Tuesday, November 3, 2009

ایک جن سے ملاقات

 خالہ کی شادی کی ہلچل مچی ہوئ تھی۔ شادی میں صرف ایکدن رہ گیا تھا۔ گھر میں عجیب افراتفری تھی۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئ نہ کوئ بات اٹھ کھڑی ہوتی ۔ لیکن میرے ساتھ بالکل عجیب ہی واقعہ پیش آیا۔ میں تیزی سے صحن سے گزر رہی تھی کہ وہاں پہ موجود رات کی رانی میں میرا دوپٹہ جا کر اٹک گیا۔میں نے اسے تھوڑآ سا جھٹکا دیکر نکالنا چاہا مگر وہ کچھ اور پھنس گیا۔ ایک اور کوشش کی مگر دوپٹہ اور زیادہ الجھ گیا۔ اب میں نے جھنجھلاہٹ میں جو اپنا دوپٹہ کھینچا تو اچانک ایک عجیب دو سینگوں والی مخلوق میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئ جسکے پیر ندارد۔ اس نے میرا دوپٹہ پکڑا ہوا تھا۔   پہلا خیال میرے ذہن میں آیا کہ میری ملاقات ایک جن سے ہو رہی ہے۔ وہ بھی اپنی خالہ کی شادی سے ایکدن پہلے۔
اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ جن تو ہوتے ہی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے جناب۔ ورنہ اس قسم کے شعر کیوں کہے جاتے کہ جن پہ تکیہ تھا اور پتے ہوا دینے لگے۔ پھر اس قسم کی نشانیاں کیوں بتائی جاتیں کہ جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاءووں میں چھالے ہونگے۔ اور وہ خود یہ نہ کہتے کہ ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں۔ یہ سب ثبوت ہے اس بات کا کہ جن ہوتے ہیں۔
اچھا قصہ آگے بڑھاتے ہیں۔ میں نے آنجناب جن سے  کانپتی ہوئ آواز میں کہا کہ میرا دوپٹہ چھوڑ دیں ۔ اس نے ایک قہقہہ لگایا ۔ ہاہا، خاخا خوں۔ اب میں اور دہل گئ۔ میرا دووووپ پ پ پ ٹ ٹ ٹ ٹ آآآ۔ میں تمہیں لینےآیا ہوں۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ کیا، میری خالہ کی شادی ہے کل۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں تمہیں لے جاءونگا۔ میں جو کہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ ہاہا، خاخا، خو ں ں ں خ خ۔
اب مجھے دل ہی دل میں صدمہ ہو گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب سب شادی کی تیاریوں میں ایکدم غرق ہیں میری اس کمبخت جن سے کیوں ملاقات ہو گئ۔  ساتھ ہی اس بات پہ حیرت تھی کہ کسی اور کو کیوں نہیں پتہ چل رہا کہ ایک جن میرے لئے مصیبت بنا ہوا ہے۔ تم بد تمیز جن، تم یہاں سے چلے جاءو۔ میں نے زور سے چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن میری آوز جیسے ایک کنوئیں سے آ رہی تھی۔ ۔  میں جا رہا ہوں لیکن چوبیس گھنٹے میں واپس آءوونگا۔ اور پھر وہ کرونگا جو میں نے کہاہے۔۔ میں تمہیں لے جاءوونگا۔ہاہاہا، خاخا خاخا، خوں خاااااار۔یہ کہہ کر وہ دھوئیں میں تحلیل ہو گیا۔
میں جنوں پہ یقین نہیں رکھتی تھی اور جب اپنے پسندیدہ شاعر کے اس قسم کے شعر پڑھتی کہ
میں نے جنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
تو مجھے اس نکتے پہ نہ صرف ان سے خاصہ اختلاف ہوتا بلکہ افسوس بھی۔
 اچھا اب آگے کی سنئیے۔ میں خوف اور سکتے کے عالم میں جیسے برف ہو گئ تھی۔ اور پھر برف جیسے پگھلنا شروع ہوئ۔ تو سب سے پہلے آنکھوں کی پگھلی۔ میں نے آنکھیں کھولیں۔ چھت پہ پنکھا گھوم رہا تھا۔  اسکی سررر کی آواز گونج رہی تھی لیکن اس جن کے قہقہے اسکی آواز پہ بھاری تھے اور ابھی تک میری سماعت پہ ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے۔ میں نے ہاتھ پھیرا میں فرش پہ بچھی چاندنی پر موجود تھی۔ یہ جناتی قہقہے کیوں ختم نہیں ہو رہے۔ میں نےگردن گھمائ۔ امی کی پھوپی جان میرے کندھے سے سر جوڑے میری طرف سر کئیےسو رہی تھیں۔ اور انکے خراٹوں کی آواز سے ہر چیز لرز رہی تھی۔ خاخاخوںخررر۔




