یہ ہماری ایک نو عمر شاعرہ ہیں انکی ایک شعری کاوش آپ پہلے بھی پڑھ چکے ہیں۔ آج دوسری پر نظر ڈالیں۔
سوچوں میں، گھبراءوں میں، کیسے بات بناءووں
اس نے بھیجا ہے سندیسہ میں ملنے کو آءووں
سیپی کے ہیں رنگ نیارے، موتی کے ہیں مول
کھڑی کنارے سوچ رہی ہوں، کیا کھوءوں کیا پاءووں
تتلی کے ہیں اجلے رنگ، جگنو میں ہے آگ
تتلی کے میں رنگ چراءووں یا برہن کہلاءووں
دریا دریا بہتی ہوں، قطرہ قطرہ رستی ہوں
رستہ رستہ بکھر رہی ہوں کاش اسے مل جاءووں
ہاتھوں میں نہ کنگن میرے، نہ پیروں میں پائل
گجرا نہیں ہے بالوں میں کیسے اسے جگاءووں
من کی آگ کون بجھائے، نیر نہ کوئ آنکھوں میں
اندر اندر سلگے جاءووں اور جوگن کہلاءووں
انیقہ یہ جو آپکی نوعمر شاعرہ ہیں ان کی شاعری میں پروین شاکر کی خشبو ہے!
ReplyDeleteشروع کے چار اشعار اور اخری شعر ایک ایسی لڑکی کے جذبات کی ترجانی کررہے ہیں جو محبت کے ہاتھوں مجبور بھی ہوئی جارہی ہے اور اسے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جگ ہنسائی کا خوف بھی ہے،
لیکن یہ پانچواں شعر تو یوں لگتا ہے کہ ملاقات کے لیئے پہنچ جانے کے بعد کا ہے اور یہ باقی نطم سے تھوڑا الگ محسوس ہوتا ہے ویسے شعر بزات خود عمدہ ہے ہاں اگر اس میں جگاؤں کی جگہ مناؤں ہوتا تو معنویت بڑھ جاتی یہ میرا ناقص خیال ہے آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے ضرور بتائیے گا،
بہت خوب!
ReplyDelete۔
سچ بولوں؟؟؟
ReplyDeleteچلیں چھوڑیں۔۔۔
بولو جعفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار بول کے تو دیکھو
ReplyDelete:p
عنیقہ جی، معافی چاہوں گا، شاعری کی سوجھ بوجھ نہیں مجھے۔
احمد آپکے مشورے کا شکریہ۔ لیکن اس وقت آپکو اندازہ نہیں کہ کمپیوٹر کھولنے کی بھی فرصت نہیں مل پا رہی تو اس پہ آرام سے عمل کر کے دیکھونگی۔
ReplyDeleteعبداللہ آپکا مشورہ مجھے بھی خاصہ مناسب لگ رہا ہے میرا خیال ہے انہوں نے بھی پڑھ لیا ہوگا۔
جعفر، آپ بولیں نہیں لکھ دیں۔
عمر بنگش، آپکا یہ جملہ تو کسی پوسٹ کا ٹائٹل ہو سکتا ہے۔ بولو جعفر بولو۔ بولوگے نہیں تو بڑے کیسے ہوگے۔