میں خواتین کے خاص ملبوسات کے اسٹور پہ ایک ساتھی خاتون کے ساتھ موجود تھی۔ جب میری ساتھی خاتون نے مجھے ٹہوکا دیا۔ ان خاتون کو کچھ خاص چیز چاہئیے۔ انہوں نے سرگوشی کی۔ اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ لڑکی عبایہ پہنے ہوئے تھی اور سر پہ سختی سے اسکارف باندھا ہوا تھا۔ لیکن اس چھبیس ستائیس سال کی پیلاہٹ مائل سفید رنگت والی لڑکی کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی میری نگاہ اسکی آنکھوں کے گوشوں میں گم آنسوءووں پہ ٹہر گئ۔
میری چھٹی حس نے کہا ، وہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہے۔ اسکی ایک چھاتی کو آپریشن کر کے کاٹ کر نکالا جا چکا ہے ۔ ابھی اسکی کیمو تھراپی یا چل رہی ہے یا حال میں ختم ہوئ ہے۔ جسکی وجہ سے اسکے سر کے سارے بال جھڑ چکے ہیں اس لئے اس نے اتنی سختی سے اسکارف لپیٹ رکھا ہے۔
یہ سب باتیں، پلک جھپکتے میں میرے ذہن میں آگئے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ میں اس بارے میں تفصیل سے پڑھ چکی ہوں جو معلومات مجھے حاصل ہوتی ہیں انہیں یاد رکھتی ہوں۔ جبکہ میری ساتھی خاتون کو اس بارے میں اتنا علم نہیں تھا اس لئے وہ سمجھیں کہ وہ لڑکی اپنے جسم کی ساخت کو بہتر بنانے کے لئے کوئ خاص قسم کا زیر جامہ چاہتی ہے۔
ہم دونوں، اپنے علم کی بنیاد پہ دو مختلف رائے پہ پہنچے۔ اس اثناء میں اسٹور کا دروازہ کھلا اور ایک اور لڑکی اندر داخل ہوئ۔ وہ اس لڑکی کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئ اور ایک دم گلے لگ گئ۔ وہ دونوں دوستیں بہت عرصے بعد مل رہی تھیں۔ لیکن اسکے گلے لگتے ہی عبایہ والی لڑکی رونے لگ گئ۔ اسے اسٹول پہ بٹھا کر دوست اس کا احوال پوچھنے لگی۔
یوں انکی ہلکی ہلکی باتوں سے پتہ چلا کہ اس لڑکی کی شادی کو پانچ سال ہوئے ہیں ۔ تیسرے بچے کی پیدائش کے تین مہینے بعد اسے لگا کہ چھاتی میں گٹھلی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا ٹیسٹس ہوئے اور پتہ چلا کہ اسے چھاتی کا کینسر ہو گیا ہے۔
وہ نوجوان لڑکی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنی دوست سے کہہ رہی تھی۔ ابھی تو میرے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اس مرض کے لئے چھوٹی تھی۔ پچھلے چھ مہینے میں ، میں چھ خواتین کے بارے میں سن چکی ہوں کہ وہ اس کا شکار ہو گئیں۔
پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس جان لیوا بیماری کا شکار ہوتی ہے۔ لاحق ہونے کی صورت میں کسی ترقی یافتہ ملک کی نسبت جان سے گذرنے کا امکان بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
کسی بھی قسم کا کینسر ہونے کی سب سے بنیادی وجہ زندگی گذارنے کا انداز ہے اور دوسری اہم وجہ خاندان میں اس مرض کا پایا جانا ہے۔
بریسٹ کینسر جن خواتین میں پائے جانے کا زیادہ امکان ہے وہ یہ ہیں۔
جن کے خاندان میں یہ مرض پہلے کسی کو ہو چکا ہو، ماں اور باپ دونوں کی طرف سے۔ ایک غلط خیال یہ ہے کہ صرف ماں کے خاندان میں پایا جائے تو ہی امکان ہوتا ہے۔
وراثتی طور پہ ہی منتقل نہیں ہوتا۔ بلکہ دیگر خواتین بھی زیادہ رسک پہ ہوتی ہیں۔ ان میں وہ جو بے اولاد ہوں۔ یا جنکے بچے تیس سال کی عمر کے بعد ہوئے ہوں۔
جنکے مخصوص ایام کم عمری میں ہی شروع ہو گئے ہوں جیسے دس گیارہ سال کی عمر میں۔
جنکے مخصوص ایام زیادہ عرصے تک چلتے رہے ہو۔ جیسے پچپن سال کی عمر کے بعد بھی۔
سن یاس یعنی ایام بند ہو جانے کے بعد اسکے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طرح نوجوان خواتین کے مقابلے میں زیادہ عمر کی خواتین زیادہ شکار ہوتی ہیں۔
