Monday, November 29, 2010

باسی کڑھی

آجکل ذاتی مصروفیات کچھ ایسی ہیں کہ وقت  سب سے زیادہ اہم سوال بن گیا ہے۔ تو نئ پوسٹ کے بجائے ایک بہت پرانی پوسٹ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ حاضر ہے۔ نہایت پرانے قارئین کے علاوہ کون اس سے آگاہ ہوگا۔ اس سے قدیم ہونے  کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔
آَئیے پڑھتے ہیں۔


ہمارے گھر سے ملحقہ پچھلا پلاٹ ایک نا مکمل اسٹرکچر کے ساتھ خدا معلوم کب سے خالی پڑا تھا۔ ایکدن گھر میں کچھ لوگوںجن میں, میں بھی شامل ہوں نے منصوبہ بنایا کہ گھر کی پچھلی دیوار میں ایک شگاف کر کے راستہ بنا لیا جائے اور اس خالی پلاٹ پر مرغیاں پال لی جائیں یا بکریاں۔ اس طرح سے ہمیں آرگینک انڈے اور دودھ مل جائیں گے اور ہمارے گھر میں صفائ کے مسائل بھی نہ کھڑے ہونگے۔
آپ لوگ تو واقف ہیں کہ آجکل مغربی دنیا میں لفظ آرگینک معاشی خوشحالی کی علامت ہے۔ جنہیں ہم دیسی انڈے کہتے ہیں انہیں وہ آرگینک پروڈکٹ کہتے ہیں۔مرغیاں خالی پلاٹ کی صفائ کرتی پھریں گی اور بکریاں یہاں وہاں کدکڑے لگائیں گی۔ اور خوشی خوشی تازہ دودھ دیں گی۔ روزانہ ملاوٹی دودھ کی قیمت میں اضافہ کا سن کر جو خون جلتا ہے وہ پھر چہرے پہ شادابی کا باعث بنے گا۔ اور اپنے غیر ملکی دوستوں پہ رعب بھی جمائیں گے کہ ہم تو آرگینک انڈے کھاتے ہیں اور دودھ پیتےہیں۔

غریب تیرے خواب۔ اس تجویز کا آنا تھا کہ برسوں سے خوابیدہ کارخانہء قدرت میں حرکت ہوئ اوردودن بعد کھٹپٹ کی آواز پہ
کھڑکی سے جو جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں کہ خالی پلاٹ پر اگے ہوئے جنگل جھاڑ پر کلہاڑیاں چل رہی ہیں۔لیجئے ابھی دو دن پہلے ہی تو ہم نے کچھ منصوبے بنائے تھے۔ خیر آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے آنے کے لئے کچھ ایسے بے ضرر منصوبے پردہءخیال پہ ظہور پذیر ہونے چاہئیں تو برسوں پہلے سوچ لیتے یا بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ برسوں نہ سوچتے۔ لیکن جناب قدرت نے اسی پر بس نہیں کی اور ہمیں مستقبل میں کسی بھی منصوبہ بنانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے آئندہ چند مہینوں کا پروگرام بھی بنا لیا گیا۔اب چاہے ہم سے جیسی بھی قسم لے لیں ہم اس سارے پلان سے ناواقف تھے۔
ایکدن باورچی خانے میں حلوہ پکاتے ہوئے چمچہ ایک پلیٹ میں رکھا اور چند منٹوں کے لئے وہاں سے غائب ہو کر جو دوبارہ نمودار ہوئے تو عجب ماجرہ تھا، پورا چمچہ باریک چیونٹیّوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی ایک جھرجھری پورے بدن میں دوڑ گئ۔ فوراً ایک اینٹی انسیکٹ اسپرے کیا۔ اور اپنے تئیں سمجھا کہ نمرود کی فوج کا صفایا کر دیا۔ اسی دن شام کو دودھ کے ایک قطرے پہ پھر چینوٹیوں کے ایک لشکر کا حملہ ہوا۔ آئندہ ایک ہفتے میں ہم نے ایک کے بعد ایک کئ لشکر غارت کیے۔ مگر یہ تو لگ رہا تھا کہ اتنا ہی ابھریں گے جتنا کہ دبا دیں گے۔
ادھر پڑوس میں مکان کی تعمیر تیزی سے جاری تھی ادھر ہم اتنی ہی جاں فشانی سے چیونٹیّوں سے نبرد آزما مگر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔اب روزمرہ کے انسیکٹ کلر پر سے اعتماد اٹھ چلا تھا۔ ادھر یہ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ عذاب ہم پہ کہاں سے اور کس سلسلے میں نازل ہوا ہے۔
کچھ عرصے چیونٹیوں کی لاتعدا قطاروں کو صاف کرنے کے بعدہم نے یہ فیصلہ کیا کہ پورے گھر پر ایک ساتھ یلغار کی جائے تاکہ اس مصیبت سے نجات ہو۔ گھر کے چاروں طرف بنیاد کے ستھ ساتھ چونا ڈالا گیا اور لان میں چیونٹیاں مار دوا ڈالی گئ۔ کچھ دنوں کے لئے سکون ہوا مگر چاردن بعد وہی کہانی۔ یعنی ڈھاک کے تین پات۔
اب گھر کے باہر چونا ڈالنے کے بجائے چیونٹی مار دوا ڈالی گئ۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ مگر کچھ دنوں بعد ہم پھر اپنی پرانی حالت پہ واپس آگئے۔ پھر مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ اینٹی انسیکٹ کا اتنا استعمال ہمارے خود کے لئے بہتر نہیں۔ جہاں ان سے مختلف قسم کی الرجیز ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جن میں سرفہرست دمہ ہے وہاں یہ نہ صرف کینسر کا باعث بھی ہو سکتے ہیں بلکہ بانجھپن بھی پیدا کرتے ہیں۔ یا خدا اب کیا کریں۔
ادھر پڑوسیوں کا مکان تکمیل کو پہنچ رہا تھا اور اب اس پر رنگ و روغن ہو رہا تھا۔ ایک دن دل میں اتنا گداز پیدا ہوا کہ خدا سے شکوہ کناں ہوئے۔ یا اللہ ہمارا اس پلاٹ پر ْتو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ قبضہ کرنے کا کوئ ارادہ نہ تھا وہ تو صرف ایک خیال تھا۔ اور اگر ہم اس پر عمل کر بھی لیتے تو یقین جان کہ جس دن ان کی آمد کے آثار ہوتے ہم وہ مرغیاں اور بکریاں کسی کی دعوت میں استعمال کر لیتےممکن ہے انہی کی دعوت کردیتے۔ اس مکالمہء صفائ کے بعد جب سوچنا شروع کی تو لگا کہ دماغ کے انجن نے کام کرنا شروع کیا۔ اب جو غور کیا تو اندازہ ہوا یہ چیونٹیاں پڑوسیوں کے گھر کی تھیں۔ انہوں نے جو جنگل صاف کیا تو یہ ہمارے گھر آدھمکیں۔
 سوال یہ تھا کہ ان سے جان کیسے چھڑائ جائے۔ یکدم خیال آیاآخر ہم انٹرنیٹ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ دماغ کے جالے لگتا تھا کہ ایکدم صاف ہو گئے۔  دو دن نیٹ پرخوب سرچ ماری اور بالآخر ایک نتیجے پہ پہنچ گئے۔ اگلے دن بازار سے بورک ایسڈ لےکر آئے دیکھنے والوں نے کہا ۔ اور کیرم بورڈ وہ کہاں ہے۔ وہی کھیلنے کے لئے ہم نے ہمیشہ بورک ایسڈ استعمال کیاہے۔ ایسے تبصروں پر ہم نے غور نہیں کیا یہ لوگ ہمیشہ چیونٹی کاٹے پر روتے ہیں اور اس کا ذمہ دار بھی ہمیں سمجھتے ہیں۔
ہم نےاسی سنجیدگی سے چینی کاشیرہ تیار کیا اور اس میں بورک ایسڈ کو ملادیا۔ پھر اسے چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی پیالیوں میں نکالا اور چینٹیوں کے بل جو ہم اس سارے عمل سے پہلے نشان زدہ کر چکے تھے ان کے قریب لے جا کر رکھ دیا۔ اگلے دن ماسی نے ہمیں اطلاع دی کہ پیالیوں میں کچھ رکھا ہے اس میں چیونٹیاں آرہی ہیں۔ آنے دو ہم نے شان بے نیازی سے جواب دیااور ایک میگزین پڑھتے رہے۔ اطمینان قلب دنیا کی سب سے بڑی چیز ہےاسی سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔۔' انہیں وہاں سے ہلانا نہیں۔' ہم نے اسے نصیحت کی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئ۔ لیجئے اب تو چیونٹیّوں کو انکے دروازے پر ہی غذا مل رہی ہے اب دیکھئیے گا کیسی یلغاریں ہوتی ہیں ۔ کسی نے کہا کہ اب یقیناً ہمیں دوسرا گھر دیکھ لینا چاہئے۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں صرف چیونٹیوں کا راج ہو گا۔ اور ہاتھیوں کا آنا منع ہوگا۔ میں نے لقمہ دیا۔
آہستہ آہستہ چیونٹیوں کی قطاریں ہر شکر کی پیالی کے ساتھ بندھ گئیں۔ صبح سے شام تک چیونٹیاں آرہی ہیں چیونٹیاں جا رہی ہیں اور ہم ہیں کہ ٹی وی پہ کھانا پکانے کی ترکیبیں دیکھ رہے ہیں۔۔رسالوں کو چاٹ رہے ہیں اب ہمارے شوہر صاحب کی پریشانی شروع ہوئ۔ 'یہ کیا ہو رہا ہے اس دفعہ آپ نے اینٹی انسیکٹ بھی نہیں لیا اور نہ ہی چیونٹیوں کا کوئ اور علاج ہو رہا ہے'۔ خاموش میں نے انگلی سے اشارہ کیا۔ اگرچہ چیونٹیوں کے کان نہیں ہوتے مگر تجربات یعنی چیونٹیوں کےذاتِی تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ ماحول میں اپنے خلاف ہونے والی ہر کارروائ سے آگاہ ہو جاتی ہیں خوش قسمتی سے قدرت نےعورتوں سمیت ہر جاندار کو اس حس سے نوازا ہے۔
اچھا جناب اب میرے شوہر صاحب سوچ رہے تھے کہ میں نے شاید کوئ روحانی عمل شروع کیا ہو اہے ۔ اور کچھ عرصہ لگے گا جب میں اپنی غلطی تسلیم کر لونگی کہ اس قسم کے مسائل حقیقت کی دنیا میں رہ کر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ باقی لوگ شاید سوچتے تھے کہ میں نے اپنی کاہلی کے اوپر بڑی ذہانت سے پردہ ڈالا ہوا ہے۔ یوں ایکدن جب یہ موضوع جب دوبارہ زیر بحث آیا تو پھر توپوں کا رخ میری جانب ہوا۔
لوگ میری خاموشی اور سکون سے نالاں تھے۔ میں نے جب ان سے مزید پندرہ دن کی مہلت چاہی تو وہ ایکدم پھٹ پڑے۔ چیونٹیاں نہ ہوئیں طالبان ہوگئیں۔ اب میں ہر ایک چیونٹی سے درخواست کرنے سے رہی یہ لیجئے دوا اور خدا کے لئے غارت ہو جائیں۔ خیر اجلاس میں میں نے سب کو یقین دلایا کہ میں کوئ روحانی عمل نہیں کر رہی ہوں۔ میں بورک ایسڈ بذریعہ شیرہ چیونٹیوں کو دے رہی ہوں، بورک ایسڈ ان کا معدہ ہضم نہیں کرتا اور معدہ پھٹ جانے کے نتیجے میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر جاتی ہیں۔ 'تو کیا اب ایک ایک چیونٹی کے مرنے کا انتظار کیا جائے گا اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان کے انڈوں سے چیونٹیاں پیدا نہیں ہونگیں۔ ' تابڑ توڑ سوالات۔
میری تیاری بھی مکمل تھی۔ بات یہ ہے کہ اس شیرہ کو چیونٹیوں نے اپنے بل میں بھی لے جا کر جمع کیا ہو گا اور اسے ان کی ملکہ بھی استعمال کرے گی جو ان کے بل میں انڈے پیدا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اب جب وہ ہی نہیں رہے گی تو نئ چیونٹیاں کہاں سے آئیں گی۔ پھر ہم نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ان کی توجہ چیونٹیوں کی قطاروں میں ہونے والی واضح کمی کی طرف دلائ۔ لوگوں نے اس فرق کو محسوس تونہیں کیا تھا لیکن ہمیں کچھ دنوں کی مہلت ضرور مل گئ۔ آج اس بات کو اس ایک سال ہوگئے۔ اب ہمارے گھر میں کبھی کبھار کوئ چیونٹی اس لئے نظر آجاتی ہے کہ بچوں کو بتایا جا سکے یہ ہوتی ہے چیونٹی جس کے کبھی کبھی پر نکل آتے ہیں۔ اس تمام محنت سے ہم نے یہ سیکھا کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر آپ برائ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اسکا خیال دل میں پال لینا ہی مصیبت بن سکتا ہے۔