20 comments:

  1. یہ تو بہت خطرناک جن ہوتاہے

    ReplyDelete
  2. عنيقہ حد ہو گئ پہلے خُود ڈريں پھر ہميں ڈرا ڈرا کر مار ڈالا اور آخِر ميں ہُوا کيا مُقابلہءِ خراٹاں ہمم
    اب اگر ميں يہ کہُوں کہ ايسا ہی ايک بہُت اچھا جِن ميں نے بھی رکّھا ہُوا ہے مُستقِل تو کيا کہيں گی آپ کہ آنکھ کُھلنے اور زبردستی کُھلوانے پر اِتنی معصُوميت سے سوال ہوتا ہے کيُوں کيا ہُوا ؟ سوتی کيُوں نہيں ہو بندہ پُوچھے اِتنے دھماکے دارخراٹوں کے درميان کوئ کيسے سو سکتا ہے ؟کہ خواب تو ٹُوٹ بھی جاتے ہيں

    ReplyDelete
  3. کاش آپ کی امی کی پھوپی جان کے پاس کمپیوٹر بمع انٹرنیٹ ہوتا

    ReplyDelete
  4. ہا ہا ہا
    کڑیاں ہوتی ہی ڈرپوک ہیں

    ReplyDelete
  5. واہ جی، کس جن سے ملاقات کرادی!

    ReplyDelete
  6. وہ کیا کہتے ہیں کہ
    فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ

    ورنہ آپ کو مشورہ دیتے کہ گوگل کوہ قاف میں اپنا بلاگ شامل کریں تاکہ دوبارہ کوءی جن ایسی گستاخی کی جرات نا کرے۔۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ
    جن کی کیا بات کریں جن تو ہیں ناداں۔۔۔

    ReplyDelete
  7. اچھی کہانی بنائی ہے

    ReplyDelete
  8. بہت خوب۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے چوبیس گھنٹے بعد بھی جن وہیں موجود تھا۔
    اپنے بھائی کے یہ جن نکالنے کے لیے کئی بار ریکارڈ کر کے اسے سنائے ہیں خراٹے، لیکن بے سود
    :(

    ReplyDelete
  9. فرحان آپکے بیان سے تو لگتا ہے کہ آپکی بھی ایک ایسے جن سے ملاقات ہوئ ہے۔
    شاہدہ اکرام، ٘یرے خیال ہے زیادہ تر خواتین کے پاس ایسی چن ہوتے ہیں۔ میرے پاس جو ہے وہ کبھی کبھی ایک ایسے ہی جن میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ تو میں نے تھائلینڈ میں ایک بل بورڈ پہ ایک ایسے بیلٹ کا اشتہار دیکھا جو سر سے تھوڑی تک کے حصے کو باندھ دیتا ہے۔ سوچتی ہوں لے لوں۔ کیا پتہ کب یہ کیفیت مستقل ہو جائے۔ آپ چاہیں تو لے سکتی ہیں۔
    قدیر احمد، ہوں آپکی تجویز تو اچھی ہے مگر اب انہیں آنجہانی ہوئے دو سال ہوگئے۔ نہیں معلوم انتقال کے بعد بھی لوگ خراٹے لیتے ہیں یا نہیں۔
    یاسر، اپنا بیان بدلیں،ورنہ-------۔
    راشد صاحب جنوں کے بارے میں مزید معلومات کا شکریہ۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ فراز کے پاس اتنے جن موجود تھے۔ اس لئیے انکے آنجہانی ہونے کے بعد انکے جنوں نے صرف ایس ای ایس پہاپنی شاعری شائع کی۔ یہ گوگل کوہ قاف کا آیڈیا اچھا ہے کچھ اور آیڈیاز بھی آرہے ہیں۔ خدا خیر کرے۔
    شکریہ مکی۔
    خاور کھوکھر صاحب، ہی ہی ہی۔

    ReplyDelete
  10. عمر احمد بنگش، یہ جو شاہدہ اکرم، کو میں ایک بیلٹ کے بارے میں بتا رہی تھی تو اسکے ساتھ لکھا تھا کہ خراٹوں سے یقینی نجات۔ اسکی مارکٹنگ نہ شروع کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی مردوں کی ایک بڑی تعداد خراٹے لیتی ہے۔ ویسے خراٹے لینے والوں کے متعلق ایک ریسرچ رپورٹ یہ کہتی ہے کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بنیادی طور پہ یہ ناک میں کسی خرابی یا انفیکشن سے ہوتا ہے۔ میرا والا جن تو سردیوں زیادہ خرٹے لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ٹھنڈ کے اثر سے ناک متاثر ہوتی ہے انکی۔ آپ بھی کچھ اس طرف خیال کریں ۔ آپکی بھی کوئ وجہ ہوگی۔ خراٹے لینا صحتمند علامت نہیں۔

