Monday, December 28, 2009

کراچی میں دھماکہ

دوپہر میں، میں نے سوچا کہ سر شام اپنی ایک پرانی دوست سے ملاقات کر لی جائے۔ گھر سے نصیحت ہوئ کہ باہر نکلنے کا کوئ بھی پروگرام مغرب سے پہلے نہ بنائیے گا۔ اگر کوئ دھماکہ ہوا تو پھنس جائیں گی۔ میں نے سوچا صحیح کہہ رہے ہیں۔ اور پروگرام ملتوی کر دیا۔
کچھ دیر پہلے فون آیا کہ شہر کے مرکز سے گذرنے والے ماتمی جلوس میں دھماکا ہو گیا ہے۔ یہ جلوس ہر سال نکلتا ہے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ فوراً ٹی وی کھولا، خبر صحیح تھی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق بیس افراد جاں بحق اور پینتالیس افراد زخمی ہوگئے۔ یہ ایک خود کش دھماکا تھا۔۔
ایک عرصے سے میں نے اس موضوع پہ لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ آخر کب تک ہم بھی سیاسی لیڈران کی طرح مذمتی تحریریں لکھ لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہیں گے۔ مرنیوالے مر جاتے ہیں اور جھیلنے والے جھیلتے رہتے ہیں۔ باقی لوگ اپنے حصے کے صفحے بھرتے رہتے ہیں۔
 لیکن مختلف چینلز کو سرف کرتی ہوئ جب میں ایک چینل پہ پہنچی تو عمران خان سے تاثرات پوچھے جا رہے تھے۔ اور انکا وہی کہنا کہ جناب یہ سب دوسروں کی جنگ میں جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ان سے کوئ پوچھے دوسروں کی جنگ میں تو ہم انیس سو اناسی سے شامل ہیں آخر اس وقت یہ خیال کیوں اتنی شدت سے آرہا ہے۔ 
اب جبکہ حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف ہم میں سے ہر ایک کو بلا کسی تفرقے کے کھڑا ہوجانا چاہئیے۔ وہاں ایسے لیڈران کا اب بھی دہشت گردوں کا دفاع کرنا انکی عوام دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اگر ان رہنماءووں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو وہ دن دور نہیں جب دھماکوں سے تنگ آئے عوام انہیں بتائیں گے کہ ایسے رہنماءووں کا اور اس سیاست کا انجام  کیا ہوگا۔

13 comments:

  1. يہ ايک خطرناک پوسٹ ہے پتہ چلے پوليس والے آپ کے گھر تک پہنچ گئے ہيں پوچھنے کہ آپکو کيسے پتہ دھماکہ مغرب سے پہلے ہونا ہے عصر کے بعد کيوں نہيں؟ بھلا کيا جواز ديں گی آ پ پھر انہيں ؟

    ReplyDelete
  2. اسماء، اتنی پریشانی میں آپ نے ڈرا دیا۔ میں تو ٹینشن کی وجہ سے ٹی وی بھی نہیں دیکھ رہی۔ یہاں جو جلوس نکلتا ہے اسے عصر کے بعد کیماڑی تک پہنچنا ہوتا ہے۔ وہاں تعزئیے ٹھنڈے کرنے کے بعد شرکاء مغریبین ادا کر کے واپس پہنچتے ہیں۔ یہ سب میری پڑھی ہوئ باتیں ہیں آج تک ایسے کسی جلوس میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔
    تو اس سارے ٹائم ٹیبل کی وجہ سے سب کو اندازہ ہوتا ہے کہ محفوظ وقت کب شروع ہوگا۔ ابھی کچھ سال پہلے نشتر پارک کے سانحے میں بھی کتنے لوگ مارے گئے تھے۔ میں تو سمجھتی ہون ان مذہبی جلوسوں کا چاہے وہ کسی بھی فقہہ سے ہوں ۔ کوئ حل نکالنا چاہئیے۔ آخر پاکستان میں اتنے جلوس کیوں نکلتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. پاکستان میں اگر لاوڈ سپیکر اور ان جلوسوں پہ پابندی لگ گئ تو سمجھیں اسی فیصد مسائل حل ہو گئے

    ReplyDelete
  4. فرحان دانش سے کل رات ملکی حالات پر اہم مشاورت میں عمران خان نے یہ بات کہی ہو گی۔