نوٹ: اس طریقےکو طالبان کے خلاف استعمال کرنے والے نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔
ریفرنس؛
چیونٹیوں سے بچاءو


Sunday, November 21, 2010

نو سے پانچ

میں اپنی ایک عزیزہ سے ملنے انکے گھر رات کو نو بجے پہنچی پتہ چلا کہ ابھی تک آفس سے واپسی نہیں ہوئ۔ وہ ایک سوفٹ ویئر انجینیئر ہیں اور ایک سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں۔ رات کو دس بجے انکی واپسی ہوئ۔ لیکن آفس ٹائم ختم نہیں ہوا تھا کہ اب وہ گھر میں رات کو دیر تک بیٹھ کر کام کریں گی۔ وہ بتانے لگیں کہ اگر چار گھنٹے کی بھی نیند مل جائے تو عیاشی سمجھی جاتی ہےاور یہ انکا روز کا معمول ہے۔ اسکی وجہ سے صحت پہ جو اثرات ہیں وہ الگ ہیں۔ آپ تصور کر سکتی ہیں کہ جو شخص میرے ما تحت کام کرتا ہے وہ آفس چھ بجے چھوڑدیتا ہے اور اسکی تنخواہ مجھ سے بیس ہزار روپے زیادہ ہے۔ انہوں نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ در حقیت میرے ماتحت پانچ لڑکے کام کرتے ہیں۔اور وہ سب شام کو چھ بجے کے بعد نہ صرف کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ کام کا معیار ایسا ہوتا ہے کہ مجھے ہی اسے بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگ بڑے بڑے ادروں سے پڑھ کر آرہے ہیں بڑے مطالبات ہیں انکے مگر کام کے نام پہ ایک چھوٹے سے مسئلے سے نہیں نبٹ سکتے ایک پریزینٹیشن کا کہہ و جان نکل جاتی ہے انکی اور یہ سب میرے ہم عمر لوگ ہیں۔ میں ٹیم لیڈر ہوں اور نتیجے میں کام کا سارا لوڈ میرے اوپر پڑ جاتا ہے۔
 میری ایک اور دوست جو کہ کسی اور سوفٹ ویئر ہاءوس میں کام کرتی ہیں انکی کہانی بھی یہی کہ رات کو نو دس بجے گھر سے واپسی ہوتی اور صبح ساڑھے سات بجے تک گھر سے نکل جاتی ہیں۔ یہ بتاءو تمہاری اب شادی ہونے والی ہے تب یہ سب کیسے چلے گا۔ میں نے پوچھا۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ جو شادی شدہ کولیگز ہیں وہ بھی تقریباً اسی وقت تک جا پاتی ہیں۔ 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کی جاب کا کوئ تصور نہیں رہا۔ سوائے سرکاری داروں کے تمام غیر سرکاری ادارے اپنے تنخواہ دار طبقے کا خون چوس لینا چاہتے ہیں۔ مقررہ وقت سے الگ رک کر زیادہ کام کرنے والوں کے لئے یعنی اوور ٹآئم کا کوئ تصور نہیں اور یوں اب زائد کام، زائد تنخواہ کا کوئ تصور نہیں رہا۔ ان کام کرنے والوں کے کوئ بنیادی حقوق نام کی چیز نہیں۔
حتی کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ جو معاشرے کی زبوں حالی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم دوہراتے ہیں، نا انصافیوں کو دور کرنے کی باتیں کرتے ہیں  وہ خود بھی ان سوفٹ ویئر ہاءوسز کو چلا رہے ہیں مگر انکے یہاں کام کرنے والوں کے ایسے کسی حق کا خیال نہ کرنا انکی شخصی دوہریت کو ظاہر کرتا ہے جو ماشااللہ ہمارے معاشرے میں کثرت سے پائ  جاتی ہیں۔ چار لوگوں کے سامنے بیٹھ کر اخلاقی تقاریر کرنے میں کسے مزہ نہیں آتا۔ عملی طور پہ وہ انہی اخلاقی اصولوں کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔


خاص طور پہ جب وہ خواتین کو اتنے طویل وقت کے لئے روک رکھتے ہیں تو کیا انہیں خیال ہوتا ہے کہ یہ عورت ایک ماں بھی ہے، اسے اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی دیکھنا ہونگیں اور دیکھنا چاہئییں۔ گھر کسی معاشرے کی اکائ ہوتا ہے۔ اس اکائ کی ساخت کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لئے ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ کچھ نہیں۔ خواتین کو ملازمت میں ترجیح دی جاتی ہے اس لئے کہ وہ خاموشی سے گدھے گھوڑے کی طرح کام کرتی رہیں گی۔ ادھر خواتین کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نوکری اور تنخواہ ہی کی نہیں ہوتی بلکہ ادارے میں اگر انہیں ماحول محفوظ لگے تو وہ جاب سوئچ کرنے سے گریز کرتی ہیں کہ اگلی جگہ خدا جانے کیسا ماحول ملے یوں وہ رسک لینے سے گھبراتی ہیں۔ دوسری طرف ہماری خواتین کو پیشہ ورانہ میدان میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گذرا تو وہ اپنی حق تلفی کے سلسلے میں بلکہ کسی بھی سلسلے میں زبان کھولنے سے گھبراتی ہیں۔ یوں کام کا ایک غیر ضروری بوجھ اٹھاتی ہیں اور دب کر بھی رہتی ہیں۔ تیسری طرف جب سے عالمی مارکیٹ میں کساد بازاری کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ آجر، اپنے اجیروں کی تعداد کو کم سے کم رکھتے ہوئے اتنا ہی کام کروانا چاہ رہے ہیں۔تاکہ انکا سرمایہ زیادہ خرچ نہ ہو اور منافع کی شرح برقرار رہے یوں انکی اس ڈریکولا والے انداز کے خلاف بولنا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔
کیا ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے آسٹریلیا میں کچھ وقت گذارنے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر حیرانی ہوئ کہ تقریباً تمام مارکیٹ سات بجے شام کو بند ہوجاتی ہے۔ آفس کے اوقات صبح نو سے پانچ۔ کبھی ہی ایسا موقع ہوتا ہے کہ دیر تک رکنا پڑے۔ ہفتے میں دو دن کی چھٹی۔ جس میں ایک خاندان کے تمام لوگ سیر و تفریح کا پروگرام بناتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے یہ سب کچھ کیوں۔ اس لئے کہ خاندان کو ایک ساتھ وقت گذارنے کا موقع ملے اور اس طرح معاشرے کی اکائ یعنی ایک خاندان مطمئن اور توازن سے بھر پور زندگی گذارے۔
میری وہی عزیزہ، ابھی چند مہینے پہلے  امیگریشن کے بعد کینیڈا چلی گئیں۔ ایک چیز سے خوش ہیں کہ  وہ شام کو چھ بجے اپنے گھر میں ہوتی ہیں، کھانا بناتی ہیں، ٹی وی دیکھتی ہیں۔ رات کا کھاناہم سب مل کر کھاتے ہیں۔ یہاں زندگی بہت ریلیکس ہے۔ ہر ہفتے کو ہم کہیں نہ کہیں گھومنے جاتے ہیں۔
حتی کہ تھائ لینڈ جیسے ملک میں جو کہ ترقی یافتہ ممالک مِں شامل نہیں اور شہروں میں شاید ہر عورت کام کرتی ہوگی۔ اس بات پہ توجہ دی جاتی ہے کہ خواتین اپنے آپکو آفس میں ہی نہ خرچ کر ڈالیں بلکہ اپنے گھر کے لئے بھی خود کو بچا کر رکھیں۔
ہمارے یہاں ایسا کوئ تصور نہیں۔ کوئ ایسی دستاویز جس میں کام کرنے کے زیادہ سے زیادہ اوقات بیان کئے گئے ہوں۔ کسی کو اس بات کی چنداں فکر نہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین  کے مسائل کی طرف بھی نظر کرے۔ ظاہر ہے جہاں بات روٹی کے گرد ہی گھوم رہی ہو وہاں اس قسم کے مسائل میں کس کو دلچسپی ہو سکتی۔ اور خواتین کے مسائل کو تو کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا جاتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جائے گا کہ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ خواتین کام نہ کریں انہیں گھر کی ملکہ بن کر رہنا چاہئیے۔ یہ انکا کام نہیں۔ حالانکہ ملازمت پیشہ خواتین کا بڑا حصہ اپنے خاندان کی معاشی کمزوریوں کی بناء پہ کام کرنے پہ مجبور ہوتا ہے۔مگر یہ سب کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جب روٹی نہیں خرید پاتے تو کیک خریدنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ جب زراعت کا زمانہ تھا عورت گھر کی کھیتی باڑی میں اپنے حصے کا کام کرتی تھی اور برابر سے کرتی تھی۔ اب انڈسٹریئل زمانہ ہے اس میں بھی کسی کے لئے رعایت نہیں اور سب کو کام کرنا پڑتا ہے۔
کس کو فکر کہ ایک کام کرنے والے پہ کام کا کتنا بوجھ ڈالا جا سکتا ہے۔  ان  پریشان لوگوں کا کوئ پر سان حال نہیں اور نہ شاید کوئ اسکا احساس کرتا ہے۔  حکومتی عناصر اور ہمارے پالیسی ساز ذہن معاشرے کے استحکام کے لئے پالیسیاں بنانا کب شروع کریں گے۔جس طرح معاشرے میں اور ظلم اور زیادتیوں کو قبول کر کے بس زندہ رہنے کی رسم نبھانے کی عادت ڈال لی گئ ہے وہیں اس ظلم کے خلاف بھی کوئ آواز اٹھانے والا نہیں ۔

