آگے پڑھنے سے پہلے نیچے دئیے ہوئے لنک پہ کلک کر لیجئیے۔ اس پوسٹ کے ساتھ یہ موسیقی کا ٹھنڈآ پانی ضروری ہے۔
سانگھڑ شہر کے اطراف میں لیکن اس سے کافی دور ریتیلے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان واقع ایک پر سکون گاءووں میں، میں اس وقت ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے پندرہ بیس مقامی لوگوں کے ساتھ موجود تھی۔ سنہری ریت پہ آلتی پالتی مار کے بیٹھے جھیل کی طرف خراماں خراماں گم ہوتی لہروں کی دیکھتی اور پھر اس سولہ سترہ سالہ لڑکے کی ایلومینیئم کا تھآلی پہ تھاپ دیتے ہوئے ہاتھ۔ سارا مجمع ایک ٹرانس میں دوسرے اسی عمر کے لڑکے کو گاتا سن رہا تھا۔ اور وہ اتنے جذبے سے گا رہا تھا کہ اسکے آنسو نکل پڑے۔ جب وہ اس مصرعے پہ پہنچا کہ ارے ملا جنازہ پڑھ میں جا نوں میرا خدا جانے۔ تو شاید میں مسکرا دی تھی۔
محفل ختم ہونے پہ وہ میرے پاس آئے تو میں نے ان گمنام فنکاروں کی تعریف کی۔ انہوں نے جواباً اپنے ہاتھ مصافحے کے لئے میری طرف بڑھا دئیے۔ میں نے کچھ سوچا اور انکے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے دیا۔ سندھ کے دیہاتوں میں رواجاً عورت مرد ہاتھ ملاتے ہیں۔ اور نہ ملانا تحقیر کی مد میں آتا ہے۔
اس دن میں نے سوچا کہ شہر سے اتنی دور اتنے چھوٹے سے گاءووں میں جہاں کی کل آبادی تیس پینتیس لوگوں پہ مشتمل ہے یہاں بھی مولوی صاحب کے خلاف خیالات کو پذیرائ حاصل ہے۔ کیوں؟
مولوی یا ملا کو مذاق کا نشانہ بنانا یا انکی بات پہ طنز کرنا کوئ تیس چالیس سال پرانی بات نہیں بلکہ یہ ایک رد عمل ہے جسکے نتیجے میں تصوف کی تحریک نے جنم لیا۔ آج سے ہزار سال قبل جب عمر خیام کہتا ہے کہ
کہتے ہیں کہ بہشت اور حور عین ہوگا
وہاں شراب کا پیالہ اور دودھ اور شہد ہوگا
اگر میں نے شراب اور معشوقہ کا لطف اُٹھایا ہے تو کیا خوف ہے
جب آخر کار اسی طرح ہی ہونا ہے۔
تو وہ دراصل اس عمل کا مذاق اڑاتا ہے جو مذہب کو انسان کی روحانی ترقی کے بجائے ، ظاہری عبادت و رسوم ، قاعدے اور قانون میں بند کر کے اپنا اقتدار قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اور جو اسے ایک اعلی انسان بنانے کے بجائے لالچ اور ہوس کے سراب کے پیچھے لئے جا رہا ہے۔ مولوی ازم یا ملا ازم خاص مسلمانوں کو پیش آنیوالا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کا اسکا سامنا کرنا پڑا۔
بھگت کبیر، چودہ سو چالیس میں پیدا ہوئے۔ انکی سادہ مگر پراثر شاعری نے لوگوں میں وہ تحرک پیدا کیا کہ ایک الگ مذہبی فرقہ وجود میں آگیا۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ
نہ جانے میرا صاحب کیسا ہے
مسجد بھیتر ملا پکارے کیا تیرا صاحب بہرا ہے
چینوٹی کے پگ نیر باجے تو بھی سنتا ہے
پنڈت ہو کے آسن مارے لمبی مالا جپتا ہے
انتر تیرے کپٹ کترنی سو بھی صاحب لکھتا ہے
ان جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسجد کا ملا ہو یا لمبی مالا جپنے والا پنڈت، یہ ایک ہی چیز کا استعارہ ہیں۔
نظیر اکبر آبادی ایک جگہ مولوی صاحب کی اس ساری محنت کو کس چیز سے تعبیر کرتے ہیں ذرا دیکھیں تو
جنت کے لئے شیخ جو کرتا ہے عبادت
کی غور جو ظاہر میں تو مزدور کی سوجھی
میر تقی میر کا کہنا ہے کہ
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
جبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی، مستی میں انعام کیا
یہ تو شیخ صاحب کا ایک پہلو ہے اسی کو غالب یوں بیان کرتے ہیں۔
کہاں مے خانے کا دروازہ ، غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں ، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
اور پھر واعظ کے انہیں برا بھلا کہنے پہ ذرا برا نہیں مانتے بلکہ یوں فرما دیتے ہیں کہ
غالب، برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئ ہے کہ، سب اچھا کہیں جسے؟
اور اس شعر میں اکبر الہ آبادی کس سے مخاطب ہیں
کعبے سے جو بت نکلے بھی تو کیا، کعبہ ہی گیا جب دل سے نکل
افسوس کہ بت ہم سے چھٹے، قبضے سے خدا کا گھر بھی گیا
حکیم الامّت علامہ اقبال، اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ کرتا کوئ اس بندہ ء گستاخ کا منہ بند۔ ملا کے دین کی تعریف یوں کی۔ دین ملا فساد فی سبیل اللہ۔ انہوں نے ملاءووں اور مولویوں کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ نیچے میں صرف بال جبریل کے شروع کے تیس صفحوں کا انتخاب دے رہی ہوں۔
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی؟
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گل گوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
کہتا ہوںّ وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
کلیم بو ذر و دلق اویس و چادر زہرا
اے مسلماں، اپنے دل سے پوچھ، ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
حکیم الامّت سے نکلیں تو نجانے اور کتنے لوگ ہونگے جو اس علامت کی تعمیریں گرانے کی کوشش کرتے رہے۔ اور اسی لئے شاید حمایت علی شاعر سوال کرتے ہیں
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہہ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
صادقین پاکستان کے ایک نامور خطاط، ایک شاعر بھی تھے۔ انہوں نے ایک نقشہ کھینچا ہے کہ
مسند پہ کتاب دین رکھی تھی، اک پیر
اخلاق پہ کر رہا تھا کب سے تقریر
پھر میں نے بھی مسند کو وہیں سے کاٹا
مسند کے نیچے تھی جہاں ننگی تصویر
اب ان تمام مختلف شخصیات پہ سے گذرنے کے بعد، جو اس وقت میرے ذہن میں آئیں، احساس ہوتا ہے کہ ملا، مولوی، واعظ یا شیخ یہ سب الفاظ علامت ہیں، مذہبی منافقت، جبر، اور ظاہر پرستی کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اب سے نہیں، مسلمانوں میں تو کم از کم پچھلے ہزار سال سے مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہوگا کیا، تو اقبال کہتے ہیں کہ
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق