تین دن سے دیکھ رہی ہوں کہ پاکستانی نوجوان لڑکے ایکدم ہائپر ہوگئے ہیں۔ بلکہ صحیح معنوں میں کملے، دیوانے اور بملے نظر آرہے ہیں۔ روزانہ شام کو گھر کے اندر آتی ہوئ گیندوں کو انٹر کام کے ذریعے واپس کرتے ہوئے آج میں نے سوچا ذرا کچھ سن گن لینے کی کوشش تو کروں۔
کیا ہوا بھئ۔ یہ کس دنیا میں گم ہیں آپ لوگ۔ پتہ چلا کہ ثانیہ مرزا کی منگنی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے ہو گئ ہے۔ سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن یہ پوری قوم با جماعت اس مرض میں کیسے مبتلا ہو گئ۔ اب ہم تو سمجھتے تھے کہ محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔ مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ محبت کی وباء کچھ ایسے پھیلے گی کہ شادی وہ کرنے ادھرجا رہے ہون گے اور دل لاکھوں کے ادھر دھڑک رہے ہہونگے۔
کیا ہوا بھئ۔ یہ کس دنیا میں گم ہیں آپ لوگ۔ پتہ چلا کہ ثانیہ مرزا کی منگنی پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے ہو گئ ہے۔ سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن یہ پوری قوم با جماعت اس مرض میں کیسے مبتلا ہو گئ۔ اب ہم تو سمجھتے تھے کہ محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔ مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ محبت کی وباء کچھ ایسے پھیلے گی کہ شادی وہ کرنے ادھرجا رہے ہون گے اور دل لاکھوں کے ادھر دھڑک رہے ہہونگے۔
ہندءووں کے یہاں ایک ذات پانڈءووں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پانڈو پانچ بھائ تھے۔ راجہ کی بیٹی کے لئے سوئمبر رچایا جا رہا تھآ۔ یہ پانچوں بھائ بھی وہاں پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک کا نام ارجن تھا، جو بہترین نشانے باز تھا۔ مقابلے میں ایک گھومتی ہوئ مچھلی کا عکس دیکھ کر اسکی آنکھ پہ نشانہ لگانا تھا۔ ارجن وہ مقابلہ جیتا۔ دلہن کو لیکر جب گھر لوٹے تو گھر کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ایک بھائ نے خوشی سے نعرہ لگایا 'دیکھو ماں، ہم کیا جیت کر لائے' اسے ذرا وحید مراد کے انداز میں پڑھئے گا۔ ماں نے 'چیز' دیکھے بغیر وہیں سے جواب دیا۔ جو بھی لائے ہو، آپس میں مل بانٹ کر استعمال کرنا۔ پانڈءووں کی اپنی ماں سے فرمانبرداری ضرب المثل تھی۔ چنانچہ اس دن سے وہ خاتون پانچوں بھائیوں کی بیوی بن کر رہنے لگی۔
اب اپنے نوجوان 'بھائیوں' کی خوشی کی وجہ سے انجان اپنی نوجوان کنواری بہنوں کی طرف دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم میں کیا کمی ہے جو اس موئ ثانیہ مرزا پہ جا کر نظر ٹہری۔ ہمارے لئے تو یہ راگ الاپتے الاپتے گلا نہیں دکھتا کہ دوپٹہ سر سے پہنو، گھر کی چار دیواری میں رہو، خبردار جو کسی نامحرم سے بات کی۔ اب اس حیدرآبادی چلتر باز لڑکی کو جو ابھی کچھ دن پہلے ہی اپنی ایک منگنی توڑ چکی ہے۔ کیسے بھنگڑے ڈال کر لا رہے ہیں۔ ٹینس کی اسٹار ہے۔ اسے کیوں نہیں کہتے کہ اییسے کپڑے پہنتی ہے، دوپٹہ تو ندارد کپڑے ہی پورے پہن لے تو بات ہے۔ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ہمیں گھروں میں بند کر کے صرف ٹی وی چینل اور شاپنگ کے کھیل میں الجھا کر رکھا ہوا ہے، ہمیں بھی ٹینس کھیلنا پسند ہے۔ ہمیں بھی شعیب ملک پسند ہے۔ اور جب شادی کی باری آتی ہے تو غیروں میں جا کر فخر سے ان لڑکیوں کو لے آتے ہیں۔ کبھی اس بہانے سے کبھی اس بہانے سے۔ انڈیا سے نفرت ہے مگر انڈین لڑکیوں سے محبت۔ منافق، دھوکے باز۔
سمجھتے ہیں ثانیہ یہاں آکر سیالکوٹ میں بیٹھ کر کھانے پکائے گی اور بھینس کو چارہ ڈالے گی۔ یہاں میں لقمہ دیتی ہون، نہیں وہ یہ بھی کہے گی' ہاہائے شعیب، یہ تمہارا پاکستان کیسا ہے'۔ اسے زرا ٹھیٹھ پنجابی انداز میں لہرا کر پڑھئیے گا
تو اے میرے پیارے نوجوانوں یہ بات میں نہیں کہہ رہی۔ یہ تو ایک دل جلی کی بات ہے۔ مجھے تو اچھی طرح معلوم ہے دل آنے کی بات ہے جب جو لگ جائے پیارا۔یہ الگ بات کے دل آنے کی رفتار دل دھڑکنے کی رفتار سے مل جائے تو حادثہ ایکدم بھی ہوجاتا ہے۔ یہ تو سہراب مرزا سے پوچھیں۔ لعنت بھیجیں اس سہراب پہ، خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کچھ کہیں سے جیت کر تولا رہا ہے۔ اگر ثانیہ نہ کر دیتی تو ہم کس کو منہ دکھاتے۔ اور قوم میں مزید کرکٹ کھیلنے کی چنگاری کیسے بھڑکتی۔ شعیب کے اس فیصلے سے انکی دور اندیشی جھلکتی ہے۔ مجھے یقین ہے اس سے ملک میں کرکٹ کے کھیل کو مزید فروغ ملے گا۔
چونکہ پنجاب میں قاف کو کاف کے برابر ہی سمجھا اور بولا جاتا ہے تو ہمیں یہ اندیشہ نہیں رہیگا کہ شعیب حیدر آبادیوں کی طرح قاف کو خ بولنے لگیں گے ۔ امید ہے کہ قورمہ، کورمہ ہی رہیگا خورمہ نہیں بنے گا۔ اگرچہ کہ ہمیشہ ایسائچ نہیں ہوتا لیکن امید پہ دنیا قائم ہے۔ البتہ حیدرآبادی کھٹے کھانے شوق سے کھاتے ہیں تو کیا خبر سیالکوٹ میں اب املی کے باغات لگ جائیں۔ اور سیالکوٹی لڑکیاں یہ گانا گائیں کہ
کھٹے لیموں کھٹے، کبھی تو میٹھے ہونگے
چھوٹے سیاں چھوٹے، کبھی تو بڑے ہونگےپیارے شعیب دیکھو کہیں بیوی کے غلام نہ بن جانا کو ہم سبکی زمانے بھر میں تھو تھو ہو جائے۔ اے کاش کسی کو صحیح وقت پہ ہوش آجائے اور وہ بر وقت شعیب کو بیوی کو پہلے دن سے قابو میں رکھنے کے گر بتا دے۔ ہمارا لڑکا تو ایسا سیدھا ہے کہ کوئ بھی انڈین حیدر آبادی لڑکی اسے الو بنا لیتی ہے۔
پیاری بہنوں ایک کے بعد ایک اس قسم کے واقعات سے گذرنے کے بعد اب آپکو اندازہ ہو جانا چاہئیے کہ یہ کبوتر کس چھجے پہ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ سو تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لو ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو۔