Saturday, December 19, 2009

ایک ہے ثریا

میں ثریا کو نہیں جانتی۔وہ یہیں کہیں رہتی ہوگی۔
میں نے سنا ہے وہ ملک کے کسی دورافتادہ علاقے سے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں آئ تھی۔ پھر اسکا باپ ایک ایکسیڈنٹ میں مر گیا۔ اور وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں اور ماں کے ساتھ زندگی جھیلنے لگی۔ اسکی ماں نے کپڑے سی کر اپنا گھر چلانے کی کوشش کی لیکن کچھ عرصے میں پتہ چلا کہ اسے کالا موتیا ہوگیا ہے اور اب وہ بہت کم دیکھ پاتی تھی۔
 ثریا نے ایک مدرسہ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہاں اسے قرآن حفظ کرنے کی سہولت بھی حاصل تھی اور پڑھانے کی وجہ سے کچھ تنخواہ اور دن کا کھانا بھی۔ لیکن اسکے اوقات بہت سخت تھے۔ وہ فجر سے پہلے ہی اٹھ کھڑی ہوتی اور جب شام ڈھلے منی بس میں ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کرنے کو سوار ہوتی تو کبھی کبھی شدت تھکن اور نیند سے اسکی آنکھیں بالکل بند ہو جاتیں۔ نیند تو سولی پہ بھی آجاتی ہے۔
پر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ سولی کی نیند، اس پہ آنیوالی موت کے مقابلے میں کتنی بھیانک ہوتی۔ یہ اسے اس دن پتہ چلا جب اسکی آنکھ کھلی تو وہ ایک بیابان علاقے میں گاڑی کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے ساتھ موجود تھی۔  بہت رو دھو کر جب وہ گھر واپس لوٹی تو بھی اسے اندازہ نہ تھا کہ اب اسے کتنی مدت تک جاگنا ہوگا۔ اسکا صحیح اندازہ اسے اس دن ہوا جب اپنی ماں کے بےحد اصرار پہ کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جائے آخر اتنے دنوں سے اسکی طبیعت کیوں صحیح نہیں ہے۔ وہ محلے کی ڈاکٹر کے پاس چلی گئ۔
لیڈی ڈاکٹر کی تشخیص پہ وہ بالکل ہکا بکا رہ گئ۔ اسکی عمر تو صرف سترہ سال تھی اور اسکا تو کوئ قصور بھی نہ تھا۔ مگر بیالوجیکل سائنس ان تمام حقائق سے نا واقف تھی۔
آخر اس لیڈی ڈاکٹر نے اسکی قابل ترس حالت کو دیکھتے ہوئے اسے ایک سینئیر ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ حالات اس مرحلے پہ تھے جہاں وہ جونئیر  ڈاکٹر کچھ نہ کر سکتی تھی۔
 بلکہ کوئ ذمہ دار ڈاکٹر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر نے سب دیکھا بھالا۔ اسے تسلی دی اس تکلیف دہ اطلاع کے ساتھ۔ اس نئ آنے والی زندگی کو روکا نہیں جا سکتا البتہ وہ اسکی مزید مشکل آسان کر سکتی ہے۔ اس طرح کہ اسے آنیوالی زندگی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور اس آنیوالے بچے کو بھی زندگی کا حق حاصل رہے۔
چند مہینوں بعد ثریا کی ماں کو ایک ہسپتال سے فون آیا کہ کہ وہ فوراً پہنچے اسکی بیٹی کی حالت درست نہیں۔ ہسپتال پہنچنے پہ ڈاکٹر نے اسے خاصہ ڈانٹا کہ اس نے اپنی بیٹی پہ کوئ توجہ نہ کی۔  اسکی بیٹی کے پیٹ میں خطرناک رسولی ہو گئ تھی۔ وہ آج سڑک کے کنارے بیہوش ملی۔ اور بروقت آپریشن کر کے اسے بچا لیا گیا ہے۔
میں ثریا کو نہیں جانتی، اس لئے مجھے اس ساری کہانی سے کوئ خاص دلچسپی نہیں۔
 وقت کی کسی اکائ میں ہونے والے اس واقعے سے پہلے یا بعد میں میری ایک دوست کا فون آیا کہ انہوں نے ایک بچہ گود لے لیا ہے۔
میں انکے ساتھ انکے گھر میں موجود ہوں۔ بچے کے موجودہ والدین خوش نظر آرہے ہیں۔ انہیں بے اولادی کا عرصہ گذارتے ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے وہاں کچھ رشتے دار بھی ہیں۔ کسی نے کہا کہ بڑا نیکی کا کام کیا ہے آپ نے ۔ وہ دونوں حیران ہوئے۔ ارے ہم نے کیا نیکی کا کام کیا ہے۔ یہ تواس بچے کی مہربانی ہے جس نے ہمیں مکمل کر دیا۔۔ یہ تو خدا کا تحفہ ہے۔ انکی سرشار آوازآئ۔
 وہیں ایک اور صاحب بھی بیٹھے ہیں وہ اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں بھئ بچہ آپ نے گود لے لیا بہت اچھا کیا لیکن شرعی حکم یہ ہے کہ بچے کے باپ کا نام تبدیل نہیں ہونا چاہئیے۔ تو اس بچے کے باپ کا نام معلوم کر کے اسکے ساتھ وہی نام لگانا'۔
سب لوگ خاموش ہوجاتے ہیں۔ اس خاموشی کو اس بچے کے موجودہ باپ نے توڑا۔ ' نہ مجھے اس سے غرض اور نہ ہی اس ادارے کی یہ پالیسی ہے۔ جہاں سے یہ بچہ ہماری دنیا میں آیا ہے'۔'بھئ ہم نے تو تمہیں خدا کا حکم بتا دیا۔ اب تمہاری مرضی'۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
 میں نے اپنی موجودگی کو زائد جان کر  اپنی دوست کی گود میں دنیا و مافیہا سے بے خبر نرم کمبل میں لپٹے اس بچے کی بندھی مٹھیوں میں شگون کے پیسے رکھے اور والدین کو مبارکباد دیکر نکل آئ۔ ہم میں سےکتنے لوگ اس اختیار کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کہ ہم معلوم باپ کے گھر پیدا ہونگے یا نامعلوم باپ کے گھر۔
گاڑی سگنل پہ رکی تو وہاں بیٹھے بچوں کے غول میں سے ایک گیارہ بارہ برس کی بچی میرے منع کرنے کے باوجود تیزی سے گاڑی کا شیشہ صاف کرنے لگی۔
میں نے اسے دیکھا۔ اورمجھے لگا میں ثریا کو جانتی ہوں۔



