اقبال کہتے ہیں کہ
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری
لیکن فی زمانہ آنکھ کا تارا اسے کہا جاتا ہے جو آنکھوں کے آگے تارے روشن کر دے اور کاری ضرب سے مراد شاید ہاتھ کی وہ صفائ ہے جس سے آپ پر وہ کاری ضرب لگے کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں، رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
ایک تو ہمارا دل پہلے ہی دکھا ہوا تھا کہ ہمارا قیمتی ڈیجیٹل کیمرہ کراچی چڑیا گھر میں کسی نے انتہائ مہارت سے اڑالیا۔ لوگوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر ایسی چیزیں لیکر نہیں جاتے۔ حالانکہ ہم اپنی نیچرل فوٹوگرافی کے شوق میں اسے لے گئے تھے۔
پھر اس مور کی مہربانی کہ وہ سارے پر پھیلا کر ناچا بھی۔ بس اسکے بعد جب تالاب میں تیرتے ہنس کی کسی ادا پر ہمارا دل آیا تو کیمرہ ندارد۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا کہ چڑیا گھر کے شعبہ ء بازیافت سے معلوم کر لیں وہاں کسی نے پہنچا دیا ہوگا۔ میں انکو غیر یقینی انداز سے دیکھتی ہوں کیا یہاں پر کسی ایسے شعبے کا وجود ہوگا اور فرض کریں کہ کسی زمانے میں کسی خوش امید نے ایسا شعبہ قائم بھی کیا ہوتو یقیناً مہینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے بعد انہوں نے اس نیک کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہوگا۔ بھلاہاتھ آئ نعمت سے کوئ اس طرح بھی ہاتھ دھوتا ہے کیا۔پھر بھی انکا دل رکھنے کو معلوم کیا۔ اور ہمارا خیال صحیح نکلا۔ ایسا کوئ شعبہ وجود نہ رکھتا تھا۔ پتہ نہیں لوگ کیوں ہمارے اندازوں کو بغیر اپنےتجربے کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں۔ اوہو تو آپ دلوں کے حال بھی جانتی ہیں۔
کچھ دن افسوس رہا اس میں کچھ ایسی یادگار تصویروں کا لوڈ موجود تھا جو ابھی اپ لوڈ بھی نہ کیا گیا تھا۔ بس دل ہی میں محفوظ رہ گئیں۔ اب گردن جھکا کر دیکھنے کا تکلف تو کر لیں مگر ہمارے دل کی تصویریں کوئ اور بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پھر اپنے مسلمان ہونے کا شکر بجا لائے کہ خدا اس سے بہتر کوئ چیز دیگا، اور ہر کام میں اوپر والے کی کوئ مصلحت ہوتی ہے اس لئے وہ نیچے والوں کے کام پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر روز قیامت اپنے ساتھ ہونے والی یہ نا انصافی یاد رہی تو اس بد بخت کی نیکیوں کا کچھ حصہ اپنے پلڑے میں ڈال کر حساب چکتا کروالیں گے۔
ابھی دماغ میں سود زیاں اور حساب کتاب کی یہ کھچڑی مناسب طور پر دم سے بھی نہ لگی تھی کہ گھر میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگوں کو دعوت پہ بمعہ ء اہل و عیال بلایا گیا ہے۔ وہ سب ملا کر بارہ لوگ تھے۔ جن میں ان دو خاندانوں کے سات بچے بھی شامل تھے۔ چار بچے بڑے تھے جن کی عمریں تیرہ سے اٹھارہ سال تھیں۔
دعوت اپنے اختتام پر پہنچی سب لوگ رخصت ہو گئے۔ اور اسکے بعد جب میں چیزوں کو جگہ ٹھکانے سے لگا رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کے کمرے میں جس جگہ میرا موبائل فون ہمیشہ اپنے چارجر کے ساتھَ پڑا رہتا تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ یہ ایچ پی کا ایک خاصہ قیمتی فون تھا۔ اگر مجھے تحفے میں نہ ملا ہوتا تو میں اپنے آپ کو یہ عیاشی کبھی نہ کراتی۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ میں نے شاید بازار میں کہیں گرادیا ہے۔ نہیں، پھر یاد آیا کہ صبح میں نے اسے چارج کرنے کے لئے لگایا تھا اور ان لوگوں کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہیں موجود تھا۔ اور اگر کہیں باہر گرایا تو چارجر کہاں ہے۔ یہ کام تو کسی بےحد ہوشیار اور معلوماتی شخص کا تھا کہ اسنے وہ فون چارجر کے ساتھ اٹھایا۔ تمام حقائق کو جوڑتی ہوں تو یقین آجاتا ہے کہ یہ ان تین لڑکوں میں سے ایک کا کام ہے جو دعوت کھانے آئے تھے۔ اور باقی چیزوں کو حل کرتی ہوں تو ایک اور چیز کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑے بچے کا کام ہے جس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
