رافعہ میری سینیئر کو لیگ ہیں اور دوست بھی۔ جب تک پاکستان میں رہیں انکی نظریاتی ہمدردی جماعت اسلامی سے رہی۔ چند سال پیشتر وہ ہجرت کر کے کینیڈا آ گئیں۔ گذشتہ دنوں کینیڈا میں ان سے ملاقات ہوئ۔ یہاں بھی وہ اسکارف اور عبایہ پہنتی
ہیں۔ انکی سترہ سالہ اور چودہ سالہ بیٹی بھی سر پہ اسکارف لیتی ہیں۔
یہاں میں جس پاکستانی سے بھی ملتی ہوں اس سے یہ سوال ضرور کرتی ہوں کہ اسے یہاں کیسا لگتا ہے۔ یہی سوال ان سے بھی پوچھا۔ کہنے لگیں جنت کا تصور بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہم یہاں حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ بچوں کو وظیفہ ملتا ہے ہمارے بیشتر اخراجات تو اس سے ہی طے ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ شہریوں کے دیگر حقوق ہیں۔ مثلاً اسکول کی تعلیم مفت ہے۔ مجھے آپنے بچوں کی تعلیم پہ نہیں خرچ کرنا پڑتا۔ یونیورسٹی تعلیم کے لئے حکومت قرضے دیتی ہے۔ روزگار نہ ہو تو وظیفہ ملتا ہے۔ گھر میں کوئ بچہ معذور ہو تو بے شمار رعائیتیں ملتی ہیں۔ فلاحی ریاست کا اگر کوئ تصور ہے تو یہ ریاست اس پہ پوری اترتی ہے۔
ہم کام کرتے ہیں مگر زندگی کی دیگر تفریحات کے لئے وقت ملتا ہے۔ اپنے گھر کے سامنے موجود ہرے بھرے ٹیلے کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے کہا۔ سردی میں اس پہ برف جمی ہوتی ہے میں اور میرے بچے اس پہ اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ
گرمی کا موسم ہے آجکل ہم باقاعدگی سے پارک جاتے ہیں مختلف تفریحی مقامات کے لئے رعائیتی پاسز بھی موجود ہیں۔
اب رمضان آنے والا ہے آپکو تو پاکستان اس موقع پہ بڑا یاد آتا ہوگا۔ رمضان منانے کا لطف تو وہاں پہ ہے۔ میں نے پوچھا۔ انکی بچی کہنے لگی نہیں تو یہاں رمضان زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ میں کافی مسلمان ہیں۔ رمضان میں ہم افطاری لے کر مسجد چلے جاتے ہیں۔ وہاں دیگر فیملیز کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی افطاری کا انتظام ہوتا ہے۔ روزانہ مفت سحری اور افطار ہوتا ہے۔ آخری عشرے میں جاگنے والی راتوں میں محفل شبینہ ہوتا ہے۔ ہم وہیں راتیں
گذارتے ہیں، بڑی رونق رہتی ہے۔
ہاں انہوں نے کہا پاکستان کی ایک چیز بڑی یاد آتی ہے اور وہ رمضان سے پہلے ، رمضان کی وجہ سے چیزوں کی قمیتوں میں ہوش ربا اضافہ۔ بس یہ یہاں نہیں ہوتا۔ رحمت کی یہ قسم یہاں دستیاب نہیں
پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ ان مغربی ممالک میں اس وقت تک آپکو قبول نہیں کیا جاتا جب تک آپ ان جیسے نہ ہوجائیں۔ یہاں کینیڈا میں یہ عالم ہے کہ ہجرت کر کے آئے ہوئے مسلمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ یہاں اداروں کی پالیسیز پہ اثر انداز ہونے لگے ہیں۔انکی ایک بچی کے اسکول میں تو پچاس فی صد بچے مسلمان ہیں۔ میں نے اسکے اسکول کے کنووکیشن کی تصویر دیکھی اور ناموں سے اندازہ کیا کہ کون کون مسلمان ہیں۔
اسکول ہی نہیں اکثر ادارے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پالیسیز میں تبدیلیاں لائے ہیں۔ کینیڈیئن پارلیمنٹ میں مسلمان ممبران موجود ہیں۔ کیلگیری کا تو میئر بھی مسلمان ہے۔ اسکے علاوہ کینیڈا میں بچوں کے اسلامی اسکول الگ سے ہیں جہاں یہاں کا منظور شدہ اسکول کا کورس بھی ہے اور ساتھ میں اسلامیات اور قرآن کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ٹورنٹو میں ان اسلامی اسکولوں کی قابل تذکرہ تعداد موجود ہے۔
اگر صورت حال یہ ہو کہ صرف وہی لوگ رہ پاتے ہوں جو اپنے مذہب اور ثقافت کی قربانی دیتے ہیں تو یہ تبدیلی کیسے ممکن ہے کہ جس جگہ آج سے تیس سال پہلے حلال گوشت ملنا تقریباً نا ممکن تھا وہاں اب یہ بآسانی دستیاب ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی خواتین اور مرد شلوار قمیض میں عوامی جگہوں پہ نظر آجائیں۔ سو، یہ کہانی سنانے والے یا تو ان علاقوں سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ جھوٹ کیوں بولنے پہ مجبور ہیں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
میرے سامنے موجود ایک چھبیس ستائیس سالہ نوجوان نے جو اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان سے کینیڈا پہنچا ، جب بڑے جذبے سے کہا کہ دنیا میں کوئ ملک کینیڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئ ایک ایسا ملک ایسا نہیں جہاں اتنی بڑی تعداد میں مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگ اتنی ہم آہنگی سے رہ رہے ہوں۔ میں اسے رد نہیں کر سکی۔ میں نے اس سے پوچھا یہاں مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہی مذہب کے لوگ اکثریت میں ہیں۔ پھر بھی ایسا ممکن کیوں نہیں ہوا؟ اس فخر سے پاکستان میں رہنے والے کیوں محروم ہیں۔
اس نوجوان نے مجھے ایک جانا پہچانا جواب دیا۔ جو پہچان پہ ہے ناز تو پہچان جائیے۔
canada, pakistan, toronto, islam, culture, islamic school,religion, ramazan, calgary, extremism,