اس بات سے واقف ہی نہ تھی کہ تحقیقی مقالہ ہوتی کیا بلا ہے۔ انہیں صرف اس بات پہ ناز تھا کہ انکی مدت ملازمت کو اتنا عرصہ ہو چکا ہے۔
یونیورسٹی کے اوپر چند مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا راج بلکہ قبضہ تھا۔ انکی پسند کے شخص کے علاوہ کسی کا ٹہرنا نا ممکن تھا۔ یہ اساتذہ تدریسی سرگرمیوں میں کم اور سازشی سرگرمیوں میں زیادہ مصروف رہتے۔ اس مذہبی گروہ کے افراد بات بے بات پہ خدا کو یاد کرتے اور اخلاقی حالت یہ کہ یونیورسٹی کے پتے پہ اگر کسی کا کوئ خط آتا تو انکے پاس  سے گذر کر آتا۔ وہ اسے کھولتے، پڑھتے اور مناسب سمجھتے تو وہ متعلقہ شخص کو ملتا ورنہ جیسے دل چاہے اسکی اطلاعات کو استعمال کرتے۔
 اسے یونیورسٹی کا درجہ ملے ہوئے پانچ سال کا عرصہ ہو رہا تھا۔ مگر فارمیسی کی پریکٹیکل لیبز ہونے کا سامان نہ تھا۔  کیمسٹری کی لیب میں کیمیکلز نکالنے کے وہ چھوٹے چھوٹے چمچے موجود نہیں تھے جو اسپےچولا کہلاتے ہیں حقیر ترین چیز جن کی قیمت اس وقت دس پندرہ روپے ہوگی۔ ساٹھ اسٹوڈنٹ کی لیب میں دو اسپے چولا اور تین برنرز۔ باقی سامان کا بھی یہی حساب، لٹمس پیپر جیسی روز کے استعمال کی سستی ترین شے کیمسٹری کے چیئر مین سے مانگ کر لائ جاتی۔ 
میری اس طرف بار بار توجہ دلانے پہ ہماری چیئر پرسن جو کیمسٹری ڈپارٹمنٹ سے لا کر یہاں مقرر کی گئ تھیں۔ اور جو کسی بھی قسم کی تحقیق تو دور تدریسی عمل میں بھی کئ سالوں سے شامل نہ تھیں۔ سخت آگ بگولہ ہوئیں اور کہنے لگیں کہ پچیس سال سے ہم پڑھا رہے ہیں ہمیشہ کیمیکلز نکالنے کے لئے کاغذ پھاڑ کر اسکی ڈوئ بنائ آپکے بڑے نخرے ہیں اسپے چولا ہونا چاہئیے۔ میرے جیسے جونیئر استاد نے یہ احمقانہ دلیل سنی اور خاموش ہو گیا۔
ماں باپ اپنی جان مار کر اپنے بچوں کو ان یونیورسٹیز میں بھیجتے ہیں۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والے کراچی کے بیشتر نوجوان  گھر واپس جا کر ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور تب اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ لیکن میں آپکو یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح کا معیار تعلیم میں نے اس یونیورسٹی میں دیکھا اور جو لیبز کی حالت تھی۔ یہاں  دی جانے والی ڈگری، جعلی ڈگری کے برابر ہی تھی۔ 
ماسٹرز ڈگری کے حامل یہ اساتذہ، اپنے سالوں پرانے لیکچرز پڑھا رہے تھے۔ شعبے کے ایک سینیئر ٹیچر نے انتہائ ناقص کتابچہ کیمسٹری کی رہنمائ کے لئے تحریر کر رکھا تھا اور نئے آنے والے تمام ٹیچرز پہ فرض تھا کہ وہ اسی کتابچے سے تجربات کی تھیوری اور طریقہ لکھوائیں۔  میں نے اسے ایک طرف رکھا اور ذاتی طور پہ اپنی لیب کے لئے ایک کتابچہ خود تیار کیا اس اطلاع پہ ان سینیئر ٹیچر نے فوری ایکشن لیا۔ چیئر پرسن نے فوراً طلب کر کے  کہا، آپ اپنے کتابچے کو ابھی رہنے دیں۔ اگلے سال اسے دیکھیں گے۔ ابھی پرانے کتابچے  کو ہی استعمال کروائیے۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بحیثیت یونیورسٹی ٹیچر وہ اس بات کا حق نہیں رکھتیں کہ سلیبس کے علاوہ میرے طریقہ ء تدریس میں دخل دیں اور مجھے کسی خاص کتاب کے استعمال پہ مجبور کریں۔ مجھے معلوم تھا لیکن ہر دفعہ کی طرح پھر خاموش ہوئے۔
یونیورسٹی کا نام اگرچہ اردو یونیورسٹی تھا مگر یہاں اردو میں تعلیم نہیں دی جا سکتی تھی۔ کیونکہ اردو میں سائینس کی کتب ہی کتنی موجود ہیں۔ سو اسکے قیام کا بہانہ، دراصل بش کے اس بہانے کی طرح تھا جو اس نے عراق پہ حملے کے لئے کیا تھا۔