گھر کے بزرگ حضرت نے فوراً انکی نانی کو فون کیا اور ماں سے بھی بات کی کیونکہ والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ انکا جواب یہ تھا کہ بڑے بچے کو تو ابھی ایک ہفتہ پیشتر نیا بلیک بیری خرید کر دیا گیا ہے وہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ گھر بھر کا لاڈلا اور پسندیدہ بچہ ہے۔کیا ایسی پیاری شکل والا بچہ ایسا مکروہ کام کر سکتا ہے۔۔ دوسرے بچے کو فون سے کوئ دلچسپی نہیں ہے اور اس نے اپنا ذاتی فون بھی نہیں لیا ہے۔ باقی کے بچے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتے وہ سب بے حد تمیز دار بچے ہیں۔ یہ آپکی ماسی کا کام ہے یا آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں۔ جبکہ ماسی اس پورے عرصے کے دوران کچن میں میرے ساتھ مصروف رہی۔ بزرگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ فون چلا گیا کوئ بات نہیں لیکن اگر آپ نے بروقت اپنے بچے کو نہیں پکڑا تو اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گھر کا لاڈلا بچہ اٹھارہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیتا ہے اور بغیر لائسنس کے گاڑی اعتماد سے چلاتا ہے۔ والدین کیوں سمجھتے ہیں کہ اسطرح بچوں کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب مزید کی طلب نہیں کریں گے اور اس مزید کے لئیے غلط ذرائع استعمال نہیں کریں گے۔ہر شخص اپنے ہی تجربے سے سیکھنا چاہتا ہے۔اور بعض نہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ سیکھنا۔ زندگی جس طرح بغیر چھیڑ چھاڑ کے گذر رہی ہے اچھی ہے۔
میں اداس ہوں میرے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دو چیزیں تھیں اور اب نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں میرے گھرسےدعوت کھا کر جانے والے مجھے نقصان پہنچا کر گئے۔ اب اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتی ہوں یہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں میرے موجود ہونے کی واحد نشانی ہے یہ ایسی نشانی ہے جس میں دوسری اور نشانیاں محفوظ ہیں۔ خدا نہ کرے اس پہ کوئ بد نظر ڈالے۔ورنہ میں بھوں بھوں رو پڑونگی اور بہانہ بھی نہیں کرونگی کہ مجھے نزلہ ہوگیا ہے۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئ ہمیں رلائے کیوں۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ، ضرب ہو کاری
لیکن فی زمانہ آنکھ کا تارا اسے کہا جاتا ہے جو آنکھوں کے آگے تارے روشن کر دے اور کاری ضرب سے مراد شاید ہاتھ کی وہ صفائ ہے جس سے آپ پر وہ کاری ضرب لگے کہ آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں، رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔
ایک تو ہمارا دل پہلے ہی دکھا ہوا تھا کہ ہمارا قیمتی ڈیجیٹل کیمرہ کراچی چڑیا گھر میں کسی نے انتہائ مہارت سے اڑالیا۔ لوگوں نے کہا کہ ایسی جگہوں پر ایسی چیزیں لیکر نہیں جاتے۔ حالانکہ ہم اپنی نیچرل فوٹوگرافی کے شوق میں اسے لے گئے تھے۔
پھر اس مور کی مہربانی کہ وہ سارے پر پھیلا کر ناچا بھی۔ بس اسکے بعد جب تالاب میں تیرتے ہنس کی کسی ادا پر ہمارا دل آیا تو کیمرہ ندارد۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا کہ چڑیا گھر کے شعبہ ء بازیافت سے معلوم کر لیں وہاں کسی نے پہنچا دیا ہوگا۔ میں انکو غیر یقینی انداز سے دیکھتی ہوں کیا یہاں پر کسی ایسے شعبے کا وجود ہوگا اور فرض کریں کہ کسی زمانے میں کسی خوش امید نے ایسا شعبہ قائم بھی کیا ہوتو یقیناً مہینوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے بعد انہوں نے اس نیک کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہوگا۔ بھلاہاتھ آئ نعمت سے کوئ اس طرح بھی ہاتھ دھوتا ہے کیا۔پھر بھی انکا دل رکھنے کو معلوم کیا۔ اور ہمارا خیال صحیح نکلا۔ ایسا کوئ شعبہ وجود نہ رکھتا تھا۔ پتہ نہیں لوگ کیوں ہمارے اندازوں کو بغیر اپنےتجربے کے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں۔ اوہو تو آپ دلوں کے حال بھی جانتی ہیں۔
