لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ، یہ خواہش انسان میں پیدائش کے وقت سے ہوتی ہے۔ اسی لئیے نوزائیدہ بچوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں کو کیسے بے وقوف بنانا ہے۔ یہ طریقے زیادہ عرصے کارگر نہیں رہتے، خاص طور پہ جیسے جیسےملنے جلنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہے، طریقہ ءکار میں تبدیلی لانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ فیس بک اس سلسلے میں آپکی کما حقہ تربیت کرتی ہے۔
ایک زمانے میں لکس بیوٹی سوپ کا اشتہار آتا تھآ۔ 'آخر لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں'۔ تو اسی انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے فیس بک والوں نے آپکو یہ موقع بھی دیا ہے کہ آپ اپنے آپکو جس طرح چاہیں ظاہر کریں۔ اگرچہ کچھ لوگ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے یا انہیں ماورائ حالت میں رہنا پسند ہوتا ہے تو وہ فیس بک کی طرف سے دی گئ خالی جگہ پہ ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ اس خالی جگہ میں ایک ہیولہ موجود ہے جس کے سر پہ آئسکریم کا کون موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کسطرح اس جمے ہوئے کون کو آتش شوق کو ہوا دینے والی قوت میں تبدیل کرتے ہیں۔ میں ہوں ناں، آپکی مدد کے لئیے۔
کچھ اپنی کاہلی یا رسومات کو بادل ناخواستہ نبھاتے یا طبیعتاً ہر جگہ دفتری التزامات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور اس مصیبت کا حل بھی پاسپورٹ سائز تصویر کو سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی اسکو ترجیح دیتے ہیں۔
پاکستانیوں کی ترجیحات میں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مذہب سب سے پہلے ہے اور ہم بہانے بہانے سے اسی لئیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اور گلے کاٹنا پسند کرتے ہیں تو اگلے مرحلے میں اپنی شناخت اسی کے حوالے سے رکھنا آسان ہے۔
کچھ عناصر نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کی کوشش کی اور جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کچھ لوگوں نے اس فیشن میں بھی حصہ لے ڈالا۔
لیکن تماشائے اہل کرم دیکھنا کا یہ معقول انداز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اہل دل نے یہاں بھی تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے کے زیر عنوان اپنی شناختیں تیار کی ہیں۔ یہ دیکھئیے کسطرح محبت کے سمندر میں گرنے کے لئیے تیار ہیں۔ آئیے چلے آئیے۔
دیا باقی نہیں تو کیا، کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آءو جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
چند خوش قسمت جو اس مرحلے سے کامران گذر جاتے ہیں اپنی شادی کی تصویر ڈال رکھتے ہیں۔ ابھی جب سال بھر تک اپنے آپکو اور ساری دنیا کو یقین دلاتے رہیں گے کہ وی ڈڈ اٹ، ہم نے کر دیا۔
تو ایک اور شناخت پیدا ہو جائے گی۔ واءو، وی ڈڈ اٹ۔ لیجئیے اسٹیٹس تبدیل ہو گیا۔ آئندہ آنیوالے سالوں میں اسی طرح آپکو اسٹیٹس کی تبدیلی سے انکی آبادی میں تبدیلی کا پتہ چلتا رہیگا۔۔
وہ لوگ جو اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اور بھی مخلوقات ہیں دنیا میں انسانوں کے علاوہ۔ انکی شناختی تصاویر جانوروں سے مستعار لی گئ ہوتی ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ ان مخلوقات کو یہ پتہ ہوتا ہے یا نہیں کہ انکی تصاویر کہاں استعمال ہو رہی ہیں۔
کچھ اپنے شوق کے پیچھے اپنے آپکو چھپا لیتے ہیں ایسے کہ بوجھو تو جانیں۔ اب بتائیے یہ کون ہیں؟
کچھ قدرتی مناظر پہ جان دیتے ہیں، انکی تصویر میں کوئ قدرتی منظر اور انکی کوئ پسندیدہ چیز انکے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ اس میں بتائیں کیا پسندیدہ چیز ہے۔ ویسے ممکن ہے پسندیدہ چیز سامنے ہو اور تکنیکی وجوہات کی بناء پہ تصویر میں نہ آسکی ہو۔