خیر، ایک ایسی ناگفتہ بہ حالت میں جبکہ  تعلیمی سرگرمیوں پہ خرچ کرنے کے لئے پیسے نہ تھے۔  ہمارے مذہبی ٹولے کی ملی بھگت سے یونیورسٹی میں انکے پسندیدہ با ریش وائس چانسلر کی آمد ہوئ تو انہوں نے پہلا اور آخری کام اپنی سوابدید پہ   یہ کیا کہ  وائس چانسلر آفس کے لئے نئے گلاس منگوائے کیونکہ پرانے گلاسوں کی شکل انکے خیال میں ان گلاسوں سے مشابہ تھی جن میں شراب پی جاتی ہے۔ یعنی وہ جام جیسے تھے۔ ان گلاسوں کی تبدیلی کے بعد وائس چانسلر اپنی عاقبت سنوارنے کے مشکل مرحلے سے نکل کر عالم سکون میں آگئے۔ باقیوں کا رقص بے خودی بھی شروع ہوا، اس دھن پہ، سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف مذہبی طبقہ ہی ایسی کرپشن کرتا ہے ۔ غیر مذہبی بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ چیز اس وقت اتنی بد تر مذاق کی صورت لگتی ہے جب ایک شخص اپنے آپکو زیادہ مذہبی ثابت کر رہا ہو، اس پہ فخر کرتا ہواور دوسروں پہ نفرین بھیج رہا ہو پھر اس ساری نفرین کے بعد وہ وہی کرپشن زور و شور سے کرے جو دوسرے لوگ بغیر مذہبی و اخلاقی پند و نصائح کے کرتے ہیں۔
اب لیبز تو سامان کی کمی کی وجہ سے ہو نہیں پاتی تھیں۔ لے دے کر تھیوری کی کلاسز ہی منعقد ہوتیں اس کے بعد ہمارے پاس خاصہ وقت ہوتا۔ گیارہ بارہ گھنٹے ہر ہفتے کے کریڈٹ آرز کے بعد تو خاصہ وقت ہوتا ہے۔  ایکدن میں نے اپنی چیئر پرسن سے کہا کہ میرے پاس خاصہ وقت ہوتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ فارغ ہونے کے بعد کچھ اس طرح ورک شیڈول ترتیب دوں کہ کراچی یونیورسٹی جا کر کسی تحقیقی پروجیکٹ پہ کام شروع کردوں۔ اس طرح جو پبلیکیشن بنے گی اس میں اردو یونیورسٹی کا نام بھی آئے گا۔ میری ماسٹرز کی ہوئ پچیس سالہ تجربے کی حامل سینیئر استاد نے اپنے سر کا اسکارف صحیح کیا اور کہنے لگیں جب آپکو اپائینٹمنٹ لیٹر ملا تو اس پہ کیا لکھا تھا؟ پھر میرے سوالیہ تائثر پہ انہوں نے بیان کیا کہ اس میں  یہ لکھا تھا کہ یونیورسٹی کو ایک استاد چاہئیے یا یہ لکھا تھا کہ انہیں ایک تحقیق داں چاہئیے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ نہیں یونیورسٹی ہے۔ اب آپ ریسرچ  کو بھول جائیں۔
آپ میں سے کچھ لوگوں کو اب  سمجھ آئے گا صرف بلاگی دنیا میں ہی اس قبیل کے لوگوں  نہیں بلکہ اس مملکت خداداد میں جہاں نکل جائیں وہاں یہ اسپی شی موجود ہے۔
ایک مایہ ناز یونیورسٹی کی، ایک اہم ڈپارٹمنٹ کی چیئر پرسن، یہ کہتی ہے کہ یونیورسٹی کا تحقیق سے کیا تعلق تو اس چیئر پرسن کو کسی کالج یا اسکول میں ہونا چاہئیے، یونیورسٹی میں نہیں۔  یونیورسٹی کی بنیاد کا مقصد ہی تحقیق کو تعلیم سے جوڑنا ہوتا ہے۔
آخر یونیورسٹی کی اس دگرگوں حالت کا کون ذمہ دار تھا۔ کون اس بات کا ذمہ دار تھا کہ وہ یونیورسٹی کے معیار پہ نظر رکھے، وہ اس بات کو جانچے کہ یونیورسٹی اپنے طلبہ کو جن سہولیات کو پہنچانے کا دعوی کر رہی ہے آیا وہ ایسا کر پا رہی ہے یا نہیں، اتنے عرصے میں یہاں سے جتنے طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے نکلے یقیناً وہ تعلیمی سطح پہ انتہائ گھٹیا معیار رکھتے تھے۔ بیرون ملک تو کیا اپنے ہی ملک کی کسی بہتر یونیورسٹی کے طالب علم سے مقابلہ نہ کر پاتے۔ لیکن اس میں کس کا قصور تھا۔ کیا اس طالب علم کا یا اس بات کا کہ اس یونیورسٹی کے اندر موجود لوگوں کے ایک گروہ کو پتہ تھا کہ وہ جو دل چاہے کرتے رہیں۔ ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئ نہ ہوگا۔
یہ کوئ واحد یونیورسٹی نہ ہوگی، مشرومز کی طرح اگ آنے والی یونیورسٹیز کی ایک تعداد اسی قطار میں کھڑی ہوگی۔
یونیورسٹیز کے معیار کو کیسے جانچنا چاہئیے؟ یونیورسٹیز کو کیسے اس بات کا پابند بنانا چاہئیے کہ وہ بہتر نتائج دیں؟ یونیورسٹیز کے اساتذہ کو کیسے مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے آپکو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں؟ یونیورسٹیز کو آزاد تعلیمی ماحول دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ امر کیسے باور کرایاجائے کہ یونیورسٹیز کو سچی اور معیاری تحقیق سے جڑا رہنا چاہئیے؟
میں نے کچھ ہنگامہ بپا کرنے کے بعد یونیورسٹی چھوڑ دی۔ اس دوران بارہا مختلف صاحب علم لوگوں سے پوچھا اور یہ سوال میں اب بھی اپنے ملک کے اس دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتی ہوں جو اس ملک میں تعلیم کی حالت پہ  فکر مند رہتے ہیں۔ کیا آپ واقعی تعلیمی زبوں حالی پہ فکر مند ہیں؟