9 comments:

  1. نجانے کتنی ثریا ہیں جو بے یار و مدد گار پھرتی ہیں اور ہم ان کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کرتے یا کر نہیں سکتے ۔ اگر اپنے قُرب و جوار ہی پر نظر ڈالی جائے تو کوئی نہ کوئی ثریا مل جاتی ہے جسے اوجِ ثریا تو نہیں پہنچایا جا سکتا لیکن اس کی مجبوریوں میں کمی تو کی جاسکتی ہے
    کسی بزرگ سے مؤمن کی تعریف پوچھی گئی تو بزرگ نے کہا "وہ جو کھا کر سوئے اور اس کے محلے میں کوئی بھوکا نہ ہو"

    ایک نادار کا سہارا بننا اچھی بات ہے خواہ وہ بڑا ہو یا بچہ ۔ ویسے کوئی داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی اللہ کے حُکم کو بیان کرنا اُس پر واجب ہے اگر وہ مسلمان ہے

    ReplyDelete
  2. بی بی!

    آپ کسی نہ کسی رنگ سے، اچھی بھلی چلتی ہوئی تحریر میں، شرع یا دین اسلام سے متعلقہ افراد ، یا اسلام کی بات کرنے والوں کو یا کسی دوسرے طریقے سے موضوع میں کسی کم علم اسلامی صاحب رویہ کے کسی فعل کوگھسیٹ کر کچھ ایسا تاثر چھوڑتی ہیں کہ بعض اوقات آپ کا قلم اسلام سے مغائرانہ رویے کا تاثر دیتا ہے۔

    اسلام کا ضابطہ حیات ہمارے رویوں، ہماری مصحلتوں، ہمارے مسائل یا ہماری کج ادائیوں کا تابع نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں سے ایک ہمہ گیر اخلاق اور رویے کا متقاضی ہے جس سے کسی ایسی ثریا کا یہ حشر نہ ہو۔ اگر یوں ہوتا ہے تو اسمیں ہم بہ حیثیت مسلمان ناکام ہوئے ہیں۔ اس پہ اسلام یا اسلام کی بات کرنے والوں کا قصور نہیں۔

    اسلام نے ہر مسئلے، ہر پیچیدگی پہ ایک واضح رائے دی ہے۔ اگر صاحب بیان کا اندازِ بیان درست نہیں تھا یا ناگوار طریقے سے تھا تو اس پہ تو بات کی جاسکتی ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے کی دوغلیوں اور نیرنگیوں کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے موضوع میں چلتے چلتے کسی باریش کے حوالے سے اسلام کے کسی ضابطے کو "ادھ کہی" تکرار کے حوالے کردینا بہر حال ایک متحسن قدم نہیں۔ یہ کام صاحب علم ہونے کا دعواہ رکھنے والوں پہ کسی طور پہ نہیں جچتا۔

    یہ مناسب نہیں جس مذہب، ملک، ادارے، خاندان وغیرہ سے تعلق ہو اسی کے بارے میں دانستہ یا دانستہ کنفیوژن پیدا کیا جائے۔ بغیر کسی وجہ، معقول جواز اور واضح مقصد کے اُسے متنازعہ بیان کیا جائے۔ الا یہ کہ اس مذہب ، ملک، ادارے، خاندان وغیرہ سے تعلق ہی نہ ہو اور اُس مزہب، ملک، ادارہ یا خاندان سے شدید مخاصمت ہو۔

    ReplyDelete