ویسے تو کسی شاعر نے کہا تھا کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔ لیکن سمجھدار لوگ ایسے مواقع کیوں ضائع جانے دیں۔ انکا پروفائل انکا تعارفی کارڈ ہے۔ یقینا یہ صاحب مارکیٹنگ کی دنیا سے تعلق رکھتے ہونگے۔
اس قسم کے پروفائل فوٹو کون بنا سکتا ہے۔ وہی جو لنکس کے عشق میں سرتاپا غرق ہو۔
ویسے تو خواتین کو بدنام کیا جاتا ہے کہ خوبصورت پھولوں اور خوبصورت چہروں کو وہ اپنا تعارف بنا لیتی ہیں لیکن اس میدان میں بھی درحقیقت مردوں کا ہی پلہ بھآری ہے۔ یہ پروفائل فوٹو ایک صاحب کا ہے۔ اس پھول کو دیکھکر مجھےہمیشہ وہ شعر یاد آیا، جس میں شاعر کہتا ہے
اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول بھیجا ہے
اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول بھیجا ہے
اس سرخ گلاب کا عقدہ ایک اور صاحب نے اپنے پروفائل فوٹو میں حل کیا۔ معلوم ہوا کہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کیا ہاتھ تک کٹ سکتا ہے۔
لیکن کچھ لوگ ایسی شناختیں رکھتے ہیں کہ وہ شناخت کم اور پہیلی زیادہ بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پہ یہ شناخت کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہے۔ سچ پوچھیں تو لگ رہا ہے کہ کسی خاتون کی چوٹی دوپٹے میں سے نظر آرہی ہے۔لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ ڈبل روٹی ہو، تھیلی میں لپٹی ہوئ۔
جہاں کچھ لوگ اپنی حسین تصویروں پہ فدا ہو کر انہیں اپنے پروفائل میں ڈال کر اتراتے ہیں۔ وہاں کچھ اپنے آپکو کارٹونز کے پردے میں پیش کر کے اٹھلاتے ہیں۔ انہیں اپنا آپ بھی کارٹونز میں ہی اچھا لگتا ہے۔ ذرا یہاں تو دیکھیں ایک تیر سے کتنے شکار ہوئے ہیں۔ میں بندہ ٹیکنالوجی کا، فرنچ فرائز کھاتا ہوں اپنا دل بہلاتا ہوں۔
بعض اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پکاسو کا آرٹ بنا نے میں صرف کر دیتے ہیں۔ آخر میں کوئ ایسی تمثیلی چیز نکال لاتے ہیں کہ آپ سوچتے ہیں یہ آپ ہیں، میں ہوں یا وہ۔ کچھ سادہ دل انہیں خلائ مخلوق سمجھ کر ان پہ عاشق ہوجاتے ہیں۔ اسی لئیے ڈفر کہلاتے ہیں۔
جہاں کچھ لوگ اپنی شناخت کو اپنی برانڈ بنا لیتے ہیں وہاں کچھ سیماب صفت ہر روز ہی اپنی
شناخت تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض دفعہ جب بور ہو جاتے ہیں تو ایسے بہانے بناتے ہیں۔
اور اگر محبت قسمت سے ملتی ہے تو نفرت کو بھی پنپنے کے لئیے بہانے چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور اسکے اظہار کو بھی فنکاری۔ تاکہ دل کی تسلی پوری طرح ہو جائے۔ فیس بک بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ موقعے دینے میں تامل نہیں کرتی۔
اب جب کہ دل کی حسرتیں نکالنے کو اتنی ترغیبات موجود ہیں تو آپ بنا رہے ہیں فیس بک پہ اکاءونٹ۔ کیا کہا، میں نہیں مانتا، لیکن کیا؟، کیوں؟
اور اگر محبت قسمت سے ملتی ہے تو نفرت کو بھی پنپنے کے لئیے بہانے چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور اسکے اظہار کو بھی فنکاری۔ تاکہ دل کی تسلی پوری طرح ہو جائے۔ فیس بک بھی اپنے چاہنے والوں کو یہ موقعے دینے میں تامل نہیں کرتی۔
اب جب کہ دل کی حسرتیں نکالنے کو اتنی ترغیبات موجود ہیں تو آپ بنا رہے ہیں فیس بک پہ اکاءونٹ۔ کیا کہا، میں نہیں مانتا، لیکن کیا؟، کیوں؟
بہت اعلی ۔۔ اب کیونکہ پاسپورٹ سائز کا دفاع کرنا ضروری ٹہرا تو ہے اس میں کچھ قصور فیس بک کا بھی ہے کہ جتنی کشادہ جگہ اپنا چہرہ دکھانے کے لیے فراہم کی ہے اس میں لیوناردو کی دی لاسٹ سپر تو پوسٹ ہونے سے رہی ورنہ کوءی ڈان براؤن اس کی باریکیوں میں اتر کر وہ باتیں کرے گا جس کے لیے کیا کہتے ہیں کہ
ReplyDeleteوہ سارے "تصویر" میں ذکر جس کا نا تھا۔
شکر ہے میں بچ گیا ورنہ ایک ایک کر کے سب تبصرہ پڑھ رہا تھا تو خیال آیا کہ کہیں اپنا رمبر بھی نہ لگا ہو!!