آج ایچ ای سی کو ختم کرنے پہ احتجاج جاری ہے۔
ایچ ای سی کے دامن پہ داغ بھی ہیں اور کامیابیاں بھی۔ 
ملک میں زیادہ تعداد میں یونیورسٹیز کھولنے اور زیادہ سے زیادہ طلباء کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے چکر میں معیار کا کوئ خیال نہیں رکھا گیا۔  یونیورسٹیز میں تحقیقی سہولیات مہیا کرنے کے بارے میں کوئ دلچسپی نہیں لی گئ۔ جہاں تھوڑی بہت ہو رہی ہے،  انہیں اس بات پہ مجبور کرنے کے لئے کوئ منصوبہ نہیں بنایا گیا کہ وہاں ایسی تحقیق کو پذیرائ ملے جو ہمارے ملک کے لئے کار آمد ثابت ہو۔ باہر سے آنے والی فنڈنگ بشمول اسکالر شپس کو منظور نظر افراد اور اداروں کی نذر کیا گیا۔ ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کو کھپانے کے لئے کوئ منصوبہ بندی نہیں کی گئ۔
ان میں سے بیشتر باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ کرپشن ہمارے ملک کا مزاج ہے۔ بہت کم ایسا ہو پاتا ہے کہ حق دار کو اسکا حق ملے۔ اور کچھ  نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ غریب ممالک میں، تبدیلی یک لخت نہیں آتی۔ ادارے جیسے جیسے پختگی کی طرف بڑھتے ہیں زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں۔
 اسکے ساتھ ایچ ای سی کے حصے میں تمغے جاتے ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی طلباء طالبات کے لئے اسکالر شپس حاصل کی گئیں، ریسرچ کے لئے فنڈنگ ملی۔ سب سے بڑھکر یہ کہ بیرون ملک سے غیر ملکی اساتذہ آئے جنکی وجہ سے یہاں طلباء طالبات کو مہمیز ملی اور اندازہ ہوا کہ باہر کس طرح اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں کو دلچسپ بناتے ہیں اور کیسے انہیں اپنی تحقیق کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
پاکستان سے کثیر تعداد میں طلباء طالبات باہر گئے، انہیں ایک نئ، مختلف دنیا دیکھنے کو ملی۔  وہ نئ ثقافتوں کو دیکھ کر
 واپس آئے اور لازماً یہ صورت  ملک میں پھیلتی ہوئ انتہا پسندی کو روکنے میں سازگار ہو سکتی ہے اور کسی قوم کی بالغ نظری کی بنیاد بن سکتی ہے۔
ان اسکالرشپس سے  ملک کے دوردراز کے علاقوں کے لوگ بھی مستفید ہوئے۔ ایسے لوگ بھی باہر اعلی تعلیم کے لئے گئے جو کبھی تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ وہ وظیفے پہ اتنی اعلی تعلیم حاصل کر پائیں گے۔
اب بجائے یہ کہ ایچ ای سی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے اقدامات کئیے جاتے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اپنی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انکا کہنا ہے کہ وہ اسے صوبوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو اپنے آپکو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے وہ خدا جانے دن بہ دن ایسےفیصلے کیوں کر رہی ہے جو اسے ایک وفاقی جماعت کے بجائے ایک علاقائ جماعت بنائے دے رہے ہیں۔
اب شاید وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے کچھ مسئلوں کو جنگی نوعیت کا قرار دے کر ان پہ پورے جذبے کے ساتھ کام کریں اور ان میں سب سے پہلا مسئلہ تعلیم کا ہے اسلام کا نہیں۔ صوبوں کو اسکول کی تعلیم کا حق حاصل ہے انہیں اسکی ترویج کے لئے جان لگانی چاہئیے۔
پولیو کے ٹیکوں کی طرح پرائمری سطح کی تعلیم کے لئے ایک ٹارگٹ مقرر کرنا چاہئیے کہ آئیندہ پانچ  سال میں ہمارا ہر بچہ اسکول کی اتنی تعلیم حاصل کرے گا اخبار پڑھ سکے اور اپنی زبان میں خط لکھ سکے۔ جب صوبے اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں ہائیر ایجوکیشن کی ذمہ داری دی جائے۔ فی الوقت تو یہ فیصلہ صرف دو پس منظر رکھتا ہوا لگ رہا ہے۔ ایک جعلی ڈگری کی شناخت کی وجہ سے ایچ ای سی پہ عتاب اور دوسرے صوبوں کو تعلیم کی مد میں ملنے والے فنڈ میں زیادہ خرد برد کے آسان مواقع حاصل کرنا۔ صوبوں کی سطح پہ جہاں علاقائ اثر زیادہ گہرا ہو گا، خرد برد اور غبن کے مواقع زیادہ آسان ہونگے۔

