بقر عید پہ ہر طرح کی ترکیبیں آزمائ جاتی ہیں۔ اور عام طور پہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر شخص کو اس عید پہ اپنی دلچسپی کا سامان مل جاتا ہے۔ سچ کہوں تو مجھے بقر عید اپنی اس ادا کی بناء پہ بہت پسند ہے۔
یہ ایک ترکیب ہے بھیجا فرائ کرنے کی جسے میں آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کررہی ہوں۔ تو جناب اسکے لئیے آپکو ایک گائے کا بھیجا چاہئیے۔ وہ گائے نہیں جس کے لئیے امیر خسرو نے لکھا ، ہم تورے بابل کھوٹے کی گئیاں۔ بلکہ وہ جسے آپ جانووروں کی منڈی سے سکہ رائج الوقت میں خرید کر لائے ہونگے اور جس کی قیمت خرید شرعی حق مہر سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اس وضاحت کے بعد ترکیب میں ایک اور پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ آپ گائے کا گوشت کچھ نامعلوم وجوہات کی بناء پہ کھانا اپنے سماجی رتبے کے خلاف سمجھتے ہوں یا آپکا قربانی کا جانور ایک یا کئ بکرے ہوں تو اس صورت میں آپ بکرے کا بھیجا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہ آپ سمجھتے ہونگے کہ گائے کہ اور بکرے کے وزن میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا کہ اداکارہ انجمن اور کرشمہ کپور کے وزن میں نظر آتا ہے۔
اس وجہ سے آپکو باقی اجزائے ترکیب کو ادھر ادھر کرنا پڑیگا یا پھر کئ بکروں کے بھیجے کو ایک گائے کے بھیجے کے وزن کے برابر لانا ہوگا۔ یہ یاد رہے کہ انجمن اور کرشمہ میں سے آپ صرف آخر الذکر کو ہی ادھر ادھر کر سکتے ہیں۔ اول الذکر کے متعلق ایسا خیال بھی دل میں نہ لائیے گا۔ ورنہ بھیجا فرائ کرنے سے پہلے آپکی چٹنی بن جائے گی۔ چوں کہ ان دونوں کا اس ترکیب سے کوئ جزیاتی تعلق نہیں۔ اس لئیے اس مرحلے کو سر کئیے بغیر ہی آپ اگلے مرحلے میں قدم رکھ سکتے ہیں۔
اب ایک پتیلی میں اتنا پانی لیں جس میں یہ بھیجا ڈوب جائے۔ اسے ابلنے کے لئیے چولہے پہ رکھ دیں۔ جب پانی ابلنے لگے تو اس میں بھیجا ڈالدیں اور گھڑی دیکھ کر دو منٹ بعد نکال لیں۔ جب بھیجا گرم ہی ہو، یہاں میری مراد پتیلی میں سے نکالے گئے بھیجے سے ہے۔ آپکو اپنا بھیجا گرم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس بھیجے پر سے تیزی کے ساتھ جھلی اتار دیجئیے اور خون کی جو نسیں نظر آرہی ہیں انہیں بھی صاف کر دیں۔ لیجئیے، یہ بھیجا فرائ ہونے کے لئیے بالکل تیار ہے۔ چھری سے اسکے موٹے موٹے ٹکڑے کر لیں اور ایک طرف رکھ دیں۔ اب ایک پتیلی یا کڑاہی میں میں آدھا کپ تیل گرم کریں اور اس میں آدھا چائے کا چمچ میتھی دانہ ڈالدیں۔ جب یہ خوشبو دینے لگے تو اس میں ایک کھانے کا چمچ لہسن ادرک کا پیسٹ ڈال دیں، دو کھانے کے چمچ پسی ہوئ پیاز، ساتھ ایک چائے کا چمچ پسا ہوا دھنیا، آدھ چائے کا چمچ ہلدی، ایک چائے کا چمچ پسی ہوئی لال مرچ یا جتنی آپکو پسند ہوں، اس میں ڈالکر ہلکی آنچ پہ بھون لیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں ٹماٹر کے بغیر کسی چیز میں سواد نہیں آتا تو اس مرحلے پہ ٹماٹر بھی ڈال لیں اور اسے اتنا بھونیں کہ ٹماٹر گل کر مصالحے کے ساتھ یکجان ہو جائیں۔
اب اس میں صاف کیا ہوا بھیجا ڈالکر آرام سے بھونیں حتی کہ بھیجہ اور مصالحہ خوب اچھی طرح بھن جائیں۔ حسب ذائقہ نمک شامل کر دیں آخر میں اس میں آدھی چائے کی چمچی گرم مصالحہ بھی ڈالدیں اور تھوڑی سی ہری مرچ بھی کتر کر شامل کردیں۔ مرچیں چھری سے کترئیے گا۔ دانتوں سے کترنے کے نتیجے میں، آپکا اپنا بھیجا دم پخت ہونے کے امکان ہیں۔ اب یہ فرائ بھیجاڈش میں نکال کر ہرے دھنئیے سے سجا دیں۔ اور چپاتی کے ساتھ کھائیں۔
کچھ لوگوں کو فرائ کئیے بغیر ہی بھیجا کھانے کا لطف آتا ہے انہیں یہ ساری کلفت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ مزہ ہے جس کے آگے تمام ذائقے ہیچ ہیں۔
کچھ لوگوں کو فرائ کئیے بغیر ہی بھیجا کھانے کا لطف آتا ہے انہیں یہ ساری کلفت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ مزہ ہے جس کے آگے تمام ذائقے ہیچ ہیں۔
ساتھ ہی آپ سب کو عیدالاضحی مبارک ہو۔ اللہ ہم سب کو قربانی کے صحیح معنوں سے متعارف ہونے کا موقعہ دے۔ آمین
lolz :D
ReplyDeleteاگر عید سے پہلے یہ پوسٹ آئے گی تو بھیجا تو پہلے ہی فرائی ہو جائے گا نا
اور وہ یقینا گائے یا بکرے کا تو ہو نہیں سکتا
اسے پڑھ کر تو واقعی فراءی ہو گیا ہے۔
ReplyDeleteعید مبارک
Kamran Asghar Kami
لاجواب!
ReplyDeleteپکوان سے زیادہ ترکیب میں لذت ہے۔ کیا شوخ اور دلچسپ انداز ہے۔
عید بہت بہت مبارک ہو۔
ڈفر کا نکتہ قابل غور اور قابل داد ہے
ReplyDeleteیہ ترکیب آپ کی نہیں لگتی
کیونکی آپ خود اتنا اچھا بھیجہ فرائی کر لیتی ہیں
یہ
یہ ہومیو پیتھک کی ترکیب یقینا آپ نے خواتین کے کسی ڈائجسٹ سے نقل کی ہے
برت بات۔۔۔
ويسے بھيجے کو سمپل اردو ميں کيا کہتے ہيں يا انگريزی ميں يہ ليور ہے يا کچھ اور؟
ReplyDeleteڈفر، اتنی آسان اور سلیس زبان میں ترکیب لکھی کہ لوگوں نے اسے نقل شدہ قرار دے دیا۔ اب بھی آپکا بھیجا فرائ ہوا تو اس میں یقینا انجمن یا کرشمہ کا قصور ہے۔ یہاں پر بھی ہیروئینز کے نام حسب ذائقہ رکھ کر پڑھ لیں۔
ReplyDeleteکامی آپکے لئیے بھی یہی مشورہ ہے۔
ابن سعید ، شکریہ آپکا۔
جعفر ، یہ ہومیوپیتھک ترکیب، ہومیوپیتھی کے کورس کے دوران سیکھی تھی۔ جس دن یہ ترکیب سکھائ گئ اسکے اگلے دن سے ساری کتابیں بند کر کے رکھ دی۔ اصل چیز تو بھیجا ہوتا ہے بھیجا۔