ReplyDeleteویسے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کی تصویر لگا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالی جگہ خود ہی پُر کر لیں۔
عنیقہ آپی قسم سے مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی
ReplyDeleteپر آپی آپ بھی تو فیس بلک ہر ہو یا کسی بھی سوشل نیٹ ورک پر تو آپ کی شناخت کے بارے میں بھی بتائیں ۔
ReplyDeleteحد ہے یار، کیوں نہیں مانتے بھلا؟
ReplyDelete:p
سب سے پہلے یہ بتا دوں کہ یہ فرد مخصوص کے لئیے نہیں ہے۔ بلکہ فیس بک پہ پروفائل فوٹّو بنانے کی درجہ بندی کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ ہر درجے کی مثال ایک پیش کی گئ حالانکہ ایک ہی درجے پہ بہت ساری مثالیں تھیں لیکن تصویر کی صورت میں دینے میں قباحت یہ ہے کہ اس طرح پوسٹ لمبائ میں بھی بڑھتی جاتی ہے اور تصویروں کو اور ٹیکسٹ کو مینیج کرنا میرے جیسے شخص کے لئے بڑا بور ہو جاتا ہے۔ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس پوسٹ کا ٹیکسٹ مٹیرئیل آٹھ دس دن پہلے لکھا گیا تھا۔
ReplyDeleteتو اب صورت حال یوں بنی کہ پاسپورٹ سائز تصویر کا دفاع صرف راشد کامران صاحب پہ نہیں اس میں دوسروں کے بھی نام آتے ہیں۔ جیسے خاور بلال، منیر عباسی اور دیگر۔ پاکستان کا نشان یاسر عمران مرزا نے بھی استعمال کیا ہے اور بھی دو لوگ ہیں۔ کارٹونز میں ریحان اور نومان بھی آتےہیں۔نام کے حروف عمار، اور بلو بلا نے بھی رکھے ہیں۔
اور یہ پیلی گیند پہ دو دانت، دو بال، دو آنکھیں اس خیال کے متاءثرین اور بھی ہیں۔اسی لئیے میں نے کسی کا بھی نام اور ریفرنس نہیں ڈالا۔
اس میں دو کٹیگریز نہیں ہیں۔ ایک جو مجھ سے سہوا مس ہو گئ۔ وہ تھی اپنے پیشے کو اپنے انداز یا پروفائل میں ڈالنا، اس میں میں شعیب صفدر صاحب کی تصویر رکھنے کا سوچا تھا یا ایک اور صاحب کی تصویر جن کی پروفائل فوٹو میں تیراکی کے پول میں لوگ غوطہ خوری کی تربیت لے رہے ہیں، دوسری کٹیگری فوٹوگرافرز کی ہے جو اپنے پروفائل فوٹو میں اپنا کیمرہ اور اپنی انگلیاں ڈالنا پسند کرت ہیں۔
خرم کچھ سمجھ نہ آئے تو پریشان نہ ہوا کریں۔ پریشان ہونے کے لئے دیگر چیزیں کافی نہیں ہیں کیا۔
ریحان۔ اسی درجہ بندی میں، ہم بھی ہونگے کہیں۔ اب کسی کا نام تو دیا نہیں ہے۔ نکال لیں ہم کس میں ہیں۔
عمر،
:)
بہت دن بعد کچھ پڑھ کے مزا آیا
ReplyDeleteجیتی رہ۴ے
ایک ہی وار میں آپ نے سب پر تنقید کر دی ںہ ملک کو چھوڑا نہ دین کو ۔ سب سے پہلے پاکستان آپ کے جنرل پرویز مشرف نے لگایا تھا ۔ جس نشان کو آپ نے سب سے پہلے پاکستان کا نام دیا ہے وہ دراصل میری پہچان پاکستان ہے اور یہ نشان متعارف کرانے والے کا نام فرحان مسعود ہے جو کمیوٹر ٹیکنالوجی کے چند پاکستانیوں میں سے ایک ہے اور جس کا کردار یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت انسانی خدمت میں مگن رہتا ہے ۔ مذہب سے آپ کی نفرت کی یہ حالت ہے کہ کسی نہ کسی بہانے اسے رگیتی رہتی ہیں
