یہ میرے گھر کا ٹی وی لاءونج ہے, ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کے لئے یہاں سے گذرنا پڑتا ہے۔ میری بچی کے کھلونے اور سائیکلیں بھی یہاں پڑی رہتی ہیں۔ اکثر جب میں گذرتی ہوں تو آپکو بھی ساتھ شریک کر لیتی ہوں۔ یہ سماء ٹی وی کی جیسمین منظور ہیں جو اس وقت بلوچستان ڈیرہ مراد جمالی ، میں سیلاب کے متائثرین کے ساتھ موجود ہیں۔ جی یہ وہی علاقہ ہے جو سیلاب کے پانی سے اس لئے متائثر ہوا کہ سندھ کے زمینداروں نے اپنے علاقے میں آنے والے سیلابی پانی کا رخ اس طرف موڑ دیا۔ جیسمین میرے گھر میں کچھ لوگوں کو بہت پسند ہے یہ قصہ پھر کبھی سہی۔
جیسمین ایک دیہاتی عورت کو پرسہ دیکر فارغ ہوئ
تھی کہ میں نے اس پروگرام کو دیکھنا شروع کیا۔ اسکے دو بچے مر گئے اور وہ اپنے خاندان سمیت کھانے کے انتظار میں ان چارپائیوں کے ساتھ بیٹھی ہے جہاں سے بچوں کی میتیں روانہ ہوئ ہونگیں۔ جیسمین انہیں دلاسہ دیتی ہے کھانا ملے گا سب کو ملے گا۔ مجمع تنبو یعنی ٹینٹ کے نہ ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔ جیسمین ان سے بھی کہتی ہے سب ملے گا۔ ابھی ہم یہاں سے جا کر بات کرتے ہیں آپ سب لوگوں کو سب ملے گا کھانا بھی اور تنبو بھی۔ وہاں سے نکل کر وہ میرے جیسے ناظرین کو بتاتی ہے کہ اس وقت یہاں فوج کے جوانوں کے علاوہ کوئ شخص انکی مدد کے لئے موجود نہیں ہے۔
لیکن یہ کیا، اسکے پیچھے ایک امدادی کیمپ نظر آرہا ہے۔ اس پہ ایک بڑا سا بینر لگا ہے کہ یہ کیمپ جماعت اسلامی کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جیسمین، جماعت والوں کے تنبو کے اندر پہنچتی ہے تنبو یعنی شامیانے کے اندر ایک ڈنڈے کے ساتھ ایک بکری بندھی ہوئ ہے خالی زمین پہ دو تین دیہاتی بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ یہ امدادی کیمپ اندر سے بالکل خالی، پارٹی کا کوئ کارکن تک موجود نہیں ، امداد کا تو تذکرہ ہی کیا۔ جیسمین اس سے آگے بڑھتی ہے۔ یہ ایک اور شامیانہ لگا ہے جس پہ عمران خان کی ایک بڑی سی اسٹائلیش تصویر موجود ہے نیچے انکی پارٹی کا نام موجود ہے۔ تحریک انصاف۔ ابھی چند دن پہلے انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں سنہری چمکدار کرسیوں پہ بیٹھےم پیچھے لاکھوں روپے سے پرنٹ کئے ہوئے بڑے سے بینر جس پہ سیلاب زدگان کی قد آدم تصویریں موجود ہیں انکی موجودگی میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کہا تھا کہ ہمیں امداد کی رقم دیں۔ ہم آپکو ایک ایک پائ کا حساب دیں گے۔ یہ شامیانہ بھی اندر سے خالی پڑا ہے۔ اور یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان اس شامیانے کے پیسوں کا حساب دو۔
اس سے آگے ایک اور شامیانہ لگا ہے۔ اس میں تو لال دریاں بھی بچھی ہیں اور ایک اسٹیج بھی بنا ہے۔ یہ ایک میڈیکل ریلیف کیمپ ہے یہ بھی اندر سے بالکل خالی پڑا ہے۔ یہ پاکستان اسلامک کلچر والوں کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ جتنی دیر میں جیسمین اپنی بے زاری کو پوری طرح ظاہر کرتی ہوئ اس میڈیکل کیمپ کی حالت دکھاتی ہے ایک داڑھی والے صاحب بھاگے بھاگے پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل دو بجے کیمپ کی چھٹی ہوجاتی ہے اس لئے یہ اس وقت آپکوخالی ملا۔ مجمع جو جیسمین کے ساتھ ہے بتاتا ہے کہ یہ صبح سے اسی طرح خالی ہے۔ سیلاب زدگان کے لئے قائم کیمپ میں وقت کی پابندی شاید سب سے زیادہ ہوگی۔
تین کیمپ اور تینوں خالی، باقی وہاں اور کوئ نہیں۔ فوج کا ایک ہیلی کاپٹر مصروف بہ عمل ہے۔ جیسمین وہاں سے اپنے ناظرین کو خدا حافظ کہہ کر نکل آئ۔
تین کیمپ اور تینوں خالی، باقی وہاں اور کوئ نہیں۔ فوج کا ایک ہیلی کاپٹر مصروف بہ عمل ہے۔ جیسمین وہاں سے اپنے ناظرین کو خدا حافظ کہہ کر نکل آئ۔
