ٹی وی چینلز کی سرفنگ کرتے ہوئے میرا ہاتھ ایک چینل کے لئے رک گیا۔ یہاں پہ اینکر پرسن مختاراں مائ کے ساتھ موجود تھے ۔ وہی مختاراں مائ جو اجتماعی زنا کا شکار ہوئ، جس کا مقدمہ تقریباً نو سال چلا اور بالآخر سوائے ایک ملزم کے باقی سب با عزت بری ہو گئے۔
اینکر پرسن نے اپنی بات کے آغاز میں اپنی مثال دی کہ وہ خود کتنا چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف تھے انہوں نے کتنے ہی پروگراموں میں انکے خلاف بات کی لیکن جب وہ عدالت سے انصاف مانگنے گئے تو انہیں انصاف ملا۔ اس لئے مختاراں مائ کے سلسلے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسکے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
لیجئیے جناب، میں اپنی مثال دوں کہ میں نے پاکستان میں اعلی سطح تک کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی، کامیاب ہوئ اور اس طرح یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سب پروپیگینڈہ ہے۔
جس وقت میں یہ سب کہونگی، میرے سامنے گوادر کے ساحل کے ساتھ رہنے والی نازنین، پاکستان کی لاکھوں عورتوں کا جلوس لے کر دھرنا مار کر بیٹھ جائے گی اور کہے گی کتنی جھوٹی ہو تم اور خود غرض۔ صرف اپنی دنیا میں رہتی ہو۔ میں کراچی سے سینکڑوں میل دور رہنے والی نیم خواندہ لڑکی سے ڈر جاتی ہوں۔
اس معاملے میں, جس میں لقمان مبشر خاصی وسعت قلب رکھتے ہیں میرا دل اتنا سا ہے۔ لقمان مبشر اپنے دیگر مہمانوں کے ساتھ مصروف بہ عمل جو اپنی زبان اور علم کے مظاہرے سے ہی لگ رہے تھے کہ کیا اپروچ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کا اصرار اس بات پہ رہا کہ اس کا تو میڈیکل ہی آٹھ دن بعد ہوا۔ اگر اس کا میڈیکل آٹھ دن بعد ہوا تو یہ کس کی کوتاہی تھی، یہ سوال کرنے والا ان سے کوئ نہ تھا۔ زنا بالجبر کے کیسز میں بر وقت میڈیکل کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
یہ سب این جی اوز کا کھیل ہے مظفر گڑھ میں اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کھل گئ ہیں۔ ان سے یہ سوال نہیں کیا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کراچی میں کیوں نہیں ہیں۔ اس قسم کے جرائم شہروں سے زیادہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں کیوں ہوتے ہیں، یہ بھی نہیں معلوم۔ تین روایت پسند مرد، کئ روائیتیں۔
اگلے دن میں پھر اسی کام میں مصروف ثناء بُچہ کو پکڑ لیتی ہوں۔ یہاں کچھ کام کی گفتگو جاری ہے۔ کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ ثناء بُچہ نے اپنا ہوم ورک محنت سے کیا اور کچھ کام کے لوگوں سے کام کی بات نکلوانے میں کامیاب ہو گئیں یا یہ کہ اینکر پرسن ایک خاتون ہیں پاکستان کی ایک ماڈرن خاتون ، کسے معلوم؟
اس گفتگو سے ایک عام آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت ہمارے یہاں جرم ہونے کے بعد تحقیقی پہلے مرحلے یعنی ایف آئ آر سے لیکر شواہد جمع کرنے تک کا کام نا اہل لوگوں کے پاس ہے۔
عدالتیں شواہد پہ کام کرتی ہیں انہیں مادی ثبوت چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پولیس کے محکمے کو شواہد اکٹھا کرنے ہوتے ہیں۔ اور استغاثہ انہیں ثبوت کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اگر شواہد اور ثبوت موجود نہیں ہیں تو آپ پہ جو گذرا اسکی کوئ اوقات نہیں چاہے اسکی وجہ سے آپ کی زندگی ختم ہو جائے۔
یہ کوئ پہلا کیس نہیں جسے ثبوت اور شواہد کے ناکافی ہونے کی بناء پہ اس نتیجے کا سامنا کرنا پڑا ہو یہاں نامی گرامی دہشتگردوں سے لے کر، غبن کرنے والے، کرپشن میں شامل افسران اور طبقہ ء اشرافیہ سے لے کر مافیاز کے کرتا دھرتا تک یہی طریقے آزماتے ہیں۔ ایف آئ آر کو ہی اس طرح درج کیا جاتا ہے کہ انصاف کم سے کم ہو پائے۔ اور با اثر شخص یا تو بچ نکلے یا پھر اسے کم سے کم نقصان پہنچے۔
یہ سب کوئ راز کی بات نہیں، ان سے ہمارا سابقہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں اس حیرانی سے گذرتا ہے کہ فلاں شخص کیسے قانونی سزا سے بچ گیا۔
دوسری طرف ہم جب اس مقدمے کی نوعیت دیکھتے ہیں تو یہ زنا بالجبر کے گرد گھومتا ہے۔ زنا بالجبر طاقت کے مظاہرے سے منسلک جرم ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے۔ اسکے بڑے حصے میں خواتین کسی مرد کی جاگیر کا حصہ ہیں۔ اگر دو مردوں کے درمیان طاقت کا کھیل چل پڑے تو اسکی سزا ان مردوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حصے میں زیادہ آ تی ہے۔ یوں ونی ، کارو کاری سے لیکر پنچایت اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ کسی عورت کو ایسی سزا بھی دے ڈالے۔ کسی مرد سے تعلق رکھنے والی خواتین کی یہ بے حرمتی سب سے بڑی ذلت سمجھی جاتی ہے، نتیجتاً جو اسے کرے گا وہ زیادہ طاقتور ٹہرے گا۔
