ہمارا یہ پورا خطہ جس میں چین، انڈیا اور پاکستان آتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ کی تعظیم کا خطّہ ہے۔ ہندءووں اور مسلمانوں دونوں میں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے اور بچوں کو ابتداء ہی سے یہ چیز بزور قوت سکھائ جاتی ہے کہ وہ اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کریں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی اینکر یہ کہتے سنے گئے کہ انہیں پروگرام کے دوران الٹے ہاتھ سے پانی پیتے دیکھ کر انہیں لا تعداد پیغامات محض اس لئے ملے کہ الٹے ہاتھ سے پانی پینا غیر اسلامی ہے۔
مغرب میں اس خیال کا باعث عیسائ تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات کو اگر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صفائ کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ اور ایک ایسے زمانے میں جب خود کو صاف رکھنے کے لئے آجکی طرح کی چیزیں جیسے صابن اور دوسری اشیاء موجود نہ تھیں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو شاید اس لئے احسن قرار دیا گیا کہ جس ہاتھ سے گندگی صاف کی گئ ہے اس سے کھانا کھانے کا احتمال نہ رہے اور اس طرح بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب اسلام کا ظہور ہوا یہ بات معلوم نہ تھی کہ بیماریاں، جراثیم سے ہوتی ہیں اور ان سے بچاءو کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ الٹا ہاتھ اتنا نجس ہوتا تو خدا انسان کو صرف ایک ہاتھ دیتا اور وہ ہوتا دایاں ہاتھ۔
اگرچہ کہ سائینسی سطح پہ یہ بات پایہء ثبوت کو نہیں پہنچی کہ کیوں انسانوں کی ایک تعداد اپنا بایاں ہاتھ استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں جینیاتی وراثت سے لیکر ماں کے پیٹ میں بچے کی حالت اور ہارمونز کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ الٹے ہاتھ کی جین بھی دریافت کر لی گئ ہے۔ لیکن یہ سب ابھی تک صداقت کی منزل کو نہیں پہنچے۔
یہ بات واضح ہے کہ انسانی دماغ دو حصوں میں منقسم ہے۔ جیسا کہ نیچے دی گئ تصویر میں ہے۔
یہ بات بھی طے ہے کہ یہ دونوں حصے جسم میں مختلف اعمال و افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دماغ کا الٹا حصہ جن افعال کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ لکھائ، زبان، سائینسی طرز فکر، ریاضی، دلیل ہیں۔ جبکہ دماغ کا دایاں حصہ جذبات کے اظہار، تخلیقی جوہر، فضائ مقامیت، اور ان سب کی مدد سے ایک پوری تصویر کو تشکیل دینے سے وابستہ ہے۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جسم کے دائیں حصے کو دماغ کا بایاں حصہ اور جسم کے بائیں حصے کو دماغ کا دایاں حصہ کنٹرول کرتا ہے۔
ہم اپنے جس عضو کا استعمال کم کر دیتے ہیں اس سے منسلکہ دماغی حصے کی سرگرمی کو بھی کم کر دیتے ہیں۔ جسم کے تمام اعضاء کو استعمال میں لانا چاہئیے۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو انکی مکمل قوت سے استعمال کریں۔ کبھی غور کریں کہ جب ہر ماہر صحت ہمیں ورزش کی نصیحت کرتا ہے تو اسکا کیا اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے؟ اور یہ ورزش چاہے ایروبک ہو یا یوگا یہ کیا کرتی ہے؟ یہ ہمارے تمام اعضاء کا دوران خون بڑھاتی ہے اور ہمارے دماغ کو تمام اعضاء کے بارے میں سرگرم کر دیتی ہے۔ یوں ہم ایک زیادہ صحت مند زندگی کی طرف جاتے ہیں۔
تحقیقدانوں کا یہ کہنا ہے کہ الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے والوں کا شرح تناسب دیکھا جائے تو ان میں با صلاحیت افراد کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے زیادہ دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور زیادہ آئ کیو رکھتے ہیں۔
اسکے باوجود الٹے ہاتھ کی ترجیح رکھنے والے بے پناہ مسائل کا بھی شکار ہو تے ہیں۔ اس میں سر فہرست انہِں شروع سے سیدھا ہاتھ استعمال کرنے پہ مجبور کرنا۔ یہ صرف ہمارے معاشرے مِں نہیں کیا جاتا بلکہ مغربی معاشرے میں بھی بیسویں صدی کے آغاز تک بچوں کو الٹے ہاتھ سے لکھنے پہ پٹائ لگانا معمول کی بات تھی۔ تقریباً سات الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے امریکی صدور میں سے ریگن کے بارے میں کہا جاتا ہے الٹے ہاتھ کا رجحان رکھنے کے باوجود انکی تربیت سیدھے ہاتھ کی ، کی گئ تھی۔ اس لئے وہ اپنے دونوں ہاتھ بخوبی استعمال کر لیتے تھے۔
اس لئے تربیت کے پہلے مرحلے پہ اس زبردستی کا شکار ہونے والے کچھ لوگ اس ساری مشق سے نالاں ہو کر اس سے فرار اختیار کر لیتے ہیں یوں یہ بات اور مشہور ہوتی ہے کہ الٹے ہاتھ کو استعمال کرنے والے غبی ہوتے ہیں۔
اسکے علاوہ آجکی دنیا میں کمپیوٹر ہوں، گاڑی ہو یا قینچی انکی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ اکثریت یعنی دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے والے کو آسانی دیتے ہیں۔
دنیا کے بہت سارے مشہور لوگ بائیں ہاتھ استعمال کرنے والے ہیں۔
الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے باراک اوبامہ اس قوم کے صدر ہیں جو سوال کرتی ہے کہ آخر باقی دنیا کے لوگ ہمیں کیوں ناپسند کرتے ہیں؟
اسامہ بن لادن کے مداحین بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ آخر ان دونوں میں الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے علاوہ اور کیا قدر مشترک ہے؟