Wednesday, April 6, 2011

دریافت نایافت

بچے انسانی سوچ و فکر کے ارتقائ سفر کا بہترین مطالعہ بن سکتے ہیں۔ آجکل میں دیکھتی ہوں کہ کیسے میری چار سالہ بیٹی اپنے مشاہدے اور ضروریات کے مطابق اپنے خدا اور اسکی صفات کا ادراک حاصل کر رہی ہے۔
اس نے اب سے چند مہینے پہلے جب مونٹیسوری اسکول کا سفر شروع کیا تو وہ گھر سے جس اللہ کا تصور لے کر وہاں گئ تھی وہ اس سے محبت کرنے والا تھا۔ تحفے تحائف دیتا تھا اور اسکی ماں کی کسی بات سے خوش ہو کر تحفے میں انہیں اس جیسی پیاری بٹیا تحفے میں دے ڈالی۔ وہ جانتی ہے وہ خدا کا تحفہ ہے۔
لیکن اس خدا کے ساتھ مسائل تھے۔ اول ، وہ اسے نظر نہیں آتا تھا، دوئم اس نے ذاتی طور پہ اسے کچھ نہیں دیا تھا۔ وہ صرف ماما کے ذریعے اطلاع دیتا تھا کہ وہ مشعل کو پسند کرتا ہے۔ اس کے لئے روزانہ چاند، سورج ، ستارے نکالتا ہے، مگر یہ سارے کام بہت خفیہ طریقے سے ہوتے ہیں۔
ماما کہتی ہیں کہ کھانا اللہ دیتا ہے لیکن اس میں بھی جان نہیں لگتی کیونکہ بظاہر تو یہ ماما ہوتی ہیں جو بازار سے چیزیں لے کر آتی ہیں، گھر میں پکاتی ہیں اور میز پہ سجاتی ہیں۔ ایسے اللہ کو زیادہ یاد رکھنے کا کیا فائدہ، جو دوسروں سے پتہ چلتا ہے۔ پھر یہ کہ اس نرم خو، بے ضرر اللہ کا اوروں پہ رعب نہیں پڑتا۔
اسکول جانے کے کچھ عرصے بعد اسے ایک اور طرح کے اللہ میاں کا پتہ چلا۔ یہ وہ اللہ تھا جو گناہ دیتا ہے شرارتی بچوں کا، برے لوگوں کا دماغ صحیح کر دیتا ہے اور جو اچھے لوگ ہیں ان پہ بھی نظریں رکھتا ہے کہیں کوئ بد تمیزی نہ کر دیں۔  یہ اللہ مشعل کے مزاج سے میل کھاتا تھا۔ انہیں پسند آیا۔
شروع  شروع میں انہوں نے اسے خاطر میں نہ لانے کا خیال کیا اور گناہ دینے کی ذمہ داری خود اٹھانے کی کوشش کی۔ اور جب بھی انہیں لگتا کہ انکی شان میں گستاخی کی گئ ہے وہ فوراً وارننگ دیتیں کہ صحیح ہو جائیں ورنہ میں گناہ دے دونگی۔ آپ نے مجھے ڈانٹا، میں آپکو بہت گناہ دونگی۔
چند دنوں میں انہیں اندازہ ہوا کہ انکے  خود گناہ دینے سے لوگوں پہ کچھ ایسی دہشت طاری نہیں ہوتی، الٹا لوگ ہنستے ہیں۔
اللہ کا رعب اور دبدبہ، اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کا نسخہ ء کیمیاء انہیں بھی سمجھ میں آ گیا۔ اب وہ کسی سے ناراض ہوتیں تو اپنی دو ہتھیلیاں جوڑ کر اٹھاتیں اور زور سے کہتیں کہ اللہ میاں انہیں گناہ دے دیں۔ اگر کوئ ان کی اس ادا پہ مسکراتا تو اسے زیادہ سخت گناہ کی وعید ملتی۔ زیادہ تر لوگوں نے انکی اس ادا پہ توجہ دی۔ یعنی اس طریقہ میں کامیبای کے آثار نظر آئے۔
پھر کسی نے ایک دن ان سے دریافت کیا  کہ گناہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے اپنی تھوڑی کو کھجایا، سر پہ شہادت کی انگلی سے کئ دفعہ دستک دی پھر آنکھیں پھیلا کر جواب دیا، گناہ ایک زخم ہوتا ہے۔  اشفاق احمد بھی شاید اسی طرح کی بات کہتے۔ مزید پتہ چلا کہ جو لوگ بات نہیں مانتے انہیں اللہ میاں زخم لگا دیتا ہے اور اس میں سے پھر بہت خون نکلتا ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے چہرے پہ انتہائ کربناک تائثر پیدا کرے ہوئے کہا۔
لیکن پھر یہاں سے کہانی میں ٹوئسٹ پیدا ہوا۔ اگر مشعل اللہ میاں کا تحفہ ہے اور اللہ میاں اس سے محبت کرتے ہیں اور اللہ میاں ماما سے بھی محبت کرتے ہیں تو اللہ میاں ایک اتنا تکلیف والا، خون بہنے والا زخم کیسے دے سکتے ہیں۔
اس خیال کے اظہار کے  بعد مشعل ، ناراض ہوئیں اور گناہ کی نوید دیتی ہوئ چل گئیں، لیکن کچھ ہی دن گذرے تھے کہ انہوں نے اپنی کہانی میں ایک کردار کا اضافہ کیا۔
اور یہ کردار تھا شیطان کا۔  کھانے کی میز پہ جب سب کسی ایسی گفتگو میں لگ جاتے جو انکی دلچسپی کی نہ ہوتی تو اب وہ خدا سے گناہ دینے کی درخواست کے بجائے زورزور سے کہتیں، سب خاموش ہو جائیں، جو کھانے کے دوران بات کرتا ہے اسکا کھانا شیطان کھاتا ہے۔ پھر شیطان بڑا کار آمد ثابت ہونے لگا۔  تیز نہیں چلنا چاہئیے، ورنہ شیطان ساتھ چلتا ہے۔ دن میں بستر پہ نہیں لیٹنا چاہئیے شیطان بھی ساتھ لیٹ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو وہ چاہتی تھیں کہ انکے منسلکہ لوگ نہ کریں اس سے براہ راست منع کرنے کے بجائے شیطان سے وابستہ کر دیتیں۔ اس طرح وہ خود بچ جاتیں اور جس کسی کو لعنت دینی ہوتی وہ شیطان کو دیتا۔
ہر وقت شیطان کے ذکر سے گھبرا کر، ایک دن دادی اماں نے پوچھا آخر یہ شیطان کون ہے کیوں ایسا کرتا ہے؟ انہوں نے اپنے نگٹس کو کیچپ میں ڈبوتے ہوئے نہایت تشویشناک سنجیدگی سے کہا دادی اماں، شیطان بہت برا 'شخص' ہوتا ہے۔ کیا برا کام کرتا ہے؟ جواب ملا، آپکو نہیں پتہ بہت برے کام کرتا ہے۔ مثلاً کیا کرتا ہے؟ وہ ناں انہوں نے نگٹ کے اوپر سے کیچپ کو چاٹا۔ وہ ناں ، دوسروں کے نگٹس کھا جاتا ہے، کیچپ میں پانی ملا دیتا ہے، صوفے پہ پانی گرا دیتا ہے، کھانے کی ٹیبل پہ پانی گرا دیتا ہے اور پانی کے گلاس میں اسٹرا ڈال کر گُڑ گُڑ کرتا ہے۔ بہت خراب ہوتا ہے بالکل بد تمیز۔
لیکن جیسا کہ  بیان سے لگ رہا ہے اور اسے جلد ہی مشعل نے بھی محسوس کر لیا کہ شیطان کی عادات و اطوار بہت کچھ انکی عادت و اطوار سے ملتی جلتی ہیں۔ ایک دفعہ پھر انہیں اللہ میاں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔  اس دفعہ عقلمندی دکھاتے ہوئے انہوں نے اللہ میاں کے دو حصے کر دئیے۔ ایک اچھے اللہ میاں ہیں۔ جو تحفے وغیرہ دیتے ہیں اور دوسرے اللہ میاں بہت خطرناک ہیں وہ تیر کی طرح سیدھا رکھتے ہیں گناہ وغیرہ دے کر۔ گناہ تو اب آپ سمجھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ سو اب وہ اپنے عقائد میں زرتشتوں سے خاصی قریب ہے یعنی خدا دو طرح کے ہوتے ہیں ایک نیکی کا خدا یزداں اوردوسرا بدی کا خدا اہرمن۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے خدا تک انکی رسائ کیسے ہوتی ہے۔


