Friday, May 13, 2011

لُک آنجن

مکی صاحب کی ایک پوسٹ پڑھی جسکے اخیر میں وہ لکھتے ہیں کہ
ایک بات یقینی ہے کہ میں کسی ” ہستی ” کو تلاش کر کے اس کا شکریہ ضرور ادا کروں گا کہ مچھلی، بندر یا کسی کیڑے کی 
 بجائے میرا ارتقاء انسان کی صورت ہوا
یاد آیا کہ ایک شکریے سے وابستہ  خیال کہیں اور بھی تو کچھ سال پہلے پڑھا تھا۔ آپ کے مطالعے کے لئے حاضر ہے۔ بھولے قارئین یہ نہ سمجھیں کہ یہ مصنف کی آپ  بیتی ہے۔ یقین دلادوں کے جس وقت لکھاری نے یہ لکھا وہ صاحب اولاد نہیں تھا۔ کراچی کے ایک ادبی پرچے میں شائع ہونے والا  فکاہیہ یہ رہا۔
بہتر دیکھنے کے لئے تصویر پہ کلک کیجئے۔



 

5 comments:

  1. واہ جی واہ .. اچھا مال اشاعت کے لئے باندھ رکھتی ہیں۔ اور ہمیں بلاگ پر ٹرخا دیتی ہیں۔ بئی مانی ہے جی۔
    یہ جملہ تو بہت خوبصورت ہے:
    دہریے کا سب سے مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب وہ شکر کے جذبے سے بھرا ہوتا ہے مگر نہیں جانتا کہ کس کا شکریہ ادا کرے۔


    ایک ساتھی بلاگر کے بلاگ پر ایک اقتباس پڑھا تھا۔ اگرچہ وہاں یہ کسی اور پس منظر میں ہے لیکن ارتقاء اور خدا کے تعلق کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ جہاں سے چُرایا ہے وہاں لوگوں کو اس کا کل مفہوم واضح ہوجائے تو پیروں تلے زمین نکل جائے!

    ملحدین کا یہ اعتراض کہ اگر خدا تعالی قادر مطلق ہوتا تو دنیا کو بتدریج کیوں پیدا کرتا ، اس قدر لغو ہے کہ ذراسی توجہ کے قابل نہیں۔ ایک قطرہ کا رحم میں پڑنا ، پر ورش پانا ، گوشت پوست چڑھنا ، مختلف اعضا کا پیدا ہونا ، جان پڑنا ، خون سے غذا پانا اور نور کا پتلا بن کر منظر عام پر آنا زیادہ عجوبہ اور کمال قدرت کی دلیل ہے یا دفعۃً بنا بنایا ایک انسان مجّسم کا پیدا ہونا؟


    واقعی! .. خلقت کا ارتقاء (بتدریج) سے گذر کر وجود میں آنا کمال قدرت اور عجوبہ ہے یا بس دفعتاً بنا بنایا وجود میں آنا۔

    فکاہیہ پھر پڑھنا پڑے گا اگر سوچ مرتکز رہی تو۔ فی الوقت یہ بتائیے کہ صفحہ اول پر ۰۰۱ کیا بدشگونی سے بچنے کے لئے اُلٹا لکھا گیا ہے؟
    :)

    ReplyDelete
  2. اور یہ تاریخ اشاعت کیوں چھپا رکھی ہے؟

    ReplyDelete
  3. عثمان یہ تاریخ اشاعت نہیں۔ کچھ اور غیر ضروری معلومات ہیں۔
    تاریخ اشاعت ہے اسکی مارچ، دو ہزار آٹھ۔
    انہوں نے جہاں سے اٹھایا ہوگا۔ وہاں پہ بھی کہیں سے اٹھایا گیا ہوگا۔
    :)

    ReplyDelete
  4. ایک صاحب ہیں خودکو حلقہ مومناں میں شامل سمجھتے ہیں،
    ان کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں،
    http://shazel.urdunama.org/?p=645#comments

    اس پر میں نے جناب کے لطیف جذبے کی لطافت جاننے کے لیئے یہ تبصرہ کیا کہ
    بات لطیف جذبے کی نہیں بات ہے ایک کمزور کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی،
    آپ اور وہ تمام لوگ جو اس پر واہ واہ کررہے ہیں ان سے صرف ایک سوال کہ اگر وہ لڑکی اپکی بہن ہوتی تب بھی آپ حضرات کے یہی تبصرے ہوتے؟؟؟؟؟؟؟؟
    جناب نے میرا یہ تبصرہ ڈلیٹ کردیا،

    پھر میں نے ان سے پوچھا کہ
    کیا میرے تبصرے مین کوئی گالی تھی،جسے جناب نے ڈلیٹ کردیا،
    یا آپکی غیرت سوچ میں بھی اپنی بہن کے ساتھ یہ حرکت برداشت نہیں کرسکی؟؟؟؟؟؟
    میرا یہ تبصرہ بھی جناب نے ڈلیٹ کردیا،

    اور جوابا یہ پوسٹ لکھ ماری
    http://shazel.urdunama.org/?p=655
    اور جب میں نے انہیں جواب لکھا،

    یہ ایک اورسوئے ظن ہے کہ مجھے آپ پر غصہ ہے اس لیئے کہ آپ ایم کیوایم کو براکہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
    میں اس طرح کی چھوٹی موٹی باتون کو دل سے نہیں لگاتا،
    جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتا ہوں اور بس!
    میں نے جو لکھا اس کا مقصد وہی تھا جو لکھا گیا!
    میرے تبصرے ڈلیٹ کردیئے تو اپنے تبصرے میں سے لطیف جزبے والا ڈھکوسلہ بھی ڈلیٹ کردیں تب میں سمجھوں گا کہ آپ واقعی شرمندہ ہوئے!

    تو پتہ چلا کہ مارے ڈرکے ماڈریشن آن کردی ہے
    اور وہ بھی غالبا صرف میرے تبصروں کے لیئے،
    اسی لیئے اس پوسٹ پر میرا جوابی تبصرہ شائع نہ کیا،
    تاکہ اپنے چاہنے والے ہم خیالوں کے ساتھ ملکر مجھے برا کہہ سکیں،
    کتنے کھوکھلے لوگ ہیں یہ،بنتے دین کے ٹھیکے دار ہیں،مگر دین کی روح انہیں چھو کر بھی نہیں گزری!

    ReplyDelete
  5. یوں تو خدا کا تصور بھی اسی قدر پرانا ہے جس قدر انسانی شعور۔لیکن پہلے پہل یہ مجسم ہوا کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ جسم غیر واضع ہوتا چلا گیا۔
    سائنسی اعتبار سے دیکھیں تو ہماری سوچ،یاداشت اور سوج بھوج ہمارے دماغ میں ہونے والی برقی اور کیمیائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔اور دماغ میں موجود نیوران خلیوں کی تعداد کی طرح ہمارے دماغ کی کارکردگی بھی محدود ہی ہے۔ جہاں تک چراغ عقل کی روشنی ہو گی وہیں تک ہمیں نظر آئے گا۔ سائنس کے پاس ایسی کوئی ٹارچ نہیں جو اس روشنی کی حد سے باہر کام دے سکے۔
    کیونکہ خدا کے وجود کو لیب میں ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا اس لیے سائنس خدا کی موجودگی یا غیر موجودگی کی بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتی۔
    گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
    چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