شک کرنا ایک اچھی عادت ہے یا بری۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن یہ مشورہ اکثر دوسروں کودیا کہ شکی مرد سے شادی بالکل نہیں کرنی چاہئیے چاہے وہ منگنی پہ ہیرے کی انگوٹھی دے۔ البتہ شکی بیوی، ضرور شوہر کا مورال بڑھاتی ہے۔ اگر آپ اپنی مجرد زندگی میں باوجود کوشش صادق کے، کوئ معمولی افیئر چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں اور عالم یہ ہے کہ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ تو ایک شکی مزاج خاتون سے شادی کر لیجِئے۔ وہ آپکے ماضی کو ایسا رنگین بنادیں گی کہ آپ خود گنگنانے لگیں گے جیسا اب ہے میرا ماضی کبھی ایسا تو نہ تھا۔
صرف ماضی ہی نہیں شک کی تخلییقی صلاحیتوں سے آشنا لوگ آپکے حال کو بھی بدل ڈالنے پہ قدرت رکھتے ہیں۔
ابھی اپنے حال کا قصہ بتاتی ہوں۔ ایک صاحب نے میل کی کہ چونکہ آپکا نام فارسی زبان سے لیا گیا ہے اور آپکے بقول کسی ایرانی خاتون کے نام پہ ہے اس لئے میں آپکو شیعہ سمجھتا تھا۔ لیکن اب پتہ چلا کہ آپ لا مذہب ہیں۔ پہلے شک کی وجہ تو انہوں نے کھل کر بتادی۔ دوسرے شک کی وجہ تو نہیں معلوم لیکن میراشک ہے کہ یہ ان تحاریر کا گہرا تجزیاتی نچوڑ ہے جو آجکل 'ہم' سر سید پہ لکھ رہے ہیں۔ انکے شکوک کی پیداواری صلاحیت سے انجان رہنے کے لئے میں نے انہیں لکھ دیا کہ آئیندہ مجھے میل نہ کریں۔ عقل کل نے کچھ بھانپ کر بات اس یقین تک پہنچائ کہ اس زہنیت کی بناء پہ عورتوں کی گواہی آدھی رکھی گئ ہے۔ اب میرے پچھلے ایک سال اور چند مہینوں پہ مشتمل ماضی کے حصے دار ہونے کی وجہ سے یہ بات آپ کے لئے تعجب خیز نہیں ہونی چاہئیے کہ میں نے انکی ذہنیت سے مزید لا علم رہنے کا یقین پیدا کرنے کے لئے انکے ای میل ایڈریس کو رپورٹ اسپیم میں ڈال دیا۔ لا علمی بڑی نعمت ہے۔
شکوک اور شبہات کی کھچڑی کس دماغ میں نہیں پلتی۔ شاعر تو اس قدر شکی ہوتے ہیں کہ پوری شاعری شک کی پیداوار کہی جا سکتی ہے۔ محض محبوب کے پاءوں دُکھنے کی شکایت پہ غالب نے فرما دیا کہ
شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دُکھتے ہیں آج اس بت نازک بدن کے پاءوں
ایک ایسی ہی کیفیت میں شاعر کہتا ہے کہ
مجھ تک کب اسکی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
ایک اور جگہ یہی حضرت اپنے محبوب کی شکی طبیعت کا افسانہ بناتے ہیں کہ
پینس میں گذرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
اب مداحین غالب، غالب کے مرقد پہ جا کر یہ رولا ڈالنے کی کوشش نہ کریں کہ کیسے کیسے لوگ آپکے بارے میں ایسی ویسی ہجو کر رہے ہیں۔ یقین رکھیں کہ وہ شک اور یقین کی منزل سے بالا مقام پہ ہیں۔ اوراس یقین نے میرے اندر یہ سب لکھنے کی ہمت پیدا کی ہے۔
ادھر میر تقی میر نے تو پوری کائینات کو توہم کا کارخانہ قرار دیا اور کہتے ہیں کہ
یہ توہم کا کاخانہ ہے
یاں وہ ہےجو اعتبار کیا
اس سے مجھے شک ہوتا ہے اور کچھ کو یقین ہوگا کہ وہ لامذہب تھے۔ تاریخ کہتی ہے کہ انکے اجداد شیعہ تھے۔ نمعلوم خود وہ اس بارے میں کیا گمان رکھتے تھے۔ اب یہ عقدہ روز قیامت کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں۔ آخر اس طویل دن کو کس سرگرمی کے ساتھ گذاریں گے۔