Sunday, April 3, 2011

ساحل کے ساتھ-۱۰

گذشتہ سے پیوستہ

یہ ایک ڈائیوو کی ائیر کنڈیشنڈ اور باہر سے خاصی بہتر نظر آنے والی بس تھی مگر اندر داخل ہوتے ہی ایک شدید گھٹن کا احساس ہوا۔ کوئ ایک خاتون نظر نہ آرہی تھی۔ سیٹ تک پہنچنے کے لئے جو قدم بڑھائے تو معلوم ہوا کہ درمیانی راستے سے لیکر بس کے پچھلے حصے میں سامان ٹھنسا پڑا ہے۔ حالانکہ بس کے نچلے حصے میں جگہ تھی  لیکن معلوم ہوا کہ وہاں گنجائش ختم ہو گئ ہے۔آخر گوادر میں ایسا کیا ملتا ہے۔
گھٹن کے احساس کی وجہ بس میں کپڑوں کی زیادہ موجودگی تھی۔ کھڑکیوں پہ پڑے لال رنگ کے مصنوعی ریشم کے موٹے پردے جن پہ اسی کپڑے کی چوڑی چوڑی جھالریں لٹک رہی تھیں۔ بس کی چھت پہ بھی یہی کپڑا منڈھا ہوا تھا۔ کھڑکیوں کے درمیانی وقفے پہ مصنوعی لال بڑے بڑے پھولوں کے گچھے آویزاں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوب گھیر داربلوچی کپڑوں میں ملبوس انکے سربڑے بڑے پگڑسے سجے۔
سامان پہ سے چھلانگ لگنے کی مہارت دکھاتے ہوئے، میں نے بیٹھتے ہی اپنی کھڑکیوں کے پردوں کو جہاں تک ممکن تھا سمیٹ دیا۔ باہر گھپ اندہیرا تھا مگر پھر بھی نجانے کیوں ایک تسلی سی ہو گئ۔ میں باہرمحسوس ہونے والی  وسعت کو بس میں شامل سمجھ رہی تھی۔
مجھے اپنا ترکی کا سفر یاد آیا۔ پندرہ دن میں ہم نے چھ شہر دیکھے۔ رات بھر ایسی ہی بسوں میں سفر کرتے تھے اور دن میں تفریح۔ لکن ان بسوں میں اندر سامان کے نام پہ صرف بیک پیک ہوتا تھا۔ ایک مناسب ہوائ سفر کی اکانومی کلاس کا مزہ۔ دوران سفر چائے یا جوس اور بسکٹس یا مونگ پھلیاں تواضع میں شامل ہوتیں۔ ان بسوں کی سب سے بڑی خوبی وقت کی پابندی تھی۔ ترکی کا سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہونے میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا بڑا حصہ ہے۔
بس چل پڑی تو لوگوں نے شور مچانا شروع کیا۔ فلم لگاءو، اوئے فلم لگاءو۔ فلم کا شاید انتظام نہ تھا اس لئے موسیقی مہیا کی گئ۔ اور اس کا آغاز بلوچی موسیقی سے ہوا۔
ہم، ہمراہ لائے کھانے سے فارغ ہوئے۔ مشعل سو گئ انکے ابا  بھی آنکھیں موند کر پڑ گئے۔ میں ان بد قسمتوں میں سے ہوں جن کا دوران سفر سونا محال ہوتا ہے۔ اور جب منی اتنے زور وشور سے بد نام ہو رہی ہو تو کون کافر سو سکتا ہے۔ یوں بلوچی گانوں کے بعد انڈین گانوں کی باری آئ۔ بس میں سب جیسے نشے میں دھت تھے۔

