جیسا کہ کچھ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ آجکل میرے زیر مطالعہ جو کتاب ہے اسکا نام ہے تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ یہ کتاب لکھے ہوئے دیباچے کے مطابق علامہ قفطی کی مشہور و معروف کتاب تاریخ الحکما ء کےبعد غالباً اس موضوع پہ کسی مسلمان مصنف کی پہلی وسیع کتاب ہے
اسکے مصنف ایک عرب عالم جناب لطفی جمعہ ہیں۔ اس کتاب میں جن مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ بالترتیب اس طرح ہیں۔
کندی، فارابی، اب سینا،غزالی،ابن ماجہ،ابن طفیل،ابن رشد،اب خلدون، اخوان الصفا کے افراد،ابن الہیثم، محی الدین عربی، ابن مسکویہ۔ کتاب میں میری دلچسپی کا باعث ابن رشد کا تذکرہ ہے جس پہ مصنف نے بھی سب سے زیادہ توجہ کی ہے۔
جہاں امام غزالی تقلیدی عناصر کو استقامت دینے والے مفکر قرار پاتے ہیں وہاں ابن رشد حریت فکر کا نام ہیں۔ مفکرین کا کہنا ہے کہ جدید علوم اور سائنس پہ مسلمانوں کی گرفت اسی وقت تک مضبوط رہی جب تک مسلمانوں میں حریت فکر موجود تھی اور جب اسکا خاتمہ ہوا اور مسلمان علماء نے تقلیدی عناصر کو پسند کرنا شروع کیا تو ان چیزوں پہ انکی گرفت بھی کمزور پڑتی چلی گئ اور بالآخر وہ تاریکی میں چلے گئے۔ کیونکہ اس بارے میں کوئ دو رائے نہیں کہ تحقیق، اور تقلید ساتھ نہیں چل سکتے۔
ابن رشد ایک اندلسی مفکر تھے۔ انکا زمانہ امام غزالی کے سو سال بعد شروع ہوتا ہے۔ مصنف کی نظر میں ابن رشد میں تین ایسی خصوصیات پائ جاتی ہیں جو کسی اور مسلمان فلسفی میں نہیں۔اول یہ کہ وہ عرب کے سب سے بڑے فلسفی، اور فلاسفہء اسلام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ دوئم یہ کہ وہ عام طور پہ قرون وسطی کے جلیل القدر حکماء میں سے ہیں جو حریت فکر کے بانی ہیں۔اہل یوروپ کی نظر میں انکی خاص قدر و منزلت ہے۔ سوئم یہ کہ وہ اندلسی ہیں۔
جہاں غزالی نے فلسفے کے توڑ کے لئے کتاب' کتاب تہافہ' لکھی اور تقلیدی مذہب کو رائج کیا۔ وہاں ابن رشد نے سو سال بعد کتاب تہافہ کے رد میں تہافۃ التہافہ لکھی۔ کہا جاتا ہے کہ حاسدین نے خلیفہ کو اب رشد کے خلاف بھڑکایا اور اسکے نتیجے میں ایک لمبے عرصے تک انکی صلاحیتوں کے معترف خلیفہ نے انہیں ملحد قرار دیکرملک بدر کر دیا۔ اور انکی بیشتر کتابوں کو جلا ڈالا۔ اس ملک بدری کے دوران انہیں یہودیوں نے پناہ دی۔ اور انکی کتابوں کے عبرانی ترجمے کر کے یوروپ بھجوائے گئے۔ ایک سال بعد خلیفہ کو اپنی زیادتی کا احساس ہوا اور اس نے انہیں واپس طلب کر لیا لیکن ہوا یوں کہ واپسی کے چند ہی مہینوں کے اندر خلیفہ اور ابن رشد دونوں ہی زندہ نہ رہے۔
اگرچہ کہ جدید زمانے میں یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا باعث کئ مغربی مفکرین کو بتایا جاتا ہے۔ اور کئ مسلمان علماء بھی ان مغربی مفکرین پہ لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ مگر تاریخ سے انصاف کرنے والے مغربی یا مسلم دونوں مورخین اسکی وجہ ابن رشد کو قرار دیتے ہیں جس کی تعلیمات کے زیر اثر کلیسا کو ریاستی معاملات سے الگ کیا گیا۔
