دوپہر کا وقت تھا۔ میں بازار میں تھی۔ ایک پتھارے والے کے پاس ایک من پسند لیس دیکھ کر رک گئ۔ بھاءو تاءو کرنے کے بعد جب میں نے اپنا پرس کھولا تو اس میں ہزار کا نوٹ تھا۔ لیس پچھتر روپے کی بن رہی تھی جبکہ اسکے پاس ہزار کا کھلا نہیں تھا۔ چھان پھٹکنے پہ ایک پچاس روپے کا نوٹ برآمد ہوا۔ میں نے وہ دوکاندار کو دیا کہ زر ضمانت کے طور پہ رکھے میں واپسی میں باقی پیسے دیکر لیس لے لونگی۔
واپسی میں دیکھا تو اسکا پتھارا ایک چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ پڑوس کے دوکاندار سے پوچھا کہنے لگا نماز پڑھنے گیا ہے ابھی دس منٹ میں آجائے گا۔ تب اچانک میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے ارد گرد نظر ڈالی۔ تمام دوکاندار اپنے اپنے گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے۔ جن کے پاس نہیں تھے وہ چیزیں قرینے سے رکھ رہے تھے۔ یہ دوکانیں کپروں کی بھی تھیں، زیورات کی بھی اور پھل اور سبزی والوں کی بھی۔ اس عوامی ہجوم میں ہر ثقافتی گرو سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ مہاجر، پٹھآن، پنجابی، افغانی۔
اور پھر اسی تسلسل میں مجھے رات ٹی وی پہ آنے والا ایک پروگرام یاد آگیا۔ جس کے میزبان حامد میر، اور مہمانوں میں ہارون رشید اور انصار عباسی شامل تھے۔ اور ہمارے دونوں مدبر صحافیوں کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اٹھانوے فی صد افراد شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں اور جو لوگ جمہور کی رائے کا احترام نہیں کرتے انہیں ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا یعنی اگر وہ گورنر ہے تب بھی اسکا اپنے محافظ کے ہاتھوں مارا جانا قابل صدمہ نہیں۔
اس وقت میں نے اپنے اس بازار کے تمام لوگوں کو دیکھا جو بازار کے بیچوں بیچ واقع مسجد میں نماز ادا کرنے کے بجائے اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ نماز دین کا سب سے اہم رکن اسکی ادائیگی سے جان چرانے والے ملک میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ شاید لوگ صحیح کہتے ہیں اٹھانوے فی صد شماریات کے نتائج موقعے پہ ہی بنائے جاتے ہیں۔ جیسی ضروت ویسے نتائج۔
جمہور کون ہے؟ تھری پیس سوٹ میںملبوس نک سک سے ایک دم درست، زندگی کی تمام سہولتوں کو استعمال کرنے والے، ہر ممکنہ وسیلے کے نزدیک، بغیر ریش اور باریش افراد جو میڈیا کی لائم لائٹ میں رہنے کے چسکے سے آشنا ہیں یا روزانہ کی بنیاد پہ کپڑا بیچنے والا، سبزی بیچنے والا ، کینو بیچنے والا۔
امریکہ میں ایک سروے کے مطابق ، کم از کم بیس فی صد امریکی افراد اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ صدر باراک حسین اوبامہ مسلمان ہیں۔ جبکہ ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ اوبامہ ہر اتوار کو چرچ اپنی ہفتے وارعیسائ عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ اور در حقیقت وہ مسلمان نہیں بلکہ عیسائ ہیں البتہ انکے والد مسلمان تھے۔
میں نے ایک امریکی شہریت کے حامل پاکستانی سے پوچھآ، لیکن اتنے زیادہ امریکی اتنا غلط کیوں سوچتے ہیں جبکہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ امریکیوں کی بڑی تعداد سنجیدہ چیزیں نہیں پڑھتی بلکہ ریئلیٹی ٹی وی جیسے پروگرامز کی اسیر ہے۔ ایک امریکی گھر میں ہر وقت ٹی وی چلتا ہے۔ جو لوگ اس سے کوئ خبر حاص کرنا چاہتے ہیں وہ بھی نہیں حاصل کر پاتے کیونکہ میڈیا کی ترجیح لوگوں کو درست خبریں دینا نہیں، انہیں ٹُن رکھنا ہے۔ ہمم، اسی لئے تو امریکی حیران ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں۔ اور جب ہم میڈیا پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایک اور چیز کا داراک ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اردو میڈیا اور انگریزی میڈیا بالکل دو الگ قوموں کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ جنگ اخبار تھا جس میں، میں نے سب سے پہلے ایک کالم نگار کے کالم میں یہ بات پڑھی کہ اب جبکہ دنیا جان گئ ہے کہ پاکستان میں آنے والا زلزلہ اور سیلاب امریکہ کے ہارپ کی وجہ سے آئے ہیں۔ امریکہ کو پاکستان سے معافی مانگنی چاہئیے۔
میں انگریزی اخبار بھی پڑھتی ہوں۔ جب جنگ جیسے موءقر اردو اخبار میں اس چیز کا باعث ہارپ کو قرار دیا جا رہا تھا۔ اس وقت انگریزی اخبار ڈان میں ملک کے مایہ ناز دو سائینس کے عالموں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ہود بھائ کے درمیان اس بات پہ زوردار بحث چل رہی تھی کہ ہارپ ایک ہوّے کے سوا کچھ نہیں۔
