خالہ کی شادی کی ہلچل مچی ہوئ تھی۔ شادی میں صرف ایکدن رہ گیا تھا۔ گھر میں عجیب افراتفری تھی۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئ نہ کوئ بات اٹھ کھڑی ہوتی ۔ لیکن میرے ساتھ بالکل عجیب ہی واقعہ پیش آیا۔ میں تیزی سے صحن سے گزر رہی تھی کہ وہاں پہ موجود رات کی رانی میں میرا دوپٹہ جا کر اٹک گیا۔میں نے اسے تھوڑآ سا جھٹکا دیکر نکالنا چاہا مگر وہ کچھ اور پھنس گیا۔ ایک اور کوشش کی مگر دوپٹہ اور زیادہ الجھ گیا۔ اب میں نے جھنجھلاہٹ میں جو اپنا دوپٹہ کھینچا تو اچانک ایک عجیب دو سینگوں والی مخلوق میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئ جسکے پیر ندارد۔ اس نے میرا دوپٹہ پکڑا ہوا تھا۔ پہلا خیال میرے ذہن میں آیا کہ میری ملاقات ایک جن سے ہو رہی ہے۔ وہ بھی اپنی خالہ کی شادی سے ایکدن پہلے۔
اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ جن تو ہوتے ہی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے جناب۔ ورنہ اس قسم کے شعر کیوں کہے جاتے کہ جن پہ تکیہ تھا اور پتے ہوا دینے لگے۔ پھر اس قسم کی نشانیاں کیوں بتائی جاتیں کہ جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاءووں میں چھالے ہونگے۔ اور وہ خود یہ نہ کہتے کہ ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں۔ یہ سب ثبوت ہے اس بات کا کہ جن ہوتے ہیں۔
اچھا قصہ آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے آنجناب جن سے کانپتی ہوئ آواز میں کہا کہ میرا دوپٹہ چھوڑ دیں ۔ اس نے ایک قہقہہ لگایا ۔ ہاہا، خاخا خوں۔ اب میں اور دہل گئ۔ میرا دووووپ پ پ پ ٹ ٹ ٹ ٹ آآآ۔ میں تمہیں لینےآیا ہوں۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ کیا، میری خالہ کی شادی ہے کل۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں تمہیں لے جاءونگا۔ میں جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ ہاہا، خاخا، خو ں ں ں خ خ۔
اب مجھے دل ہی دل میں صدمہ ہو گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سب شادی کی تیاریوں میں ایکدم غرق ہیں میری اس کمبخت جن سے کیوں ملاقات ہو گئ۔ ساتھ ہی اس بات پہ حیرت تھی کہ کسی اور کو کیوں نہیں پتہ چل رہا کہ ایک جن میرے لئے مصیبت بنا ہوا ہے۔ تم بد تمیز جن، تم یہاں سے چلے جاءو۔ میں نے زور سے چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن میری آوز جیسے ایک کنوئیں سے آ رہی تھی۔ ۔ میں جا رہا ہوں لیکن چوبیس گھنٹے میں واپس آءوونگا۔ اور پھر وہ کرونگا جو میں نے کہاہے۔۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ہاہاہا، خاخا خاخا، خوں خاااااار۔یہ کہہ کر وہ دھوئیں میں تحلیل ہو گیا۔
میں جنوں پہ یقین نہیں رکھتی تھی اور جب اپنے پسندیدہ شاعر کے اس قسم کے شعر پڑھتی کہ
میں نے جنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
تو مجھے اس نکتے پہ نہ صرف ان سے خاصہ اختلاف ہوتا بلکہ افسوس بھی۔
اچھا اب آگے کی سنئیے۔ میں خوف اور سکتے کے عالم میں جیسے برف ہو گئ تھی۔ اور پھر برف جیسے پگھلنا شروع ہوئ۔ تو سب سے پہلے آنکھوں کی پگھلی۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ چھت پہ پنکھا گھوم رہا تھا۔ اسکی سررر کی آواز گونج رہی تھی لیکن اس جن کے قہقہے اسکی آواز پہ بھاری تھے اور ابھی تک میری سماعت پہ ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ میں نے ہاتھ پھیرا میں فرش پہ بچھی چاندنی پر موجود تھی۔ یہ جناتی قہقہے کیوں ختم نہیں ہو رہے۔ میں نےگردن گھمائ۔ امی کی پھوپی جان میرے کندھے سے سر جوڑے میری طرف سر کئیےسو رہی تھیں۔ اور انکے خراٹوں کی آواز سے ہر چیز لرز رہی تھی۔ خاخاخوںخررر۔
