بس میں نے دال بگھار کر اپنا کچن کا کام ختم ہی کیا تھا کہ فون بجا۔ اٹھایا تو ایک ادیبہ دوست تھیں۔ سلام دعا کے فوراً بعد ہی کہنے لگیں ، 'آفس سے فون کر رہی ہوں یہ پوچھنا تھا کہ شرمین عبید کو ایوارڈ ملا اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟'۔ مستقل قارئین کو تو معلوم ہی ہے کہ میرا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
میں نے ان سے دریافت کیا کراچی میں لٹریچر فیسٹول ہوا کیا آپ اس میں گئ تھیں۔ کہنے لگیں ، مجھے دعوت نامہ تو نہیں ملا تھا لیکن کسی اور ذریعے سے خبر ملی ، میں نے کوشش کی لیکن وہ اس قدر کونے میں ہے کہ جا نہیں سکی۔ البتہ کانفرنس میں آئے چند غیر ملکی ادیبوں سے میری کہیں اور ملاقات ہوئ۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ آخر اردو لکھنے والے اس روئیے کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ آخر یہ کیسے ہوتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہو اور اس میں اردو کو اور اسکے لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جائے۔
لیکن میں آپ سے شرمین عبید کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ وہ اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹیں۔
میں نے ان سے دریافت کیا کراچی میں لٹریچر فیسٹول ہوا کیا آپ اس میں گئ تھیں۔ کہنے لگیں ، مجھے دعوت نامہ تو نہیں ملا تھا لیکن کسی اور ذریعے سے خبر ملی ، میں نے کوشش کی لیکن وہ اس قدر کونے میں ہے کہ جا نہیں سکی۔ البتہ کانفرنس میں آئے چند غیر ملکی ادیبوں سے میری کہیں اور ملاقات ہوئ۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ آخر اردو لکھنے والے اس روئیے کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ آخر یہ کیسے ہوتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہو اور اس میں اردو کو اور اسکے لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جائے۔
لیکن میں آپ سے شرمین عبید کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ وہ اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹیں۔
میں ایک ایسی فلم کے بارے میں کیا رائے دوں۔ جسکی تخلیقی زبان وہ ہے جو ملک کے دو فیصد سے بھی کم لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ جو بولتے اور سمجھتے ہیں انکی اکثریت مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ یہ سب دیکھ کر' کیا جاہلیت ہے' کہہ کر اپنی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ فلم ہے جو کسی نے اب تک پاکستان میں نہیں دیکھی۔ البتہ یہ کہ اسکا موضوع پاکستان کے ماحول سے لیا گیا ہے اور بنانے والی خاتون کی جائے پیدائش پاکستان ہے۔
کیا آپ نے فلم دیکھی ہے؟ میں نے ان سے پلٹ کر سوال کیا۔ جواب نفی میں ملا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپکو کسی ذریعے سے مل گئ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا۔ جی نہیں اسکے حقوق کسی غیر ملکی چینل کے پاس محفوظ ہونگے ایسے نہیں ملے گی۔ اخبار سے اطلاع ملی کہ موصوفہ اب اسے اردو میں ڈھالنے کا کام کریں گی۔ حالانکہ فلم کی پہلی ریلیز کے وقت اس میں اردو سب ٹائٹل دالے جا سکتے تھے۔
کیا آپ نے فلم دیکھی ہے؟ میں نے ان سے پلٹ کر سوال کیا۔ جواب نفی میں ملا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپکو کسی ذریعے سے مل گئ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا۔ جی نہیں اسکے حقوق کسی غیر ملکی چینل کے پاس محفوظ ہونگے ایسے نہیں ملے گی۔ اخبار سے اطلاع ملی کہ موصوفہ اب اسے اردو میں ڈھالنے کا کام کریں گی۔ حالانکہ فلم کی پہلی ریلیز کے وقت اس میں اردو سب ٹائٹل دالے جا سکتے تھے۔