حیرت تو ہوتی ہے کہ ان دو عالموں نے کسی اردو اخبار کو اس پہ بحث کرنے کے لئے اپنا میدان نہیں چنا۔
یہی نہیں، اگر ہم اتوار کے دن کا جنگ اور ڈان میگزین اٹھائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اردو اخبارات کس قدر کم معیار کے مضامین لکھتے ہیں اور انکی ہمیشہ ایک خاص سمت ہوتی ہے۔
یہی اردو اخبار، اس شدت پسندی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جو پاکستان کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ آخر یہ صحافی کیا کریں ۔ ان کی کیا پیشہ ورانہ تربیت ہے یہ کتنی ریسرچ کرتے ہیں ان میں سے کتنوں نے اپنے آپکو بیرونی دنیا کے علم سے جوڑا ہوا ہے۔ کتنے ایسے ہیں جو بیرونی مواد کو ترجمہ کر کے اردو میں لانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ کرایسس انگریزی صحافیوں کے ساتھ بھی ہے لیکن انہیں انگریزی مواد کو کٹ اینڈ پیسٹ کرنے کی آسانی حاصل ہے۔
ادھر انگریزی اخبار کا فوکس ہمارے ایلیٹس یعنی طبقہ ء اشرافیہ ہے۔ اگر ڈان میں ان دو سائینسدانوں کے درمیان بحث ہوئ تو اس سے ہمارا اردو داں طبقہ انجان ہے۔ انگریزی زبان جاننے کا ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں اس وقت جتنا علم کا دھماکا آیا ہوا ہے وہ سب انگریزی میں دستیاب ہے۔ وہ چاہے ادب ہو یا سیاست یا سائینس۔
اردو داں طبقے کی اکثریت تو بم دھماکے کی ہی اصطلاح سے واقف ہے اور ان تک وہی پہنچ پاتا ہے جو اردو میڈیا انہیں فراہم کر سکتا ہے۔ اردو میڈیا کو عوامی تبدیلی یا ترقی سے دلچسپی نہیں۔ انہیں سینسیشن چاہئیے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پہ ملے۔
کتنے ٹی وی اینکر ایسے ہیں جو جدید معلومات یا ریسرچ سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ شاید کوئ نہیں۔ جب ادھر ادھر کی چیزیں ہی اٹھانی ہوں تو آسانی سے جو ملے گا وہی حاضر ہوگا۔ اور اردو میں آسانی سے مذہب سے متعلق کتابیں ہی دستیاب ہیں چاہے وہ درست نکتہ ء نظر سے لکھی گئ ہوں یا غیر درست۔
ایلییٹس یا طبقہ ء اشرافیہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی ان جیسا معیارزندگی رکھے یا ان جیسی معلومات ہی رکھ لے۔ وہ اس بات پہ ہنس سکتے ہیں کہ پاکستانی کتنے بے وقوف ہیں کہ زلزلے کو ہارپ کا لایا ہوا سمجھتے ہیں لیکن وہ اس قوم کو اردو میں ہارپ کے متعلق بتانے کی جدو جہد میں نہیں پڑیں گے۔
قوم اردو سمجھتی ہے اسے اردو میں جو مواد اور ذہن مل رہا ہے وہ اسی کے مطابق سوچتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر مذہبی لٹریچر دستیاب ہے۔ کوئ ایک معیاری سائینس کی کتاب نہیں۔ پاکستان میں گذشتہ دس سالوں میں اردو ادب میں کوئ معیاری ناول یا ادیب سامنے نہیں آیا۔ ہمارے آج کے نوجوان کو بھی اشفاق احمد کو ہی پڑھنا پڑ رہا ہے۔ فیس بک پہ دھڑا دھڑ اشفاق احمد کے اقتباسات دستیاب ہیں۔
آجکے عہد میں کون اردو ادب لکھے گا۔ شاید کوئ نہیں۔ کیونکہ معاشرہ جب اظہار کے خوف سے گذر رہا ہو اور لوگ ایک دوسرے کو زبان درازی سے رکنے کی تلقین کر رہے ہوں تو اس صورت میں کس میں جراءت ہوگی کہ حقیقت لکھے فکشن کی صورت میںُُ۔ انگریزی داں طبقے کی عوامیت اتنی کم ہے کہ وہ پاکستان سے متعلق پُر اثر ادب شاید ہی لکھ پائے۔ اشرافیہ، بس نوم چومسکی، ڈکنس اور دستوووسکی اور دیگر فلسفہ ء حیات کو پڑھ کر اپنے ڈرائینگ رومز کی ڈسکشنز کو مزےدار بناتے ہیں۔
تو جب ایک شخص دوسرے کو قتل کرتا ہے۔ اور ملک میں جس طبقے کو یعنی عدلیہ کو عدل اور انصاف پھیلانے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ اس قاتل پہ پھول نچھاور کرتے ہیں تو ہمیں کیوں حیرت ہوتی ہے۔
جب ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام چلے گا تو نتیجہ وہی ہوگا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔اردو میڈیا کہتا ہے کہ جب جمہور کی بات کے خلاف کام ہوگا تو کسی کا قتل ہونا کوئ ایسی بری بات نہیں۔ کیونکہ جمہور ہم ہیں اس لئے ہم جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ انگریزی میڈیا اپنے ڈرائینگ روم میں دنگ بیٹھا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
ادھر میں پتھارے والے کے مسجد سے واپس آنے کے انتظار میں بازار میں ادھر اُدھر گھوم کر جن کو دیکھ رہی ہوں، یہ کون ہیں جمہور یا جانور؟