اسماء آپ نے اتنی پیاری بات لکھی ہے کہ بے اختیار مسکرا پڑی۔ حالانکہ پروگرام یہ تھا کہ اب پندرہ منٹ تک بالکل نہیں ہنسنا۔اسی ترکیب سے لیور یعنی جگر کو بھی سوختہ کیا جا سکتا ہے لیکن آخر میں ویسی ملیدہ نما شے نہیں ملتی جیسی کہ بھیجے میں ملتی ہے۔ بھیجا ویسے تو اپنی ساخت میں بے حد نرم ہوتا ہے مگر سری جہاں یہ ہوتا ہے وہ بہت سخت ہوتا ہے۔ اسکا اندازہ اپکو بھی کئ دفعہ گرنے کے بعد ہوا ہوگا کہ سر پہ چوٹ پڑنے سے تارے نظر اتے ہیں یا گومڑ بن جاتے ہیں۔ مگر اس میں سے بھیجا اتنی آسانی سے لیک نہیں ہوتا۔ اسکے لئیے عام طور پہ قصائ کی مدد لینی پڑتی ہے خود سے کوشش کریں تو اقدام قتل کے الزام میں اندر ہو سکتے ہیں اور ثبوت ملنے پہ اپنے بھیجے کی کام کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ۔
لیکن اصل جواب تو رہ گیا۔ انگریزی میں اسے برین کہتے ہیں۔ بھیجا آسان یا عوامی لفظ ہے ورنہ شستہ اردو میں اسے دماغ کہتے ہیں۔
شستہ اردو میں مغز کہتے ہیں۔ قصائی یا قصاب کو دماغ کہیں تو وہ منہ دیکھنا شروع کر دے۔ کہ الہٰی مہاجرا کیا ہے۔؟ مگر مغز کہنے سے بات باآسانی قصاب کے مغز میں آجائے گی۔ یعنی سمجھ جائے گا کہ خریدار مغز کا پوچھ رہا ہے۔
ReplyDeleteجاوید صاحب، خیریت بہت دنوں بعد آپ نظر آئے۔ آپ نے بالکل صحیح یاد دلایا کہ اسے مغز کہنا چاہئیے۔ اسماء یہ تصحیح نوٹ کر لیں۔
ReplyDeleteانیقہ کہیں اور بھی بھیجا فرائی ہورہا ہے وقت ملے تو دیکھ لیجیئے گا :)
ReplyDeleteجیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اجمل صاحب کہ آپکے تاثرات انتہائی متعصبانہ ہوتے ہیں !اور آپ جیسوں نے ہی اسلام اور پاکستان کا نام لے لے کر اسلام اور پاکستان دونوں کو اس حال کو پہنچادیا ہے مگر اب بھی عقل کے ناخن نہیں لیئے ہیں :evil:
ReplyDeleteآپ جیسے متعصب لوگوں نے یوپی اور سی پی سے آئے لوگوں کو جب ہندوستانی اور ہندوستوڑے کہا تو انہیں اردو اسپیکنگ کہلوانا ہندوستانی کہلوانے سے ذیادہ بہتر محسوس ہوا، اس میں احساس برتری کہاں سے آگیا !اللہ ہی بہتر جانتا ہے :roll:
ReplyDeleteاحساس برتری تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز پنجابی بنائے دے رہے ہیں اور پھر بھی کسی صورت تسلی ہوکر نہیں دے رہی،اردو مغلوں کی لشکری ذبان تھی اور ہندوستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کا مجموعہ تھی اسی لیئے ہر زبان کے کچھ نہ کچھ الفاظ اس میں شامل ہیں!
ReplyDeleteافتخار اجمل کی پوسٹ مہاجر کون پر صبا سید صاحبہ نے کچھ گل افشانیاں فرمائی تھیں جن پر آج نظر پڑی سوچا ان کی بھی غلط فہمیاں دور کردوں!