اے شمع ، تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گذار یا اسے رو کر گذار دے
یہ سائکل جاری تھا۔ کچھ بلوچی اور کچھ انڈیئن گانے ہر دو کے درمیان، منی کی بدنامی کا سریلا، بھڑکیلا اور رسیلا بیان۔ بلوچی اور انڈیئن، دونوں ہی گانے عشق مجازی کے شیرے میں ڈوبے ہوئے۔ لیکن دونوں میں ایک فرق تھا۔ بلوچی گانوں میں گانے والی ایک بھی عورت نہ تھی۔ جبکہ انڈیئن گانے عورت اور مرد دونوں کی آوازوں میں تھے۔ یہ فرق شاید غیرت کے فرق کی وجہ سے تھا۔
تقریباً پون گھنٹے کے بعد بس  پہلی رینجرز کی چوکی پہ رکی۔  کنڈیکٹر نے نعرہ مارا سب اپنے بیگز لے کر نیچے اتر جاءو۔ بس میں سے ایکسرے مشین نظر آرہی تھی۔ میں نے سوچا اتنے سامان سے لدی گاڑی میں سے ہر ایک شخص اپنا سامان چیک کرائے گا تو کم ازکم دو گھنٹے یہیں خرچ ہو جائیں گے۔ پھر مشعل کے بابا کو دو ہینڈ کیری اور ایک بڑا بیگ چیک کروانا ہو گا بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔  بے چارے سامان ہی ڈھوتے رہیں گے۔
لیکن لگا کسی نے کنڈیکٹر کی بات نہیں سنی۔ دو تین دفعہ اس نے اور کہا۔ سب یونہی گل محمد بنے پڑے رہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ پھر رینجرز کا ایک آدمی اندر آیا، ایک ٹارچ کی بے قابو روشنی ادھر ادھر پھینکی۔ بیگ چیک کراءو اوئے سب۔ چھ سات لوگوں  رضاکارانہ طور پہ اٹھے۔ ان میں ہمارے صاحب بھی شامل تھے۔ ہمارے سامنے جو دس بارہ لوگ بیٹھے تھے وہ اپنے جثّے سے ایجنسیز کے لوگ رہے تھے وہ اسی طرح پڑے رہے۔ سب نے اپنے ساتھ ایک ایک بیگ لیا۔ دس منٹ میں سب واپس آگئے۔ مردم پورے۔ بس دوبارہ چل پڑی۔ کیا ایکسرے مشین سے گذارا تھا۔ نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پاکستان زندہ باد۔
گوادر ساحلی شہر ہونے کی بناء پہ اسمگلروں کا پسندیدہ مقام ہے۔ اٹھارویں صدی میں سمندری سچے موتیوں کے قزاق تھے۔ اور اکیسویں صدی میں اسمگلرز۔ جب تک کوسٹل ہائ وے نہی بنی تھی۔ کراچی تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ ایران سے سرحد ملی ہوئ ہے۔  ویزے کی ضرورت نہیں۔  یوں گوادر ڈسٹرکٹ میں ایران کی مصنوعات چھائ ہوئ تھیں۔ چاہے وہ چائے پینے کے معمولی کپ ہوں، کھانے کا تیل ہو یا گاڑیوں کا تیل۔ بہت سارے گوادریوں کی شادیاں بھی ایران میں ہوئ ہیں۔  
پٹرولیئم مصنوعات ایران سے اسمگل ہو کر آتی تھیں اب بھی آتی ہیں البتہ دیگر ضروریات زندگی میں اب پاکستانی اشیاء آ گئ ہیں۔ گوادر میں تین چار سال پہلے ایک سپر مارکیٹ بھی کھل گئ ہے۔
دو ہزار تین میں جب میں گوادر پہنچی تو گوادر میں پٹرول کی قیمت کراچی کے مقابلے میں تقریبا آدھی تھی۔ پہلے یہ اسمگل شدہ تیل ٹرالرز کے ذرہعے پہنچایا جاتا تھا، پھر ہائ وے بننے کے بعد گوادر سے پٹرول اسمگل ہو کر بسوں وغیرہ کے ذریعے کراچی آتا رہا۔
لیکن ہوا یہ کہ کراچی پہنچانے کے لئے عام طور پہ انہی بسوں کے خفیہ خانوں میں پٹرول موجود ہوتا تھا۔  جب کئ دفعہ ایسا ہوا کہ پٹرول کی ٹنکیاں زیادہ گرمی کی وجہ سے پھٹ گئیں  اور ائیر کنڈیشنڈ بس ہونے کی وجہ سے پوری پوری بسوں کو آگ لگ گئ۔ تو پٹرول کی اسمگلنگ میں کمی آئ۔ پھر یہ کہ ایران اور پاکستان مین پٹرول کی قیمتوں میں قابل منافع فرق نہیں رہا۔ لیکن ابھی بھی ڈیزل کی اسمگلنگ جاری ہے۔  ایرانی مصنوعات کا معیار بھی گھٹیا ہوتا ہے۔ گاڑی میں مسائل پیدا کرتا ہے۔
گوادر کے مقامی لوگوں کا کاروبار یا تو مچھلیوں سے متعلق ہے یا اسمگلنگ سے متعلق۔  مشرف دور میں گوادر میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پہ تھا۔ سنتے ہیں کہ باہر سے لوگ بوریوں میں پیسے بھر کر لاتے تھے۔ زمین خریدنے کے لئے۔ جس جگہ میں نے مٹی کے بنے ہوئے چند مکانات دیکھے تھے۔ محض دوتین سالوں میں وہاں ایسے گھر کھڑے ہو گئے جو کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں نظر آتے ہیں۔ اعلی برانڈ کی کاریں حتی کہ عام لوگوں کے پاس سیٹیلائیٹ فون ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کی بہتات کی وجہ سے پرل کانٹی نینٹل نے ایک خوبصورت عمارت بھی اپنے ہوٹل کے لئے بنائ۔ لیکن حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ اب وہاں سناٹا ہے۔ بلبل نے آشیاں چمن سے اٹھا لیا،اسکی بلا سے بوم بسے یا ہُما رہے۔