ReplyDeleteکچھ لوگ ہمیشہ اپنے آپ کو اٹھلاتے بچہ کی صورت میں بھی تو دیکھنا پسند کرتے ہیں؟
ReplyDeleteبہت دنوں بعد اردو بلاگ دیکھے، اور یہ تحریر پڑھ کر مزا دوبالا ہو گیا
مذہب کے بارے میں آپ کی رائے سے اختلاف ہے مگر تحریر واقعی بہت عمدہ اور نپی تلی ہے۔ تعریف نہ کرنا کنجوسی ہوگی۔
ReplyDeleteاجمل صاحب، جس تواتر سے آپ انکا تذکرہ کرتے ہین۔ انکی یادوںپہ ابھی گرد کی ہلکی سی تہہ بھی نہیں آنے اپتی کہ آپ اس وم کی صفائ دیکر مزید روشن کر دیتے ہیں اس سے تو یہ حق آپکو ہی تفویض ہونا چاہئیے کہ وہ آپکے ہیں۔ میں تو اتنی مجلسی نہیں کہ اتنے لوگوں کا ہجوم اپنے گرد لگا کر بیٹھی رہوں۔ جس کی باری ختم ہو گئ اسکا کیا ذکر۔ لیکن خیر اب آپکا انکا جو بھی تعلق ہو اس میں، میں یا کوئ اور کیا کہہ سکتا ہے۔ واللہ اگر آپ اس سے خوش ہیں کہ میرے بہانے انہیں یاد کریں تو میں آپکو اس سلسلے میں مایوس نہیں کرونگی۔
ReplyDeleteفرحان مسعود کو تو نہیں جانتی کہ ٹیکنالوجی سے میری انتہائ سرسری جان پہچان ہے البتہ سہیل رعنا سے خوب واقف ہوں۔ بچپن میں انکے بچوں کے گیت پہ خوب سر ہلایا ہے۔ انہی میں کئ نغمات ایسے ہیں جن میں پاکستان کو اپنی پہچان بتایا گیا تھا۔
مذہب سےآپکی محبت کا یہ عالم ہے کہ جس نکتے سے آپ محبت کرتے ہیں اگر کوئ اس سے نہ کرے تو اسے قابل نفرین بنا دیتے ہیں۔جیسا کہ باقی سبھی جانتے ہیں کہ مجھے طالبان اور انکے حامیوں سے کوئ دلچسپی نہیں، مجھے ان لوگوں سے بھی کوئ دلچسپی نہیں جو انہیں مظلوم اور انکی کارروائیوں کو کسی ظلم کا رد عمل سمجھتے ہیں اور نہ ہی مجھے مذہب کی اس تشریح سے کوئ دلچسپی ہے جو ان قوتوں کے حامی لوگ ہمہ وقت کرتے ہیں تو میرے اس گناہ میں اتفاق سے پاکستان کی خاموش اکثریت شامل ہے۔ اگر میرے اس مءوقف کو آپ مذہب سے نفرت سمجھتے ہیں تو پھر ان باقی لوگوں سے آپکا گذارا کیسے ہوگا۔
جہانزیب،بات تو آپکی صحیح ہے، تو پھر تھوڑا اٹھلا لیں۔ بابر نے کہا تھا کہ عالم دوبارہ نیست۔
اسد شکریہ آپکا۔
میں تو اس سلسلے کی پہلی تحریر پہ ہی دل کھول کر ہنس لیا تھا
ReplyDeleteاس نے تو اس کا بھی نمبر کاٹ دیا
وااقعی بڑے دنوں بعد ایک ایسی اچھی تحریر پڑھی کہ دل "پاغ پاغ" ہو گیا ہے
انیقہ اپکی اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر بہت اچھی ہے ! :razz:
ReplyDeleteالبتہ میاں کے ساتھ سالگرہ کا کیک کاٹتے تصویر آپکی ہے یا نہیں یہ کنفرم نہیں! :cool:
میرا طالبان سے تعلق آپ کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے جس پر آپ ہردم مُصر رہتی ہیں شاید آپ نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہو گا ۔ آپ کا مذہب کیا ہے کبھی اس کی وضاحت تو کر دیجئے جس کی حمائتی پاکستان کی خاموش اکثریت ہے [کم از کم آپ کو تو خاموش نہیں کہا جا سکتا] ویسے آپ کا ہیرو پرویز مشرف بھی خاموش اکثریت کی حمائت حاصل ہونے کا دعوُی کرتا تھا ۔ البتہ ایک بار آپ نے بتایا تھا کہ" آپ سر نہیں ڈھانپتی مگر آپ جانتی ہیں اللہ آپ سے بہت خوش ہیں" ۔ آپ کے فلسفہ سے متفق نہ ہونے والے ہر شخص کو آپ دہشتگرد قاتل ٹانگ کھینچنے والا اور ناجانے کیا کیا قرار دیتی ہیں شاید اسلئے کہ آپ سمجھتی ہیں کہ اللہ آپ کی ان باتوں سے خوش ہوتا ہے
ReplyDeleteعبداللہ، ایک لمحے کو تو میں حیران ہو گئ کہ میری تصویریں کہاں سے آگئیں۔ پھر سمجھ میں آیا کہ کن تصویروں کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ آپکو مایوسی تو ہو گی۔ لیکن ان میں سے کوئ بھی تصویر میری نہیں۔ میرے بلاگ پہ یہ حق اوروں کا ہے میرا نہیں۔ تو آپ بھیج رہے ہیں اپنی تصویر مجھے امید ہے آپکی تصویر والی میری پوسٹ ہٹ جائے گی۔
ReplyDelete:)
اجمل صاحب، اس پوسٹ کا مقصد یہ نہیں جو آپ بنا رہے ہیں۔ ہمیں اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں اور آپ بیزار بیٹھے ہیں۔ ان موضوعات پہ بات کرنے کے لئیے فریقین کا ایک جیسے موڈ میں ہونا ضروری ہے۔ میرے ہیرو پرویز مشرف والی بات پہ میرے اصلی ہیرو کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔ وہ تو کچھ اور سمجھتے ہیں۔
آپ طالبان کا دفاع کرتے ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ آپ انکے طرفدار ہیں۔ آپ ہی نے لکھا کہ صحیح اسلامی حکومت ملا عمر نے قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ تو مجھے سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صحیح اسلامی حکومت کسے سمجھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ میری حرکتیں تو ایسی نہیں کہ مجھے کشف ہونے لگے۔ جہاں آپ اور اندازے لگاتے ہیں وہاں میرے مذہب کے بارے میں بھی لگاتے رہیں۔ بر سبیل تذکرہ کیا میں نے غلط لکھا تھا کہ مذہب کا نام لیکر ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ یہ آپ اس وقت کیا کر رہے ہیں۔ کوئ لمحہ جاتا ہے کہ آپ میرے خلاف فتوی نکلوا دیں۔ کس لئیے کہ میں نے کہا کہ پاکستانی مذہب کے لئیے جان لینے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ یہ میں پہلی تو نہیں۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی صاحب جی یہی اپنے جماعت اسلامی والے، ان کا ایک قول ہے کہ لوگ مذہب پہ بحثیں کریں گے، الجھیں گے، ایکدوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ لیکن اسکے مطابق زندگی نہیں گذاریں گے۔ اب بتائیے مولانا صاحب نے کتنا مذہب کو رگیدا۔ اور انہیں کتنی مذہب سے نفرت تھی۔ شومیء قسمت کہ وہ تو عالم اسلام کے بڑے عالم بن گئے۔