ReplyDeleteصبا سید صاحبہ آپکی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ میرے خاندان میں عموما اور کراچی میں خصوصا سندھی ٹوپی اور اجرک آج بھی بے حد شوق سے پہنے جاتے ہیں اور سندھیوں سے نہ کوئی ناراضگی ہے نہ لڑائی پہلے سندھیوں کو پنجاب اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہ کر بھڑکایا کہ یہ تمھاری زمینوں پر قبضہ کرنے آئے ہیں اور سندھ کے وڈیروں نے بھی اس جلتی پر خوب تیل چھڑکا!لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ،لیکن اب سندھیوں کو بھی عقل آگئی ہے اوربقول اجمل اردواسپیکنگ کو بھی کہ اگر ہم مل کر رہیں گے تو ہی استحصالی عناصر کا منہ توڑ سکتے ہیں!
کراچی میں لاشیں وہ گروا رہے ہیں جو پٹھانوں کو اسی طرح استعمال کررہے ہیں جس طرح ہندوؤں نے سکھوں کو استعمال کیا تھا!
ReplyDeleteاس حوالے سے میرے ذاتی تجربات تو میں بعد میں بتاؤں گا !مہر آپی نے اپنے حوالے سے جو بات بتائی تھی وہ کیونکہ تین نسلوں کا قصہ ہے اس لیئے بتا رہا ہوں، مہر آپی کی والدہ بتاتی ہیں کہ وہ جب ہندوستان سے آئیں تو بہت کم عمر تھیں وہ لوگ پنجاب میں آکر رہے جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو ہر لڑکی یہی سوال کرتی تم کون ہو کہاں سے ائی ہو جب بتایا جائے تو کہتیں اچھا تم لوگ ہندوستوڑے ہو ارے بھائی تم لوگ تو بھگوڑے ہو ! اور وہ شرمندہ ہو کر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتیں ،شادی ہوکر وہ کراچی آگئیں یہاں مہر آپی پیدا ہوئیں اور جب انہوں نے اسکول جانا شروع کیا تو کسی نے نہیں مگر ایک پنجابی لڑکی نے ان سے یہ سوال کیا کہ تم کون ہو انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا پاکستانی وہ کہنے لگی پاکستانی تو تم بعد میں ہوگی ویسے تم کہاں کی ہو؟ کراچی کی، ارے نہیں بھئی کراچی کی نہیں پیچھے سے تم کہاں کی ہو؟اس سوال کا جواب انکے پاس نہ تھا اپنی والدہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ کیونکہ تم سندھ میں پیدا ہوئی ہو اس لیئے سندھی ہو جب اگلے دن پھر اس نے یہی سوال دہرایا تو انکا جواب سن کر اس نے زور سے قہقہہ مارا اور بولی سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتیں کہ تم ہندوستانی ہو،وہ اس سے جھگڑ پڑیں کہ نہیں میں پاکستانی ہوں ،اور ابھی چند سال پہلے پھر دو پنجابی خواتین نے الگ الگ موقعوں پر انہیں کہا آپ ہندوستانییوں میں ایسا ہوتا ہے ،آپ ہندوستانی تو ایسا کرتے ہیں،تو ان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے کہا میں اس ملک میں پیدا ہونے کے با وجود ہندوستانی ہوں اور میری اولاد بھی ہندوستانی ہے تو ہمیں کتنی نسلیں لگیں گی پاکستانی بننے میں؟
یہ ہے وہ تعصب کا ذہر جسے وطنیت کی شوگر کوٹیڈ گولی کی شکل میں اس ملک کے باقی مانندہ لوگوں کو کھلایا جارہا ہے عرصہ 62 سال سے،
اور مزے دار بات یہ ہے کہ یہ غم صرف پنجابیوں کو ہی کھائے جاتا ہے، :roll:
ReplyDeleteاب سمجھ میں آیا یہ پوسٹ نےاس لیئے تو نہیں لکھی گئی ہے کہ فرحان نے مصطفے کمال کا انٹرویو اپنے بلاگ پر لگایا ہوا ہے اور وہ بہت سی سچائیاں بیان کررہا ہے تو اس کا توڑ کرنے کے لیئے یہ کارگزاری دکھائی گئی ہے؟
ReplyDelete