اسی طرح رات کو ٹی وی چلا کر کسی بلاگ پہ تبصرہ لکھ رہی تھی کہ اطلاع ملی شاہراہ فیصل پہ دھماکہ ہو گیا۔ آدھ گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ پی این ایس مہران میں بارہ ، پندرہ دہشت گرد گھس گئے۔ س سے آگے اب ایک دنیا واقف ہے کہ کیا ہوا؟
وہ بارہ پندرہ دہشت گرد جو ایک وقت میں بیس بائیس ہو گئے تھے محض تین نکلے باقی کے سب بھاگ گئے۔ انکی تعداد دو سے لیکر آٹھ تک ہے۔ اربوں روپے مالیت کے قیمتی جہاز تباہ ہوئے۔ دس فوجی اہلکار شہید ہوئے۔
ایک طبقہ خوش ہے کہ فوج نے پاکستانی عوام کو جس طرح تیس سال پہلے بے وقوف بنا کر ایک جنگ میں دھکیلا، ملک کی ثقافت اور مستقبل کو داءو پہ لگایا آج اسے خود مزہ چکھنے کو ملا۔ دوسرا طبقہ خوش ہے کہ جس طرح ہمارے مجاہدین کے خلاف مہم چلائ گئ ، انہیں شہید کیا گیا، نتیجے میں اچھا تھپڑ پڑا۔ ایک اور طبقہ خوش ہے کہ کیونکہ لگتا ہے بالآخر ہمیں امریکہ سے دو بدو لڑنے کا موقع ملے گا۔ آہا، کندن بننے کے دن آنے والے ہیں۔ کندن بننے کے بعد یقیناً اقوام عالم میں ہم سونے کے بھاءو تولے جائیں گے۔
یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے ہیں جو دو سال پہلے اس خیال کے شدید مخالفین میں سے تھے کہ کراچی میں طالبان اپنی جڑیں پھیلا رہے ہیں۔ آج وہ سب خاموش ہیں۔ یہاں ہمارے کچھ ساتھی ایسے بھی ہیں جنہیں پنجابی طالبان کی اصطلاح پہ کف آنے لگتا تھا۔ آج وکی لیکس کہہ رہی ہیں کہ پنجاب میں طالبان کو جمانے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ آج وہ بھی خاموش ہیں۔
ایسے ہر واقعے کے بعد ٹی وی پہ مبصرین کی ایک بڑی فوج دستیاب ہو جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک ٹاک شو میں ، فوج کے ایک اعلی ریٹائرڈ افسر اتنے جذباتی ہوئے، فرمانے لگے پاکستان کی حفاظت دو قوتیں کر رہی تھیں۔ پھر کچھ سوچ کر انہوں نے اس میں ایک اور قوت کا اضافہ کیا ۔ یہ قوتیں فوج، پٹھان اورخدا ہیں۔ اندازہ ہے کہ آخر میں شامل ہونے والی قوت خدا کی ہوگی۔ لیکن پچھلے دس سال میں فوج اور پٹھان کو لڑا دیا گیا اور اس طرح ملک کے دفاع کو کمزور کر دیا گیا۔
چلیں فوج تو پاکستانی انسٹی ٹیوشنز میں شامل ہے۔ لیکن کسی قوم کو جاہل اور معاشی طور پہ کمزور رکھ کر۔ ملک میں بسنے والی دیگر قوموں سے الگ کر کے دین و ملت کی حفاظت پہ معمور کر دینا، کہاں تک درست ہے؟
اگر ہم اس بات کو من وعن تسلیم کر لیں کہ دہشت گردی کی اس فضا کی ساری جڑ امریکہ ہے۔ تب بھی یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس میں جو لوگ حصہ لیتے ہیں اور استعمال ہوتے ہیں وہ ہمارے ہی لوگ ہیں۔ کیا امریکہ میں ہونے والی کسی دہشت گردی میں کوئ امریکی شامل ہوتا ہے۔ حتی کہ ممبئ میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے میں بھی پاکستانی یہاں سے وہاں پہنچے۔ لیکن افسوس، ہمارے یہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کوانجام دینے والا ایک پاکستانی ہی ہوتا ہے۔ اسکے باوجود کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں امریکی موجود ہیں یہ فریضہ سر انجام دینے کے لئے انہیں پاکستانی مل جاتے ہیں۔ آج تک کسی خود کش حملے میں کوئ امریکی نہیں پھٹا نہ ہی کوئ انڈین۔
یہ لوگ کیوں ان لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔ اسکی دو واضح بنیادی وجوہات ہیں۔ تعلیم کی کمی اور بے روزگاری۔ اسکی تیسری سب سے اہم وجہ ہمارے شمالی علاقہ جات کے عوام کو اس فریب میں مبتلا رکھنا کہ وہ بہادر اور جنگجو ہیں۔ ان پہ دین اور ملک کی کڑی ذمہ داری ہے۔ اس خوبی کے بعد انہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، وہ بہادر ہیں بچے کے کان میں اذان سے پہلے گولی کی آواز جاتی ہے۔
کیا ایک قوم بننے کے عمل کے لئے یہی نظریات کارآمد ہوتے ہیں؟ یہ بات ہمیں آدھا پاکستان گنوانے کے بعد بھی سمجھ نہِیں آسکی۔ بنگالیوں کو انکی جسامت اور مذہب کے بارے میں کے طعنے دینے والے ان سے شکست کھا گئے۔
آزاد علاقوں کے پشتونوں کو ایک پر فریب احساس برتری میں مبتلا کر دیا گیا۔ اور اپنی اس آزادی میں وہ کسی قانون کے پابند نہیں رہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ آزادی کے بعد انہیں پاکستان کی دیگر اقوام کے ساتھ مین اسٹریم میں لانے کی کوششیں غیر محسوس طریقے سے شروع کی جاتیں۔ تاکہ تبدیلی کا عمل آہستگی سے شروع ہو جاتا۔ لیکن کسی نے اس صورت کو تبدیل کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ البتہ انکی اس حالت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس طرح کے انہیں کوئ دور رس فائدہ نہیں پہنچا۔ حتی کہ جنت تک پہنچے اور پہنچانے کے لئے بھی یہی راستہ استعمال کیا گیا۔