جو خواتین اپنے بچوں کواپنا دودھ نہیں پلاتی ہیں وہ زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں۔
وہ خواتین جو شراب نوشی کرتی ہیں۔
امکان زیادہ ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایسی خواتین کو معمولی علامتوں کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ یہ بالکل ضروری نہیں کہ اگر خاندان میں کسی کو ہو چکا ہو تو لازماً دوسری خواتین کو بھی ہوگا ۔ اسی طرح جنکے اولاد نہیں یا جنہوں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا انہیں ضرور ہوگا۔ انہیں نہیں بھی ہو سکتا اور اسکو ہو سکتا ہے جس کے ایک درجن بچے ہوں جن میں سے ہر ایک کو اس نے دودھ پلایا ہو۔ جنکے خاندان میں کسی کو کبھی نہیں ہوا انکو بھی ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور اس طرح ایک اور وجہ طرز زندگی نکل آتی ہے۔
آپ کس طرح زندگی گذارتے ہیں اس پہ آپکی صحت کا دارومدار ہوتا ہے۔ بریسٹ کینسر کے سلسلے میں وہ خواتین جو غذا کو رکھنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال کرتی ہیں زیادہ اس کا شکار ہوسکتی ہیں۔ پانی کی بوتل جو دھوپ میں دیر تک رکھی رہے زہر بن جاتی ہے۔ ان دوکانوں سے جہاں یہ باہر دھوپ میں رکھی ہوتی ہیں لینے سے گریز کریں اور دوکانداروں کو نصیحت کریں کہ پانی کی بوتلوں کو اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء جو پالسٹک پیکنگ میں ہوتی ہیں دھوپ میں نہ رکھیں۔ اسی طرح مائکرو ویو اون میں کھانا گرم کرنے کے لئے پلاسٹک کی اشیاء کا استعمال، ہوٹل سے کھانے یا روٹی لانے کے لئے پلاسٹک کی تھیلوں یا پلاسٹک کے برتن کا استعمال یہ سب ایک خطرہ ہے آپکی صحت کے لئے۔
تنگ زیر جامہ کا استعمال، چھاتیوں میں خون کی ترسیل کو آہستہ کر دیتا ہے۔ جس سے زہریلے مواد کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ خواتین میں تولیدی ہارمون کا سب سے زیادہ ذخیرہ چھاتیوں اور بچہ دانی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہارمون دیگر زہریلے مرکبات کو بھی آسانی سے دوست بنا لیتا ہے۔ یوں آہستہ آہستہ ان میں کینسر کے خلئیے جنم لینے لگتے ہیں۔ صرف چھاتی ہی نہیں اکثر لوگوں کو ازار بند ٹائیٹ باندھنے کی عادت ہوتی ہے یہ بھی کینسر کو جنم دے سکتا ہے۔ کوشش کریں رات کو سوتے وقت ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں۔
ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے۔ لیکن درست ہے۔ سادہ کھانوں کی عادت ڈالیں۔ کھانا جتنا بھونا جاتا ہے، تلا جاتا ہے، بیک کیا جاتا ہے یا کوئلوں پہ سینکا جاتا ہے اتنا اس میں زہریلے مرکبات زیادہ بنتے ہیں۔ یعنی ایسے مرکبات جو کینسر پیدا کر سکتے ہیں۔
سادہ کھانا کھائیے، تازہ پھل اور سبزیوں کو اپنی روز کی خوراک کا حصہ بنائیے۔ بازار سے لانے کے بعد سبزی اور پھلوں کو اچھی طرح دھولیں۔ تاکہ ان پہ موجود کیمیائ کھاد اور جراثیم کش ادویات اچھی طرح صاف ہو جائیں۔
تیل یا چکنائ کا ستعمال کم کریں۔ تیل یا چکنائ میں زہریلے مرکبات جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اسے جسم میں زیادہ دیر تک رکھ سکتے ہیں۔ یوں خلیوں کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔
اپنے وزن کو مقررہ حدوں کے اندر رکھنے کی کوشش کریں۔ سو بیماریوں کی ایک بیماری موٹاپا ہے۔