کچھ دن افسوس رہا اس میں کچھ ایسی یادگار تصویروں کا لوڈ موجود تھا جو ابھی اپ لوڈ بھی نہ کیا گیا تھا۔ بس دل ہی میں محفوظ رہ گئیں۔ اب گردن جھکا کر دیکھنے کا تکلف تو کر لیں مگر ہمارے دل کی تصویریں کوئ اور بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔ پھر اپنے مسلمان ہونے کا شکر بجا لائے کہ خدا اس سے بہتر کوئ چیز دیگا، اور ہر کام میں اوپر والے کی کوئ مصلحت ہوتی ہے اس لئے وہ نیچے والوں کے کام پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ اگر روز قیامت اپنے ساتھ ہونے والی یہ نا انصافی یاد رہی تو اس بد بخت کی نیکیوں کا کچھ حصہ اپنے پلڑے میں ڈال کر حساب چکتا کروالیں گے۔
ابھی دماغ میں سود زیاں اور حساب کتاب کی یہ کھچڑی مناسب طور پر دم سے بھی نہ لگی تھی کہ گھر میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگوں کو دعوت پہ بمعہ ء اہل و عیال بلایا گیا ہے۔ وہ سب ملا کر بارہ لوگ تھے۔ جن میں ان دو خاندانوں کے سات بچے بھی شامل تھے۔ چار بچے بڑے تھے جن کی عمریں تیرہ سے اٹھارہ سال تھیں۔
دعوت اپنے اختتام پر پہنچی سب لوگ رخصت ہو گئے۔ اور اسکے بعد جب میں چیزوں کو جگہ ٹھکانے سے لگا رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ کھانے کے کمرے میں جس جگہ میرا موبائل فون ہمیشہ اپنے چارجر کے ساتھَ پڑا رہتا تھا وہ وہاں نہیں ہے۔ یہ ایچ پی کا ایک خاصہ قیمتی فون تھا۔ اگر مجھے تحفے میں نہ ملا ہوتا تو میں اپنے آپ کو یہ عیاشی کبھی نہ کراتی۔ پہلا خیال تو یہ آیا کہ میں نے شاید بازار میں کہیں گرادیا ہے۔ نہیں، پھر یاد آیا کہ صبح میں نے اسے چارج کرنے کے لئے لگایا تھا اور ان لوگوں کے آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہیں موجود تھا۔ اور اگر کہیں باہر گرایا تو چارجر کہاں ہے۔ یہ کام تو کسی بےحد ہوشیار اور معلوماتی شخص کا تھا کہ اسنے وہ فون چارجر کے ساتھ اٹھایا۔ تمام حقائق کو جوڑتی ہوں تو یقین آجاتا ہے کہ یہ ان تین لڑکوں میں سے ایک کا کام ہے جو دعوت کھانے آئے تھے۔ اور باقی چیزوں کو حل کرتی ہوں تو ایک اور چیز کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ سب سے بڑے بچے کا کام ہے جس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔
گھر کے بزرگ حضرت نے فوراً انکی نانی کو فون کیا اور ماں سے بھی بات کی کیونکہ والد صاحب گھر پر موجود نہ تھے۔ انکا جواب یہ تھا کہ بڑے بچے کو تو ابھی ایک ہفتہ پیشتر نیا بلیک بیری خرید کر دیا گیا ہے وہ نہیں اٹھا سکتا۔ ویسے بھی وہ گھر بھر کا لاڈلا اور پسندیدہ بچہ ہے۔کیا ایسی پیاری شکل والا بچہ ایسا مکروہ کام کر سکتا ہے۔۔ دوسرے بچے کو فون سے کوئ دلچسپی نہیں ہے اور اس نے اپنا ذاتی فون بھی نہیں لیا ہے۔ باقی کے بچے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتے وہ سب بے حد تمیز دار بچے ہیں۔ یہ آپکی ماسی کا کام ہے یا آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں۔ جبکہ ماسی اس پورے عرصے کے دوران کچن میں میرے ساتھ مصروف رہی۔ بزرگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ فون چلا گیا کوئ بات نہیں لیکن اگر آپ نے بروقت اپنے بچے کو نہیں پکڑا تو اسکی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گھر کا لاڈلا بچہ اٹھارہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان دیتا ہے اور بغیر لائسنس کے گاڑی اعتماد سے چلاتا ہے۔ والدین کیوں سمجھتے ہیں کہ اسطرح بچوں کی زندگی کو آسانیوں سے بھر دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب مزید کی طلب نہیں کریں گے اور اس مزید کے لئیے غلط ذرائع استعمال نہیں کریں گے۔ہر شخص اپنے ہی تجربے سے سیکھنا چاہتا ہے۔اور بعض نہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ سیکھنا۔ زندگی جس طرح بغیر چھیڑ چھاڑ کے گذر رہی ہے اچھی ہے۔
میں اداس ہوں میرے پاس جدید ٹیکنالوجی کی دو چیزیں تھیں اور اب نہیں ہیں۔ میں حیران ہوں میرے گھرسےدعوت کھا کر جانے والے مجھے نقصان پہنچا کر گئے۔ اب اپنے لیپ ٹاپ کو دیکھتی ہوں یہ اس ٹیکنالوجی کے زمانے میں میرے موجود ہونے کی واحد نشانی ہے یہ ایسی نشانی ہے جس میں دوسری اور نشانیاں محفوظ ہیں۔ خدا نہ کرے اس پہ کوئ بد نظر ڈالے۔ورنہ میں بھوں بھوں رو پڑونگی اور بہانہ بھی نہیں کرونگی کہ مجھے نزلہ ہوگیا ہے۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئ ہمیں رلائے کیوں۔