Thursday, December 17, 2009

ترغیب، تقلید اورنتائج

ایک دفعہ ایسے ہی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایک تجربہ کیا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکا مقصد قدرت کے کسی کام میں دخل اندازی نہ تھا۔ بلکہ شاید یہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئ ہوگی کہ کچھ لوگ کیوں قدرت کے کاموں میں دخل اندازی پسند نہیں کرتے۔
چونکہ سائنسدان ہمیشہ کھیت کی بات کر کے کھلیان کے نتیجے نکالتے ہیں تو انہوں نے 
اس تجربے میں بھی پانچ بندر لئے ، جنہیں ایک پنجرے میں بند کر دیا گیا اور انکے درمیان ایک سیڑھی پہ چند کیلے لٹکا دئے گئے۔ اب آپ تو جانتے ہیں کہ بندروں کو کیلے کتنے پسند ہوتے ہیں تو ان میں سے فورا ہی ایک بندر نے سیڑھی پہ چڑھنے کی کوشش کی۔ جیسے ہی اس نے سیڑھی پہ قدم رکھا۔ باقی بندروں پہ خوب ٹھنڈا پانی پھینک دیا گیا۔ خوب ہلچل مچی اور وہ بندر بھی سراسمیہ ہو کر نیچے اتر آیا۔ اب جیسے ہی کوئ بندر سیڑھی پہ چڑھنے کی کوشش کرتا باقی بندروں پہ یہ ٹھنڈا پانی پھینک دیا جاتا۔
کچھ دیر بعد یہ حالت ہو گئ کہ جیسے ہی کوئ بندر کیلوں کو دیکھ کر للچاتا اور سیڑھی پہ پیر رکھتا، باقی بندر اسکی پٹائ شروع کر دیتے۔اچھی طرح پٹنے اور پیٹنے کے کچھ دیر بعد سب بندر سکون سے بیٹھ گئے۔ اور کسی نے بھی اوپر جانے کی خواہش چھوڑ دی۔
خیر ، یہ سائنسدان ایسے ہی شیطانی دماغ کے مالک ہوتے ہیں,  اس لیئے کچھ لوگ سائنس کو شیطانی علم بھی کہتے ہیں۔ تو انہوں نے اس مرحلے پہ سوچا کچھ نیا کیا جائے۔ اور انہوں نے ان میں سے ایک بندر کو نکال کر ایک نئے بندر کو شامل کر دیا۔ اب  اس نئے بندر نے وہی کیا جو اسے نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ یعنی کیلا دیکھا اور سیڑھی کی طرف لپکا۔ اسے جاتا دیکھ کرباقی بندر اسکی پٹائ کرنے لگے۔  کئ دفعہ پٹنے کے بعد اس نے یہ سبق سیکھ لیا کہ سیڑھی پہ پیر نہیں رکھنا۔
اب سکون ہو گیا۔ اس سکون کے ساتھ ہی سائنسدانوں نے ایک اور بندر کو نکال باہر کیا اور اسکی جگہ ایک نیا بندر ڈالدیا۔ اس بندر نے بھی جیسے ہی سیڑھی پہ پیر رکھنے کی کوشش کی سب بندروں نے جس میں پہلا تبدیل شدہ بندر بھی تھا اس پہ ہلہ بول دیا دیا۔ کئ دفعہ پٹ کر ان بندر صاحب کا دماغ بھی ٹھکانہ آگیا۔
آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے پہلے سیٹ کے تمام بندروں کو تبدیل کر کے نئے بندر ڈال دئیے گئے۔ مگر وہ سب اسی طرح سیڑھی پہ پیر رکھنے والے بندر کی پٹائ شروع کر دیتے۔ حالانکہ ان میں سے کسی کے اوپر بھی ٹھنڈا پانی نہیں پھینکا گیا تھآ۔
کہا جاتا ہے کہ اگر ان نئے بندروں کے سیٹ کو قوت گویائ حاصل ہوتی اور ان سے پوچھا جاتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو وہ جواب دیتے کہ'پتہ نہیں، بس یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ اس لئیے ہم بھی یہی کرتے ہیں'۔


ایک بلاگ پہ پول؛
آپکا کیا خیال ہے بندروں کو بول چال سکھانا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ بات پایہ ء ثبوت کو پہنچے کہ وہ یہ جواب دیتے یا نہیں۔