محترمہ ۔ جو بات آپ نے مودودی صاحب کے حوالے سے لکھی ہے یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کا حصہ ہے قیامت کی نشانیوں کے سلسلہ میں ۔ کہیں تو سب نقل کر کے بھیج دوں ۔ موجودہ حالات اگر اور کچھ نہیں تو قیامت کے قریب ہونے کا مظہر ہیں
ReplyDeleteملا عمر کا پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی سے تعلق نہیں ہے اور نام نہاد پاکستانی طالبان کے خلاف میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں
آپ کو میں نے کبھی بُرا نہیں کہا اور نہ کسی بُرے کا حمائتی کہا ہے البتہ آپ کی تحاریر پر اپنے خیال کا اظہار کرتا ہوں جبکہ آپ عام طور پر میری ذات کو سامنے رکھ کر نشانہ بناتی ہیں ۔
مجھ میں اور آپ میں بس اتنا سا ہی فرق ہے
اجمل صاحب، سب سے پہلے میں یہ عرض کردوں کہ میں اس بلاگ پہ یا اردو سیارہ پہ آنیوالے کسی بھی شخص سے ذاتی طور پہ واقف نہیں اس لئیے کسی بھی شخص کی ذات کو نشانہ نہیں بنا سکتی۔ یہ سب لوگوں کی تحریریں ہیں جن سے وہ اپنے نظریات اور اپنی شخصیات کو کھولتے ہیں۔ یقینی طور پہ یہ انکی مکمل شخصیت کا خاکہ نہیں ہوتا۔ میرے اعتراضات، اختلافات انہی نظریات یا تحریروں سے ہو سکتے ہیں۔ کسی کی ذات سے نہیں۔ اگر میں ذاتی طور پہ لوگوں کو لوں تو کبھی آپکی کسی بات پہ رائے نہ دوں آپکی عمر اور بزرگیت کا خیال رکھتے ہوئے۔
ReplyDeleteجہاں تک قیامت کی نشانیوں کا سوال ہے، تو یہ کس زمانے میں موجود نہیں رہی ہیں۔ یہ تو اس وقت بھی موجود تھیں جب خلفائے راشدین کا زمانہ تھا۔ تو اصل بات انسانی نفسیات کی نکل آئ جو کم و بیش ایک جیسی رہتی ہے۔
پاکستانی طالبان نے اپنا فلسفہ اور طاقت افغان طالبان سے ہی حاصل کی ہے۔ میں ان دونوں کو الگ نہیں سمجھتی، میں ملا عمر کے دور مثالی اسلامی دور نہیں سمجھتی۔ سلفیوں کے نظریہ ء اسلام سے مجھے اختلاف ہے۔ جس پہ پاکستانی اور افغانی دونوں طالبان عمل پیرا ہیں۔
تو اس لحاظ سے آپ میں اور مجھ میں ذات کا نہیں نظریات کا فرق ہے اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم میں سے کوئ ایک اپنے نظریات سے دستبرداری اختیار نہ کر لے۔ جو فی الحال مشکل ہے کہ میں ان چیزوں سے بالکل متائثر نہیں جنہیں ملا عمر نے یا پاکستانی طالبان نے پھیلانے کی کوشش کی۔
ملا عمر اپنے قصبہ میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والی لڑکی کی ماں کی فریاد سے متاثر ہو کر اُٹھا اور اسے اس کے ہموطنوں نے اپنا سردار بنا لیا ۔ ہیروئین کی پیداوار دنیا کی کوئی طاقت ختم نہ کر سکی وہ ملا عمر کے حکم پر صفر ہو گئی ۔ پاکستانی طالبان اپنے ہی ملک کو تباہ کر رہے ہیں