یہ تو بہت خطرناک جن ہوتاہے
ReplyDeleteعنيقہ حد ہو گئ پہلے خُود ڈريں پھر ہميں ڈرا ڈرا کر مار ڈالا اور آخِر ميں ہُوا کيا مُقابلہءِ خراٹاں ہمم
ReplyDeleteاب اگر ميں يہ کہُوں کہ ايسا ہی ايک بہُت اچھا جِن ميں نے بھی رکّھا ہُوا ہے مُستقِل تو کيا کہيں گی آپ کہ آنکھ کُھلنے اور زبردستی کُھلوانے پر اِتنی معصُوميت سے سوال ہوتا ہے کيُوں کيا ہُوا ؟ سوتی کيُوں نہيں ہو بندہ پُوچھے اِتنے دھماکے دارخراٹوں کے درميان کوئ کيسے سو سکتا ہے ؟کہ خواب تو ٹُوٹ بھی جاتے ہيں
کاش آپ کی امی کی پھوپی جان کے پاس کمپیوٹر بمع انٹرنیٹ ہوتا
ReplyDeleteہا ہا ہا
ReplyDeleteکڑیاں ہوتی ہی ڈرپوک ہیں
واہ جی، کس جن سے ملاقات کرادی!
ReplyDeleteوہ کیا کہتے ہیں کہ
ReplyDeleteفراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
ورنہ آپ کو مشورہ دیتے کہ گوگل کوہ قاف میں اپنا بلاگ شامل کریں تاکہ دوبارہ کوءی جن ایسی گستاخی کی جرات نا کرے۔۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ
جن کی کیا بات کریں جن تو ہیں ناداں۔۔۔
اچھی کہانی بنائی ہے
ReplyDeleteہا ہا ہا ہا !!!ـ
ReplyDeleteبہت خوب۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے چوبیس گھنٹے بعد بھی جن وہیں موجود تھا۔
ReplyDeleteاپنے بھائی کے یہ جن نکالنے کے لیے کئی بار ریکارڈ کر کے اسے سنائے ہیں خراٹے، لیکن بے سود
:(
فرحان آپکے بیان سے تو لگتا ہے کہ آپکی بھی ایک ایسے جن سے ملاقات ہوئ ہے۔
ReplyDeleteشاہدہ اکرام، ٘یرے خیال ہے زیادہ تر خواتین کے پاس ایسی چن ہوتے ہیں۔ میرے پاس جو ہے وہ کبھی کبھی ایک ایسے ہی جن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ تو میں نے تھائلینڈ میں ایک بل بورڈ پہ ایک ایسے بیلٹ کا اشتہار دیکھا جو سر سے تھوڑی تک کے حصے کو باندھ دیتا ہے۔ سوچتی ہوں لے لوں۔ کیا پتہ کب یہ کیفیت مستقل ہو جائے۔ آپ چاہیں تو لے سکتی ہیں۔
قدیر احمد، ہوں آپکی تجویز تو اچھی ہے مگر اب انہیں آنجہانی ہوئے دو سال ہوگئے۔ نہیں معلوم انتقال کے بعد بھی لوگ خراٹے لیتے ہیں یا نہیں۔
یاسر، اپنا بیان بدلیں،ورنہ-------۔
راشد صاحب جنوں کے بارے میں مزید معلومات کا شکریہ۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ فراز کے پاس اتنے جن موجود تھے۔ اس لئیے انکے آنجہانی ہونے کے بعد انکے جنوں نے صرف ایس ای ایس پہاپنی شاعری شائع کی۔ یہ گوگل کوہ قاف کا آیڈیا اچھا ہے کچھ اور آیڈیاز بھی آرہے ہیں۔ خدا خیر کرے۔
شکریہ مکی۔
خاور کھوکھر صاحب، ہی ہی ہی۔
عمر احمد بنگش، یہ جو شاہدہ اکرم، کو میں ایک بیلٹ کے بارے میں بتا رہی تھی تو اسکے ساتھ لکھا تھا کہ خراٹوں سے یقینی نجات۔ اسکی مارکٹنگ نہ شروع کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی مردوں کی ایک بڑی تعداد خراٹے لیتی ہے۔ ویسے خراٹے لینے والوں کے متعلق ایک ریسرچ رپورٹ یہ کہتی ہے کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بنیادی طور پہ یہ ناک میں کسی خرابی یا انفیکشن سے ہوتا ہے۔ میرا والا جن تو سردیوں زیادہ خرٹے لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ٹھنڈ کے اثر سے ناک متاثر ہوتی ہے انکی۔ آپ بھی کچھ اس طرف خیال کریں ۔ آپکی بھی کوئ وجہ ہوگی۔ خراٹے لینا صحتمند علامت نہیں۔
ReplyDeleteہا ہا ہا اس ہلکے پھلکے مزاح نے ذہنی تناؤ کو کم کیا مگر فکر کو بڑھا دیا کیونکہ کبھی کبھی میں بھی خراٹے لینے لگتا ہوں زور دار تو نہیں مگرایک بار یہ جن چڑھ جائے تو آسانی سے نہیں اترتا نا!