میں بھی جیسمین کے ساتھ اس منظر سے رخصت ہوئ۔ پیچھے رہ گئے متائثرین۔ ایسے وقت میں انکا خدا پہ یقین رکھنا بہت ضروری ہے۔ خدا نے ہی یہ عذاب بھیجا ہے ان پہ تاکہ اس نظام کی کمزوری ان پہ عیاں نہ ہو جسکے وہ پروردہ ہیں۔ اور وہ یہ سمجھتے رہیں کہ یہ سب اللہ سائیں کی مرضی ہے۔ اور اب خدا ہی باقی رہ گیا ہے کہ وہ اس زندگی کو ان پہ آسان کرے اور مخیر افراد خدا کے ڈر سے اپنے مال کا صدقہ انہیں عطا فرمائیں۔۔
ان لوگوں کو خدا پہ چھوڑتے ہوئے میں واپس آ کر اردو سیارہ کو چیک کرتی ہوں پتہ چلا کہ جیو ٹی وی پہ کامران خان کا کہنا ہے پاکستان کے سو فی صد عوام کو نظام کی پرواہ نہیں بلکہ وہ ایک مسلمان حکمران چاہتے ہیں جو خود اسلامی تعلیمات پہ عمل کرے اور ملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلائے اور اسکے حساب سے انکا خیال رکھے۔
لیکن معزز قارئین، جیسا کہ ابھی آپ نے میرے ساتھ، جیسمین منظور کے ساتھ
ایک علاقے کے متائثرین کو دیکھا۔ تو آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ یہ بھی پاکستان کے عوام ہیں اور انہیں کیا چاہئیے؟
جو لوگ انہیں امداد پہنچا رہے ہیں انکے بارے میں انہیں کوئ فکر نہیں کہ وہ شراب پیتا ہے یا زنا کرتا ہے یا اسکے گھر کی عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں، یہ امداد حق حلال کے پیسوں کی ہے یا حرام سے کمائے گئے روپے کا صدقہ ہے، یہ امداد ہندو، عیسائ یا یہودی بھیج رہے ہیں یا کوئ راسخ العقیدہ مسلمان، یہ ہمارے دشمن ملک بھیج رہے ہیں یا دوست، دہشت گرد یا امن پسند، طالبان یا لبرل۔ انہیں بس ایک ایسا نظام چاہئیے جس میں انہیں سیلاب کے بعد کھانا اور بے گھری سے بچنےکے لئے کچھ نہیں ایک تنبو تو ملے۔
یہ پاکستان کے سو فی صد عوام میں شامل نہیں ہیں۔ یہ کبھی بھی پاکستان کے عوام میں نہیں گنے جاتے۔ کیونکہ یہ اپنی گنتی کا حق اپنے کسی انسانی رب کے حوالے کر چکے ہیں۔ انکی گنتی امداد کے حصول کے وقت یا سیاسی چالوں کے وقت صحیح سے ہوگی۔ بہر حال باقی سب جو گنتی جانتے ہیں یہ سمجھ کے کہ یہ اپنے نظریات کو چمکانے کا سنہرا وقت ہے یہی وقت ہے لوگوں کواللہ نامی دیوتا کے غیض و غضب سے عذاب سےڈرانے کا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اسکے بجائے کسی اور نظریہ حکومت میں پناہ تلاش کرنے لگیں۔ اپنی اپنی دوکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ آئیے صاحبان، ڈھونڈھتے ہیں ایک حکمران جو ہو اصل مسلمان، جو کرے وہ سرداری دور ہوگی ہر بیماری، جو نہیں سنوگے ہماری بات، تو نازل ہونگے ایسے ہی عذاب۔ یہ اصل مسلمان حکمران انکے پاس چھپا ہوا ہے، جب سب تائب ہو جائیں گے تو وہ باہر آئے گا۔
جو مصیبت جھیل رہے ہیں وہ توبہ کی نمازوں میں کھڑے ہونے کے بجائے، کھانے اور تنبو کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یا اپنے اپنے بیمار بچوں کی دواءووں کے انتظار میں ہیں ان میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ ڈوبتی نبضوں پہ اپنا ہاتھ ہی رکھ دیں۔ ان میں سے بیشتر کو صحیح سے نماز بھی نہیں پڑھنی آتی۔ بس یہ کہنا آتا ہے کہ مالک ہے اللہ سائیں اور پیر سائیں ۔
جو اس مصیبت سے دور ہیں وہ ایکدوسرے کو توبہ اور استغفار کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ جو ایکدوسرے سے جلے ہوئے ہیں وہ ایکدوسرے کو بد دعائیں دے رہے ہیں خدا تمہیں بھی ایسی مصیبت سے دو چار کرے۔ حالانکہ بات تو اتنی ہے کہ ہوئے تم دوست جسکے اسکا دشمن آسماں کیوں ہو۔
اب بات یہ ہے کہ سائینسداں کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ اگررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس سیلاب سے بچ نکلے تو بہت ممکن ہے کہ اگلے سال پھر یہ سیلاب حاضر ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دو، تین، چار سال بعد پورے ملک کو قحط سالی بھگتنی پڑ جائے۔ اگلی دفعہ کیا کریں گے؟ حکمران تبدیل کریں گے یا نظام؟