  3. ہم جاوید گوندل صاحب کی بات کی تائید کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. آپ سب صاحبان کی خدمت میں عرض ہے کہ دین کی یہی شکل ہے جو مجھے کیا بیشتر لوگوں کو پسند نہیں آتی۔ اس میں دین یا شرع کا قصور نہیں۔ بلکہ اس کے ماننے والوں کا قصور ہے۔
    دنیائے عرب جہاں اسلام نے جنم لیا وہاں بچوں کو ، خاص طور پہ رشتے داروں کے بچوں، اپنے قبیلوں کے بچوں یا یوں کہہ لیں کہ اپنی قوم کے بچوں کو گود لینے کے رواج کے ساتھ یہ رواج تھا کہ انکے باپ کا نام تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ حالانکہ انکے بارے میں بالکل صحیح یہ بات پتہ ہوتی تھی کہ وہ کس کے بچے ہیں۔ اس سے جہاں وصیت کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں وہاں انکی شادی کے مسائل بھی کھڑے ہو سکتے تھے۔
    کیونکہ یہ بات تو انسانوں کی تمام تہذیبوں میں رائج ہے کہ سگے بہن بھائیوں کی آپس میں شادی نہیں ہوسکتی۔
    لیکن ایک جگہ جہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ کرنا نا ممکن کے برابر ہے۔ اگر وہ شخص اس بچے کو اپنا نام دینے کو تیار ہوتا تو کیا وہ کسی کوڑے کے ڈھیر، خیراتی ادارے کے باہر رکھے ہوئے جھولے یا کسی نالے کے کنارے پڑا ملتا۔ جی نہیں جناب ایسا نہیں ہوتا۔
    یہ واقعہ اس لئیے پیش آیا کہ دین میں سے انسانی روح کو ختم کر کے اسے ریاضی کے طریقے کا دو جمع دو چار کا قاعدہ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ انسانی طریقوں میں دو جمع دو صفر بھی ہو سکتا ہے اور لامتناہی بھی۔
    اگر اس بچے کا باپ ان صاحب کو یہ ذمہداری دے دیتا کہ جائیے یہ کام آپ کر کے لائیے تو انکے لئیے بھی ناممکن ہوتا۔ پھر اس وقت اس بات کو بتانے کا کیا مقصد۔ آپ بتائیے، جب تک ایسے انسان آپکے معاشرے میں تخلیق ہورہے ہیں انکے وقار کو قائم کرنے کے لئے آپ کیا کریں گے۔ کیونکہ اس دنیا میں اس طرح آنا انکا اپنا انتخاب نہیں۔
    اسی طرح نظریہ عذاب و ثواب۔ میں سمجھتی ہوں اور دین میں اس سمجھ کو ماننے والے گروہ بھی موجود رہے۔ تمام بیانات اس طرح دئے گئے ہیں کہ لوگوں کے ہر طبقے اور ہر طرح کی سمجھ رکھنے والے شخص کو اس میں کشش محسوس ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہر وقت اپنا ثواب گنتے رہیں کہ اتنا ہو گیا۔ آج میں نے دن میں چار دفعہ اپنی ماں پہ محبت بھری نظر ڈالی ہے تو آج مجھے چار حج کا ثواب مل گیا ہے۔ یہ سوچ کر ایک بدو تو خوش ہوسکتا ہے لیکن اویس قرنی نہیں۔
    جی ہاں، میری تحریروں میں آپکو یہ حوالے ملتے ہیں اور ملتے ریہں گے۔ کیونکہ یہ اس پراگندہ معاشرہ کا زیادہ رخ ہے۔ آپ اس بنیادی سوچ کو یہاں سے ختم کر دیں میں یہ سب نہیں لکھونگی۔ اگر ہروقت میں اس منافقت کو یہاں نہیں دیکھوں تو میں نہیں لکھونگی۔