Wednesday, November 17, 2010

عید قرباں کراچی میں

ہر طرف گائے بکریوں کا شور ہے۔ رات کے آٹھ بجتے ہی لڑکے اپنے اپنے جانوروں کی رسیاں تھامے روڈ پہ نکل آتے ہیں اور پھر انکی ریس شروع ہوتی ہے۔ گھنگھرءووں کی چھم چھم، جانوروں کی میں میں ، باں باں اور بھیں بھِیں اور لڑکوں کی فرط جوش میں نکلتی چیخیں اور نعرے دیکھ کر اسپین کی بل فائیٹنگ کے میدان یاد آجاتے ہیں۔  مگر واپس آجائیے، یہ اسپین نہیں پاکستان کا شہر کراچی ہے۔ اور خیال اغلب ہے کہ یہ ساری مشق یہ معلوم کرنے کے لئے ہوتی ہے کہ یہ جانور پل صراط پہ صحیح کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے گا یا نہیں۔ میں اس سب  کو برا  کہنے کی جراءت نہیں کرسکتی مگر میرے جیسے کمزور دل ڈرائیورز پہ یہ وقت پل صراط پہ چلنے سے کم نہیں ہوتا۔
میں نے کہا بقر عید تو دراصل مردوں کا تہوار ہے۔ بکرا منڈی جانا ، پھر اسکا ایک تفصیلی معائنہ کرنا،  جانوروں کی تفصیلات حاصل کرنا، کیا عمر ہے کہ ہمارے یہاں قربانی کا جانور اور محبوب دونوں بالی عمر کے ہی پسند کئیے جاتے ہیں، کوئ شرعی عیب تو نہیں چاہے خود شریعت پہ عیب ہوں مگر قربانی کے جانور میں کوئ عیب میں ہونا چاہئیے ورنہ دنیا تُھو تُھو کرے گی، منہ کھلوا کر دانت گننا یہ خاصہ خطرے کا کام ہوتا ہے کہ جانور آپکی انگلیاں نہ گننے لگ جائے۔ اس لئے قربانی ان جانوروں کی ہوتی ہے جو کبھی مکتب نہ گئے ہوں۔ شاید افضل بھی انہی کی ہو۔ پھر چلا کر دیکھنا کہ الہڑ مٹیار کی طرح چلتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اس چال میں چلن کا بانکپن ہونا چاہئیے۔ ورنہ کہیں ضعف چلن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوجائیں، خاص طور پہ گئیوں کا ضعف چلن ہمارے یہاں غیرت کا مسئلہ بن سکتا ہے جس میں قانون بھیگی بلی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔   پھر قیمت کا تعین اور اس پہ بحث۔ اسکے بعد اپنی حد سے باہر جاتا دیکھکر اسے چھوڑنا، اپنی حد میں آتا دیکھ کر سوچنا کہ مبادا اس سے اچھا کوئ اور جانور مل جائے اور دوسرے کی حد میں جاتا دیکھ کر تائسف میں پڑنا کہ سال بھر اس نے ہم سے بہتر مال بنایا۔ اس طرح پوری بکرا منڈی کا ایک سیر حاصل تجزیہ جسکے بعد آپ محض میں میں اور بھیں بھیں  سن کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کسی سرائیکی دوکاندار کا جانور ہے یا سندھ کے میدانوں سے آیا ہے۔ آیا خالص پاکستانی جینز رکھتا ہے یا کسی فرنگی ملک کے شاندار جینز میں بھی حصے دار ہے۔ یہاں بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں مگر انہیں بٹھا دیتے ہیں کہ  عید پہ  قربانی بے زبان ، معصوم، 'سیدھی' سادی گئیوں اور بکریوں کی جائز  ہے ہماری نہیں۔
ایک دفعہ آپ جانور کے مالک ہو جائیں تو اسے اپنے محلے یعنی گھر تک پہنچانا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ جانورلے جانے والی گاڑیوں کے مالکان سے حساب طے ہونے کے بعد جب اس کھلی گاڑی میں دوستوں کے ہجوم اور جانور کے ساتھ پیچھے جالی میں ٹنگ کر سہراب گوٹھ سے روانہ ہوتے ہیں اور  شہر کے درمیان سے گذرتے ہیں تو ایک خمار چڑھتا ہے جسے گائے کے پیشاب کی دھاراور گوبر کی بدبو بھی نہیں اتار سکتی۔
پھر گھر پہنچ کر ایک خلقت ، میرا پیا گھر آیا کے نعرے لگاتی، آپکے جانور کے دیدار کوبھاگی چلی آتی ہے۔ جانور کو گاڑی سے اتارتے وقت انتہائ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ معلوم کیوں، اس بات کا احساس جانور کو بھی ہوتا ہے کہ یہ بھاگ نکلنے کے سنہری مواقع میں سے ایک ہے۔  جانوروں میں پلاننگ کرنے کے خامرے نہیں ہوتے اس لئے بہت محدود تعداد ہی ایسا کر پاتی ہے اور جب بھی کرتی ہے بغیر پلاننگ کے ہوتا ہے۔ اس لئے جہاں چاہے منہ اٹھائے دوڑ پڑتی ہے۔ ایسے موقع پہ آُپکے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ سوچیں کہ میں اگر گائے یا بکرا  ہوتا تو دوڑ کر کہاں جاتا۔ نتیجتاً ایسے کسی واقعہ کے پیش آنے کی صورت میں آپ اسی طرف ہو لیتے ہیں جہاں جانور جاتا ہے۔ باقی زمانہ بھی چلو تم ادھر کو گائے ہو جدھر کو کی تصویر بن جاتا ہے۔ ایسا وقت پھر مجھ جیسے ڈرائیور کے لئے روز قیامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ میری بھی اس سلسلے میں کوئ پلاننگ نہیں ہوتی۔ اگر کوئ جانور میرے سامنے بھاگا چلا آرہا ہوتو میں بالکل صم بکم ہو جاءونگی۔ یہاں تک آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ پلاننگ کسے کہتے ہیں اور یہ بقاء اور قضا کے لئے کتنی ضروری ہے۔
اب فرض کیا کہ جانور کے سیدھے میرا مطلب سدھائے ہوئے ذہن میں ایسی کوئ بات نہیں آتی تو یہ مرحلہ بخیر و خوبی طے پا جاتا ہے۔ اور آپ اسے اسکی مرضی کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے یا اندرکسی کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں۔  اب کچھ لوگ جنہیں سیدھے سادے، شریف جانور پسند ہیں تو وہ نہایت حیا سے آنکھیں پٹپٹاتی گائے کی اس ادا پہ دل ہی دل میں نثار ہوتے رہتے ہیں۔
اگر جانور بھاگ جائے اور ستارےآپکے حق میں ہوں تو آپ اسے اپنی اور محلے والوں کی تگ و دو کے بعد دوبارہ پکڑ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی معالات کے بر عکس ایسی بھاگی ہوئ گائے پہ فخر و غرور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔  پھڑکنیاں کھاتا ہوا  دل اپنے جانور کی اس ادا پہ قتل ہوتا رہتا ہے کہ کیا جاندار چیز ہے، ظالم لگتا ہے کمان سے نکلا تیر ہے۔
 اسکے بعد کیا ہوتا ہے اسے پڑھنے کے لئے پہلے پیرا پہ واپس جائیں۔
جانور کا کھانے پینے انتظام کرنا بھی  دیہاتوں سے وابستہ ہمارے رومانی تصورات کو نکھار دیتا ہے۔  ہمارے شہر میں اکثر گھر کنالوں اور مرلوں پہ نہیں بنے ہوئے اس لئے شہر کی گلیاں اس زمانے میں آدھی رہ جاتی ہیں کہ آدھی گلی میں ان جانوروں کی باپردہ رہائیش کے لئے کیمپس بنا دئیے جاتے ہیں۔ جہاں محلے کے مخنچو، چھٹنکو، دادا، ہیرو اور بدمعاش سب حسب ذوق و شوق حاضری دیتے ہیں۔  اور ادائے جانوراں سے شغل فرماتے ہیں۔
لیکن اسکے ساتھ ایک نہایت دلچسپ مرحلہ اپنے جانوروں کی سجاوٹ ہے۔ پورے شہر میں جا بجا جانوروں کی آرائیشی اشیاء کی دوکانیں ان دنوں سج جاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  اپنے جانوروں کو سجانے سنوارنے میں ہمارے مرد کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے پرانے جانوروں کو ان قربانی کے جانوروں سے جیلسی محسوس ہوتی ہے۔ شہری خواتین اس چیز کو زیادہ دل سے نہیں لگاتیں۔ انکا خیال ہوتا ہے کہ اس بہانے ان پہ رہنے والی کڑی نظر بٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹھی عید پہ جس قدر پردے اور خواتین سے متعلق دیگر امور کا تذکرہ رہتا ہے بقر عید پہ یہ رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے فلمی اداکارائیں بھی اس مہینے اپنا کوئ اسکینڈل بنوانے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔
  ان دوکانوں پہ گلوں کے ہار، سینگوں میں ٹانگنے کی اشیاء، پیٹھ پہ بچھانے کی مختلف طرح کی چادر نما چیزیں، گلوں کی گھنٹیاں اور پیروں کے گھنگھرو شامل ہوتے ہیں۔ کچھ شوقین اس سب سے پہلے مہندی کی رسم بھی کرتے ہیں۔  گھنگھرو پہن کر جب جانور ٹھمک ٹھمک کر روڈ پہ چلتا ہے تو اس سے لا محالہ دل سے صدا نکلتی ہے کہ پائیل میں گیت ہیں چھم چھم کے تو لاکھ چلے رہ گوری تھم تھم کے اسکے علاوہ ڈرائیورز کو بھی یہ خبر ہو ہی جاتی ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔  چونکہ خواتین کے لئے بجنے والا زیور پہن کر چلنا درست نہیں تو یہ آرزو بھی یہ گئیاں اور بکرے بکریاں پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس بات کے ہم اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ کوئ خاتون کوئ چھنا چھن کرنے والا زیور پہن بھی لیں تو ہماری آنکھیں کسی گائے کا تصور کرتی رہتی ہیں۔
بقر عید پہ عشّاق کیا کرتے ہیں؟ میٹھی عید کی طرح گلی کے نکڑ یا چھت سے تاکا جھانکی یا فیس بک پہ ایک تحریری عید مبارک کے بجائے اس عید پہ موقع ہوتا ہے کہ آپ گائے کا حصہ لیکر انکے گھر پہنچ جائیں۔ بکرے کی ران یا گائے کا دس کلو کا پورا ایک بغیر ہڈی کا ٹکڑا انکے گھر والوں کو آپکے قدموں پہ ڈھیر کر دےگا۔ یہ کوئ مغرب نہیں کہ ڈائریکٹ محبوب پہ ہلہ مارا جائے۔  یہ مشرق ہے مشرق۔  ایک دفعہ گھر والوں کا دل مٹھی میں آجائے تو سمجھیں کہ اب محبوب چاہے بھی توآپ کے کھونٹے سے جان چھڑانی مشکل ہے۔ اسکے گھر والے اسے آپکے یہاں باندھ کر رہیں گے۔  البتہ اپنے گھر والوں کو اس ران یا گوشت کے ٹکڑے کی منزل آپ کہاں بتائیں گے یہ آپکی ذہانت اور محبت کی گہرائ پہ منحصر ہے۔
 عید میں سے اس تمام تر تفریح نکل جانے کے بعد خواتین کے لئے اس عید میں جو بچ جاتا ہے۔ وہ کچن میں نظر بند ہونا ہے۔ اس کے لئے وہ یا تو سال بھر کی جمع کی ہوئ ترکیبیں آزماتی ہیں یا پھر انکی اس بوریت کو دور کرنے کے لئے مختلف برانڈز کے تیار مصالحوں سے پرچون کی دوکانیں بھر جاتی ہیں۔ اس سے پھوہڑ عورتیں ہی نہیں سگھڑ مرد بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سلیقہ مندی کی داد پاتے ہیں۔ اسکے علاوہ خاندان میں چلی آنے والی سینہ بہ سینہ تراکیب بھی ہوتی ہیں۔  ہم بھی کھانا پکانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جتنی تراکیب ہیں سب خاندانی ہیں  اس لئے انہیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔ یوں ہماری مجبوری صرف مملکت یا کائینات کےراز افشا کرنا رہ جاتی ہے۔
لیکن ایک آسان سی ترکیب تو میں آپکو بتا سکتی ہوں۔ حسب مرتبہ گوشت لیجئیے اس میں حسب ذائقہ تمام مصالحہ جات ملا لیں۔ حسب وزن گوشت کچا پپیتا ملا دیں۔ حسب میسر وقت اسے پڑا رنے دیں اور پھر سیخوں پہ لگا کر بار بی کیو کر لیں۔  آپ کہیں گے یہ تو ہم بھی بتا سکتے ہیں۔ تو جو تراکیب  سینہ بسینہ نہ چلیں وہ بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اب آپکو پتہ چل گیا ہوگا کہ خاندان کس طرح بنتے اور سنبھالے جاتے ہیں۔
میرے پیارے قارئین، یہ کراچی میں بقرعید کا ایک دھندلا سا خاکہ تھا۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں بقر عید ایک انڈسٹری ہی نہیں سارے کمرشل مصالحوں سے بھرپور ایک تہوار ہے اس لئے اتنا ہِٹ جاتا ہے۔ 