اسلامی دنیا انکی تصنیفات اور اسکے اثرات سے محروم رہی۔ اسکی وجہ انکی بیشتر تصنیفات کو جلا دینا ہے جو عربی میں تھیں۔پہلے یہ کام خلیفہ ء وقت نے کیا انکی ملک بدری کے دوران اور بعد میں عیسائ فاتحین اندلس نے۔ خود یوروپ میں کلیسائ قوتیں ان سے ناراض تھیں۔ اور نتیجتاً ایک زمانے میں یوروپ کے بعض حصوں میں انکی کتب پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ انہیں جلا بھی دیا گیا۔ لیکن ایک زمانہ وہ بھی آیا جب انکی کتابیں یوروپین تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ بنیں۔
فی الوقت میں اس کتاب سے ایک اقتباس دیانا چاہونگی۔ یہاں یہ امر یا درہنا چاہئیے کہ ابن رشد کی پیدائش گیارہ سو چھبیس عیسوی کی ہے اور اندازاً انکا زمانہ ہم سے ایک ہزار سال قدیم ہے۔ لیکن خواتین سے متعلق انکا بیان حقیقت حال کی ترجمانی کرتا ہے۔۔'اسکے بعد ابن رشد نے ایک ایسی بات کہی ہے گویا اسکے نفس نے اسکے مرنے کے کے تقریباً نو سو برس بعد قاسم امین کے کانوں میں پھونکی۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری اجتماعی حالت ہمیں ا س قابل نہیں رکھتی کہ ہم ان تمام فوائد کا استعمال کر سکیں جو ہمیں عورت کی ذات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر وہ حمل اور پرورش اطفال کے لئے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس غلامی کی حالت میں ہم نے عورتوں کو پالاپوسا ہے۔ اس سے انکی تمام اعلی قوتیں مضمحل ہو گئ ہیں اور اسکے عقلی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس لئے اس وقت ہم کو کوئ ایسی عورت نہیں ملتی جو اعلی فضائل اور اخلاق رکھنے والی ہو۔ انکی زندگی گھاس پات کی طرح ختم ہوجاتی ہے اس طرح وہ اپنے شوہروں پہ بار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ امر تمدن کی سخت ترین تخریب اور انحطاط کا موجب ہوا ۔ کیونکہ عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد کے مضاعف ہے گویا وہ وہ دنیا کی مجموعی آبادی کا دو ثلث ہیں لیکن وہ باقی ثلث کے جسم پہ مثل طفیلی حیوان کے زندگی بسر کرتی ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی ضروری قوتوں کی تکمیل سے عاجز ہیں'۔
تو میرے محترم قارئین، اس ایک ہزار سالہ پرانے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی ابتر صورت حال کو مغرب میں پچھلی صدی میں آزادیء حقوق نسواں کے نام سے کیش کرانے کے پیچھے چلنے والا تصوربھی کسی مسلمان مفکر سے ہی لیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ پچھلے ایک ہزار سالہ زمانے میں تقلیدی صفت نے ہم سے ہماری عقل کے تمام جوہر چھین کر مسلمان قوم کو اس عورت کی مانند بنا دیا ہے جیسی خوبیاں ابن رشد نے گنوائ ہیں۔ دوسروں پہ انحصار کرنے والی اور دوسروں کی طفیلی۔اور جس طرح ہم عورتوں کو انکی عقلی خوبیاں نہ استعمال کرنے کے عمل کو انکی خوبی اور معاشرے کے لئے سودمند سمجھتے ہیں اسی طرح ہم روائیت پسندی کے جال کو اپنے لئیے ایک تمغہ سمجھ کر اپنی جہالت پہ فخر کرتے پھرتے ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر یہ جانے بغیر کہ ہمارے اور انکے درمیان نظریاتی اور عملی اختلاف کتنا زیادہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ہمارے درمیان ہوتے تو یقین کامل ہے کہ ہم انہیں بھی دھتکار چکے ہوتے۔
اس مضمون کی تیاری میں مددگار ذرائع درج ذیل ہیں۔
کتاب۔' تاریخ فلاسفۃ الاسلام'۔ مصنف لطفی جمعہ، ترجمہ ڈاکٹر میر ولی محمد، نفیس اکیڈیمی، اردو بازار کراچی۔