    چلئے وہ غلط ہے۔ آپ نے بھی نہیں بتایا دہشت گردی کے خلاف کیسے بلا تفرقہ کھڑے ہوں؟
    لمبی بات کئے بغیر اگر ہمیں اپنے گھروں میں دھماکے روکنے ہیں تو ہمیں ان کے علاقوں میں بھی دھماکے روکنے ہونگے۔ کیونکہ جس آدمی کے پاس کھونے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں وہ کیا کرے گا؟

    ReplyDelete
  5. ڈالیں جی اس کو بھی را، موساد اور سی آئی اے کے کھاتے میں المعروف بلیک واٹر ڈیلیگیٹ کے ذریعے۔۔ اور قصہ ختم۔۔ باقی وہی آہنی ہاتھ، اور مزید کی اجازت نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔ اور رہ گئے ہم لوگ تو کوئی مسلمان تو ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

    ReplyDelete
  6. اسما‎ء- محرم کے جلوس مغرب سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد فاقہ شکنی ہوتی ہے – اور لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں

    ReplyDelete
  7. منیر آپکا کہنا بالکل ٹھیک ہے۔مذہبی جلوس اور لاءوڈ اسپیکر یہ ان سب
    کا استعمال اگر بند کر دیا جائے تو ان سے منسلکہ مسائل میں بھی کمی اسکتی ہے۔ لیکن ان مسائل میں کمی چاہتا بھی کون ہے۔
    بے نام،اگر عمران خان مشورہ کرنے کی عادت ڈال لیں تو ایسے بیانا ت دینے سے بھی پر ہیز کریں گے۔ میں ان تجزیہ کاروں کے ساتھ ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دھماکے رد عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہماری پچھلی چار سالہ یا نو سالہ پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ ہم نے دوسروں کی جنگ پچھلے تیس سال سے لڑی ہے، جہاد کے نام پہ۔یہ سب اسکے نتائج ہیں۔ لوگ کہتے ہیں اگر امریکہ چلا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن جو بھی شخص معاملات کو ذرا بھی غِر جانبداری سے دیکھے تو ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ اس سے بدتر ہوگا۔
    آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کیا کرنا چاہئیے۔ جس طرح لوگوں کے دماغ میں دین کی غلط شکل کو مقدس بنا کر داخل کیا گیا ہے۔ اسی مقدس شکل کو مٹانا ہوگا۔ انہیں بتانا ہوگا کہ حیات بعد الموت مرنے کے بعد شروع ہوگی اس سے پہلے اللہ نے انسان کو زندگی جیسی نعمت اپنا شکر بجا لانے کو اور اسے مثبت طرز پہ استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔
    ورنہ اسلام آنے سے پہلے بھی عرب قبائل آپس میں اسی طرح بے دست وپا تھے۔ انکے پاس جدید ٹیکنالوجی نہ تھی ورنہ جو آج ہورہا ہے وہ بھی وہی کرتے۔ کیا فرق ہے ان میں ان میں۔ ان قبائل کی جنگیں بھی اسی قسم کے معاملات پہ ہوتی تھیں بس یہ کہ انکے خدا الگ الگ تھے۔ تو ہمارا خدا کون سا ایک ہے۔ ہم سب کے دلوں میں بند خدا بھی الگ الگ ہے۔ جسے ہم اپنی مرضی سے تراشتے رہتے ہیں۔ ہمیں اسکی جو شکل پسند ہو۔
    البتہ ان قبائل کے پاس اسلام کا نام نہیں تھا۔ انکے پاس ہے۔ رات ہی میں نے قاضی حسین احمد کی آج ٹی وی پہ ہونے والی گفتگو سنی۔ انہوں نے فرمایا کہ جہاد رسول اللہ کے زمانے سے ہوتا چلا آیا ہے۔ کیا رسول اللہ نے انہی مقاصد کے لئیے اسی طرح جہاد کیا تھا۔ کیا رسول اللہ ان معاملات سے اس طرح نبرد آزما ہوتے کہ اس سے مسلمانوں کی جانیں مسلمانوں کے ہاتھوں جاتیں۔ خود مسلمانوں کا دارالاسلام میں رہنا دو بھر ہوجاتا اور وہ اپنے لئیے دارالکفار یا دارالحرب میں زندگی گذارنا بہتر سمجھتے۔
    راشد کامران صاحب، آپ نے صحیح کہا کوئ مسلمان ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ مسلمانوں کے پاس عقل رہی کہاں ہے جو وہ سوچیں۔ کچھ کی عقلیں اپنے امیروں کے پاس گروی ہیں جنکی عقلیں خدا جانے کس تجوری میں محفوظ ہیں۔ کچھ کی عقلیں ذاتی مفادات کے تھیلے میں چھپی ہوئ ہیں۔ کچھ کی عقلوں پہ انکے ذاتی نظریات کی حکمرانی ہے۔ کچھ اپنی عقل سے دوسروں کی عقل استعمال ہوتے دیکھتے ہیں۔
    سوچنے کے یہ چلن دیکھ کر مجھے تو ایک اشتہار یاد آتا ہے کہ آخر میرا بچہ ایسا کیوں ہے۔ اسکے آخیر میں یہ مشتہر کیا جاتا ہے کہ بچوں کو آئیوڈین ملا نمک دینا چاہئیے۔ میرا خیال ہے ہمیں سب چھوڑ کر صرف ایک مہم چلانی چاہئیے اور وہ آئیوڈین ملے نمک کی فراہمی۔ اسکے بغیر ملک میں نمک استعمال کرنا جرم قرار دیا جائے۔ اس سے شاید ہمارے حالات بہتر ہوں۔
    ۔