لوگ ایک دفعہ پھر اسمگلنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ مہینے میں ایک لانچ تین چار چکر لگا لے تو چار پانچ لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔ جس بس میں ہم جا رہے تھے اسکے متعلق بھی اطلاع تھی کہ اس میں ڈیزل جا رہا ہے۔ ڈیزل کے علاوہ، شراب کی بھی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ یہاں سر عام پینا کوئ برائ نہیں۔
رات کو ڈھائ بجے ارمارہ پہنچے۔ بس کے بیشتر لوگ حوائج سے فارغ ہونے کے لئے اتر گئے۔ میں بھی اتر گئ۔  ایک  دفعہ پھر ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔ لیڈیز ادھر ہے۔ میں اسکے ساتھ گئ۔ ہوٹل کے پچھواڑے میں ایک کمرہ جس میں کوئ کھڑکی نہ تھی صرف ایک دروازہ تھا۔ اور فرش پہ چٹائیاں پڑی تھیں۔ یہ کیا ہے۔ کھانے کا کمرہ عورتوں کے لئے۔ میں نے اس سے کہا کہ لیڈیز کا واش روم کہاں ہے۔ وہ میری بات  پہ کچھ حیران سے ہو گیا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے واش روم کے ہونے پہ تعجب تھا یا لیڈیز کے واش روم کے ہونے پہ تعجب تھا۔
 میں اسے حیرانگی میں چھوڑ کر واپس ہونے لگی تو تاحد نظر پھیلے ہوئے اندھیرے اور ویرانے میں مجھے ایک بہت عجیب سا احساس ہوا۔ جہاں روشنی کی حد ختم ہو رہی تھی اور اندھیرے کا راج شروع ہو رہا تھا وہاں  ایک کے بعد ایک ، دور تک گٹھریاں سی رکھی ہوئ تھیں۔ لیکن غور سے دیکھنے کے بعد میں نے اپنا سر جھٹکا یہ گٹھریاں نہیں ایکدم زندہ سلامت انسان تھے۔ ہر غیرت سے بھرپور انسان بھی  چند حیاتیاتی عوامل سے جان نہیں چھڑا سکتا۔  مجھے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں ان کا سکھوں کے متعلق بیان یاد آگیا۔
بس میں واپس آکر مجھے خیال آیا کہ مشعل کو اٹھا کر اسے بھی فارغ کرا لینا چاہئیے۔ مبادا رستے میں انہیں ضرورت محسوس ہو تو بس رکوانے میں بڑی مشکل ہو جائے گی۔ انکے جوتے تلاش کرنے کے لئے سیٹ کے نیچے ہاتھ مارا تو ایک عجیب سا پھل میرے ہاتھ میں آگیا۔ سخت اور روئیں دار۔ یہ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے اسے روشنی میں نکال کر دیکھا۔ یہ کیوی فروٹ تھا۔ ایران میں پیدا ہوتا ہے اور کراچی میں سو روپے سے زائد صرف ایک پھل ملتا ہے۔ اس کا سائز ایک مرغی کے انڈے کے برابر ہوتا ہے۔ اب جو میں نے روشنی لے کر نیچے جھانکا تو متعدد سیٹوں کے نیچے اسکے کریٹ موجود تھے۔
سب لوگ واپس آئے۔ مردم پورے کا نعرہ بلند ہوا اور بس روانہ۔
اگلی چوکی صبح چار بجے کے وقت ملی۔ جیسے ہی بس رکی۔ رینجرز کے ایک صاحب اندر داخل ہوئے۔ ڈرائیور سے کہنے لگے کتنے ہزار لٹر ڈیزل جا رہا ہے۔ سر جی جتنے میں یہ بس چل جائے۔ میں بس کے ڈیزل کی بات نہیں کر رہا انکی کر رہا ہوں جو تم چوری سے  لے کر جاتے ہو۔ اس نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا۔ 'نہیں جناب اور تو کوئ ڈیزل نہیں ہے'۔ 'سب پتہ ہے مجھے'۔ ڈرائیور خاموش ہو گیا۔   پھر وہ اسی طنطنے میں آگے بڑھا۔ ایک آواز آئ۔ میں میجر ہوں اور یہ دس نوجوان میرے ساتھ ہیں۔ ایک ہاتھ بڑھا اس میں ایک کارڈ تھا۔ دیکھنے والے نے اسے ایک نظر دیکھا۔ سلیوٹ مارا۔ آگے آکر سب کے چہروں پہ ایک لائٹ ڈالی اور بس سے اتر گیا۔ 
اسکے بعد ایک اور چوکی،  اب ہم حب کی حدود میں داخل ہوگئے تھے۔ لوگوں نے فجر کی نکلتی ہوئ نماز پڑھی۔ کیونکہ روشنی پھیل چکی تھی۔ اسکے آدھ گھنٹے بعد ٹھیک آٹھ بجے ہم کراچی کے مضافات میں واقع یوسف گوٹھ کے بسوں کے اڈے پہ موجود تھے۔ اس سفر میں ہمیں گیارہ گھنٹے لگے جس کے متعلق دعوی بس پر لکھا تھا کہ سات گھنٹے لے گا۔
کہتے ہیں پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہئیے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ مگر ایسا کوہ قاف میں ہی ہوتا ہے۔ شادمند دل پلٹ کر پیچھے ضرور دیکھتا ہے یہ کہنے کو کہ