اور تو اور سائینس جیسے ماڈرن اور جدید علم میں بھی ہر خیال کسی شک سے جنم لیتا ہے۔ اور اسے یقین تک پہنچانے کے عمل کو انہوں نے تحقیق جیسا معتبر نام دے رکھا ہے۔ وہ لوگ جو سائینس میں ناکام رہے ہیں اسکی وجہ انہیں اب بآسانی سمجھ میں آتی ہوگی۔
اب میرے نفسیات کا محدود علم کہتا ہے کہ شک کی جڑیں یا تو تحت الشعور میں پھوٹتی ہیں یا لا شعور میں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نہ صرف نفسیات کی ان اصطلاحوں کے ہجے جانتی ہوں۔ بلکہ اس سے شک ہوتا ہے کہ شک کی اہلیت رکھنے کے لئے شعور کا ہونا ایک لازمی عنصر ہے۔ جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں انہیں لوگ پاگل یا پاگل دا پتر کہتے ہیں۔ ہر دو صورت میں محروم یقین کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ سو اس سے یقین پیدا ہوتا ہے کہ یقین کے لئے شعور کا ہونا کچھ لازمی نہیں۔ یہ جڑیں جب ادھر ادھر پھیلتی ہیں تو شک اپنے جامے سے باہر ہو کر اوروں کو بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ بالکل ایسے، جیسے سینہ ء شمشیر سے باہر ہے دل شمشیر کا ، میں ہوتا ہے۔
ادھر ہمارے ایک بلاگر کے تحت الشعورکی جڑیں جب اپنے تبصروں سے پھوٹیں تو سر تبصرہ ہمیں بھی ایک شک کا پتہ دے گئیں۔ اور وہ یہ کہ عبداللہ اور عنیقہ ناز ایک ہی شخصیت کے دو رخ ہیں۔ مجھے شک ہے کہ وہ ابن صفی کے عمران سیریزکے کردار ایکسٹو سے بہت متائثر ہیں۔ عمران اور ایکسٹو ایک شخصیت کے دو رخ۔ لیکن یہ خیال اس سے بڑھ کر ہے۔ ایک شخصیت کبھی مرد بن جاتی ہے اور کبھی عورت۔ کبھی بلاگر اور کبھی مبصر۔ زبردست۔ شک کرنے والا ذہن بڑی زبردست تخلیقی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اب مجھے یقین ہے کہ لوگ عبداللہ کے تبصروں کو زیادہ شک سے پڑھیں گے۔ میری تحاریر تو ویسے بھی آدھی گواہی کے سلسلے میں آتی ہیں۔ سو عبداللہ کسے خوش ہونا چاہئیے؟
خیر نیٹ کی دنیا شکوک کا پینڈورا بکس ہے۔ کبھی بند نہیں ہوتا اور ایک کے بعد ایک پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ایک شک پیدا ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد استعمال کنندہ اپنے اوپر بھی شک کرنے لگے گا۔ اس وقت تک کے لئے میں نفسیات کے کچھ اور الفاظ کے ہجے سیکھنا چاہونگی۔
لاریب، شک سے ہے وجود کائنات میں رنگ۔ کسی کو شک ہے کہ انقلاب آنے والا ہے وہ روز اس امید پہ اخبار خریدتا ہے اور ٹی وی کے ٹاک شوز دیکھتا ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ خبر سنے کہ اج پاکستان کے اسٹنیڈرڈ وقت کے مطابق اس وقت تاج اچھالیں جائیں گے اور اس وقت تخت گرائے جائیں گے۔ تممام کارروائ براہ راست نشر ہوگی۔ کچھ کو یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سب بہلانے کی باتیں ہیں۔ وہ روز اخبار چھاپتے ہیں اور کوئ نیا چینل کھولتے ہیں۔