    ReplyDelete
  5. جایود صاحب، اگر میں کہانی کاپہلا حصہ بیان کرنے کے بجائے صرف دوسرا حصہ دیتی تو آپکا اعتراض بجا ہوتا کہ میں نے اسے متنازعہ بنایا، اور یہ میری بیجا مخاصمت ہے۔ پہلا حصہ بیان کرنے کا مقصد ہی ان بچوں کے بارے میں بات کرنا ہے جنکے متعلق ہمیں ایسی کوئ معلومات نہیں ہوتیں اور اسے معلوم کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ مزید پیچیدگیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں، ایسی جگہوں پہ اپنے شرعی علم کو بیان کرنا اور اس پہ اصرار کرنا دراصل اپنے اور اپنے سے منسلک لوگوں کے صحیح النسب ہونے پہ فخرہے۔ جسکا انہیں پیدائشی طور پہ کوئ اختیار نہ تھآ ۔

    ReplyDelete
  6. عنیقہ کی بات سے متفق ہوں

    ReplyDelete
  7. حکم بجا ہے لیکن جس بچے کے باپ کا اس کی ماں کو بھی نام نہ معلوم ہو اسے کس نام سے پکارا جائے؟ اور پھر پردہ پوشی کرنے والے کا کیا اجر ہے روز محشر؟ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ letter of the law کی بات تو بہت کرتے ہیں، spirit of the law کو بھول جاتے ہیں۔ خیر اگر ایسا نہ ہو تو یہاں دین کے نام پر سارا سال شب برات کیوں چل رہی ہوتی؟

    ReplyDelete
  8. MashaALLAH bohat khushi hoi ye parh kar... lakin ab may ye soch raha hon k agar chand salon baad us family ka koi bacha ho gaya kia phir bhi wo loog us ko apney bachey ki tarha rakh payen gey ???? chalain bahar haal us ki zindagi yateem khaney sey to achi guzar jaye gi ... Hazrat Zaid ko zaid Bin Muhammad keh kar bulaya jata tha . ALLAH nay mana kar dia k Zaid ko Zaid Bin Muhammad na kaho .. surah al Ahzab dekh lain .. baki kisi specific situation ka to mujey pata nahi ... lakin javed bhai ki baat Theek hay k ap kisi na kisi bahaney tanqeed karti nazar ati hain .... wese ap pakistan ki NGO's par tanqeed kiun nahi kartin jo pese kamaney k tarikey dhondti hain bajaye yateem bachon par tawaja deney k

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