ReplyDeleteبیلٹ کے بارے میں پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کہیں بندے سے ہی نجات نہ ہوجائے،خیال کیجیئے گا انیقہ:)
"اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ جن تو ہوتے ہی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے جناب۔ ورنہ اس قسم کے شعر کیوں کہے جاتے کہ جن پہ تکیہ تھا اور پتے ہوا دینے لگے۔ پھر اس قسم کی نشانیاں کیوں بتائی جاتیں کہ جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاءووں میں چھالے ہونگے۔ اور وہ خود یہ نہ کہتے کہ ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں۔ یہ سب ثبوت ہے اس بات کا کہ جن ہوتے ہیں"
ReplyDeleteجنوں کے اثبات میں دلائل بہت مزیدار ہیں۔
بہت خوب!
خوش رہیے۔
"واؤ" کو "ہمزہ" کے ساتھ لکھنے کے لئے
SHIFT+W
کا استعمال کریں۔
پھوپھی صاحبہ کے خراٹوں نے تو آپ جن دکھا دیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کے خراٹے کیا رنگ لاتے ہیں ۔ آپ کا تو میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ میرے عزیز و اقارب میں جس نے بھی کسی کے خراٹوں کا مذاق اُڑایا میں نے موقع پا کر اس کے خراٹے ریکارڈ کر کے اس کو سُنا دیا ۔ دو تین صاحبان کے ساتھ یہ واردات ہوئی تو سب نے دوسروں کا مذاق اُڑانا چھوڑ دیا
ReplyDeleteشکریہ احمد، آپ نے جو مشورہ دیا ہے وہ میرے پاس کام نہین کر رہا۔ میرے پاس کرلپ والوں کا کی بورڈ ہے اسی میں شاید کچھ مسائل ہیں۔
ReplyDeleteاجمل صاحب، فی الحال مجھے خراٹے نہیں آتے۔ انکا کچھ تعلق مجھے لگتا ہے وزن سے بھی ہوتا ہے۔ تو میرا وزن بھی کسی ایسی گنتی میں نہیں۔ ہو سکتا ہے عمر کے ساتھ یہ چیز بھی آجائے۔ ابھی تو لوگوں کو انتظار کرنا پڑیگا۔
اچھی تحریر یے عنیقہ صاحبہ۔ واہ واہ خوش رہیں
ReplyDeleteجن نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں جو اکثر گم بھی ہوجاتے ہیں
ReplyDeleteمسجدوں میں اعلان تو سنے ہوں گے آپ نے کہ
جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں
:D
جعفر، کافی یاد کر رہی تھی کہجنوں کے متعلق ایک اور مشہور کہانی بھی ہے یاد نہیں آرہی تھی۔ اچھا ہوا آپ نے یاد دلادی۔ البتہ اس اعلان سے یوں لگ رہا ہے کہ جن کا بچہ کوئ بھی آکر لیجا سکتا ہے۔ یہ اس مسجد کا پتہ آپ بتا سکتے ہیں کیونکہ مجھے جن کا بچہ لینے کا بڑا شوق ہے۔
ReplyDeleteم م مغل صاحب آپ کہاں اتنے دنوں سے غائب ہیں۔ کوئ تازہ شاعری نہیں آئ آپکی بہت دنوں سے۔
ReplyDeleteشاید یہ کرلپ ہی کا مسئلہ ہو۔
ReplyDeleteکرلپ میں نے استعمال نہیں کیا ہے اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتا۔
اردو دوست کی بورڈ میرے زیرِِِاستعمال ہے اگر آپ بھی آزمانا چاہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/downloads.php?do=file&id=61