ایک اورعام صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ مردوں کی اکثریت کا ذہنی رخ اس طرح متعین کیا جاتا ہے کہ وہ کسی عورت کو اپنے سامنے کوئ چیز نہیں سمجھتے، اس لئے جب کبھی انکی طاقت کسی عورت کے سامنے کم پڑتی نظر آئے تو وہ یہ جرم کرکے اس کا دماغ صحیح کریں۔
روانڈہ، بوسنیا، ویتنام کی جنگوں میں اور دور کیوں جائیں تقسیم ہندوستان اور تقسیم پاکستان عمل کے دوران طاقت کے اس شو آف کا کئ لاکھ خواتین شکار ہوئ۔ جنگوں میں عورتوں کو یہ اذیت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا۔
اس لئے ہمیں یہ دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ زنا بالجبر کے واقعات میں ایک اکثریت بالخصوص مردوں کی کیوں خاموش رہتی ہے جبکہ یہ وہی مرد ہوتے ہیں جو عورتوں کے متعلق اپنے انتہا پسند جذبات کو اپنی غیرت سمجھتے ہیں۔
عدالتیں بھی اسی نظام کے پروردہ مردوں پہ مشتمل ہیں۔ تو اگر ایک طبقہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین ججز کو ایسے مقدمات میں شامل رکھا جائے، پولیس اور عدالتی نظام کی اس تربیت کا انتظام کیا جائے کہ وہ انصاف کے حصول کے لئیے اپنے آپکو ذہنی طور پہ توازن میں رکھ سکیں، وہ کیا غلط کہتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں تو ایسے جرائم کو پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔
دنیا کے کتنے ہی آزاد معاشرے سے تعلق رکھنے والی عورت کیوں نہ ہو اسکے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز چیز کوئ اور نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں ہر آٹھ گھنٹے میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔ ہونے والے واقعات میں سے تقریباً ستر فی صد رپورٹ نہیں ہوتے۔ شکار ہونے والی لڑکیوں میں سے تینتالیس فی صد کی عمر سولہ سال سے کم ہوتی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں کسی لڑکی کو جو ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتی ہو بآسانی ہراساں کیا جا سکتا ہے اور انہیں خاموش رہنے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں رجسٹر کیسز میں سے دو تہائ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا محض یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہاں یہ جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ستر فی صد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں ایسے جرائم کو رجسٹر کرانے کی شرح زیادہ ہے۔
پاکستان اس حساب سے دنیا کا واحد ملک نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اس میں ہم سے آگے ہے۔ دارالحکومت دہلی میں خواتین سورج ڈوبنے کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتیں۔ گلیوں میں ہوس کے مارے گینگسٹرز کا راج ہوتا ہے۔ وہ بھی پدر سری معاشرہ رکھتے ہیں، وہ بھی فیوڈل سوچ سے آزاد نہیں ہو سکے، انکے یہاں بھی انتہا پسندی اپنے عروج پہ ہے۔ لیکن ہندو مذہب کے بنیادی عقائد کے مطابق عورت کو مرد کی شانتی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ مرد دیوتا ہے عورت داسی۔
ان میں اور ہم میں نظریاتی فرق ہے جس کی بناء پہ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہم نے یہ ملک حاصل کیا۔ اگر یہ درست ہے تو کیا اس فرق کو ہمارے روئیے میں نہیں نظر آنا چاہئیے۔
ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں مصروف عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کی تو مذمت کی جائے، اس کی مظلومیت کے تو واسطے دئیے جائیں۔ اسکے بچوں کی تو فکر ہو۔ لیکن اپنے ملک میں، اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے ہی ملک کی ہم مذہب، ہم زبان عام گھریلو عورتوں کے تحفظ کی خاطر مناسب قانون سازی کے لئے آواز نہ بلند کی جائے۔ یہ بھی تو قوم کی بیٹیاں ہیں، انکے بچے بھی تو بچے ہوتے ہیں۔ اور کون جانے ان میں سے کس میں واقعی قوم کی عظیم بیٹی بن دکھانے کا حقیقی جذبہ موجود ہو۔ مگر اس سلسلے میں ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ ان لوگوں تک کوئ این جی او پہنچے اور پھر یہ کہیں کہ یہ سب تو این جی اوز کا کھیل ہے۔
کوئ معاشرہ اگر اپنے تمام طبقات کے لئے انصاف نہیں چاہے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پنپ سکے، ، خوش حال ہو، مستحکم ہو۔ اسکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ نہیں، ایسا ممکن نہیں۔