Saturday, November 13, 2010

بچوں کی ابتدائ تعلیم

کراچی میں سی آئ ڈی کی بلڈنگ پہ شدید دھماکہ ہوا۔ پوری عمارت تباہ، پندرہ سے زائد لوگ ہلاک۔ سوسے زائد زخمیوں کی بڑی تعداد سر پہ چوٹ کا شکار۔ ایک کلومیٹر کے علاقے میں دو سو سے زیادہ گھر تباہ۔  بس اس سے آگے میں اس پہ کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ البتہ ان لوگوں میں سے ہوں جو سوچتے ہیں کہ اس قتل و غارتگری، جنگ و جدل کو کیا ہمارے بچوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ کون ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کو روکے گا اورکون انکے منجمد دماغوں کو زندگی کی قدر کرنے کی تحریک دے گا۔
-
-
-
-
میری ایک تبصرہ نگارماں ہیں اور ہر ماں کی طرح چاہتی ہیں کہ وہ اپنی بچی کی زندگی میں وہ سب آسانیاں دیں جو وہ دے سکتی ہیں۔ بچوں کے بارے میں سب سے پہلے تعلیم کا سوال اٹھتا ہے۔ 
 ذمہ دار والدین فکر مند رہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کن بنیادوں پہ استوار کریں۔ کراچی میں  بعض اسکولوں میں بچوں کی پیدائیش کے فوراً بعد رجسٹریشن کرانا ضروری ہوتی اور بعض بچے سوا سال کی عمر میں  اسکول میں داخل کرا دئیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ والدین کی اکثریت نہیں جانتی کہ یہ اسکول نہیں بلکہ پلے اسکول ہوتے ہیں۔ ان پلے اسکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں کرا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس عمر میں بچوں کو کھیل ہی کھیل میں اپنے ماحول سے آگہی دی جاتی ہے اور زندگی کے ابتدائ ادب آداب سکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ماءووں کی اکثریت چونکہ گھروں میں رہتی ہے اور انکے لئے اسکا وقت نکالنا مشکل نہیں بلکہ یہ انکی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری ماءووں کی اکثریت یا تو خود ان پڑھ ہوتی ہے، وہ خود ہی اپنے ماحول سے آگاہ نہیں ہوتی تو وہ اس سلسلے میں چاہنے کے باوجود کچھ کرنے سے معذور ہوتی ہے۔
وہ مائیں جو اتنی پڑھی لکھی ہیں کہ کمپیوٹر استعمال کر سکیں  اور انکے گھروں میں کمپیوٹر موجود بھی ہے انہیں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتے ہوئے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئیے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے آپ اپنے بچے کو اپنے گھر کے اندر اس سارے طریقے سے واقف کرا سکتے ہیں جو کہ والدین بہت زیادہ فیسوں کی ادائیگی اور دن رات کے تناءو کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور ہم اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنے بچوں کو وہ تمام علم دے سکتے ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں دیا جاتا ہے۔ یوں ٹیکنالوجی نے تمام انسانوں کو برابر کی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔
بچوں کی پہلی انسپیریشن انکے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اگر گھر میں والدین کتابوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو بچے بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں انہیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔  اس لئے سب سے پہلے خود پڑھنے کی عادت ڈالنہ چاہئیے۔
بچوں ک تربیت میں ایک چیز کا خیال ضروررکھنا چاہئیے کہ جب بھی آپکا بچہ کوئ نئ چیز سیکھتا ہے چاہے وہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو اسکی حوصلہ افزائ ضرور کریں۔ جب وہ آپکی ہدایات پہ عمل کرتا ہے اسے ڈھیر سارا پیار کریں اور خوب ساری تعریف۔ والدینکو بچوں کے سامنے لڑائ جھگڑے سے گریز کرنا چاہئیے۔ تعریف، محبت اور تحفظ کا احساس بچوں کے سیکھنے کے عمل کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہر بچہ فطری طور پہ اپنے والدین کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ اور ذرا سی تربیت سے وہ ہر کام آپکی مرضی کے مطابق کرنے لگتا ہے۔ سو تعریف اور محبت سب سے بڑی رشوت ہے۔
میں نے اپنی بچی کی ابتدائ تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نیٹ گردی سے بڑا فائدہ اٹھایا اور آج بھی اٹھا رہی ہوں۔ 
بچوں کے سامنے چیزیں دوہراتے رہنے سے وہ اسے یاد کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں رٹوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کمپیوٹر پہ چیزوں کو دوہرانا آسان ہوتا ہے۔  بچوں کو چیزیں یاد کروانے کے بجائے انکے سامنے چیزیں دوہرائیں، ایک ہی ویڈیو بار باردکھائیں۔ مگر اس میں وقفہ رکھیں۔ ایکدن ایک چیز کروالی اور دوسرے دن دوسری۔ کتاب کو بار بار انکے سامنے رکھ کر پڑھیں۔ انہیں مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن اسکے لئے آپکے اندر ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے اور وہ ہے صبر۔ 
میں نے اپنی بیٹی باقاعدہ تعلیم شروع کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کی عمر میں اس لنک کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے وہ چھوٹے بچوں کے پزل کرتی تھی۔ یہ پزلز ابتدا میں تو مجھے  بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے لا دئیے تھے۔  لیکن اب کراچی میں لکڑی کے یہ پزل بآسانی دستیاب ہیں۔ یہ مخلتف ساختیں کٹی ہوتی ہیں اور ان میں پلاسٹک کی میخ لگی ہوتی ہے جس سے بچے انہیں اٹھا کر دئیے ہوئے بورڈ پہ جما لیتے ہیں۔ لکڑی کے یہ پزل مختلف جانوروں سے لے کر انگریزی اور اردو کے حروف اور گنتی کے اعداد میں بھی مل جاتے ہیں۔ اعداد یا حروف کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے پہلے بچوں کو بالکل سادہ سے پزل سے شروع کرائیں۔ جن کی بیرونی ساخت کم پیچیدہ ہو۔ جیسے جیسے وہ اسے کرنے میں مہارت حاصل کر لیں پیچیدہ پزل کروانا شروع کر دیں۔
ڈیڑھ سال کی عمر میں، مشعل نے بارنی شو دیکھنا شروع کیا۔ اور اسکی ایک ویڈیو سانگز ان دا پارک اسکی پسندیدہ ویڈیو تھی۔ یہ ویڈیوز کسی بھی اچھے ویڈیو سینٹر سے بآسانی دستیاب ہیں۔ کراچی میں رینبو سینٹر میں صرف پچاس روپے میں ایک ڈی وی ڈی مل جاتی ہے۔ ہمم، لیکن یہ پائیریٹڈ ہوتی ہیں۔
جب ہم سب گھر والوں کو بارنی کی موجود ساری ویڈیوز یاد ہو گئیں اور ہم اس قبل ہو گئے کہ اسکے گانوں کی دھن ترتیب دے سکیں اور اسکے گانے آئ لو یو پہ ہم ہرروز مشعل کے ساتھ دن میں چھ دفعہ پرفارم کرتے تو اس وقت ڈورا دی ایکسپلورر نے زندگی کی اس گتھی کو سلجھایا۔ بارنی نے جہاں مشعل کو انگلش زبان سے واقفیت دی بچوں کے ناز و انداز سکھائے وہاں ڈورا نے مسائل  اور انکے حل کی طرف مشعل کی توجہ مبذول کروائ۔ مجھے بھی یہ ویڈیوز خاصی پسند ہیں یہ نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں بلکہ انہیں کافی کچھ سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ یہیں سے مشعل کی زندگی میں یہ جملہ داخل ہوا , آئ ڈِڈ اٹ۔ اسکے بعد مشعل نے کافی انگریزی اس سے سیکھی بلکہ اسپینش بھی۔ اسے اسپینش گنتی بھی دس تک یاد ہو گئ تھی۔ انکی پسندیدہ ڈورا سیوز مر میڈ کنگ ڈم بلا مبالغہ دو مہینے تک روزانہ دو دفعہ چلتی تھی۔ اور اسے دیکھنے کے دوران انکی کمنٹری بھی، اب یہ ہونے والا ہے۔ اس میں مشعل کا پسندیدہ سین ڈورا کا ایک مرمیڈ میں تبدیل ہونا تھا۔
لیکن اس دوران ہمارا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اینیمل زو سے ہم نے انگریزی کے بڑے حروف سیکھے۔ جبکہ مونٹیسوری میں پہلے چھوٹے حروف سکھائے جاتے ہیں یہ پتہ چلتے ہی میں نے چھوٹے حروف کی ویڈیو تلاش کی اور میں ایک اور مزے کی سائیٹ پہ پہنچی جسکا نام ہے سپر سمپل سونگز۔ یہاں پہ گنتی کے اعداد سکھانے  کے لئیے مدد ملی۔ اور یہیں سے دنوں کے نام سیکھے۔ یہاں بچوں کے لئے مزے کی انگلش نظمیں اور سرگرمیاں موجود ہیں۔  انگلش نظموں کے لئے مجھے ایک اور سائیٹ بے حد پسند ہے جو ہے کلّن کی سائیٹ۔
ہمم، لیکن مونٹیسوری کی جس چیز سے اکثر والدین بڑے مرعوب ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اسے بچوں کو کسطرح سکھائیں۔ وہ ہیں انگریزی حروف کی آوازیں یعنی فونیٹک ساءونڈز۔ اسکے لئے بہت ساری سائیٹس موجود ہیں ابتداً جو سائیٹ مل وہ ایک ایسی خاتون کی تھی جو اشاروں کی زبان بھی اپنی بچی کو ساتھ ساتھ سکھا رہی تھیں۔ اس طرح مشعل نے بھی کچھ اشارے سیکھے۔ یوں آوازوں والا مرحلہ نہایت ہمواری سے طے ہوا۔ مونٹیسوری جانے والے بچوں کی ماءووں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مشعل نے حروف کی آوازیں گھر پہ سیکھی ہیں۔   
رنگوں کی پہچان، مہینوں کے نام اور چھوٹے چھوٹے انگریزی سوال و جواب کے لئے ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا بزی بیورز۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ سائیٹ ہے نام ہے اسکا، لیٹس اسٹارٹ اسمارٹ۔
اردو حروف کے لئے پریشانی ہوئ۔ جو ایک آدھ سائیٹ ملیں وہ اتنی دلچسپ نہ تھیں۔ اگرچہ کہ میں نے انہیں پھر بھی مشعل کو دکھایا۔ اسکے لئے ایک ویڈیو میں نے خود بھی بنائ جو اس لنک پہ موجود ہے۔
یہ تو تھی اس نیٹ گردی کی ایک مختصر داستان، جو کہ خاصی طویل ہے لیکن یہ پوسٹ اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔  آجکل ہم  تصویروں میں فرق معلوم کرنا، ،جگسا پزل اور بھول بھلیاں کر رہے ہیں۔ یہ نیٹ پہ بھی موجود ہیں۔ نیٹ پہ بچوں کے لئے ایکٹیویٹیز کا ایک خزانہ موجود ہے۔ بس اسے آپکا وقت اور دلچسپی چاہئیے۔
ان تمام چیزوں کے ساتھ میں نے جس چیز کا خیال رکھا وہ یہ کہ بچی کے سوالوں کے آسان مگر صحیح جوابات ہونے چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہم اپنی زندگی میں کر رہے ہوتے ہیں اسے آسان الفاظ اور آسان خیال میں بتاتے رہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ  سوائے اسکے کہ بچوں کو اسکول میں دوسرے بچوں کی سنگت ملتی ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے والدین ہیں اور آپ کے پاس وقت ہے تو اس عمر میں بچوں کو اسکول بھیجنا بالکل ضروری نہیں۔  اپنی عمر کا یہ حصہ ہم میں سے بہت کم کو اور بہت ٹوٹا پھوٹا یاد ہوتا ہے۔ مگر اپنے بچوں کے ساتھ مونٹیسوری پڑھنا اسے سحر انگیز بنا دیتا ہے۔

