صدر پاکستان نے لیاری کی حالت زار کو سامنے رکھتے ہوئے لیاری کے لئیے دو ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان کیا۔ اور ان سب کا باجماعت افتتاح وزیر اعلی ہاءوس میں کیا گیا۔اس بہانے تیسرے پروجیکٹس کے غریبوں کو بھی وزیر اعلی ہاءوس دیکھنے کو مل گیا جو پروجیکٹ کے تحت بننے والی ایک کم لاگت کے مکانوں کی بستی میں اپنے مکان کی ملکیت لینے گئے تھے۔
اب بھولپن میں یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ لیاری وزیر اعلی ہاءوس کے اندر ہے۔ جی نہیں، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ جب سے پیپلز پارٹی وجود میں آئ اس علاقے نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا اور اس سے پارٹی کا مورال اتنا بلند ہے کہ صدر نے جو کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں یہ کہا کہ بلاول کے برتھ سرٹیفیکیٹ پہ جائے پیدائش لیاری لکھا ہونے کی وجہ سے نبیل گبول صاحب کی سیٹ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ پیشن گوئ میں بھی کر سکتی ہوں کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لئیے انتخاب لیاری سے لڑیں گے۔
صدر کے عہدے پہ فائز ہونے کے بعد صدر صاحب کا حس مزاح نازک خیالی کی بلندیوں پہ پہنچ گیا ہے۔ اور یہ کچھ ایسا خلاف معمول بھی نہیں کہ خدا جب حکومت دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اور صرف نزاکت ہی کیا، نجابت، فصاحت، شرارت اور رذالت سب ہی آجاتی ہیں۔ بس نہیں آتی تو ندامت نہیں آتی۔
اب بھولپن میں یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ لیاری وزیر اعلی ہاءوس کے اندر ہے۔ جی نہیں، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ جب سے پیپلز پارٹی وجود میں آئ اس علاقے نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا اور اس سے پارٹی کا مورال اتنا بلند ہے کہ صدر نے جو کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں یہ کہا کہ بلاول کے برتھ سرٹیفیکیٹ پہ جائے پیدائش لیاری لکھا ہونے کی وجہ سے نبیل گبول صاحب کی سیٹ کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ پیشن گوئ میں بھی کر سکتی ہوں کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لئیے انتخاب لیاری سے لڑیں گے۔
صدر کے عہدے پہ فائز ہونے کے بعد صدر صاحب کا حس مزاح نازک خیالی کی بلندیوں پہ پہنچ گیا ہے۔ اور یہ کچھ ایسا خلاف معمول بھی نہیں کہ خدا جب حکومت دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ اور صرف نزاکت ہی کیا، نجابت، فصاحت، شرارت اور رذالت سب ہی آجاتی ہیں۔ بس نہیں آتی تو ندامت نہیں آتی۔
تو اسی بے ندامتی کی حالت میں انہوں نے لیاری کے لئیےجن دو پروجیکٹس کا اعلان کیا انکے نام انکی مرحوم اہلیہ اور پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کے نام پہ رکھے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کم لاگت کے مکانوں والی بستی کا نام بھی انہی کے نام پہ رکھا گیا ہے۔
یہاں پہ میں پاکستانی عوام کو ایک بے حد اہم راز سے آگاہ کرنیوالی ہوں اور وہ یہ کہ ان پروجیکٹس پہ خرچ ہونے والی تمام رقم بے نظیر صاحبہ کی ذاتی جائیداد یا صدر صاحب کے سوئس اکاءونٹ کی زکوات سے نہیں بلکہ ان پیسوں سے ہوگی جو عنیقہ ناز سمیت ہر پاکستانی نے ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کئیے۔ یا جو بیرون ملک مالدار ملکوں کو اپنی غریب عوام کی بیچاری حالت کا واسطہ دیکر قرضہ لئیے گئے ہیں اور جنہیں ہم عوام اپنا خون پسینہ بہا کر اور اپنا پیٹ کاٹ کر ، اپنے بچے بیچ کر اور اپنے بچے مار کر ادا کریں گے۔
اگر ان پروجیکٹس کو کسی نہ کسی کے نام پہ رکھنا ہی ہے تو اسکے نام پہ رکھیں جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے نہ کہ انکے نام پہ جو ہمارے اس چندے میں سے جو ہم ریاست کے امور چلانے کے لئیے دیتے ہیں اور جسے اب بھتہ کہنا زیادہ مناسب ہے اپنی تن آسانی کے سامان پیدا کرتے ہیں اور نام اپنا یا اپنے رشتےداروں کا بنا دیتے ہیں۔
اگر بے نظیر عظیم لیڈر تھیں تو پاکستان ان سے کہیں زیادہ عظیم لیڈروں کو برت چکا ہے اور خود پاکستان ان سے زیادہ عظیم ہے۔ اگر انہوں نے مصائب اٹھائے تو عوام نے ان سے کہیں زیادہ مصائب اٹھائے، اگر وہ ماری گئیں تو قوم اپنی اور اپنے سپوتوں کی قربانی ان سے کہیں زیادہ دے چکی ہے۔ میرا بلکہ ہم سب کا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہونا چاہئیے کہ وہ تمام پروجیکٹس جنکا نام کسی بھی پارٹی لیڈر کے نام پہ رکھا گیا ہے اگر ان میں انکے ذاتی پیسے خرچ نہیں ہوئے تو انہیں عوام کے نام پہ رکھا جائے یا پاکستان کے نام پہ۔ ان تمام جگہوں اور پروجیکٹس کے نام کو فی الفور تبدیل کیا جانا چاہئیے۔ قانون بنایا جائے کہ جمہوری نظام میں ایسا کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے لئیے ہے۔
حوالہ؛