لائف اسٹائل میں سب سے اہم چیز ورزش ہے۔ اگر ہم ایک ایسی زندگی گذارتے ہیں جس میں حرکت کم ہوتی ہے تو ہمارے جسم کے تمام حصوں تک خون کی ترسیل مناسب نہیں ہو پاتی۔ وہ حصے جہاں خون کی ترسیل آہستہ ہوتی ہے وہاں زہریلے مرکبات کے جمع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ورزش ہمیں یہ فائدہ دیتی ہے کہ جسم کے تمام اعضاء حرکت میں آتے ہیں۔ اور بہتر خون اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خواتین عام طور پہ سمجھتی ہیں کہ گھریلو امور کو انجام دینا ہی ورزش ہے۔ یہ خیال اتنا درست نہیں ہے۔ ورزش کے نتیجے میں آپکے دل کی دھڑکن بڑھنی چاہئیے۔ اور جسم کے تمام اعضاء کو کام کرنا چاہئیے۔ چھاتی کے کینسر سے بچاءو کے لئے ایسی ورزشیں کیجئیے جسکے نتیجے میں آپکے بازو اور چھاتیوں میں کھنچاءو پیدا ہو۔
خواتین کی ورزش کے حوالے سے ہم کسی اگلی پوسٹ میں بات کریں گے۔
چھاتیوں کی جانچ ہر مہینہ ایام مخصوصہ ختم ہونے کے بعد ایک خاتون خود بھی کر سکتی ہے۔ اسکے لئے چھاتیوں اور اپنی بغل کے غدودوں کو چیک کرنا ہوتا ہے۔ ان میں کسی بھی قسم کی گٹھلی کی موجودگی یا درد کی صورت میں قابل اعتماد ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بیشتر خواتین خاص طور پہ وہ جو شادی شدہ نہیں ہوتیں بے جا شرم کی وجہ سے اتنا بڑھا لیتی ہیں کہ پھر یہ علاج سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کینسر کا اثر لمف نوڈز یا ہڈی کے گودے تک بڑھ جائے تو یہ ایک خطرناک حالت ہوتی ہے۔
چھاتی ایک خطرناک جگہ ہے۔ یہاں ایسٹروجن اور چربی سب سے زیادہ موجود ہونے کی وجہ ایک معمولی عام گٹھلی بھی اگر اسکا علاج نہ کیا جائے تو کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
چھاتی میں اگر گٹھلی محسوس ہو تو اسکی گرم سینکائ کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ گرم سینکائ جسم کے اندرونی زخم کو کینسر کے زخم میں تبدیل کر سکتی ہے۔ مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اگر ڈاکٹر میمو گرافی ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے تو بلا تاخیر کرائیے۔
چھاتی میں موجود تمام گٹھلیاں کینسر نہیں ہوتیں۔ اس لئے گٹھلی موجود ہونے کی صورت میںجب تک ٹیسٹس کی رپورٹ نہ آجائیں اور ڈاکٹر کوئ حتمی رائے نہ دے دے۔ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
چھاتی کے کینسر کی تشخیص میمو گرافی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس میں خاص ٹیکنیک کے ذریعے چھاتی کا ایکسرے اور الٹرا ساءونڈ ہوتا ہے۔ اور مٹر جتنے چھوٹے سائز کی گٹھلی کا بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ میموگرافی ایک مہنگا ٹیسٹ ہے اسکی فیس تین سے پانچ ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ ہر جگہ یہ سہولت میسر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلتے اس جان لیوا مرض کی تشخیص کے لئے اس ٹیسٹ کوجہاں سستا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں اس امر کی بھی ضروت ہے کہ ایسی موبائل وینز ہوں جو دیہی علاقوں میں جا کر وہیں پہ یہ ٹیسٹ انجام دے سکیں۔
کراچی میں ، میں نے سنا کہ ڈاکٹر شیر شاہ کی زیر نگرانی سول ہسپتال میں ایک ایسی وین بنائ جا چکی ہے۔
کچھ گٹھلیاں ایسی جگہ موجود ہوتی ہے جہاں سے وہ اس ایکسرے میں بھی نہیں آپاتیں۔ لیکن ایسے کیسز بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر حالات میں اس ٹیسٹ سے خاصی مدد مل جاتی ہے۔
پینتالیس سال کے بعد احتیاطاً میمو گرافی کرا لینی چاہئیے۔ وہ خواتین جو سن یاس میں داخل ہو چکی ہیں انہیں ۔ میموگرافی کرانی چاہئیے۔ تاکہ اس قسم کی کسی صورت حال کو ابتداء ہی میں پکڑا جا سکے۔
مرض اگر زیادہ پھیل گیا ہو تو سی ٹی اسکیننگ بھی کی جاتی ہے۔ تاکہ مزید متاثرہ حصوں کی تفصیلات سامنے آجائیں۔ اس کا درست مشورہ ایک ڈاکٹر ہی دے سکتا ہے۔