میڈیا کے اہم سوالات؛
کیا بندروں کی مثال انسانوں پہ نافذ کرنا، قدرت کے قوانین میں مداخلت ہے یا ڈارون کو خراج تحسین پیش کرنا۔

مخالف گروپ؛بندر کو کبھی بولتے سنا ہے۔ اگر بندر بھی بولنے لگ جائیں تو ہم کیا بولیں گے۔ یہ قدرت کے قوانین میں مداخلت نہیں تو اور کیا ہے۔

میری پڑوسن بزرگ خاتون؛ لا حول ولا قوت، بندر بھی کبھی بولے گا۔ یہ تو  قیامت قریب ہونے کی نشانی ہے۔

میرا ڈرائیور؛
باجی،یہ سب امریکہ اور یہودی  کا گٹھ جوڑ ہے۔ یہاں بندر سے مراد مسلمان اے۔ یہ سب جھوٹ بولتا اے۔ جھوٹی تسلی دیتا اے۔ بندروں کو بولنا سکھائےگا۔ کافر کاپلا ہوا بندر کیا بولے گا۔

میری بیٹی: ماما، ایلیفنٹ کی دم ہوتی ہے، منکی کے ہوتی ہے ہماری کیوں نہیں ہوتی۔
میں؛ پھر تم ڈائپر کیسے پہنتیں بیٹا۔
کم سے کم میری بیٹی تو خاموش ہوئ۔ اس پہ آجکل واش روم استعمال کرنے کا بڑا معاشرتی دباءو ہے۔

12 comments:

  1. تقلید کے ضمن میں یہ مثال اچھی ہے اور ثابت شدہ بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہلِ تقلید عقل کے بجاے نقل کو ترجیح دیتے ہیں۔

    پیشگی تبصروں میں موجود اعتراضات اپنی جگہ لیکن اگر اندھی تقلید ہی کرنی ہے تو انسان اور بندر میں تمیز کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  2. شکر کریں کہ ابھی تک بہت سے لوگوں کو اردو بلاگنگ کا پتہ ہی نہیں۔

    ہم تو بے ضرر سے لوگ ہیں۔ گزارہ کر لیتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. آپ نے جس بھی نظریہ سے یہ تحریر لکھی ہو یہ حقیقت ہے کہ انسان بھی ترغيب اور تقلید سے ہی سیکھتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو انسان کا بچہ کبھی کچھ سیکھ ہی نہ پائے ۔ آپ نے اپنی بچی کے ڈائپر کی بات کی ہے ۔ اگر آپ اپنی بچی کو ڈائپر کی ترغیب نہ دیتیں بلکہ تین چار دہائیاں قبل والا سلسلہ رکھتیں تو ڈائپر کی ضرورت ہی نہ رہتی ۔ ڈائپر دراصل کسی بچے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ماں کی کاہلی کا علاج ہے

    ایک بات ذہن میں رہنا چاہیئے کہ خالقِ کائنات نے اپنی مخلوقات کے لئے ترغیب کا ایک خودکار نظام بھی رکھا ہوا ہے ۔ انسان کا بچہ ہو یا جانور کا ۔ پیدائش کے بعد اپنی خوراک تلاش کرتا ہے اور اپنی ماں کو پہچانتا ہے
    بچوں کی نفسیات کے ماہر تو تقلید کی مثال یہاں تک دیتے ہیں کہ بچہ ماں کے پیٹ میں بھی باہر ہونے والے غیرمعمولی عوامل کا اثر لیتا ہے

    بڑے بچے حتٰی کہ بالغ بھی اگر تقلید اور ترغیب کے محتاج نہ ہوتے تو کسی مدرسہ یا جامعہ میں نہ معمل ہوتی اور نہ تجربات کی مشق
    بات صرف اتنی سی ہے کہ " نقل را عقل باید "

    جہاں تک جانوروں کا تعلق ہے ہر نوع کے جانور اپنی قسم کی باتیں اور حرکات سمجھتا ہے اور اکٹھے رہنے والے مختلف اقسام کے جانور بھی کافی حد تک ایک دوسرے کی باتیں اور حرکات سمجھنے لگ جاتے ہیں

    ReplyDelete
  4. آپ نے جو پہیلی میری مندرجہ ذیل تحریر کے نیچے نمبر 9 پر لکھی تھی اُس کا جواب لکھ دیا ہے
    http://www.theajmals.com/blog/2009/12/16