ReplyDeleteآپ نے لکھا ہے کہ میرے متعلق آپ کا نظریہ میری تحاریر پڑھ کر قائم ہوا ہے مگر آپ کی صرف یہی تحریر بھی ثابت کرتی ہے کہ میرے متعلق آپ کا نظریہ مفروضات پر مبنی ہے مثال کے طور پر آپ نے لکھا ہے
"میں ملا عمر کے دور کو مثالی اسلامی دور نہیں سمجھتی۔ سلفیوں کے نظریہ ء اسلام سے مجھے اختلاف ہے۔ جس پہ پاکستانی اور افغانی دونوں طالبان عمل پیرا ہیں"
میں نے کب اور کہاں لکھا ہے کہ ملا عمر کا دور مثالی اسلامی دور تھا ؟
اگر آپ نے واقعی میری تحاریر پڑھی ہوں تو مثالی اسلامی دور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے بعد چار خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور پھر پانچویں خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کا دور تھا اور بس
مجھے سلفی سمجھنا بھی ایک لطیفہ سے بڑھ کر نہیں ۔ مجھے تو صحیح طرح سے معلوم بھی نہیں کہ سلفی عقیدہ کیا ہوتا ہے
اب آپ ہی بتایئے کہ میرے متعلق آپ کس بناء پر نظریہ قائم کئے ہوئے ہیں ؟
معذرت کہ یہ تحریر میری نظروں سے نہ گزری۔ بہت اعلیٰ واقعی مزا آ گيا۔ خصوصاً شادی کے حوالے سے دو تصاویر پر آپ نے بہت زبردست تبصرے کیے ہیں۔ یہ اپنے نام کے چند الفاظ والا پروفائل فوٹو "ہمارا" ہے۔ خطاطی سے لگاؤ کا اظہار۔ اگر کہیں تو تبدیل کیے دیتے ہیں۔
ReplyDeleteشکریہ ابو شامل، نہیں اتنا حق تو ہر کسی کو ہے کہ وہ اپنا پروفائل اپنی پسند کا رکھے۔ کم سے کم اس پہ آپکو کارو کاری نہیں کیا جاسکتا۔ مذاق بر طرف، ایک وقت میں خطاطی سیکھنے کا بڑا شوق ہمیں بھی ہوا تھا مگر کوئ سکھانے والا نہ ملا بس ایسے ہی کچھ ٹامک ٹوئیاں ماریں اور پھر غم زیست میں ایسے الجھے کہ یاد بھی نہ رہا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہماری عمر کوئ تیرہ چودہ سال ہوگی۔ اور اب اتنا صبر نہیں رہا۔ صرف دیکھ کر خوش ہوتی ہوں۔
ReplyDeleteہیلو،
ReplyDeleteمیں تمام سنجیدہ اور ممکنہ گاہکوں کو ایک ساہوکار جو قرض سے باہر lends ہوں
ای میل : supreme-@live.com
اس بات کی ضمانت سے قرض حاصل کریں
انیقہ صاحبہ آپ نے فیس بک پروفائل پکچر میں کون سی تصویر لگائی ہے ذرا اس کی وضاحت کر دیتیں تو اچھا تھا ویسے آہ اپنے بلاگ پر بھی اپنی تصویر دے سکتی ہیں ویسے بھی بقول آپ کے آپ پردہ نہیں کرتیں۔
ReplyDeleteیہ تو اعتراض برائے اعتراض ہے۔ اس کی حیثیئت کچھ اس طرح ہے کہ چونکہ آپ پردہ نہیں کرتیں اس لئے آپ کسی انڈیئن فلم کے لئے آئیٹم سونگ کیوں نہیں ریکارڈ کراتیں۔
Deleteمیں فیس بک پہ اپنی تصویر بدلتی رہتی ہوں آپ میری کون سی تصویر یہاں چاہتی ہیں؟
میرے بلاگ پہ موجود تصویر اس وقت بلاگ تھیم کے حساب سے بالکل مناسب ہے یعنی تخیل کے پر ہوتے ہیں اور اسکی پرواز کو کوئ نہیں روک سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملائیت کو اپنا لینے کے بعد انسان ایسے نازک انداز بیاں میں دلچسپی نہیں رکھ پاتا۔