انکی اس آزاد حیثت کا فائدہ اٹھا کر دنیا بھر کے جنگجو وہاں پہنچ کر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اسلحہ کا آزادنہ استعمال ، آزادنہ تیاری، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اگر اس میں کوئ کمی تھی تو وہ عوامی پذیرائ کی۔ وہ ماشااللہ سے پچھلے تیس سالوں کی شبانہ روز محنتوں سے انہیں ایسی ملی کہ ، تیس سال کی داستان تو ایک طرف، پچھلے دس سالوں میں پینتیس ہزار عام پاکستانیوں کے انکے ہاتھوں ختم ہونے کے باوجود ختم نہ ہوئ۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کروا رہا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ لیبیا میں تو القاعدہ کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے دوسرے ملک میں کیسے اسکے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر ایک ملک میں وہ اسکی مدد کر رہا ہے تو دوسرے ملک میں القاعدہ کے رہنما اس کے دشمن ہونگے۔
آج سے تیس سال پہلے فوج نے امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے جہاد کا فلسفہ پھیلایا، اور جہادی کاروبار میں خوب پھلی پھولی، آج سے پندرہ سال پہلے فوج کی سرپرستی میں، امریکہ کی آشیرباد سے طالبان کو افغانستان میں داخل کیا گیا، آج سے دس سال پہلے فوج کی مرضی سے پاکستان امریکہ کی مدد کر کے جنگ کے کاروبار میں شامل ہوا۔ دراصل ہماری فوج اور امریکہ ایک دوسرے کے حلقہ ء اثر میں تین دہائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ کس لئے ایک اپنے رسوخ کے لئے دوسرا ڈالرز کے لئے۔
اس لئے جب جنرل کیانی نے کہا کہ خوشحالی کے لئے عزت و وقار پہ سودانہیں کریں گے تو مجھے یہ سوچنا پڑا کہ انکا مخاطب فوج کے اعلی عہدے دار ہیں۔ عوام کے پاس نہ خوشحالی ہے نہ عزت اور نہ وقار۔
آج مرنے والا بھی شہید ہے مارنے والا بھی شہید ہے۔ پی این ایس مہران ، کراچی کے واقعے میں دس شہید فوج کے اور تین شہید دہشت گردوں کے۔ عام پاکستانی کنفیوز ہے۔ اسے خودکش حملہ آور کا کاز انتہائ نیک لگتا ہے۔ مرنے والوں کا بھی کوئ قصور نہیں۔ یوں شہیدوں کا قافلہ نہ تھمتا ہے نہ رکتا ہے۔
اس سارے واقعے کے بعد جس چیز سے مجھے شدید تکلیف پہنچی وہ لیفٹیننٹ یاسر عباس کی والدہ کی حکومت سے یہ درخواست کہ انکے شہید بیٹے کو نشان حیدر دیا جائے۔
یہ صحیح ہے کہ نوجوان اکلوتے بیٹے کی موت والدین کے لئے ایک بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسے واقعے میں جس میں مزید نو لوگ شہید ہوئے ہیں جد وجہد کرتے ہوئےآخر وہ بھی تو کسی کے بیٹے ہیں۔ یاسر عباس شہید کا خاندان فوج کے اعلی افسران کے لوگوں پہ مشتمل ہے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ اس راستے میں یہ کڑے امتحان آتے ہیں۔ پھر ایسی کم بات کیوں کی؟ مجھے نجانے کیوں یقین سا ہے کہ انکی والدہ کو کسی اور نے یہ درخواست کرنے کے لئے کہا ہے۔ ایک ماں کا دل اتنا چھوٹا اور خود غرض نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف اپنے بیٹے کے بارے میں سوچے۔
ابھی اس واقعے کی انکوئری نہیں ہوئ۔ ہم تک جو میڈیا کے ذریعے اطلاعات پہنچی ہیں۔ اگر ان سب کو درست تسلیم کیا جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ اس میں فوج کے اعلی افسران کی کوتاہی شامل نہیں، اس واقعے کا باعث انکی کوتاہ اندیشی اور نکما پن نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں اسکے بر عکس انہوں نے دہشت گردوں کو ناکام کر دیا۔ اور انہیں لعنت ملامت کرنے کے بجائے انکا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے بعد بھی اگر نشان حیدر کا مستحق کوئ شخص نظر آتا ہے تو ایک کرنل کا بیٹا یاسر عباس شہید نہیں بلکہ وہ رینجراہلکار خلیل ہے جس نے یہ جان کر بھی کہ دہشت گرد کے ہاتھوں میں گرینیڈ موجود ہیں اسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا۔
کیا ہم اسکی اس قربانی اور جوانمردی سے اس لئے گریز کریں کہ وہ اعلی دولت مند خاندان سے تعلق نہیں رکھتا اور اپنی حیثیت میں کم رینک پہ تھا۔
شہید تیرا قافلہ تھما نہیں رکا نہیں۔ مگر اسے اب رکنا چاہئیے، شہادت سے پہلے مقام بصیرت پہ۔