    ReplyDelete
  8. کراچی میں ہونے والے اس سانحے نے ایک بار پھر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ کراچی کی پولس اور قانون نافز کرنے والے ادارے نہ تو پیپلز پارٹی کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کی حکومت کے کنٹرول میں تھے، بلکہ ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں اس بات کا ثبوت پہلے بھی ملتا رہا ہے خواہ وہ 12 مئی کا واقعہ ہو یا 27 دسمبر کا یا 9اپریل کا ان کی کارکردگی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی ہے!اگر ہم کراچی کو آئندہ ایسے ‌کسی‌سانحے سے محفوظ رکہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیئے لازم ہے کہ کراچی میں پولس کراچی کے رہنے والوں پر مشتمل ہو اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مکمل کنٹرول یہاں کی حکومت کے پاس ہو ورنہ ایسے سانحے بار بار ہوتے رہیں گے اور ہم خفیہ ہاتھ تلاش ہی کرتے رہ جائیں گے،
    رہی‌افضل صاحب کی یہ بات،
    اب چونکہ میڈیا ہر جگہ موجود ہے تو ٹی وی کی ویڈیوز سے آگ لگانے والوں کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ اگر چند شرپسند بھی پکڑے گئے تو اس دہشت گردی کے پیچھے چھپے ہاتھ کو سامنے لانا مشکل نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ پکڑے جانے والے اگر کسی بڑی پارٹی کے کارکن نکلے تو معاملہ وہیں دب جائے گا۔ اب یہ شہری، صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس دہشت گردی کے اصل محرکات کو جاننے کے لیئے کس قدر مخلص اور سنجیدہ ہے!
    جناب صرف میڈیا نہیں سٹی گورنمنٹ کے کیمرے بھی موجود تھے اور انہوں نے مجرموں کو کیپچر کیا ہے،
    جس کی بنیاد پرچند خبث باطن رکھنے والوں نے تو یہاں تک الزام لگایا تھا کہ سٹی گورنمنٹ ان کیمروں کی فوٹیج کو اسی لیئے منظر عام پر نہیں لا رہی کہ اس لوٹ مار میں ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ملوث ہیں!
    اب جبکہ سٹی گورنمنٹ کے کیمروں کی فوٹیج منظر عام پر آچکی ہیں ‌اور‌ان‌کی‌بنیاد‌پر‌پولس‌کچھ‌‌‌‌‌‌‌ پکڑ دھکڑ بھی کررہی ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ چور کا بھائی گرہ کٹ کے مترادف اپنے کتنے بھائی بندوں کو پکڑتی ہے ویسے پولس والوں کسی کے بھائی نہیں ہوتے وہ صرف اپنے مفادات کے لیئے مجرموں کو پالتے ہیں ‌اور جب مجرم منظر عام پر آجائے تو کسی پولس مقابلے میں انکا صفایا کردیتے ہیں اسے کہتے ہیں چپڑی اور دو دو اپنا نام اور عزت بھی محفوظ رہتی ہے واہ واہ بھی ہوجاتی ہے اور نئے پلے مجرم خوفزدہ بھی رہتے ہیں ،یہ ہے اصل صورتحال اور حکومت کے اندر چلتی ایک اور حکومت!

