ایک دفعہ پھر ہم قدرتی آفات کی زد میں ہیں اور ملک کا بڑا حصہ شدید بارشوں اور سیلاب سے متائثر ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد جاں بحق ، متعدد لوگ لاپتہ ہیں اور ہزاروں بے گھر۔ لیکن ایک دفعہ پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ہمارے اوپر، آزمائش یا قدرتی عوامل کی پرواہ نہ کرنے کی سزا۔
اگر یہ اللہ کا عذاب ہے اور ہمارے سیاہ کرتوتوں کی سزا ہے تو کیا وجہ ہے صرف غریب غرباء ہی اسکا شکار بن رہے ہیں۔ ہمارے طبقہ ء اشرافیہ کے تمام لوگ زندگی کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اپنے آرام دہ ، سہولتوں سے آرستہ محلوں میں سٹیلائٹ ٹی وی پہ کوئ دل بہلانے والا پروگرام دیکھ رہے ہونگے۔ جبکہ نوشہرہ فیروز شہر ڈوب رہا ہے۔ اور اسکے غریب اور مسکین لوگ شاید سارے سارے دن بھوکے رہ کر اپنے لئے جائے پناہ تلاش کر رہے ہونگے۔ اقبال اپنی نظم شکوہ میں کہتے ہیں کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پہ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو پچانوے فی صد مسلمان ہیں ۔ لیکن یہاں بھی برق گرتی ہے اور برق ہمیشہ بے آسرا، کمزور لوگوں پہ گرتی ہے۔
کون زیادہ گنہگار ہے۔ شاید غریب ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ لیکن کیا یہ پھر یہ خدا کی نا انصافی نہیں کہ وہ غریب پیدا کرے، غریب رکھے اور غریب ہی کی پکڑکرے۔
اس لئے میں تو اس خیال کو خاطر میں نہیں لاتی۔
یہ سوچ لینا آسان ہے کہ یہ آزمائش ہے۔ لیکن پھر سوچ وہیں جاتی ہے کہ ایسی آزمائش کا سامنا معاشرے کے کمزور طبقے کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے اور وہ لوگ جو پہلے سے اللہ کی طرف سے نوازے ہوئے ہیں انہیں کیوں خدا محفوظ رکھتا ہے اور انکی آزمائش نہیں لیتا۔ بلکہ مزید نوازے جاتا ہے۔
اس لئے یہ چیز بھی عقل میں نہیں آپاتی۔ در حقیقت، جس وقت تک ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کسی پہ اسکی قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس وقت تک ہمیں اس چیز پہ یقین آ نہیں سکتا۔
کیا یہ تباہ کاریاں، قدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں؟
ساری دنیا میں موسموں میں تبدیلی کو عمل آتا محسوس ہو رہا ہے۔ تحقیق دانوں کے نزدیک اسکی وجہ گرین ہاءوس ایفیکٹ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکے نتیجے میں زمین پہلے کی نسبت گرم ہو رہی ہے۔ زمین پہ موجود برف کا ذخیرہ اس گرمی سے گھل رہا ہے۔ فضا میں پانی کی مقدار زیادہ ہو رہی ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ بارشیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ اب بارشیں زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی جائیں گی۔
یعنی دنیا میں بیشتر ممالک کو جلد یا بدیر سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسکے بعد خشک سالی کا۔ کارخانہ ء قدرت کا ایک نظام اور کاز اینڈ ایفیکٹ کا نظام بھی خدا نے مقرر کیا ہوا ہے۔ خدا نے یہ مقرر کیا ہوا ہے کہ اگر آپ سرد موسم میں اپنے بدن کو گرم نہیں رکھتے تو آپکو سردی لگے گی اور آپ بیمار ہونگے۔ اس صورت میں بیماری خدا کا عذاب نہیں بلکہ کاز اینڈ ایفیکٹ کے کھاتے میں جائے گی۔
گرین ہاءوس ایفیکٹ کو کم کیا جا سکتا ہے؟
جی ہاں اسے کم کیا جا سکتا ہے اسکے لئے دنیا کے تمام ممالک کو ان گیسوں کی مقدار کو کنٹرول کرنا پڑےے گا جو اس ایفیکٹ کو بڑھانے کی ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے غریب ممالک کو متحد ہو کر دنیا کے امیر ممالک پہ دباءو ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان مضر گیسوں کی مقدار کو کم کرنے میں انکا ساتھ دیں۔
ہم اس سے کیسے نمٹیں؟
ہمیں سیلاب کی پیشگی اطلاع کو موءثر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے عوام کی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ اپنے گھر کیسے بنائیں تاکہ سیلاب کے نتیجے میں انہیں کم سے کم نقصان پہنچے۔ سیلاب آنے کی صورت میں وہ کس طرح جانی نقصان کو کم سے کم رکھ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ محلے کی سطح پہ کیا احتیاط کی جا سکتی ہے۔ سیلاب کے بعد وبائ امراض کا اندیشہ رہہتا ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ان سب کے لئے میڈیا کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
حکومتی سطح پہ اس سے نمٹنے کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم موجود ہونی چاہئیے۔ خاص طور پہ ان علاقوں میں جو سیلاب کے لئے رسکی ہیں۔ ان ماہرین میں اس علاقے کے لوگ بھی شامل ہونے چاہئیں تاکہ علاقے کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو۔
یہ ایک دستاویز کا لنک ہے۔ چاہیں تو آپ میں سے کوئ اسکے اہم نکات کا ترجمہ کر کے اپنے بلاگ پہ ڈالدے۔ یا پھر ایک دو روز میں، میں ہی وقت نکالتی ہوں۔