    ReplyDelete
  11. ہا ہا ہا اس ہلکے پھلکے مزاح نے ذہنی تناؤ کو کم کیا مگر فکر کو بڑھا دیا کیونکہ کبھی کبھی میں بھی خراٹے لینے لگتا ہوں زور دار تو نہیں مگرایک بار یہ جن چڑھ جائے تو آسانی سے نہیں اترتا نا!
    بیلٹ کے بارے میں پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کہیں بندے سے ہی نجات نہ ہوجائے،خیال کیجیئے گا انیقہ:)

    ReplyDelete
  12. "اب کچھ لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ جن تو ہوتے ہی نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے جناب۔ ورنہ اس قسم کے شعر کیوں کہے جاتے کہ جن پہ تکیہ تھا اور پتے ہوا دینے لگے۔ پھر اس قسم کی نشانیاں کیوں بتائی جاتیں کہ جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاءووں میں چھالے ہونگے۔ اور وہ خود یہ نہ کہتے کہ ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں۔ یہ سب ثبوت ہے اس بات کا کہ جن ہوتے ہیں"


    جنوں کے اثبات میں دلائل بہت مزیدار ہیں۔

    بہت خوب!

    خوش رہیے۔

    "واؤ" کو "ہمزہ" کے ساتھ لکھنے کے لئے
    SHIFT+W
    کا استعمال کریں۔

    ReplyDelete
  13. پھوپھی صاحبہ کے خراٹوں نے تو آپ جن دکھا دیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کے خراٹے کیا رنگ لاتے ہیں ۔ آپ کا تو میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ میرے عزیز و اقارب میں جس نے بھی کسی کے خراٹوں کا مذاق اُڑایا میں نے موقع پا کر اس کے خراٹے ریکارڈ کر کے اس کو سُنا دیا ۔ دو تین صاحبان کے ساتھ یہ واردات ہوئی تو سب نے دوسروں کا مذاق اُڑانا چھوڑ دیا

    ReplyDelete
  14. شکریہ احمد، آپ نے جو مشورہ دیا ہے وہ میرے پاس کام نہین کر رہا۔ میرے پاس کرلپ والوں کا کی بورڈ ہے اسی میں شاید کچھ مسائل ہیں۔
    اجمل صاحب، فی الحال مجھے خراٹے نہیں آتے۔ انکا کچھ تعلق مجھے لگتا ہے وزن سے بھی ہوتا ہے۔ تو میرا وزن بھی کسی ایسی گنتی میں نہیں۔ ہو سکتا ہے عمر کے ساتھ یہ چیز بھی آجائے۔ ابھی تو لوگوں کو انتظار کرنا پڑیگا۔

    ReplyDelete
  15. اچھی تحریر یے عنیقہ صاحبہ۔ واہ واہ خوش رہیں

    ReplyDelete
  16. جن نہ صرف ہوتے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی ہوتے ہیں جو اکثر گم بھی ہوجاتے ہیں
    مسجدوں میں اعلان تو سنے ہوں گے آپ نے کہ
    جن کا بچہ ہے آکر لے جائیں
    :D

    ReplyDelete
  17. جعفر، کافی یاد کر رہی تھی کہجنوں کے متعلق ایک اور مشہور کہانی بھی ہے یاد نہیں آرہی تھی۔ اچھا ہوا آپ نے یاد دلادی۔ البتہ اس اعلان سے یوں لگ رہا ہے کہ جن کا بچہ کوئ بھی آکر لیجا سکتا ہے۔ یہ اس مسجد کا پتہ آپ بتا سکتے ہیں کیونکہ مجھے جن کا بچہ لینے کا بڑا شوق ہے۔

    ReplyDelete
  18. م م مغل صاحب آپ کہاں اتنے دنوں سے غائب ہیں۔ کوئ تازہ شاعری نہیں آئ آپکی بہت دنوں سے۔

    ReplyDelete
  19. شاید یہ کرلپ ہی کا مسئلہ ہو۔

    کرلپ میں نے استعمال نہیں کیا ہے اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    اردو دوست کی بورڈ میرے زیرِِِاستعمال ہے اگر آپ بھی آزمانا چاہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتی ہیں۔

    http://www.urduweb.org/mehfil/downloads.php?do=file&id=61

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