کچھ کو شک ہے کہ ہماری اصل حکومت واشنگٹن میں ہے کچھ کو یقن ہے کہ ہمارا اصل دارالحکومت افغانستان میں بنے گا۔ حکومتی سطح پہ شک کے کاروبار میں کبھی مندی نہیں ہوتی۔ کچھ کو شک ہے کہ خود کش دھماکے امریکہ کروا رہا ہے، سیلاب امریکہ لے کر آیا ہے،عمران فاروق کو امریکہ نے مروایا ہے، ٹارگٹ کلنگ میں امریکن ایجنسیز کام کر رہی ہیں۔ طالبان امریکن ایجنٹ ہیں۔ حکومت وقت امریکن ایجنٹ ہے۔ کئ شک کرنے والے پچھلے ڈھائ سال سے موجودہ حکومت کو کسی بھی وقت جاتا دیکھ رہے ہیں۔ مگرحکومتی ارکان کا یقین دیکھ کر مجھے اس شک پہ شک ہوتا ہے۔ ادھر معاشیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو شک ہے کہ کرکٹ ٹیم کی میچ فکسنگ کا قصہ، صدر صاحب کے ذرائع آمدنی کم کرنے کی سازش تھی۔
عام لوگوں کے شکوک بھی عام سے ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈبے کا دودھ نری ملاوٹ ہے اور کچھ نہیں۔ کچھ کو شک ہے کہ گائے کا کھلا دودھ کوئ چیز نہیں۔ عرصہ ہوا گایوں نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے اور وہ سفید چیز جو ہم پیتے ہیں وہ صرف ہارمونز ہیں جو گائے کو انجیکٹ کئے جاتے ہیں۔
بعض شکوک بہت معصوم ہوتے ہیں مثلاً آدھی رات کو فیس بک پہ ایک انجان خاتون یا مرد سے چیٹنگ کے بعد یہ سوچنا کہ یہ عمل اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ اور محض اسی شک پہ باقی رات نوافل ادا کرنا۔
مذہبی شکوک، عام طور پہ کافر ہونا، کافر نہ ہونا، مشرک ہونا مشرک نہ ہونا، بدعتی ہونا اور بدعتی نہ ہونے کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
میرے بھی ہیں کچھ شکوک، مثلاً گھوڑا اور دریائ گھوڑا اب سے پچاس ہزار سال پہلے سیامی جڑواں تھے۔ تہذیبوں کی جنگ میں دونوں میں نظریاتی اختلاف پیدا ہوا۔ اور وہ الگ ہو گئے۔ سو اب زمینی گھوڑے میں مادہ ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ دریائ گھوڑے میں نر۔ یہاں ان لوگوں کا خیال دل میں آ سکتا ہے جو گھوڑے کی پیٹھ پہ پیدا ہوئے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام اس طرح آئیں گے کہ یقیناً ثقافتی جنگ چھڑ جائے گی۔
میرے باقی شکوک بھی اسی طرح نقص امن کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اس لئے میں انہیں اپنی سوانح حیات میں لکھنا چاہونگی جو بعد از مرگ شائع ہوگی۔ یعنی میرے شعور کی موت کے بعد۔ یاد رکھیں شعور کی جو موت ہے وہ فرد کی حیات ہے۔
شکوک کا ازالہ عملی طور پہ کوئ چیز نہیں۔ شک ایک دفعہ جنم لے لے تو یہ سو سکتا ہے مگر مر نہیں سکتا۔
نوٹ؛ اس تحریر پہ تبصرہ ضرور کیجئیے گا اورکرنے سے پہلے برائے مہربانی تعریف کے ڈونگرے ذرا کھل کر بر سائیے گا ورنہ مجھے شک رہے گا کہ آپ مجھ سے جیلس ہو رہے ہیں۔ اور میں یقیناً اسے آپکی ایروگینسی سمجھونگی۔ کچھ لوگوں کو شک ہو سکتا ہے کہ جب ہم اتنی تعریفیں کر لیں گے تو اصل موضوع پہ بات کرنے کی ہمت کہاں ہوگی۔ ہم صرف مدہم الفاظ میں اپنے شکوک ظاہر کر سکتے ہیں۔ یقیناً، یہی تو 'ہم' چاہتے ہیں۔