ایک دفعہ گٹھلی کا مقام پتہ چل جائے تو اسکی حتمی تشخیص کے لئے بائیوپسی کی جاتی ہے۔ اسکے لئے گٹھلی میں سرنج داخل کر کے تھوڑا سا مواد حاصل کرتے ہیں جسے بعد ازاں کینسر سیلز کی موجودگی معلوم کرنے کے لئے چیک کیا جاتا ہے۔ یہ نیڈل بائیوپسی بھی کہلاتی ہے۔ اسکے علاوہ اوپن بائیوپسی بھی کی جاتی ہے۔
اسکے
علاج کا انحصار مرض کی شدت اور مریض کی حالت پہ ہوتا ہے۔ اگر مرض ابتدائ حالت میں ہو تو ریڈیو تھراپی یعنی شعاعوں کے ذریعے علاج، کیمو تھراپی یعنی دواءوں کے ذریعے علاج یا لمپیکٹومی یعنی گٹھلی کو آپریشن کے ذریعے الگ کردیتے ہیں۔ زیادہ محفوظ صورت حال میں رہنے کے لئے بعض اوقات میسٹیکٹومی یعنی متائثرہ حصے کو مکمل طور پہ کاٹ کر الگ کر دینے سے مرض سے چھٹی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات دو مختلف طریقے ایک ساتھ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ بعد کے مراحل میں داخل ہو جائے تو مریض کا عرصہ ء حیات ہی بڑھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
کیمو تھراپی یا ریڈیو تھراپی کے ذیلی اثرات خاصے شدید ہوتے ہیں۔ اسکے لئے پہلے سے ذہنی طور پہ مریض اور گھر والوں کو تیار رہنا چاہئیے۔
علاج کے لئے ایک ڈاکٹر جو بھی مشورہ دے بہتر ہے کہ اسے شروع کرنے سے پہلے کسی اور ڈاکٹر سے بھی مشورہ لے لیا جائے۔ صرف بریسٹ کینسر ہی نہیں بلکہ کسی بھی سنگین مرض میں ایک سے زائد ڈاکٹر سے مشورہ ایک مریض کا حق ہے۔
جن مریضوں کی چھاتی الگ کر دی جائے انکے لئے یہ خاصہ مورال کم کر دینے والا سانحہ ہوتا ہے۔ عورت کی ظاہری خوب صورتی میں اسکی ظاہری ساخت کو ہر معاشرے میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ چھاتی کاٹ کر الگ کر دینے کی صورت میں ایک عورت کی ظاہری خوبصورتی اس سے خاصی متائثر ہوتی ہے۔ بعض آپریشن کے ذریعے چھاتی کی ساخت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ اب ایسے زیر جامے موجود ہیں جو دیکھنے میں اسکی ظاہری شخصیت کو کم نہیں کرتے۔ لیکن بہر حال اسکا نفسیاتی اثر رہتا ہے۔
کسی بھی قسم کے کینسر کے مریض کو ہماری توجہ، محبت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک عورت جب اس سانحے سے گذرتی ہے تو اسکا خاصہ امکان ہوتا ہے کہ اس کا جیون ساتھی اس سے منہ موڑ جائے، علاج کا خرچہ گھرانے پہ بوجھ بن جاتا ہے۔ خاص طور پہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورتیں معاشی طور پہ خود کفیل نہیں ہوتیں اور اپنے تمام مسائل اور وسائل کے لئے اپنے گھر والوں کی طرف دیکھتی ہیں۔ خواتین کو اس نظام میں وہ اہمیت حاصل نہیں جو ایک مرد کو حاصل ہوتا ہے تو ایک بیمار ، اور جسمانی ساخت سے محروم عورت کا یہ مہنگا علاج کروانے کی ہمت بھی ہر کسی میں نہیں ہو پاتی۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض کے ڈپریشن سے دیگر لوگ گھبرا جائیں اور وہ بھی حوصلہ چھوڑ دیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے رضاکاروں کے گروپ ہوتے ہیں یا ہسپتال ہی میں ایسے یونٹ ہوتے ہیں جہاں مریض اور اس کے اہل خانہ کی بھی نفسیاتی تربیت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ بریسٹ کینسر کا شکار، مرد بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان میں اسکی شرح غیر معمولی طور پہ کم ہوتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کی مریض عورت کو بھی توجہ، محبت اور حوصلہ چاہئیے ہوتا ہے۔ اسے بے جا شرم کی وجہ سے اس سے محروم نہ کریں۔
نوٹ؛ اس مضمون کی تیاری میں مختلف ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔ پھر بھی کسی قسم کی غلطی کی نشاندہی یا مزید معلومات کے لئے مشکور ہونگی۔