    ReplyDelete
  9. یہ تبصرہ افضل صاحب کی پوسٹ ‌پر‌قبول‌نہ‌ہوا‌اس‌لیئے‌آپکے بلاگ پر پوسٹ کررہا ہوں معزرت کے ساتھ!

    ReplyDelete
  10. عبداللہ، آج ہی مجھے بھی سٹی گورنمنٹ سے جاری ہونے والی ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔تو انکی پہچان واضح طور پہ ہو رہی کہ یہ ممکنہ طور کون ہو سکتے ہیں۔ اب تو لوگوں کی ایک اکثریت کہہ رہی ہے کہ یہ ایجنسیز کا کیا دھرا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ تخریب کاروں پر ایک گولی نہ چلائ گئ اور ایک آنسو گیس کا شیل تک نہ پھینکا گیا۔ اس حادثے کی تفصیلات دیکھکر وہ دن یاد آگیا جب علی گڑھ کالونی پہ حملہ کیا گیا تھا۔ اس دن بھی پولیس کی طرف سے ایک گولی چلائ گئ تھی نہ ایک شیل پھینکا گیا تھا۔ حتی کہ ہنگامہ کرنیوالے پانچ گھنٹے تک وہاں مصروف رہے۔ یعنی قتل ، غارت گری، جلاءو گھیراءو لوٹ کھسوٹ جاری رہا مگر کوئ نہ تھا جو مدد کو آتا۔ جبکہ پولیس نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کی ہوئ تھی۔ آخر وہ اس دن وہاں کیا کر رہی تھی۔

    ReplyDelete
  11. انیقہ صرف قصبہ اور علی گڑھ کالونی ہی نہیں حیدرآباد میں بھی جس طرح ایک ڈیڑھ گھنٹہ بازار میں فائرنگ کر کے کئی سو لوگوں کو خاک و خون میں لتھڑا دیا گیا مگر پولس کہیں نہ تھی،اور پولس ہر برے سانحے کے دن مجرموں کو پکڑنے کے لیئے نہیں بلکہ ان کی حفاظت کے لیئے موجود ہوتی ہے،
    ہم کراچی والوں کے لیئے یہ سب کچھ بلکل بھی نیا نہیں ہے،ہم تو اس جور و ستم کے عادی ہوچکے ہیں ،کراچی میں پولس شہریوں کی حفاطت کے لیئے نہیں کمائیاں کرنے کے لیئے ہوتی ہے دونوں سے کمائیاں ، مجرموں سے بھی اور شہریوں سے بھی ،
    اور پھر ان جرائم کے الزام بھی ہم پر اور ہماری نمائندہ قیادت پر لگائے جاتے ہیں،
    وہی قتل کرے وہی لے ثواب الٹا:(
    پھر یہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آخر کراچی والے ایم کیو ایم کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں یہ جانے بغیر کہ صرف یہی ایک سیاسی قیادت ہے جس نے اس شہر اور اسکے رہنے والوں ک مسائل کو سمجھا ہے اور انہیں حل کیا ہے کیونکہ انکی جڑیں ‌یہاں پیوست ہیں، وہ حیران ہوتے ہیں کہ اس کی اعلی تعلیم یافتہ قیادت اور کارکنان کو بدترین مجرم کی شکل میں پیش کرنے کے باوجود کراچی کے لوگ ان کے زہریلے پروپگینڈے سے متاثر کیوں نہیں ہوتے!
    صرف اس لیئے کہ کراچی‌‌‌کے‌لوگ‌حقیقت حال سے واقف ہیں!

    ReplyDelete
  12. Karachi is under rule of War Lords, Gun Lords, Political Lords. There is no law, its controlled by 50 militias.
    Americans, NGOs and NATO troops want to keep us divided in order to use Karachi port for their war logistics.

    http://baghdadtobasra.blogspot.com/2009/02/karachi-burns-again.html

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