سیر کی، خوب پھرے، پھول چنے، شاد رہے
باغباں جاتے ہیں ہم، گلشن تیرا آباد رہے
مشعل اٹھ چکی تھی۔ اس نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا کہ دور دور تک رنگ برنگی خالی بسوں کی لائینیں لگی ہوئ ہیں۔  کہنے لگی۔ ماما کیا ہم یہاں سے صرف ایک بس لے سکتے ہیں وہ پنک والی، وہ مجھے پسند آرہی ہے۔ نہیں میرے بچے یہ کھلونے نہیں ہیں۔ ماما نے ایک روکھا سا جواب دیا۔
اڈے پہ ٹیکسیوں اور رکشوں کی بھر مار تھی۔ اور اترتے ہی وہ نقشہ بنا کہ، اٹھا جو مینا بدست ساقی، رہی نہ پھر تاب ضبط باقی، تمام  مے کش  پکار اٹھے، یہاں سے پہلے، یہاں سے پہلے۔
ہم نے اپنی جیب ٹٹولی اور  ایک زمانہ ء قدیم کی کالی پیلی ٹیکسی نما کھٹارے میں اپنا سامان رکھنا شروع کیا۔ اور مشعل گنگنانے لگی، منّی  ڈارلنگ تیرے لئے۔ ہائیں میں نے اسے  دیکھا ، یہ تو رات بھر سوتی رہی تھی۔

ختم شد


Friday, April 1, 2011

شکریہ

دیکھیں لکھنے تو جا رہی تھی سلسلہ، ساحل کے ساتھ، کی اگلی قسط۔ لیکن جتنی دیر میں نئی پوسٹ کے لئے صفحہ کھلتا میں نے سوچا اردو سیارہ دیکھ لوں۔ بس وہاں سے ایک بلاگ پہ گئ۔ اور جب اسکی آخری سطروں تک پہنچی تو لگا کہ میری انگلیوں میں دوران خون اتنا تیز ہو چکا ہے کہ اب میں آج کچھ اور نہیں لکھ سکتی۔ لیجئیے یہ چند لائنیں آپ کے لئے بھی حاضر ہیں۔

جب کسی معاشرے سے عورت کو غائب کردیا جاتا ہے تو زندگی بھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ آہستہ آہستہ تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس معاشرے کا تمدن بھی زندگی کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور آخر کار ایسی قوم دوسری قوموں کے لیے ” آفت ” بن جاتی ہے، عورت ہر معاشرے کی زندگی کی نبض ہے، جہاں عورت نہیں، وہاں معاشرہ  نہیں۔
یہ لائینز آپ نے پڑھیں۔ اسکے لکھنے والے مصنف مکی صاحب ہمارے مایہ ناز اردو بلاگر ہیں۔ انہوں نے اپنے بلاگ پہ تبصرے کا آپشن بند کر دیا ہے۔  اس لئے مجھے اپنے بلاگ پہ لکھنا پڑ رہا ہے۔ 
تو جناب مکی، آپ اس  کمزور اور خوفزدہ پاکستانی معاشرے  میں زندگی کی بچی کھچی علامتوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کا بہت شکریہ۔