کیا یہ ہمارا المیہ نہیں کہ ہمارے جو لوگ علم کے وسائل تک زیادہ پہنچ رکھتے ہیں دنیا سے انکی واقفیت زیادہ ہوتی ہے وہ محض اپنے نام و نمود کے لئے عوامی زبان کے بجائے اس زبان کو ترجیح دیتے ہیں جو اس ملک کے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ انکی ترجیح بین الاقوامی منڈی ہوتی ہے اور اس ملک کی زمین نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محض ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو صحافت اور اردو ادب، انگریزی صحافت اور انگریزی ادب ایک دوسرے سے کس قدر چاند اور سورج کی دوری پہ موجود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محض ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو صحافت اور اردو ادب، انگریزی صحافت اور انگریزی ادب ایک دوسرے سے کس قدر چاند اور سورج کی دوری پہ موجود ہیں۔
آج ایک عام بیس سالہ نوجوان جب نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر مذہبی جذبے سے سرشار ہو رہا ہوتا ہے تو عین اسی وقت ایک انگریزی جاننے والا اسی عمر کا نوجوان محمد حنیف کے اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز پڑھ کر ہماری سیاسی اور ثقافتی زبوں حالی کی وجوہات کو جان رہا ہوتا ہے۔ کم از کم اس میںمخالف بات کو سننے کا حوصلہ تو پیدا ہوتا ہے۔
اردو اخبار جنگ کا اتوار کا میگزین پڑھ کر جب ایک عام پاکستانی عورت، روائیتی فرماں بردار بیوی، بیٹی، بہن اور بہو بننے کے طریقے سیکھ رہی ہوتی ہے تو انگریزی اخبار کے اتوار کے میگزین کو پڑھنے والی عورت یہ جان رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مونٹیسوری کی تعلیم میں کیسے مدد کر سکتی ہے، کوئ خاتون اپنے معذور بچوں کی کیا مدد کر سکتی ہے، اپنے آپ کو چھاتی کے کینسر سے کیسے بچا سکتی ہے، اپنی روزانہ کی زندگی میں کارآمد مشغلے کیسے اختیار کر سکتی ہے اگر وہ پیشہ ور خاتون ہے تو کیسے ملازمت کے دوران جنسی ہراسمنٹ سے بچ سکتی ہے، یہ جان سکتی ہے کہ اسکے ملک میں دیگر پڑھی لکھی خواتین کیا کر رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہی نہیں اگر کسی بھی کتاب فروخت کرنے والی جگہہ کا جائزہ لیں تو وہاں اردو میں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں ملیں گی۔ جب کہ انگریزی کتابوں میں دنیا کے ہر موضوع پہ ہر طرح کی کتابیں نظر آئیں گی۔
کیا یہ طبقہ یہ سوچتا ہے کہ کیوں عمیرہ احمد ایک اکثریت کو پسند ہے اور کیوں محمد حنیف کو پاکستان میں ایک محدود طبقے کے علاوہ کوئ نہیں جانتا۔ جب محمد حنیف لکھتے وقت یہ سوچتے ہونگے کہ کس طرح انکے لکھے کو بین الاقوامی سطح پہ دیکھا جائے گا اس وقت عمیرہ احمد کیا یہ سوچتی ہوگی۔ عمیرہ احمد اس وقت اردو کی معروف لکھاری ہیں اور وطن میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان سے واقف ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنا سفر خواتین اردو ڈائجسٹ سے شروع کیا اور محمد حنیف نے امریکہ کے پبلشنگ ادارے سے۔ عمیرہ احمد کو پاکستان میں توجہ ملی اور محمد حنیف عالمی سطح پہ مداح حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔ ایک نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے لکھا دوسرے نے تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے دلچسپ حقائق کو اس دنیا کے سامنے پیش کیا جہاں لوگ اس ملک کے بارے میں متجسس رہتے ہیں کہ یہاں پہ دہشت گردی کیسے پھل پھول رہی ہے۔ صرف تجسس، ایک جاہل معاشرے کو اسکی جاہلیت کا طعنہ دینے کا تجسس۔
کیا یہ طبقہ یہ سوچتا ہے کہ کیوں عمیرہ احمد ایک اکثریت کو پسند ہے اور کیوں محمد حنیف کو پاکستان میں ایک محدود طبقے کے علاوہ کوئ نہیں جانتا۔ جب محمد حنیف لکھتے وقت یہ سوچتے ہونگے کہ کس طرح انکے لکھے کو بین الاقوامی سطح پہ دیکھا جائے گا اس وقت عمیرہ احمد کیا یہ سوچتی ہوگی۔ عمیرہ احمد اس وقت اردو کی معروف لکھاری ہیں اور وطن میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان سے واقف ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنا سفر خواتین اردو ڈائجسٹ سے شروع کیا اور محمد حنیف نے امریکہ کے پبلشنگ ادارے سے۔ عمیرہ احمد کو پاکستان میں توجہ ملی اور محمد حنیف عالمی سطح پہ مداح حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔ ایک نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے لکھا دوسرے نے تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے دلچسپ حقائق کو اس دنیا کے سامنے پیش کیا جہاں لوگ اس ملک کے بارے میں متجسس رہتے ہیں کہ یہاں پہ دہشت گردی کیسے پھل پھول رہی ہے۔ صرف تجسس، ایک جاہل معاشرے کو اسکی جاہلیت کا طعنہ دینے کا تجسس۔