یہ تحریر امن ایمان کی فرمائیش پہ لکھی گئ ہے۔ امن ایمان میرا خیال ہے کہ آپکے سوال کا جواب آپکو مل گیا ہوگا۔     

Monday, November 8, 2010

اوپن ہارٹ

میری ایک محقق دوست جرمنی سے واپس آئیں تو ان سے ملاقات ہوئ۔  باتوں باتوں میں وہاں کے قصے چھڑے تو بتانے لگیں کہ جب میں نے اپنی جرمن پروفیسر کو بتایا کہ ہمارے ساتھ جو میرے کولیگ موجود ہیں انکی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے۔ تو وہ پوچھنے لگیں کہ کہاں ہوئ تھی۔ میں نے بتایا پاکستان میں۔ ایکدم کندھے اچکا کر کچھ حقارت سے کہنے لگیں کہ کیا پاکستان میں ڈاکٹرز اوپن ہارٹ سرجری کر لیتے ہیں اور وہاں ہوتی ہے۔ اس سے میری دوست کے دل کو دکھ پہنچا۔ جرمن مغرور اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ یہ اکثر سننے میں آتا ہے۔ لیکن جب کوئ آپکے سامنے آپکے وطن کا تذکرہ حقارت سے کرے تو رنج تو ہوتا ہے۔
 ان کا یہ طرز عمل شاہد انکی لا علمی پہ مبنی تھا۔ جب لوگ اپنے آپ میں گم ہو جائیں تو اکثر وہ اپنے علم سے نہیں بلکہ لا علمی سے دوسروں کا دل دکھاتے ہیں یا انکے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو پچھلے کچھ سالوں سے معاشی بحران کا سامنا ہے جسکے نتیجے میں وہ اپنے باشندوں کو بنیادی سہولیات مناسب طور پہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسکی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں انتہائ اضافہ ہوا ہے اور یوں لوگوں کو اب ویسی آسانیاں میسر نہیں جیسی پہلے تھیں۔ بعض ممالک میں گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں تین تین سال تک کی لمبی لائن لگی ہوئ ہے۔
یوں دنیا کے وہ ممالک جو سستی طبی سہولیات اور بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ وہ پہلی دنیا کے عوام کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔  انڈیا میں تو یہ باقاعدہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کر گئ ہے۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیدا کرنا ہو، سر پہ مصنوعی بال لگوانے ہیں، دانتوں کا نیا سیٹ بنوانا ہے، گردوں کی پیوند کاری کروانی ہے ۔ لوگ اب ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ انڈیا میں تو یہ ایک صنعت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ آنے والا اپنے ساتھ ڈالرز لے کر آتا ہے۔ وہ جب اسے روپوں میں تبدیل کرتا ہے تو اسے زیادہ پیسے حاصل ہوتے ہیں۔ لوگ سیر تفریح کرتے ہیں، اپنا کام کرواتے ہیں، ایک نئ جگہ سے آشنائ حاصل کرتے ہیں اور خوش خوش اپنے ملک واپس جاتے ہیں۔ یہ کہلاتی ہے طبی سیاحت۔ اس سارے کے بعد بھی انکا کل خرچہ، انکے ملک میں ہونے والے خرچے سے خاصہ کم ہوتا ہے۔
انڈیا میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے رضاکار بھی بآسانی مل جاتے ہیں۔ غریب عوام اپنے اعضاء بیچنے کے لئے تیار ہے۔ ادھر پاکستان میں۔ لاہور میں بآسانی گردے مل جاتے ہیں۔ اور شہر میں یہ کاروبار ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں بہت سرگرمی سے چل رہا ہے۔ میں خود ایسے لوگوں سے مل چکی ہوں جو پاکستان سر پہ بال لگوانے یا دانتوں کے علاج کے لئے آئے تھے۔
انڈیا کے علاوہ اس خطے میں تھائ لینڈ بھی کام کر رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ صنعت پھلنے پھولنے کے امکانات ہیں اورکئ ڈاکٹرز اس سمت میں کام بھی کر رہے ہیں۔  اگرچہ  ہم مہنگائ کی وجہ سے مختلف سہولیات کو اپنے سے دور ہوتا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم روپوں میں کما کر روپوں میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کو سستی لگتی ہے جو ڈالرز لے کر ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔  یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ آجکل ایک ڈالر، پاکستانی تقریباً چھیاسی روپوں کا بن رہا ہے۔ میں جس اسپیشلسٹ کی آٹھ سو روپے فیس سن کر سوچ میں پڑ جاتی ہوں وہ ڈالر میں دس ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔ پہلی دنیا کے بازاروں میں دس ڈالر میں اچھے سیب شاید آٹھ دس آجائیں مگر ایک اچھا ڈاکٹر نہیں ملے گا۔
آپکو لگا کہ ان جرمن یونیورسٹی پروفیسر کو ہمارے خطے کے بارے میں کچھ کم آگاہی نہیں۔ بلکہ شاید وہ اپنے ہی خطے کے ان لوگوں کے بارے میں بھی واقف نہیں جو نیرنگی ء زمانہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہر ممکن طریقہ کام لا رہے ہیں۔ لیجئیے انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انڈیا کے انڈر ورلڈ ڈان داءود ابراہیم کی اوپن ہارٹ سرجری بھی کراچی میں ہوئ، آپس کی بات ہے ہمیں بھی اسی لنک سے پتہ چلا۔ 
اب یہ بتائیے کہ ایکدوسرے سے آگاہ رہنے کے لئے دنیا کے لوگوں کو کیا کرنا چاہئیے۔ایک  بات تو میں بتا دیتی ہوں۔ اپنے دلوں کو اوپن کر لیجئیے، اس سے پہلے کہ اوپن ہارٹ سرجری کی باری آئے۔ باقی اب آپکی باری ہے۔