    ReplyDelete
  5. ترغیب اور تقلید انسانوں کی بھی بنیادی صفت مگر اس کے ساتھ ساتھ انسانوں میں جو صفت اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے کچھ انسانوں کا تقلید کو چھوڑ کر تجسس اور تحقیق کی راہ اختیار کرنا۔
    مذہبی طور پر مقلد اور غیر مقلد کی ایک بڑی زبردست علمی بحث موجود ہے

    ReplyDelete
  6. احمد آپکا تبصرہ اپنی جگہ، لیکن میں ایک راز کی بات بتاءوں۔ ایک بلاگ پہ ایک صاحب نے احمد نام سے تبصرہ کیا ہوا تھا۔ اور مجھے ذرا حیرت بھ ہوئ کہ یہ محمد احمد کو کیا ہو گیا ہے۔ لیکن ، تھوڑی دیر میں بات سمجھ میں آگئ کہ وہ آپ نہیں ہیں۔
    منیر عباسی، یہ آپ اتنی مسکینیت سے کیوں کہہ رہے ہیں۔
    اجمل صاحب، بچے بھی ہر چیز تقلید سے نہیں سیکھتے۔ بلکہ انکے اندر جدت پسندی بڑوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم انکی تربیت کرتے وقت اس طرح انکو کر دیتے ہیں کہ بس پھر وہ تقلید کے ہی عادی ہوجاتے ہیں۔ آپکی یہ بات صحیح ہے کہ بچے اپنی پیدائش سے پہلے ہی سے ماحول کا اثر لینا شروع کر دیتے ہیں لیکن اسکا تعلق تقلید سے نہیں بنتا۔ فی زمانہ بچوں کی تربیت کے بنیادی اصولوں میں خاصی تبدیلی آئ ہے اور اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں ہمارے بچے پچھلی نسل کے بچوں سے روئیے میں خاصے مختلف ہیں۔
    تقلید۔ اگر اتنی ہی روا رکھے جانیوالی چیز ہوتی تو ابتدائ انسان کبھی غاروں سے باہر آکر مہذب معاشرے کی بنیاد نہ رکھتا۔
    اور ہاں پہلے کی مائیں بہت ساری چیزوں میں آج کی ماءووں سے مختلف تھیں۔ وہ بلاگنگ بھی نہیں کرتی تھیں اور نہ انہیں کتابوں میں سر کھپا کر ڈگریان اور کرئیر بنانا ہوتا تھا۔ آج کی ہر ماں کو آپ کاہل نہیں کہہ سکتے۔ جو خواتین کام کرتی ہیں وہ پہلے کی خواتین کی نسبت بہت زیادہ کام کرتی ہیں اور جو نہیں کرتیں انکی پچھلے زمانوں میں بھی کمی نہ تھی اسی لئیے ڈپٹی نذیر احمد نے کتاب مراۃالعروس لکھی۔
    آپکے جواب کو میں فرصت ملنے پہ دیکھونگی۔ کیونکہ اس تحریر کے ساتھ ہی میں اپنے سسٹم کو خدا حافظ کہہ رہی ہوں۔ صبح تک کے لئیے۔

    ReplyDelete
  7. خوب لکھا ہے آپ نے۔۔ سوچنے اور جائزہ لینے کے کئی پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔۔ ایک بڑی اچھی اور مثبت بحث ہے۔۔

    ReplyDelete
  8. محب علی صاحب، آپ نے صحیح کہا کہ اس پہ خاصی دلچسپ بحث موجود ہے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں زوال اسی وقت سے شروع ہوا جب مذہب میں تقلیدی روایات کی پاسداری کو ترجیح دی جانے لگی۔
    شکریہ کامران راشد صاحب۔

    ReplyDelete
  9. محترمہ میں صرف اتنا کہا ہے کہ انسان کو بھی تقلید اور ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے مین نے صرف کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔

    ReplyDelete
  10. میری اصل دلچسپی تو اس بات سے ہے کہ انیقہ اس تجربے پر کیا تبصرہ کرتیں؟
    ویسےاندھی تقلید کچھ ایسے ہی گل انسانوں میں بھی کھلاتی ہے اور انسانوں کو بندر بنا کر ہی چھوڑتی ہے :)
    ثبوت کے لیئے بہت سے بنر ارد گرد ہی نظر آجاتے ہیں!:)

    ReplyDelete
  11. عبداللہ، عنیقہ نے ابھی اس تحریر کے ذریعے آگے کی تحریروں کا ڈول ڈالا ہے۔ دیکھئیے کیا آتا ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