ادھر پاکستانی بلاگنگ کی دنیا دیکھیں۔ اردو سے کہیں زیادہ بلاگز انگریزی میں ہیں۔ انگریزی بلاگنگ میں پیسے ملنے کے امکانات زیادہ ہیں، شہرت کے امکانات زیادہ ہیں۔ آپ ایک بین الاقوامی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ تبصرے، زیادہ ویوز۔ مگر اس سے پاکستان میں عوامی تبدیلی کیا پیدا ہو سکتی ہے؟
جیسی نیت ویسا پھل۔
نتیجے میں ایک طبقے سے سلمان تاثیر پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے سے جو اکثریت میں ہے ممتاز قادری اور اس پہ پھول برسانے والے پیدا ہوتے ہیں۔ جب سلمان تاثیر مارے جاتے ہیں تو انکا طبقہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے ہو گیا۔ وہ اس بات پہ دہشت زدہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں عدم برداشت کس قدر بڑھ گئ ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو جاننے سے دور رہتا ہے کہ اس معاشرتی روئیے میں انکا اپنا رویہ شامل ہے۔
میں اگر اس تلخ حقیقت کو اس طرح بیان کروں تو شاید کچھ لوگوں کو شدید لگے گا۔ لیکن یہ کہ ہمارے اس طبقے کی کیفیت اس شخص سے مختلف نہیں جو اپنے زخم کو کرید کرید کر ہرا رکھتا ہے کیونکہ اسے اس زخم کو سہلانے اور اسکی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں، مزہ آتا ہے۔ یہاں تو شہرت بھی ملتی ہے۔ لیکن دھیان رہنا چاہئے کہ ایک زخم کو کرید کر ہمیشہ ہرا رکھا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔
اس ملک میں تبدیلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرنے والے اپنی زبان وہ نہیں کر لیتے جو عوام کی زبان ہے۔ یہ حقیقت تو اب برطانیہ جیسے ملک نے بھی سمجھ لی ہے اور اپنی پہلی اردو ویب سائیٹ بھی بنا لی۔
میں اگر اس تلخ حقیقت کو اس طرح بیان کروں تو شاید کچھ لوگوں کو شدید لگے گا۔ لیکن یہ کہ ہمارے اس طبقے کی کیفیت اس شخص سے مختلف نہیں جو اپنے زخم کو کرید کرید کر ہرا رکھتا ہے کیونکہ اسے اس زخم کو سہلانے اور اسکی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں، مزہ آتا ہے۔ یہاں تو شہرت بھی ملتی ہے۔ لیکن دھیان رہنا چاہئے کہ ایک زخم کو کرید کر ہمیشہ ہرا رکھا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔
اس ملک میں تبدیلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرنے والے اپنی زبان وہ نہیں کر لیتے جو عوام کی زبان ہے۔ یہ حقیقت تو اب برطانیہ جیسے ملک نے بھی سمجھ لی ہے اور اپنی پہلی اردو ویب سائیٹ بھی بنا لی۔
یہ بات اتنی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ آپ جنہیں تبدیلی سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ انکے متعلق آپ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے اسکی زبان میں بات کرتے ہیں لیکن ان سے انکی زبان میں بات نہیں کرتے۔ انکے مسائل کے حل کے لئے ہر ٹام اینڈ جیری سے مشورہ لیتے ہیں لیکن مسائل کے یہ حل کبھی انکے سامنے نہیں رکھتے اور نہ ہی اسکے لئے خود کوشش کرتے ہیں۔
خیر، میں آجکل ایک کتا پال رہی ہوں وہ بھی بیلجیئن شیفرڈ جیسا۔ یہ کتا بے حد ذہین اور وفادار جانور ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے انسانوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا موقع نہ ملے اور کوئ اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے روزانہ کچھ وقت اسکے ساتھ نہ گذارے تو یہ حد سے زیادہ خونخوار بن جاتا ہے۔ اور معمولی باتوں پہ حملہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔ یہی نہیں اسے اندازہ ہو جائے کہ مالک مجھے قابو نہیں کر سکتا تو وہ مالک پہ قابو پا لیتا ہے۔ مجھے اسے اپنا مطیع بنانےاور اسکی صلاحیتوں کواپنے حق میں رکھنے کے لئے، اسے نہ صرف احساس تحفظ دینا ہو گا بلکہ اسے یقین دلانا ہوگا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اسکی زبان سمجھتی ہوں۔ کہتے ہیں بیلجیئن شیفرڈ احسان فراموشی نہیں کرتا۔
اس لئے میں تو چلی اسکی زبان سمجھنے اور اسے اپنی سمجھانے۔