Thursday, November 4, 2010

ٹونی بلیئر کی سالی کا مسلماں ہونا

ایک دہرئیے اور ایک خدائے واحد کا یقین رکھنے والے شخص کے درمیان بحث چھڑ گئ۔ گھمسان کا رن چھڑنے کے بعد وہ دونوں اٹھے تو دہریہ خدا کا قائل ہو چکا تھا اور قائیل خدا، دہریہ ہو چکا تھا۔
 اس صورت حال سے ملتا جلتا ایک مصرعہ ہمارے ہاتھ لگا اور ہم آج تک اس کا دوسرا مصرعہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ مصرعہ کچھ یوں ہے،  ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا۔ کچھ مصرعے جوڑے۔ مثلاً

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کوئ میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

 جاتی ہے کوئ کش مکش اندوہ عشق کی
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

عجب واعظ کی دینداری ہے یارب
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

دیکھنا تقریر کی  لذت کہ جو اس نے کہا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

کچھ اور بھی اٹکل پچو ہیں لیکن ایک تو یہ پوسٹ طویل ہو جائے گی دوسرے یہ کہ وارث صاحب ہمیں شاعری کے طول و عروض سکھانے کے بجائے دعا کرنے بیٹھ جائیں گے کہ اس حالت میں دعا ہی کام آ سکتی ہے۔ لیکن انکے دل کی تشفی کے لئے یہ واضح کرنا از حد ضروری ہے کہ اس چیز کا ہمیں احساس ہو چلا تھا کہ اس سے معنی و مطالب جتنے پھلیں پھولیں۔ کسی  بھی مجوزہ شعر میں وزن نہیں ہے۔ شاعری کیا ہے بات میں وزن کا ہونا۔ اس لئیے ایک دفعہ پھر اس مصرعے کو ہاتھ میں پکڑے بیٹھے تھے کہ اپنے ایک ساتھی پہ توجہ گئ۔
کیا دیکھتے ہیں کہ کمپیوٹر کے سامنے آنکھیں پھاڑے بیٹھے ہیں۔  اضطراری حالت میں  کبھی ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہیں، کبھی ایک فرضی داڑھی کو سہلاتے اور درست کرتے ہیں، کبھی کانوں کا مسح کرتے ہیں اور کبھی شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے  ہیں۔ ہر دو افعال کے درمیان مسکراتے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب نیکی علامت ہے مگر میرے شیطانی دل میں آئ کہ خاموشی سے انکے پیچھے  پہنچ جاءوں کہ کس سائیٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔  سوچا کہ انکی عمر کا تقاضہ ہے کبھی کبھی کے تصور میں برائ کیا ہے۔ لیکن عین اسی لمحے انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ اب چونکہ ہم بھی انہیں ہی دیکھ رہے تھے اس لئے مجبوراً پوچھنا پڑا کہ کیا بات ہے بڑے پر جوش نظر آرہے ہیں۔ کہنے لگے، آپکو پتہ ہے ٹونی بلیئر کی سالی مسلمان ہو گئ۔

تو اس میں اتنا خوش ہونے کی کیا بات ہے لگ رہا ہے کہ آپکی ہونے والی  سالی آپکے ہاتھ پہ  مشرف بہ اسلام ہوئ ہیں۔ اس بات پہ انکا چہرہ لال ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں فوری طور پہ تو یہی سمجھ آیا کہ ایک مشرقی، کنوارے مرد کو سالی کے تذکرے پہ اسی طرح حیا کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔
  کہنے لگے، انشاللہ، ہمارے اعمال درست رہے تو خدا ہمیں بھی کسی ایسی نیکی کی توفیق دے گا۔ جی ہاں، میں سمجھ رہی ہوں۔ اس بہانے آپ کسی گوری خاتون سے شادی کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ ٹونی بلیئر سے ایک میٹنگ کر لیں باہمی دلچسپی کے  امور پہ گفت و شنید کے لئے۔ بارے آپکے علم میں آجائے کہ وہ کون سی نیکی ٹونی بلیئر نے کی کہ اسکے نتیجے میں اتنی نیک سالی انہیں ملی۔
مذاق بنا رہی ہیں آپ میرا،  اہل کتاب خاتون سے تو مسلمان مرد کا شادی کرنا جائز ہے۔ اہل کتاب کا مسلمان مرد سے شادی کرنا جائز ہے تو مسلمان مرد انہیں مسلمان کیوں کرتے ہیں، میں ہنسی۔ آپکے عمران خان نے بھی جمائمہ خان کو مسلمان کر کے شادی کی تھی۔ پھر انکی علیحدگی ہو گئ اور وہ خاتون ایک مغربی خاتون کی طرح اپنے شب و روز اپنے وطن میں گذارنے لگیں۔ عمران خان یا انکی بیگم  کے تذکرے پہ وہ ایکدم لال ٹماٹر ہوئے۔ دیکھیں، وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کوئ شخص مسلمان ہونے کے بعد اپنے شب و روز کیسے گذارتا ہے یہ آپکا سر درد نہیں ہے۔ خاص طور پہ کسی نو مسلم اہل کتاب خاتون کے متعلق اس طرح بات کرنا تو اخلاقی طور پہ کوئ اچھی بات نہیں۔ پھر وہ اٹھے اور دراز سے چھری نکالی۔  میں نے چستی سے اپنے اور دروازے کے درمیان ، انکے اور دروازے کے درمیان اور پھر اپنے اور انکے درمیان فاصلے کو نظروں سے ناپا اور سوچا کہ تمام فاصلے انتہائ مناسب ہیں اور اگر میں ذرا بھی جسمانی پھرتی سے کام لوں تو فرشتوں کے حساب سود زیاں والے انٹرویو سے جلدی سامنا ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔
اس لئے ایک دفعہ پھر ہمت کڑی کر کے  اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا۔ یہ بتائیے کہ ایک نو مسلم اہل کتاب خاتون کو جب آپ تمام رعائیتیں دینے کو تیار ہیں تو کئ اور جدی پشتی مسلمان خواتین کو جو مشرقی روایات کی خاصی حد تک علمبردارہیں کیوں ہر وقت اسلام کے دائرے سے باہر کرنے پہ  کمر بستہ رہتے ہیں یہی سلوک آپکا جدی پشتی مسلمان مردوں کے ساتھ بھی ہے۔ آخر کیوں؟
جواباً وہ چھری کی نوک پہ سیب کی ایک قاش پھنسا کر میرے ذرا قریب آ گئے۔  ایسے ہی جدی پشتی مسلمانوں نے مسلمانوں کی عزت کا جنازہ نکال ڈالا ہے۔ اب ان جیسے روشن خیال ڈھیٹ دیکھ لیں پاسباں ملیں گے کعبے کو صنم خانے سے۔ پھر سیب کی اس قاش کو کچر کچر چبانے لگے۔ 
میرا تو خیال ہے کہ آجکل کے حالات دیکھتے ہوئے ٹونی بلیئر کی سالی کا مسلمان ہونا ہی اسکے روشن خیال اور ڈھیٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ میں نے اپنے دوپٹے کے پلو کو  تفکر میں مروڑا۔  لیکن پھر اچانک ہی  میرے منہ سے ایک ہلکی پر جوش چیخ نکلی۔ واءو، یوریکا شعر مکمل ہو گیا۔
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے بھائ میاں
ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

انہوں نے مجھے ترس کھانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اور جا کر اس خبر کو دوسرے جدی پشتیوں کو اس طعنے کے ساتھ فارورڈ کرنے لگے کہ  بے حیا ، شرم کر۔
-
-
-

چھری واپس دراز میں ، سیب پیٹ میں۔ میں اپنی جگہ محفوظ۔ لیکن یہ کیسی سرگوشی ہے؟
اب بھی وزن پورا نہیں ہوا۔
شاعری کیا ہے بات میں وزن کا پیدا ہونا۔ 
مجھے تو لگتا ہے یہ مصرعہ کسی کی سازش ہے یا بد دعا۔

Monday, November 1, 2010

مہنگائ کے مارے

مہنگائ کا عفریت ہم سب کو نگلنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ مگر سلام ہے ہماری قوم پہ کہ نہایت استقامت سے تقدیر پہ راضی بہ رضا ہے۔ حالانکہ شاعر مشرق فرما کر جا چکے کہ تقدیر کے پابند ہیں نباتات، جمادات۔ اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم نباتات ہیں یا جمادات۔
ویسے تو ہر تھوڑے دنوں میں ہی چیزوں کی قیمتیں بدل جاتی ہیں۔ اور پچھلے سال کی قیمتوں کا بیان معلوم ہوتا ہے کہ قصہ ء پارینہ ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گوشت ڈھائ سو روپے کلو تھا اب سوا تین سو روپے کلو ہے۔ 
عید کے فوراً بعد ، گھر میں کچھ ایسے مسائل آ کھڑے ہوئے کہ میں فوری طور پہ بازار نہ جا سکی۔ تقریبا آٹھ دن بعد جب فرج نے اعلان کیا کہ ذخیرہ کی ہوئ تمام سبزیاں ختم ہو گئیں ہیں تو میں نے جمعہ بازار کا رخ کیا۔
لیکن وہاں داخل ہوتے ہی حیرت کا دھچکہ لگا۔ پیاز پچاس روپے کلو، آلو چالیس روپے، ٹماٹر اسی روپے، بھنڈی اسّی روپے، اور لوکی جیسی معصوم سبزی  بھی پچاس روپے کلو۔
سوچا، قوم عید منا رہی ہے۔ منڈی میں مال پہنچا نہیں ہوگا۔ لیکن اگلے پانچ دن بعد بھی جب حالات یہی رہے اور دوکاندار کلو کے بجائے پاءو میں بھاءو بتاتے نظر آَئے۔ پندرہ روپے پاءو ٹنڈے  اور پندرہ روپے پاءو بیگن۔ تو کیا اب ہم سبزی بھی پاءو کے حساب سے خریدیں گے؟
  میں نے اپنے خیال پہ نظر ثانی کی۔ قوم عید نہیں منا رہی، خود کشی کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ لیکن قوم پہ نوحہ پڑھنے کے علاوہ میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے گھر آ کر سوچا اور اسی دن مالی کو اس بات کا احساس دلاتے ہوئے کہ اسکی لاپرواہی سے گھاس میں چھوٹے چھوٹے جنگلی پودے نکل آئے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ یہ سب محنت کیوں۔ کیا اس لئے کہ گرمیوں میں کچھ موتئیے کے پھول آجائیں اور سردیوں میں رات کی رانی مہکے۔  اس چھوٹے سے لان کی ہری بھری گھاس دیکھ کر لوگ کہیں گھاس تو بڑی اچھی ہے آپ کی۔ یا فرن کے ایک قطار میں لگے پودوں کی خوش نمائ دیکھوں اور منی پلانٹ کے بڑے بڑے پتوں پہ نثار ہوتی رہوں۔
اسی دن میں نے فیصلہ کیا کہ پانی کی عظیم نعمت اور زمین کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ، اپنے صحیح استعما ل میں آنا چاہئیے۔ ترجیحات کا تعین  نئے سرے سے ہونا چاہئیے۔ اگر ہمارے حکمراں، ہمارے رہ نما، ہمارے دانشور، ہمارے بوڑھے اور ہمارے جوان اس بات کو محسوس نہیں کر پا رہے تو مجھے تو اپنے طور پہ اپنی ترجیحات متعین کر نے کی آزادی ہے۔
 میں اسی وقت نیٹ پہ بیٹھی کہ کراچی میں اچھے بیج کہاں ملیں گے۔ کیونکہ اس سے پہلے ایک دفعہ کیا گیا میرا تجربہ بیج اچھے معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے فیل ہو گیا تھا۔
زیادہ تر پتے جو حاصل ہوئے وہ پرانے شہر کے تھے۔ جہاں کی گلیوں سے میری اتنی واقفیت نہیں اور وہاں گاڑی کی پارکنگ کا سنگین مسئلہ بھی رہتا ہے۔ ایک بلاگ پہ سرچ کرتے ہوئے مجھے ایک موبائل نمبر ملا جو کسی توفیق پاشا کا تھا۔
اگلے دن صبح میں نے انہیں فون کیا۔ انگیج تھا۔ پھر میں سوچنے لگی باقی کے نمبروں میں سے کس سے بات کروں کہ میرا فون بج اٹھا۔ یہ توفیق پاشا تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں نے انہیں فون کیا تھا۔ میں انکے اخلاق سے متائثر ہوئ، انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔
 معلوم ہوا کہ وہ ٹی وی کے کسی چینل سے جس کا نام میں اس وقت بھول گئ ہوں باغبانی کا ایک پروگرام  باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ خیر، انہوں نے مجھے ایمپریس مارکیٹ اور سبزی منڈی کے قریب ایسی دوکانوں کے بارے میں بتایا۔ جہاں سے وہ بیج لیتے ہیں۔ اسکے علاوہ ڈیفینس میں لوٹیا کی دوکان موجود ہے۔

ایمپرہس مارکیٹ کراچی
 میں نے ڈیفینس والا پتہ نظر انداز کیا کہ چیزیں امکان یہی ہے کہ زیادہ قیمتوں کی ہونگیں۔
اگلے دن ایمپریس مارکیٹ صدر کا رخ کیا، وہاں پہ عبداللہ سیڈ اسٹور تلاش کرنا مشکل نہ تھا۔ ایمپریس مارکیٹ اپنے ماحول کی وجہ سے مجھے خاصی پسند ہے۔ حالانکہ اس مارکیٹ میں پہلی دفعہ میں اپنی شادی کے بعد گئ۔
جناب وہاں سے مجھے بیج مل گئے۔ شملہ مرچ ہری اور لال، کھیرا، ٹماٹر، تورئ، سیم، بروکلی، سلاد پتہ،ہرا دھنیا، اسکے علاوہ موسمی پھولوں کے بیج۔ اگلے دن صبح مشعل کو اسکول چھوڑا اور واپسی پہ کھاد والے کے پاس  سے دو طرح کی کھاد لی۔ ایک گٹر کی کھاد کہلاتی اور دوسری اوجھڑی والی۔ اور ایک بوری ریت کی بھی۔  یہ سب سامان لے کر گھر لوٹی۔ گھر آ کر خالی گملوں کو نکال کر انہیں پنیری کے لئے تیار کیا یعنی مٹی اور کھاد ڈالی۔ باقی گملوں کے بارے میں کڑا فیصلہ کیا کہ کس میںسے پودے ہٹانے ہیں۔ لان میں ایک موتئیے کا جھاڑ ایک کونے سے نکلوایا۔ ایک پودا کافی ہے۔ یہ یاد رکھنے کو کہ موتئیے کا پھول ایسا ہوتا ہے۔ اسکی جگہ تورئ کے بیج ڈالدئیے۔ایک کیاری سے للّی کے پھول کے پودے سارے نکلوا دئیے۔ گملے میں ایک پودا کافی ہے۔ اور اسکی جگہ ہرا دھنیا لگا دیا۔ایک تین فٹ اونچے گملے میں سیم کے بیج لگا دئیے ہیں اور ایک پلاسٹک کی ڈھائ فٹ اونچی بالٹی میں کھیرے کے بیج۔  پھر مالی سے کہا کہ فرن کے سارے پودے ہٹانے ہیں اسکی جگہ سلاد پتہ اور بروکلی لگا دیں گے۔ فرن کے تذکرے پہ اسکا دل ٹوٹا۔ کہنے لگا باجی، اب سارا لان ایسا مت کر دیجئیے گا۔ دل میں سوچ رہا ہوگا کہ کیا لان کے اوپر ہلاکو خان بنی ہوئ ہیں۔ لیکن اسے خبر ہونی چاہئیے کہ جب ملک میں اندہیر نگری چوپٹ راج ہو تو ہلاکوءوں کی عید ہوتی ہے۔ اچھا، باقی سارے بیجوں کو گملوں میں لگا دیا کہ انکی پنیری تیار ہو جائے۔  پھر سوچیں گے کہ انہیں کہاں فٹ کرنا ہے یا انکے لئے مزید گملے لے کر پچھلے صحن میں ڈال دئیے جائیں۔

کچھ پودے نکل آئے ہیں۔ اب آگے کے مسائل شروع ہو رہے ہیں۔ ایک بلی کہیں سے رات کو آجاتی ہے جو مختلف جگہوں پہ گملوں اور زمین کو کھود دیتی ہے۔ بغیر یہ خیال کئیے کہ اس میں ننھے ننھے پودے ہیں۔ اپنی غلاظت کو چھپانے کے لئے مناسب مقام تلاش کرتی پھرتی ہے۔ ایک دفعہ پھر میں نے پھر نیٹ پہ سرچ کی کہ بلی کو کیسے بھگایا جائے۔  اور نتیجے میں اگلے دن زمیں پہ پسی ہوئ کافی کا پوڈر پھیلا دیا۔  اس کے لئے میں اپنے شوہر صاحب کی کافی پینے کی عادت کی شکر گذار ہوں۔ وہ روز اپنی کافی پیستے ہیں اور پھر ایک لمبا کپ بلیک کافی کا تیار کرتے ہیں۔  بغیر دودھ اور شکر کی یہ کافی نہ صرف اچھی کھاد ہے بلکہ بلیاں بھی اسکی بو سے بھاگتی ہیں۔
آجکل روزانہ صبح اٹھ کر اپنے ننھے پودوں کی قامت میں ا ضافے اور صحت کو دیکھتی ہوں اور اس دن کے خواب سجاتی ہوں جب کم از کم سبزی میں خود کفالت کو حاصل کرونگی۔


رہے ملکی حالات تو اس پہ بعد میں گفتگو ہوگی۔ تھرڈ ورلڈ  ملک میں رہنے کا فائدہ ہے کہ آپکو دنیا کی بے ثباتی پہ سوچنے کا یا تو موقع نہیں ملتا یا پھریقین نہیں رہتا۔